حدثنا ابو موسى الانصاري، حدثنا عاصم بن عبد العزيز المدني، حدثنا الحارث بن عبد الرحمن بن ابي ذباب، عن سليمان بن يسار، وبسر بن سعيد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فيما سقت السماء والعيون العشر، وفيما سقي بالنضح نصف العشر ". قال: وفي الباب عن انس بن مالك، وابن عمر، وجابر. قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث عن بكير بن عبد الله بن الاشج، وعن سليمان بن يسار، وبسر بن سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وكان هذا اصح وقد صح حديث ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب، وعليه العمل عند عامة الفقهاء.حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَاب، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ وَقَدْ صَحَّ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس فصل کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی سے کی گئی ہو، اس میں زکاۃ دسواں حصہ ہے، اور جس کی سینچائی ڈول سے کھینچ کر کی گئی ہو تو اس میں زکاۃ دسویں حصے کا آدھا یعنی بیسواں حصہ ۱؎ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس بن مالک، ابن عمر اور جابر سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث بکیر بن عبداللہ بن اشج، سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے بھی روایت کی گئی ہے، اور ان سب نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، گویا یہ زیادہ صحیح ہے، ۳- اور اس باب میں ابن عمر کی حدیث بھی صحیح ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۲؎، ۴- اور اسی پر بیشتر فقہاء کا عمل ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس میں بالاتفاق «حولان حول»”سال کا پورا ہونا“ شرط نہیں، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہور ائمہ عشر یا نصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشر یا نصف عشر واجب نہیں ہو گا، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں، وہ کہتے ہیں: «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه واعلموا أن الله غني حميد»(البقرة: 267)”اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو، اور جان لو اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے“۔ «مما أخرجنا» میں «ما» کلمہ عموم ہے اس طرح «فيما سقت السماء وفيما سقى بالنضح» میں بھی «ما» کلمہ عموم ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 639
اردو حاشہ: 1؎: اس میں بالاتفاق ”حَوَلَانُ الْحَوْل“(سال کا پورا ہونا) شرط نہیں، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہور آئمہ عشر یا نصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشر یا نصف عشر واجب نہیں ہو گا، اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں، وہ کہتے ہیں: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴾[البقرة: 267](اے ایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اورزمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کر نے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خودلینے والے نہیں ہو، ہاں اگرآنکھیں بندکرلو تو، اور جان لو اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے) ﴿مِمَّا أَخْرَجْنَا﴾ میں ”ما“ کلمہء عموم ہے اس طرح ((فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ)) میں بھی”ما“ کلمہء عموم ہے۔
2؎: اور جو آگے آ رہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 639
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1816
´غلوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غلہ بارش یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوتا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ کا ہے، اور جو غلہ پانی سینچ کر پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1816]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بارانی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار میں زکاۃ کی مقدار دسواں حصہ ہے۔ اگر بیس من غلہ حاصل ہو تو اس میں سے دو من زکاۃ ادا کی جائے۔ بیس من سے زیادہ ہو تو اسی شرح سے زکاۃ ادا کی جائے گی۔ قدرتی چشموں اور ندی نالوں وغیرہ سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کا بھی یہی حکم ہے۔ دریا کے قریب اگنے والی فصل کو بھی آب پاشی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی جڑیں زمین سے اپنی ضروریات کا پانی لے لیتی ہیں۔ اس میں بھی دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ کنویں اور ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی فصل میں زکاۃ کی مقدار بیسواں حصہ ہے۔ ہمارے ہاں نہری پانی کی بھی قیمت ادا کی جاتی ہے جسے آبیانہ کہتے ہیں اس لیے نہری زمین کی پیداوار میں بھی بیسواں حصہ زکاۃ ہے یعنی بیس من پر ایک من زکاۃ ہو گی۔ بیس من کی مقدار تقریباً ساڑھے سات سو کلو ہے۔ زمین کی پیداوار کی زکاۃ (عشر) کی ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع پر ہو گی۔ اگر سال میں دو فصلیں ہوں گی تو عشر بھی دو مرتبہ ادا کرنا ضروری ہو گا کیونکہ اس میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ فصل کا ہونا شرط ہے، وہ جب بھی ہو اور جو بھی ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1816