اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن عون، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، انه انتهى إلى الكعبة وقد دخلها النبي صلى الله عليه وسلم، وبلال، واسامة بن زيد، واجاف عليهم عثمان بن طلحة الباب، فمكثوا فيها مليا، ثم فتح الباب، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، وركبت الدرجة، ودخلت البيت، فقلت:" اين صلى النبي صلى الله عليه وسلم؟ قالوا: ها هنا ونسيت ان اسالهم كم صلى في البيت؟". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الْكَعْبَةِ وَقَدْ دَخَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِلَالٌ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَأَجَافَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْبَاب، فَمَكَثُوا فِيهَا مَلِيًّا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَاب، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبْتُ الدَّرَجَةَ، وَدَخَلْتُ الْبَيْتَ، فَقُلْتُ:" أَيْنَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: هَا هُنَا وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُمْ كَمْ صَلَّى فِي الْبَيْتِ؟".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے پاس پہنچے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، بلال اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما اندر داخل ہو چکے تھے، اور (ان کے اندر جاتے ہی) عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے دروازہ بند دیا۔ تو وہ لوگ کچھ دیر تک اندر رہے، پھر انہوں نے دروازہ کھولا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے (اور آپ کے نکلتے ہی) میں سیڑھیاں چڑھ کر اندر گیا، تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ لوگوں نے بتایا، یہاں، اور میں ان لوگوں سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ نے بیت اللہ میں کتنی رکعتیں پڑھیں؟۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2908
اردو حاشہ: (1) یہ فتح مکہ کی بات ہے۔ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ بیت اللہ کے چابی بردار تھے، اس لیے انھیں بھی نبیﷺ ساتھ لے گئے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ آپ نے انھیں معزول نہیں فرمایا۔ اسامہ بن زید اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے خادم تھے۔ (2)”یہاں“ آئندہ حدیث میں وضاحت ہے کہ اگلی صف کے ستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔ دائیں طرف دو ستون تھے اور بائیں طرف ایک اور پیچھے تین ستون تھے۔ اس وقت کعبے کی چھت چھ ستونوں پر قائم تھی۔ آج کل ستون نہیں ہیں،البتہ آپ کی نماز والی جگہ نشان زدہ ہے جو دروازے کے عین سامنے ہے۔ (3)”بھول گیا“ حالانکہ آئندہ روایت میں تعداد کا بھی ذکر ہے۔ شاید ابن عمر رضی اللہ عنہ بعد میں بھول گئے ہوں یا پہلے بھول گئے ہوں اور بعد میں یاد آیا ہو۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2908