حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4526  
´تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں`
«تَدْرِي فِيمَ أُنْزِلَتْ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" أُنْزِلَتْ فِي كَذَا وَكَذَا"، ثُمَّ مَضَى»
معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز (یعنی عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں) نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4526]
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حدیث سے معلوم ہوا بعض لوگ اغلام کرتے تھے۔
تبصرہ:
❀ صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے کہ:
«حدثني إسحاق: أخبرنا النضر بن شميل: أخبرنا ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا قرأ القرآن لم يتكلم حتي يفرغ منه، فأخذت عليه يومًا فقرأ سورة البقرة حتي انتهي إلى مكان قال: تدري فيما أنزلت؟ قلت: لا، قال: أنزلت فى كذا وكذا ثم مضي۔ وعن عبدالصمد: حدثني أبى: حدثني أيوب عن نافع عن ابن عمر ﴿فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ﴾ قال: يأيتها فى . رواه محمد بن يحيٰي بن سعيد عن أبيه عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر .»
ہمیں اسحاق (بن راہویہ) نے حدیث بیان کی: ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی: ہمیں (عبداللہ) ابن عون نے خبر دی وہ نافع سے بیان کرتے ہیں، کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما جب قرآن پڑھتے تو (قرأت سے) فارغ ہونے تک کوئی کلام نہ کرتے۔ ایک دن میں نے ان کے سامنے (قرآن مجید) لیا تو آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی، جب آپ ایک مقام پر پہنچے، فرمایا: تجھے پتا ہے یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: یہ اس اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پھر آپ (تلاوت میں لگ) گئے۔
❀ عبدالصمد (بن عبدالوارث) سے روایت ہے: مجھے میرے ابا (عبدالوارث) نے حدیث بیان کی: مجھے ایوب (سختیانی) نے حدیث بیان کی وہ نافع سے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے «فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ» اپنی کھیتی کو آؤ جس طرح چاہو۔ [البقرة: 223] کی تشریح میں فرمایا:۔۔۔ میں آئے۔
❀ روایت کیا محمد بن یحییٰ بن سعید (القطان) نے اپنے والد سے انہوں نے عبیداللہ (بن عمر) سے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے۔ [صحيح بخاري: 4526، 4527]
↰ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت میں بعض لوگ اغلام کرتے تھے۔ کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، لہٰذا منکر حدیث نے صحیح بخاری پر جھوٹ بولا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی سے بچہ پیدا ہونے والی جگہ میں جماع کرنا چاہئیے دیکھئے: صحیح بخاری مترجم ترجمہ و تشریح محمد داود راز [100/6] مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور، والسنن الکبریٰ للنسائی [8978 وسنده حسن، دوسرا نسخه: 8929]
↰ لہٰذا اس قول سے لواطت کا جواز ثابت کرنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔
1257

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.