الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 261  
´غسل کے برتن میں جنبی کا ہاتھ ڈالنا`
«. . . عن عائشة، قالت:" كنت اغتسل انا والنبي صلى الله عليه وسلم من إناء واحد تختلف ايدينا فيه . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں اس طرح غسل کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 261]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کے باب قائم کرنے میں مقصد یہ ہے کہ اگر جنبی کے ہاتھ پر کوئی اور غلاظت یا گندگی نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ہاتھ ڈال دے تو پانی نجس نہ ہو گا کیوں کہ جنابت نجاست حکمی ہے نہ حقیقی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «ان المومن لا ينجس» مومن یقیناً نجس نہیں ہوتا۔

ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی کے سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے اور ان دونوں کے ہاتھ باری باری برتن میں پڑتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ غسل کی ابتداء میں دونوں نے اپنے ہاتھوں کو غسل کے برتن میں ڈالا ہو گا، لہٰذا مناسبت یہ ہے کہ اگر ہاتھوں پر نجاست نہ ہو تو برتن میں بغیر ہاتھ دھوئے ہوئے ڈالنا کسی قباحت کا سبب نہیں ہے اور اگر ہاتھ میں کچھ لگا ہوا ہے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھوں پر لگی نجاست دھو ڈالے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کا غسل کرنے لگتے تو (پہلے) اپنا ہاتھ دھوتے۔ [صحيح البخاري كتاب الغسل رقم 263]

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا ترجمة الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس میں جنبی کے لئے جواز ہے غسل کے برتن میں غسل سے قبل ہاتھ ڈالنے کو جب کہ اس میں اور کوئی گندگی نہ لگی ہو جیسا کہ (روایت میں ہے) ہمارے ہاتھ اس میں باری باری پڑتے تھے (غسل کے برتن میں، جو کہ اس بات پر دلالت ہے کہ غسل کا پانی (ہاتھ ڈالنے سے) مفسد نہیں ہوا اور نہ ہی نجس۔ [ارشاد الساري، ج1، ص456۔]

بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمة الباب اور حدیث میں استنباط کچھ یوں ہے کہ غسل کے برتن میں ہاتھ ڈالنا جائز ہے، تمام بدن کے حدث کو رفع کرنے سے قبل۔ [مناسبات تراجم البخاري ص42]
«قال المهلب: اشار البخاري الى ان يد الجنب اذا كانت نظيفة جاز له ادخالها الاناء قبل ان يغسله لانه ليس بشئ من اعضاۂ نجسا بسبب كونه جنباً» [فتح الباري، ج1، ص373]

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جنبی کا ہاتھ اگر صاف ہو (یعنی کوئی نجاست نہ لگی ہو) تو غسل کے برتن میں اس کا ہاتھ ڈالنا جائز ہے، غسل سے قبل ایسا نہیں ہے کہ جنابت کی وجہ سے وہ برتن میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
1133

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.