حدثنا عبد الحميد بن محمد، قال: حدثنا مخلد، قال: حدثنا مالك بن مغول، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، قال: قال ابو سعيد الخدري: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من راى منكرا فغيره بيده فقد برئ، ومن لم يستطع ان يغيره بيده فغيره بلسانه فقد برئ، ومن لم يستطع ان يغيره بلسانه فغيره بقلبه فقد برئ، وذلك اضعف الإيمان". حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَغَيَّرَهُ بِيَدِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَغَيَّرَهُ بِلِسَانِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِلِسَانِهِ فَغَيَّرَهُ بِقَلْبِهِ فَقَدْ بَرِئَ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس کسی نے برائی دیکھی پھر اسے اپنے ہاتھ سے دور کر دیا تو وہ بری ہو گیا، اور جس میں ہاتھ سے دور کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس نے زبان سے دور کر دی ہو تو وہ بھی بری ہو گیا، اور جس میں اسے زبان سے بھی دور کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس نے اسے دل سے دور کیا ۱؎ تو وہ بھی بری ہو گیا اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے“۔
من رأى منكرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده وقطع هناد بقية الحديث وفاه ابن العلاء فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع بلسانه فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
من رأى منكرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده وقطع هناد بقية الحديث وفاه ابن العلاء فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع بلسانه فبقلبه وذلك أضعف الإيمان
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1140
´عید کے دن خطبہ دینے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان عید کے روز منبر لے کر گئے اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت کام کیا ہے، ایک تو آپ عید کے روز منبر لے کر گئے حالانکہ اس دن منبر نہیں لے جایا جاتا تھا، دوسرے آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں بن فلاں ہے اس پر انہوں نے کہا: اس شخص نے اپنا حق ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو تم میں سے کوئی منکر دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹا سکے تو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے مٹائے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1140]
1140۔ اردو حاشیہ: ➊ صحیح بخاری میں ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی مروان کو عید سے پہلے خطبہ دینے سے منع کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث: 956] اور اس روایت میں انکار کرنے والے کا نام عمار بن رویبہ یا ابومسعود رضی اللہ عنہ ہے۔ [عون المعبود] ➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی مخالفت ازحد گراں گزرتی تھی۔ ➌ دل سے بُرا جانے کا مفہوم یہ ہے کہ عزم رکھے کہ جب بھی موقع ملا اس برائی کو ختم کر کے رہوں گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1140
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4340
´امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو کوئی منکر دیکھے، اور اپنے ہاتھ سے اسے روک سکتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر وہ ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اپنی زبان سے بھی نہ روک سکے تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4340]
فوائد ومسائل: گھرانے اور خاندان کے بڑے، علاقے اور شہر کے حاکم، اور ایک مملکت میں حاکمِ اعلیٰ کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زیرِ اثر حلقے میں پائی جانی والی برائیوں کا بزورِ قوت قلعہ قمع کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور علماء اور دیگر اہلِ نظر پر واجب ہے کہ برائی کا برائی ہونا واضح کریں اور اس کے برے انجام سے ڈرائیں۔ اور جو یہ کام بھی نہ کر سکیں تو کم از کم دل سے تو ضرور برا جانیں۔ ورنہ اس کے بعد ایمان کا کوئی ذرہ باقی نہیں رہتا۔ خیا ل رہے کہ دل سے بر ا جاننے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل میں عزم موجود ہو کہ اگر آج نہیں تو کل کلاں جب بھی موقع ملا اس برائی کو اکھیڑ کر دم لیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اور وہی توفیق دینے والا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4340
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1275
´عیدین کی نماز کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (گورنر) مروان عید کے دن (عید گاہ) منبر لے گئے، اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت عمل کیا، عید کے دن منبر لے آئے، جب کہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا جب کہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا تھا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص خلاف شرع کام ہوتے ہوئے دیکھے اور اپنے ہاتھ سے اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1275]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنا لینا درست نہیں۔
(2) عید کی نماز خطبے سے پہلے ہوتی تھی۔
(2) لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے اگر ایک غلطی رواج پا جائے۔ تو اس کو ختم کرنے کےلئے خلاف سنت طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔ کیونکہ وہ ایک اور غلطی ہوگی۔ عوام کا عید کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جانا غلطی ہے۔ اس پر توجہ دلانا اور اس سے روکنا ضروری ہے۔ تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ خطبہ عید کی نماز سے پہلے دے دیا جائے۔
(4) حاکم کی غلطی پر عوام کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بشرط یہ کہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تاہم علماء کو چاہیے کہ صحیح بات کا پرچار کریں۔ تاکہ اس پر عمل کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا ہوسکیں۔ اورغلط کام چھوڑنے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔
(5) اچھے کام پر سب کے سامنے تعریف کرنا درست ہے۔ جب کہ مقصد اچھا کام کرنے والے کی تایئد اور نیکی پر اسکی حوصلہ افزائی ہو۔
(6) حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اس سے اس کی تایئد اور حوصلہ افزائی مقصود ہے۔ سامعین میں سے بعض لوگوں نے اس شخص کی بات کونا مناسب تصور کیا ہوگا یا یہ سمجھا ہوگا کہ یہ بات تو صحیح ہے۔ لیکن اس موقع پر نہیں کہنی چاہیے تھی۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا۔
(7) غلطی کی اصلاح اور قوت سے برائی کوختم کردینا حکام کا فرض ہے۔ یا جس شخص پر اختیار حاصل ہو اسے بزور قوت روکا جا سکتا ہے۔ مثلاً، غلام، ماتحت، اولاد اور شاگرد وغیرہ ورنہ زبان سے روکنا کافی ہے۔
(8) زبان سے منع کرنا علماء کا فریضہ ہے۔ اورعوام کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔
(9) اگر کوئی شخص ایمان کی کمزوری یا جراءت وہمت نہ ہونے کی وجہ سے زبان سے بھی بُرائی کی شناعت واضح نہ کرسکے تو بھی دل میں گناہ سے نفرت بہرحال ضروری ہے۔ گناہ کو اچھا سمجھنا پسند کرنا یا منع کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا ایک لحاظ سے گناہ میں شرکت ہے جو ایک مومن کے شایان شان نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1275
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4013
´امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ایک شخص نے کہا: مروان! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا، پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، حالانکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اگر اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4013]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) عیدگاہ میں عید کا خطبہ منبر کے بغیر دینا مسنون ہے۔
(2) عید کی نماز مسجد میں ادا کرنا بھی سنت کے خلاف ہے۔
(3) عید کا خطبہ نماز کے بعد دیا جاتا ہے۔
(4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حکمرانوں کو غلطی پر ٹوکتے تھے۔
(5) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے تنقید کرنے والے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس لیے غلط کام سے منع کرنے والے کی تائید کرنی چاہیے۔ حکمران کا فرض ہے کہ برائی کو سختی سے ختم کرے۔ اسی طرح ایک شخص اپنے گھر، زمین اور کارخانے وغیرہ میں برائی کو حکماً ختم کرنے کا پابند ہے۔ علماء کو وعظ ونصیحت کے ذریعے سے اور مسائل کی وضاحت کرکے برائی کا راستہ روکنا چاہیے اور جہاں مناسب حد تک کسی اور انداز سے دباؤ ڈالا جاسکتا ہو۔ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنا چاہیے۔
(6) کمزور آدمی جو ایمان کی کمزوری کی وجہ زیردست ہونے کی وجہ سے منع کرنے کی جرات نہیں رکھتا اسے گناہ سے نفرت رکھنی چاہیے اور یہ نیت رکھےکہ اگر اللہ مجھے طاقت دے تو میں اس برائی کو ختم کردوں گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4013
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2172
´ہاتھ، زبان یا دل سے منکر (بری باتوں) کو روکنے کا بیان۔` طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے (عید کے دن) خطبہ کو صلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر مروان سے کہا: آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے، مروان نے کہا: اے فلاں! چھوڑ دی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈتے ہو (یہ سن کر) ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنا فرض پورا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو شخص کوئی برائی دیکھے تو چاہیئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اور جسے اس کی طاقت بھی نہ ہو وہ اپنے دل میں اسے برا جانے ۱؎ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2172]
اردو حاشہ: وضاحت:
1؎: یعنی: خود اس برائی سے الگ ہوجائے، اس کے ارتکاب کرنے والوں کی جماعت سے نکل جائے (اگر ممکن ہو)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2172
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 177
طارق بن شہاب ؒ بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ کا آغاز مروان نے کیا، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے جواب دیا: ”یہ طریقہ ترک کر دیا گیا ہے۔“ ابو سعیدؓ نے کہا: اس انسان نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپؐ فرما رہے تھے: ”تم میں سے جو شخص منکر کام دیکھے اس پر لازم ہے اگر طاقت رکھتا ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے (یعنی زورو قوت) سے روکنے کی کوشش کرے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:177]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) مُنْكَرٌ: برا، ناپسندیدہ، شریعت اور عقل و عرف کے خلاف کام۔ فَلْيُغَيِّرْهٌ اس کو تبدیل کرے، بدلنے اور درست کرنے کی کوشش کرے۔ (2) يَدْ: ہاتھ کو کہتے ہیں، یہاں مراد بزور بازو ہے کہ قوت و طاقت استعمال کرے۔ فوائد ومسائل: (1) برائی، شرارت اور خلاف شریعت کا م کو روکنے اور اس کو بدل ڈالنے کی بقدر استطاعت سعی وکووشش کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے، یہ کسی خاص فرد، گروہ، طبقہ یا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، اور اس کے تین درجات یا مراتب ہیں: (الف) اگر اقتدار واختیار حاصل ہو اور قوت وطاقت کے ذریعہ اس برائی کو بند کیا جا سکتا ہو، تو قوت وطاقت، یا حکومت واقتدار کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ (ب) اگر اقتدار واختیار یا طاقت وقوت کا استعمال ممکن نہیں، یا یہ چیزیں حاصل نہیں ہیں، تو زبانی اور تحریری طور پر افہام وتفہیم اور پند ونصیحت ہی سے اس کو روکنے اور اصلاح کرنے کی کوشش کرنا ہوگا۔ (ج) اگر حالات اس قدر سنگین اور ایسے نا موافق ہیں کہ انسان اس برائی کے خلاف زبان کھولنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا، یا اہل دین اس قدر کمزور پوزیشن میں ہیں کہ اجتماعی طو پر بھی اس کے خلاف زبان کھولنے کی گنجائش نہیں ہے، تو آخری درجہ یہ ہے کہ اس کو دل سے برا سمجھا جائے، اور اس کو مٹانے اور بدلنے کا جذبہ دل میں رکھا جائے، اور اس کو مٹانے کی تدابیر سوچی جائیں، اور جس کی کم از کم صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انفرادی اور اجتماعی طور پر جیسے بھی ممکن ہو مٹانے کی دعا کرتے رہنا چاہیے اور یہ ایمان کا آخری اور کمزور درجہ ہے کہ اس کے بعد کوئی اور درجہ ایمان کا ہے ہی نہیں۔ (2) یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ حضرت ابو سعید خدریؓ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے خود مروان کو کیوں نہیں روکا، کیونکہ متفق علیہ روایت میں موجود ہے: کہ جب نماز سے پہلے مروان خطبہ کے لیے منبر کی طرف بڑھا تو حضرت ابو سعیدؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا کر کھینچا اور کہا: ”پہلے نماز پڑھ۔ “(فتح الباری: 2/579) اور جب اس انسان نے یہ فریضہ سر انجام دیا تو پھر دوبارہ آپ نے اس کی تائید فرمائی۔ (3) اگر برائی اور منکر کا ارتکاب سب کے سامنے کیا جا رہا ہو تو پھر یہ فرض عین نہیں ہوگا، فرض کفایہ ہوگا، جب بعض لوگ اس فرض کو ادا کر لیں گے تو دوسروں سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ جس جگہ کوئی اور شخص برائی سے روکنے والا موجود نہ ہو تو جو اس برائی کو جاننے والاشخص موجود ہوگا، تو اس پر روکنا فرض عین ہوگا، برائی کا مرتکب باز آئے یا نہ آئے، ہر حالت میں روکنا ذمہ داری ہے۔ (شریعت نے کسی شرعی کام اور عمل کے لیے جو صورت اور شکل وہیئت مقرر کی ہے اس میں تبدیلی کرنا جائز نہیں۔ مروان نے صرف نماز اور خطبہ میں تقدیم وتاخیر کی تھی، کسی کام کو نظر انداز نہیں کیا تھا۔ محض تقدیم وتاخیر اور ترتیب کی تبدیلی کی بنا پر اس کے فعل کو منکر قرار دیا گیا، امت کے کسی امام نے اس تبدیلی قبول نہیں کیا، حالانکہ اس میں ایک مصلحت اور فائدہ ہے کہ اس طرح دیر سے آنے والے بھی نماز میں شریک ہوجاتے ہیں اور خطبہ جمعہ میں بھی، خطبہ نماز سے پہلے ہے جب ہیئت وشکل میں تبدیلی گوارا نہیں ہے تو اپنی طرف سے کسی عمل کےلیے ہیئت وکیفیت یا طریقہ مقرر کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔