الشیخ محمد حسین میمن حفظ اللہ
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 628  
´سفر میں ایک ہی شخص اذان دے`
«. . . عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا، قَالَ:" ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَصَلُّوا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ . . .»
. . . مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم (بنی لیث) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور (سفر میں) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 628]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں وضاحت فرمائی کہ سفر میں ایک اذان کہنی چاہئے اور دلیل میں حدیث پیش فرمائی کہ جب تم گھر کی طرف لوٹو ان کو اسلام کے احکام سکھاؤ نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے۔۔۔۔
تطبیق کی صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ سفر میں بھی اذان کہنی چاہئے کیوں کہ وہ لوگ ابھی بالفعل سفر میں تھے اور لازم ہوا اذان دینا بھی کیوں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة للترجمة مع ان ظاهره يخالفها لقوله، فكونوا فيهم و علموهم فاذا سيدنا فظاهره ان ذالك بعد وضوء لهم الى اهلهم و تعليمهم، لكن المصنف اشار الى الرواية الاتية فى الباب الذى بعد هذا فان فيها اذا انتما خرجتما فاذنا» [فتح الباري ج2، ص141]
ظاہر میں ترجمۃ الباب اس قول کے مخالف نظر آتا ہے کہ گھر والوں کو دین سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو اذان کہو لیکن حقیقت میں (مخالفت نہیں ہے کیوں کہ) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا جو اس کے بعد والے باب میں مرقوم ہے کہ جب تم دونوں سفر کو نکلو تو اذان دیا کرو پھر اقامت کہا: کرو۔
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ باب میں جو سفر کا ذکر فرمایا ہے مصنف کا اشارہ دوسری حدیث کی طرف ہے جس میں واضح طور پر یہ حکم ہے کہ سفر میں بھی آپ کو اذان دینی چاہئے۔

◈ ابن الملقن اور ابن المنیر رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ:
حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ان کے احوال کی وجہ سے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹیں (تو اذان دیں نماز کے لئے) نہ کہ سفر میں۔۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام قاصر نہیں ہے اس پر بلکہ یہ عام ہے ان کے لئے کہ جب سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے (سفر میں) یعنی مؤذن کے اذان کا حکم اس وقت سے ہی ہو گیا جب صحابہ نے سفر کا قصد فرمایا۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ ديكهئے: [التوضيح، ج6، ص378، المتواري، ص94]

فائدہ نمبر 1:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کئی مؤذن رکھنے جائز ہیں لیکن مناسبت یہ ہے کہ سب ایک بار اذان نہ دیں بلکہ ایک بعد دوسرا اذان دے اور اگر مسجد بڑی ہو تو جائز ہے کہ ہر طرف میں ایک ایک مؤذن اذان دے خواہ ایک ہی وقت میں ہوں اسی طرح اگر شہر بڑا ہو اور اس کے کنارے دور دور ہوں تو ہر طرف ایک ایک مؤذن ایک وقت میں اگر اذان دے تو وہ بھی جائز ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب علم اور فضیلت میں سب برابر ہوں تو بڑی عمر والا امام بنے اور اذان میں بڑے چھوٹے کا کچھ لحاظ نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امامت اذان سے افضل ہے۔ «والله اعلم بالصواب» [فيض الباري از علامه ابوالحسن سيالكوٹي ج3، ص736]

فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت دی تو آپ نے ان کے گھر والوں کو بھی نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا اس میں نکتہ یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہوتا تو لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرق کے بارے میں آگاہی فرما دیتے مگر حدیث میں نماز کا طریقہ عام ہے۔ لہٰذا مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ اپنی معرکۃ الاراء کتاب تاریخ صغیر میں فرماتے ہیں! «كانت ام الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل وكانت فقيهة .» [تاريخ الصغير ص96]
یعنی ام درداء جو فقیہ تھیں نماز میں مردوں کی طرح بیٹھا کرتی تھیں، ہماری معلومات کے مطابق عورتوں کی نماز کو تین جگہوں پر مردوں کی نماز سے مختلف کیا جاتا ہے۔
➊ رفع الیدین میں مرد کانوں تک اور عورت کاندھے تک ہاتھ اٹھائیں۔
➋ عورت سینے پر اور مرد ناف پر ہاتھ باندھے۔
➌ عورت سجدے میں پیٹ رانوں سے چمٹا لے جب کہ مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں۔
ان تینوں مسائل اور تخصیص کی احناف کے پاس کوئی صریح اور غیر مجروح روایت کے طور پر موجود نہیں ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احناف کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک عورت اور مرد کی نماز میں فرق کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص222]

◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اسی طرح مقدار رفع میں بھی فرق کرنے کی کوئی صریح دلیل منقول نہیں ہے جیسا کہ حنفیہ کا مذہب ہے کہ مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور خواتین کندھوں تک۔ حنفیہ کے پاس اس طرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار ج2، ص198]
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالیشان پر بھی غور کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«صلوا كما رايتموني اصلي» [صحيح البخاري: 631]
نماز اسی طرح سے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو

مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کرنے والی روایت کا مختصر سا جائزہ:
«عن ابن عمر مرفوعاً اذا جلست المراة فى الصلاة . . . . . . . .» [بيهقي 2/223]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اہنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہو جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
↰ اس کی سند میں راوی محمد بن القاسم البلحی کا ذکر حالت معلوم نہیں ہے تفصیل کے لئے لسان المیزان لابن حجر رحمہ اللہ [ت 7997] اس روایت کا دوسرا راوی عبید بن محمد اسرفی ہے اس کے حالات نا معلوم ہیں۔
لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [السنن الكبري، 2/ 222]
➋ دوسری پیش کی جانے والی تصویر کا حال: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین کس طرح پڑھا کرتی تھی (نماز) تو انہوں نے فرمایا: پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔ [جامع المسانيد 1؍400]

جامع المسانید محمود الخوارزمی کی کتاب ہے اس کی سند میں کئی راویوں کے حالات نامعلوم ہیں۔ مثلاً:
➊ ابراھیم بن مہدی اس کو محدثین نے جھوٹا کہا ہے۔
➋ زر بن نجح البصری کے حالات نہیں ملے۔
➌ علی بن محمد البزار کے حالات نہیں مل سکے۔
➍ قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے۔
◈ امام دار قطنی فرماتے ہیں:
«و كان يكذب» [التقريب: 257، ديكهئے سوالات الحاكم للدار قطني: 252]
اور وہ جھوٹ بولتا تھا
لہٰذا یہ روایت مردود ہے استدلال کے قابل نہیں ان روایات کے علاوہ اور بھی روایات ہیں مگر کوئی بھی کلام سے خالی نہیں۔
1188

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.