الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 81  
´علم کا اٹھایا جانا`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يَقِلَّ الْعِلْمُ، وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا، وَتَكْثُرَ النِّسَاءُ، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم (دین) کم ہو جائے گا۔ جہل ظاہر ہو جائے گا۔ زنا بکثرت ہو گا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ 50 عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 81]

باب اور حدیث میں مناسبت:
باب میں جو امام بخاری رحمہ اللہ نے الفاظ نقل فرمائے ہیں وہ «رفع العلم» علم کا اٹھایا جانا ہے اور حدیث پیش کرتے ہیں «يقل العلم» یعنی علم کا گھٹ جانا۔‏‏‏‏ مناسبت جو یہاں پیدا ہو گی وہ ان معنوں میں ہو گی کہ صاحب فہم اور صاحب علم جب اپنے علم کو پڑھانا اور نشر کرنا چھوڑ دے گا اور لازمی ہے کہ علم کی قلت ہو گی اور جب علم کی قلت ہو گی تو جس طرح زمانہ کروٹیں بدلتا رہے گا ساتھ ساتھ علم کم سے کم ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ کم علم بھی آخر میں اٹھا لیا جائے گا۔

◈ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کسی کے اندر علم کی قابلیت اور اس کے فہم اور استعداد ہو تو اس کے ذمے طلب علم اور اشتغال علم دوسروں کے مقابلے میں زیادہ لازم ہے۔ لہٰذا اسے طلب علم میں محنت کرنی چاہئیے کہ اگر وہ تحصیل علم نہیں کرے گا تو اپنے آپ کو ضائع کر دے گا۔ ابن بطال رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی واضح ہوا کہ اگر طلب علم سے مناسبت نہ رہے گی تو قلت علم بڑھتا جائے گا اور وہ رفع علم کا موجب ہو گا جو اشراط ساعت میں سے ہے۔ [شرح صحيح البخاري لابن بطال ج1 ص125 وفتح الباري ج1 ص 178]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد علم سیکھنے کی ترغیب دینا ہے، اس لیے کہ علم اسی وقت اٹھے گا جب علماء چلے جائیں گے اور جب تک علماء باقی رہیں گے علم باقی رہے گا اور علم کا چلا جانا علامت قیامت میں سے ہے۔‏‏‏‏ [فتح الباري، ج1، ص 178]

◈ علامہ کرمانی امام ربیعہ کے اثر کو ترجمتہ الباب سے مناسبت دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
ربیعہ کے اس اثر کا مقصد نشر علم اور تبلیغ کی ترغیب دینا ہے کہ عالم اگر علم کو نہیں پھیلائے گا اور اس حال میں مر جائے گا تو رفع علم کا ظہور جہل کا موجب بنے گا۔‏‏‏‏ [الكواكب الداري، ج2، ص59]

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم کے لیے زیبا نہیں کہ وہ دنیا داروں کے یہاں آتا جاتا رہے اس کو اپنے علم کی تعظیم اور توقیر کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ [عمدة القاري، ج2، ص 81]
یہاں پر بظاہر علامہ عینی رحمہ اللہ کی عبارت اثر اور حدیث میں مناسبت قائم نہیں کر رہے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے علامہ عینی صاحب خود فرماتے ہیں کہ:
اس کا آنا جانا جب دنیا داروں کی طرف کثرت سے رہے گا تو علمی وقار اور احترام اہل علم جاتا رہے گا۔ نتیجہ یہ کہ اس کا اشتغال بالعلم اور اہتمام آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا جو رفع علم اور ظہور دجل کا مؤجب ہو گا۔ [عمدة القاري، ج2، ص81]
↰ لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔

فائدہ:
یہ پیشن گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو بہو پوری ہوئی آج کی صدی میں جہالت کا عام ہونا کسی ذی شعور سے مخفی نہیں ہے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر آئے دن شریعت اور اجماع امت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں مندرجہ بالا حدیث میں قیامت کی نشانیوں میں:
➊ دین کا علم گھٹ جانا
➋ جہالت کا پھیلنا
➌ زنا علانیہ ہونا
➍ اور عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت حتی کہ ایک مرد کے مقابلے میں۔
➎ پچاس عورتوں کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے اسلام نے ایک مرد کو چار عورتوں سے نکاح کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ علم کا اٹھ جانا جہالت کا پھیلنا، اور زنا عام ہونا تو واضح ہے مگر پچاس عورتوں کا ایک مرد کے مقابلے میں ہونا یہ ایک پیچیدہ امر ہے جسے سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔

موجودہ دور میں عورتوں کی تعداد:
اگر ہم تجزیہ کریں تو قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں برابر پیدا ہوتی ہیں لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے ایک بچی بیماریوں کا مقابلہ ایک بچے کی نسبت زیادہ کر سکتی ہے اسی لیے ابتدائی عمر میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی شرح اموات میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتین مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد 50 لاکھ زیادہ ہے۔ اسی طرح روس میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد 90 لاکھ ہے۔ الحمدللہ حدیث پاک میں کی گئی پیشن گوئی بالکل واضح اور درست ہے۔ قیامت سے قبل پچاس عورتوں کا ایک مرد کفیل ہو گا۔ یہ تمام حادثات اور خبریں اسی پیشن گوئی کی صداقت کو ظاہر کرتی ہیں۔

فائدہ نمبر 2:
علم کے اٹھنے کی صورت صحیحین اور دیگر کتب احادیث کی روشنی میں
علم اٹھنے کی صورت صحیحین میں اس طرح مروی ہے جیسے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا ہے کہ وہ فرماتے ہیں۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں سے چھین لے گا۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم اٹھا لے گا حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا دیں گے ان سے سوالات کئے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے جس کی پاداش میں وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ [صحيح البخاري كتاب العلم رقم 100، صحيح مسلم كتاب العلم رقم 6796، رواه نسائي فى الكبري ج2 ص457]
↰ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ علم اٹھنے کی صورت یہ ہو گی کہ علماء اٹھتے چلے جائیں گے مگر بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ علم براہ راست سینوں سے اٹھا لیا جائے گا اور قرآن مجید بھی۔

◈ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے المصنف میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اثر نقل فرمایا ہے۔
«ما تفقدون من دينكم الأمانة، واخر ما تفقدون منه الصلاة، وسيصلي قوم لادين لهم وان هذي القرآن االذي بين أظهركم كأنه قد نزع منكم قال، قلت، كيف يا عبدالله؟ وقد اثبته الله فى قلوبنا، قال يسرى عليه فى ليلة، ترفع المصاحف وينزع ما في القلوب ثم تلا: ﴿ولئن شئنا لنذهبن بالذي أوحينا إليك﴾ إلى آخر الآية» [المصنف ابن ابي شيبة كتاب الفتن رقم الحديث 37574]
تمہارے دین میں جو فقدان ہو گا وہ امانت کا ہو گا، اور اس کے علاوہ نماز کا فقدان ہو گا، اور عنقریب لوگ نماز ادا کریں گے لیکن وہ بےدین ہوں گے، اور یقیناً یہ قرآن جو تم میں موجود ہے یقیناً وہ چھین لیا جائے گا تم میں سے (راوی کہتا ہے) کہا کہ کس طرح سے (قرآن چھین لیا جائے گا) اے عبداللہ؟ حالانکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں ثابت کر دیا ہے (سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ یہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ مصحف کو اٹھا لیا جائے گا اور جو لوگوں کے سینوں میں ہے وہ چلا جائے گا پھر آپ نے قرآن مجید سے یہ آیت تلاوت فرمائی: «وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ» الایتہ۔
↰ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے مطابق علم اور قرآن کو سینوں سے اٹھا لیا جائے گا، مگر ان دونوں میں واضح تطبیق موجود ہے کہ ابتداء میں تو علم یوں جائے گا کہ علماء کو اٹھا لیا جائے گا اور ان کے علم کے حاملین نہ رہیں گے بعد میں اجواف رجال اور اوراق کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔ «والله اعلم بالصواب»
1168

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.