الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 727  
´عورت اکیلی ایک صف کا حکم رکھتی ہے`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بتلایا کہ میں نے اور ایک یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 727]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ام سلیم رضی اللہ عنہا نے تنہا نماز پڑھی اگر عورت کی نماز تنہا باطل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعاً ان کو اجازت مرحمت نہ فرماتے لہٰذا ان کو اجازت دی تو واضح ہوا کہ عورت اکیلی پوری صف کا حکم رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں یہ واضح الفاظ موجود ہیں کہ جس کو امام ابن عبد اللہ رحمہ اللہ نے مرفوعا ذکر فرمایا امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ! «المراة وحدها صف» [فتح الباري ج2 ص280] اکیلی عورت صف کا حکم رکھتی ہے

◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة الترجمة فى قوله وأمي -ام سليم- خلفنا لانها وقفت خلفهم وحدها، فصارت فى حكم الصف» [عمدة القاري ج5 ص387]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کا کہنا میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے (اکیلی صف میں کھڑی تھیں) لہٰذا ان کا اکیلا صف میں کھڑا ہونا مکمل صف کا حکم رکھتا ہے۔

◈ صاحب اوجز المسالک رقمطراز ہیں:
ابن رشید فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد (ترجمۃ الباب سے یہ) ہے کہ (عورت کا اکیلے صف کا حکم رکھنا) یہ عمومی قاعدے سے مستثنیٰ ہے، جس میں یہ ہے اس کی نماز نہیں جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتا ہے۔ یعنی یہ حکم صرف مردوں کے لیے۔ [الابواب والتراجم, ج2 ص879]

◈ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا خلاف فى أن سنة النساء القيام خلف الرجال ولا يجوز لهن القيام معهم فى الصف» [الاستذكار، ج6، ص155]
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورتوں کا قیام (یعنی صف بنانا) مردوں کے پیچھے ہے اور یہ جائز نہیں کہ خواتین ان کے ساتھ قیام میں کھڑی رہیں (لہٰذا اس سبب کی بناء پر خواتین کا اکیلے صف میں کھڑا ہونا مکمل صف کا حکم رکھتا ہے)۔‏‏‏‏
لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے کہ عورت کا تنہا صف میں کھڑے رہنا درست ہے جبکہ مرد کو صف کے پیچھے اکیلا کھڑا رہنا باطل ہے جبکہ صف میں جگہ ہو۔

فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے یہ مسئلہ عیاں ہوا کہ اکیلی عورت صف کا حکم رکھتی ہے جبکہ اکیلا مرد پوری صف کا حکم نہیں رکھتا براں بریں اس مسئلہ پر متعدد احادیث و آثار کتب احادیث میں موجود ہیں: سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں واضح ہے کہ: «ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة .» [ابوداؤد كتاب الصلاة رقم الحديث 682]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوہرانے کا حکم دیا۔

◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن امام ابن حبان رحمہ اللہ علامہ أحمد شاکر اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ علیہم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، [تحقيق المشكاة 345/1، ارواءالغليل 222/2]
مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ اکیلے مرد کی نماز صف کے پیچھے درست نہیں۔

◈ فضیلۃ الشیخ غازی عزیز حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ (وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث کا) حکم اس صورت میں نافذ ہو گا کہ جب آخری صف میں نماز کے شامل ہونے کی گنجائش باقی ہو اور وہ اس کی استطاعت بھی رکھتا ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم اس لیے فرمایا تھا کہ اس نے تساہل سے کام لیا تھا حالانکہ وہ صف میں داخل ہو کر شگاف کو پُر کرنے اور دوسرے نمازیوں کے ساتھ صف بندی کا ذمہ دار تھا۔ لہٰذا وہ شخص جس کو صف میں جگہ نہ ملی تو وہ اپنی وجہ سے پوری صف کو خراب نہ کرے گا بلکہ وہ معذور شمار ہو گا اور وہ اکیلا صف کے پیچھے ہی کھڑا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے: «لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا» [البقرة: 286]
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا
لہٰذا ان شاء اللہ اس کی نماز معذوری کی وجہ سے درست ہو گی۔

◈ ابن رشد القرطبی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر علماء کا اختلاف ذکر فرمایا ہے۔ آپ کہتے ہیں: «واختلفوا اذا صلى انسان خلف الصف وحده فالجمهور على ان صلوته تجزي وقال احمد و ابوثور و جماعة صلاته فاسدة .» [هداية المجتهد: 108/1]
اگر کوئی صف کے پیچھے نماز پڑھے تو اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، جمہور علماء کا قول ہے کہ اس کی نماز جائز ہے، لیکن امام احمد، ابوثور اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اس کی نماز فاسد ہے۔
یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ علامہ ابن رشد جب جمہور کا لفظ استعمال کریں تو اس سے مراد امام مالک شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم مراد ہوتی ہے۔ [ديكهئے بداية المجتهد 1/51]

جو علماء صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کے جواز یا عدم جواز کے قائل ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے . امام بغوی، ابن قدامہ، حافظ ابن حجر، شمس الحق عظیم آبادی اور عبدالرحمن مبارک پوری رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی تصریحات کے مطابق یوں ہے۔ امام أحمد، امام اسحاق بن راہویہ، حکم، ابن المنذر، بعض محدثین شافعیہ، ابن خزیمہ، نخعی، حسن بن صالح اور اہل کوفہ کی ایک جماعت مثلاً حماد بن ابی سلیمان، ابن ابی لیلی اور وکیع وغیرھم رحمہ اللہ علیہم عدم جواز کے قائل ہیں جبکہ حسن بصری، امام اوزاعی، امام مالک، سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی رحمہ اللہ علیہم اور اہل رائے یعنی حنفی حضرات کا قول اس کے جواز کا ہے۔
تفصیل کے لئے مراجعت کی جائے۔ [شرح السنة للبغوي 378/3، المغني لابن قدامه 42/2، عون المعبود 254/1، فتح الباري 247/2، تحفة الاحوذي 22/2]
1146

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.