حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 212  
´اہل علم کی فضیلت`
«. . . ‏‏‏‏عَن كثير بن قيس قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِد دمشق فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ يسْتَغْفر لَهُ من فِي السَّمَوَات وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ". رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ وَسَمَّاهُ التِّرْمِذِيُّ قَيْسَ بن كثير . . .»
. . . سیدنا کثیر بن قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں ابودرداء رضی اللہ عنہ صحابی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ اے ابودرداء! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ سے یہ سن آیا ہوں کہ آپ کے پاس ایک حدیث ہے جسے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (صرف اسی حدیث کے سننے کے لیے میں حاضر ہوا ہوں اور اس کے علاوہ کسی کام سے نہیں آیا ہوں۔) ابودرداء رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے سفر اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے راستے پر چلاتا ہے اور یقیناًً اللہ تعالیٰ کے فرشتے دینی علم حاصل کرنے والوں کی خوشنودی کے لیے اپنے پروں کا سایہ ان پر کئے رہتے ہیں اور عالم دین باعمل کے لیے آسمان کی تمام چیزیں اور زمین کی تمام چیزیں استعفار کرتی ہیں اور یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی کے اندر ایسے عالم کے لیے دعائے معفرت کرتی ہیں۔ اور عالم کی فضیلت اور بزرگی عبادت گزار آدمی پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہوتی ہے اور علماء نبیوں اور رسولوں کی وارث اور ان کے جانشین ہیں اور ان پیغمبروں نے روپے پیسے کو نہیں چھوڑا ہے، بلکہ علم کو ورثہ میں چھوڑا ہے۔ پس جس نے علم حاصل کر لیا ہے تو اس نے کامل حصہ حاصل کر لیا ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر بتایا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 212]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
روایت مذکورہ میں دو راوی ضیعف ہیں:
➊ کثیر بن قیس یا قیس بن کثیر۔ [تقريب التهذيب: 5624، وقال: ضعيف]
➋ داود بن جمیل۔ [تقريب التهذيب: 1778، وقال: ضعيف]
◄ سنن ابی داود [3642] میں اس کی دوسری سند بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔ اس میں شبیب بن شیبہ مجہول ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 2741]
یا اس سے مراد شعیب بن رزیق ہیں، جو کہ قول راجح میں حسن الحدیث راوی تھے۔ دیکھئے تحریر [تقريب التهذيب 2؍117 ت 2801]
اگر شبیب بن شیبہ سے شعیب بن رزیق ابوشیبہ مراد لیا جائے تو پھر دو باتیں اہم ہیں:
➊ ولید بن مسلم رحمہ اللہ مدلس تھے۔
◄ امام ابومسہر (عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی / متوفی 218ھ) رحمہ اللہ نے کہا:
«كان الوليد يأخذ من ابن أبى السفر حديث الأوزاعي وكان ابن أبى السفر كذّاب [!] وهو يقول فيها: قال الأوزاعي»
ولید (بن مسلم) ابن ابی السفر سے اوزاعی کی حدیث لیتے اور ابن ابی السفر (لعلہ یوسف بن السفر: کاتب الاوزاعی) کذاب تھا، اور وہ (ولید بن مسلم) کہتے: اوزاعی نے کہا۔ [تاريخ دمشق 66؍212 وسنده صحيح]
◄ اس قول کی سند صحیح ہے اور راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
➊ ابوالقاسم بن السمرقندی شیخ ابن عساکر ثقہ تھے۔ دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 20 ؍28- 31]
➋ ابوالفضل بن البقال ثقہ تھے۔ دیکھئے: [المنتظم 16؍2۔ 3۔ 2۔ 4 ت3495 وفيات 471ه]
➌ ابوالحسین بن بشران صدوق تھے۔ دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 17؍312]
➍ عثمان بن أحمد عرف ابن السماک ابوعمر والدقاق ثقہ و صدوق تھے۔ دیکھئے: [لسان الميزان 4؍131 - 132، دوسرا نسخه 4؍588 - 590]
➎ حنبل بن اسحاق ثقہ تھے۔
◄ ہمارے عربی دوست اور الشیخ الصالح ابوجابر عبداللہ بن محمد بن عثمان الانصاری المدنی حفظہ اللہ نے تین جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے:
«القول النفيس فى براءة الوليد بن مسلم من التدليس»
◄ اس کتاب میں حنبل بن اسحاق کے بارے میں ابوجابر الانصاری المدنی حفظہ اللہ نے سیوطی سے نقل کیا:
«. . . له تاريخ حسن وغيره وله عن أحمد سؤالات يأتي فيها بغرائب ويخالف رفاقه. . .»
اس کی تاریخ اچھی ہے، وغیرہ، اور اس نے احمد بن حنبل سے سوالات کئے جن میں وہ غرائب لاتا تھا اور اپنے رفقاء کی مخالفت کرتا تھا۔۔۔۔ [بحواله طبقات الحفاظ ص272 ت611]
◄ اور حافظ ذہبی کی [سير اعلام النبلاء 13؍52] سے نقل کیا:
«. . . . . له مسائل كثيرة عن أحمد ويتفرد ويغرب. . . .»
اس نے احمد سے بہت سے مسائل بیان کئے، وہ (بعض میں) منفرد رہتا ہے اور غرائب بیان کرتا ہے۔ [القول النفيس ج3 ص124]
◄ عرض ہے کہ یہ جرح جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
● حنبل بن اسحاق کے بارے میں:
◄خطیب بغدادی نے کہا: «وكان ثقة ثبتا»
◄ دارقطنی نے کہا: «وكان صدوقًا» وہ سچا تھا۔ [تاريخ بغداد 8؍287 ت4386 وسنده صحيح]
◄ ابن الجوزی نے کہا: «وكان ثقة ثبتًا صدوقًا» [المنتظم 12؍256 ت179۔، وفيات 273ه]
◄ خود حافظ ذہبی نے کہا: «الحافظ الثقة» [تذكرة الحفاظ 2؍6۔۔ ت624]،
اور کہا: «الإمام الحافظ المحدث الصدوق المصنف» [سير اعلام النبلاء 13؍51]
◄ خود سیوطی نے کہا: «الحافظ الثقة» [طبقات الحفاظ ص272 ت 611]
↰ جمہور کی اس زبردست توثیق کے مقابلے میں غرائب اور افراد بیان کرنے والی جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
➏ حنبل بن اسحاق کے استاذ امام یحییٰ بن معین بہت بڑے ثقہ امام بلکہ فوق الثقہ تھے۔
↰ خلاصہ یہ کہ ابومسہر کے قول کی سند صحیح ہے اور اس سے ولید بن مسلم کا مدلس ہونا ثابت ہے۔
◄ امام دارقطنی نے ولید بن مسلم کے بارے میں کہا:
«الوليد بن مسلم يرسل، يروي عن الأوزاعي أحاديث الأوزاعي عن شيوخ ضعفاء عن شيوخ قد أدركهم الأوزاعي مثل: نافع وعطاء والزهري فيسقط أسماء الضعفاء ويجعلها عن الأوزاعي عن عطاء يعني مثل عبدالله ابن عامر الأسلمي وإسماعيل بن مسلم.»
ولید بن مسلم مرسل روایتیں بیان کرتے تھے، وہ اوزاعی سے ان کی حدیثیں بیان کرتے جو انہوں نے ضعیف استادوں سے بیان کی تھیں، انہوں نے ان استادوں سے بیان کی تھیں جنہیں اوزاعی نے پایا یعنی دیکھا تھا۔ مثلاً نافع، عطاء اور زہری پھر وہ ضعیف راویوں کے نام گرا دیتے اور ان روایتوں کو «عن اوزاعي عن عطاء» بیان کر دیتے، یعنی عبداللہ بن عامر الاسلمی اور اسماعیل بن مسلم جیسے (ضعیف راویوں کو وہ سند سے گراتے تھے۔) [كتاب الضعفاء و المتروكون: 631]
◄ امام دارقطنی کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتے تھے۔
◄ ولید بن مسلم کو حافظ ابن حجر، العلائی، ابوزرعہ ابن العراقی، ذہبی، حلبی، مقدسی، اور سیوطی وغیرہم نے مدلس قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [الفتح المبين ص73]
اور ان کا کوئی مخالف مجھے معلوم نہیں ہے، لہٰذا تدلیس ولید پر اجماع ہے۔
◄ شعیب بن رزیق والی روایت [تحفة الاشراف 8؍227] میں ان (ولید بن مسلم) کے سماع کی تصریح موجود نہیں۔
➋ شعیب بن رزیق سے ولید بن مسلم والی روایت کی مکمل سند اور مکمل متن نامعلوم ہے۔ [سنن ابن ماجه 239] وغیرہ میں اس حدیث کے ضعیف شواہد بھی ہیں، جن کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہی رہتی ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:
«لكن له شواهد يتقوي بها»
لیکن اس کے شواہد ہیں جس سے یہ قوی ہو جاتی ہے۔ [فتح الباري 1؍16۔، قبل ح68!]
فائدہ: صحیح مسلم میں آیا ہے:
اور جو شخص علم حاصل کرنے کے لئے اس کے راستے پر چلے گا تو اللہ اس کا جنت کی طرف راستہ آسان کر دے گا۔۔۔۔ [ح2699، اضواء المصابيح: 204، ماهنامه الحديث حضرو: 66 ص3]
◄ اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ انبیاء کی (مال و دولت والی) وراثت نہیں ہوتی، بلکہ وہ جو بھی چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری [3094] و صحیح مسلم [1757]
◄ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ نے فرمایا:
اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لیا تو اس نے بڑا حصہ لے لیا۔ [الاصول من الكافي للكليني ج1 ص34، باب ثواب العالم و المتعلم ح1، وسنده صحيح عند الشيعة، موطأ امام مالك رواية ابن القاسم بتحقيقي ص115 ح44]
◄ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
(مجھے پتا چلا ہے کہ) بےشک طالب علم کے لئے فرشتے اپنے پَر بچھاتے ہیں، اس کے طلب علم کی رضامندی کے لئے۔ [سنن الترمذي: 3535، 3536 وقال: حسن صحيح وهو حديث حسن]
◄ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت ہے، جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک ادنیٰ آدمی پر ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بےشک اللہ (رحمت برساتا ہے اور) اس کے فرشتے، آسمانوں اور زمینوں والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ (بل) میں اور مچھلی (سمندر، پانی میں) بھی لوگوں کو خیر سکھانے والے استاد کے لئے دعائیں کرتی ہے۔ دیکھئے: اضواء المصابیح حدیث [213]، ترمذی [2685]
105

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.