الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1329  
´جنازہ کی نماز عیدگاہ اور مسجد دونوں میں جائز ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ , وَامْرَأَةٍ زَنَيَا , فَأَمَرَ بِهِمَا فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا، جنہوں نے زنا کیا تھا، مقدمہ لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1329]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اشارہ فرمایا کہ جنازہ کی نماز عیدگاہ اور مسجد دونوں میں جائز ہے مگر دلیل کے طور پر جو حدیث پیش کی ہے وہ سنگسار کے بارے میں ہے کہ دو زانیوں کو مسجد کے پاس سنگسار کیا گیا۔ اس میں مطابقت کے بہت دقیق پہلو ہیں۔ پہلی بات پر غور فرمائیں کہ عیدگاہ اور مسجد کا حکم ایک ہی ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يتعرض المصنف لكون الميت بالمصلي أو لأن المصلي عليه كان غائبًا وألحق حكم المصلي بالمسجد بدليل ما تقدم فى العيدين وفي الحيض من حديث أم عطية . . .» [فتح الباري، ج4، ص173]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے میت کا عید گاہ میں ہونا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ میت وہاں موجود نہ تھی بلکہ غائب تھی اور عیدگاہ کا حکم تو مسجد کے ساتھ ملحق ہے ساتھ حدیث ام عطیہ کے کہ حیض والی عورتیں عیدگاہ سے کنارے رہیں سو یہ دلیل ہے اس کی کہ مسجد اور عیدگاہ کا حکم ایک ہے جس چیز سے مسجد میں پرہیز کرنا ضروری ہے اس سے عیدگاہ میں بھی پرہیز کرنا ضروری ہو گا۔
مندرجہ بالا حدیث کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح طور پر حدیث پیش کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں نماز پڑھائی لہٰذا جب عیدگاہ میں نماز ہو سکتی ہے تو مسجد میں نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھا جا سکتا؟
اور جہاں تک تعلق ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث کی جس میں سنگسار کا حکم ہے تو اس حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت یوں ہو گی کہ وہ دونوں مرد و زن مصلی جنازہ کے قریب رجم کئے گئے جو مسجد نبوی کے اندر تھا۔ یہیں سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے کہ باب سے جواز ثابت ہو گیا۔ لہٰذا جو نماز جنازہ ہوتی ہو گی وہ مسجد ہی میں ہوتی ہو گی اور یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب سے حدیث کی کتب احادیث میں واضح طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا ثابت ہے۔

◈ امام عبداللہ سالم البصری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وقد روي ابن ابي شيبه وغيره: أن عمر صلى على ابن بكر فى المسجد، وأن صهيبًا صلى على عمر فى المسجد وزاد فى روايته: ووضعت الجنازة فى المسجد تجاه المنبر، وهذا يقتضي الاجماع على جواز ذالك» [ضياء الساري، ج11، ص453]
یعنی ابن ابی شیبہ وغیرہ نے روایت کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں ادا کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ سیدنا صھیب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں ادا فرمائی اور دوسری روایت میں ہے کہ جنازہ منبر کے سامنے مسجد میں رکھا گیا اور یہ اس بات کے اقتضاء ہونے کا اجماعی جواز ہے۔

فائدہ:
نماز جنازہ بلا کراہیت مسجد میں ادا کرنا جائز ہے جس کی واضح دلیل امّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، آپ فرماتی ہیں:
«لما توفي سعد بن ابي وقاص دخلوا به المسجد حتي اصلي عليه فانكروا ذالك عليها فقالت والله لقد صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابني بيضاء فى المسجد سهيل وأخيه رواه مسلم وفي رواية ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل بن أبيضاء إلا فى جوف المسجد .» [رواه الجماعة إلّا البخاري]
سعد رضی اللہ عنہ کے جنازے پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی ان پر جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پرنماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی۔ ایک اور روایت میں صراحت ہے کہ ان کی نماز جنازہ بیچ مسجد میں ادا کی گئی تھی۔

◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«والحديث يدل على جواز ادخال الميت فى المسجد والصلاة عليه فيه وبه قال الشافعي وأحمد وإسحاق والجمهور» حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا اور جنازے کا داخل کرنا جائز ہے۔ امام شافعی رحمہ الله، امام أحمد رحمہ الله، اسحاق اور جمہور کا بھی یہی مذہب ہے۔‏‏‏‏
جہاں تک تعلق ہے میت کے ناپاک اور پاک ہونے کا تو صحیح مسلم میں واضح طور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔ لہٰذا مؤمن ناپاک نہیں ہوتا چاہے وہ زندہ یا مردہ ہو۔ بنوبیضاء تین بھائی تھے۔ سہل، سہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاء کہا گیا ہے۔ ان کا نام رعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری تھا۔

◈ صاحب مرعاۃ عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہیت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیوں کہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔‏‏‏‏ تفصیل کے لیے مرعاة المفاتيح دیکھئے۔

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں جنازہ ادا کرنا بلاکراہیت جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ جیسا کہ امام ماوردی نے صراحت کی ہے۔ [التوضيح، ج10، ص11، روضة الطالبين: 131/2، الحاوي: 50/3]

◈ ابن العربی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر مسجد میں نماز پڑھی۔ [التوضيح، ج10، ص12]

ایک اشکال اور اس کا جواب:
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے جنازہ مسجد میں پڑھا، پھر اس کے لئے کچھ نہیں ہے۔ [ابوداؤد: 3191]
◈ امام خطابی رحمہ الله نے اس روایت کو ضعیف گردانا ہے۔ [معالم السنن: 272/1]
◈ اس پر أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی قول ہے۔ [المسائل برواية عبدالله، ص146]
◈ ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ خبر باطل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور یہ خبر کس طرح سے صحیح ہو گی؟ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سہیل رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔ [المجروين: 262/1]
❀ ابن ماجہ میں «فليس عليه شيئ» کے الفاظ ہیں اور شرح السنۃ میں «فلا اجر له» کے الفاظ وارد ہیں، جو صحیح الفاظ ہیں وہ ہیں «لا شيئ له» یعنی اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ديكهئے: [الأحكام الوسطيٰ، ج2، ص141]

◈ امام ابوعمر فرماتے ہیں:
«والصلاة فى المسجد قول جمهور أهل العلم، وهى السنة المحمول بها فى الخليفتين . . .» [الاستذكار لابن عبدالبر، ج8، ص 272۔ 273]
نماز جنازہ کی ادائیگی مسجد میں جائز ہے، یہ قول جمہور اہل علم کا ہے اور یہ سنت بھی ہے۔ کیونکہ اس پر دونوں خلفاء (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کا عمل رہا ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شیخین کے اس عمل کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«وهذا يقتضي الاجماع على جواز ذالك» یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلفاء کے جنازے مسجد میں ادا کرنے کا عمل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا اجماعی طور پر جائز ہے۔
لہٰذا ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ وہ حدیث جس میں «فلا اجر له» وغیرہ کے الفاظ ہیں درست نہیں ہیں اور جس میں یہ الفاظ ہیں کہ اس کے لیے کچھ نہیں تو یہاں سے مراد یہ ہو گا کہ اس پر کچھ گناہ نہیں۔۔۔ کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ جس کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو وہ کام اجر سے خالی ہو۔
1121

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.