الشیخ اسحاق سلفی حفظ اللہ
  كتاب: فتاويٰ ثنائيه مدنيه  
´جمعہ کے دن مرنے والے کا بیان`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: . . . جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے . . . [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 1074]

فوائد و مسائل:
«الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!»
جمعہ کی رات یا دن موت کی فضیلت کے بارے میں وارد روایات ضعیف ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کے «كتاب الجنائز» کے اختتام پر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث:
«ما من مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة الا وقاه الله فتنة القبر» حسنه الباني بشواهده المشكاة [1367]
یعنی جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی ر ات فوت ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما لیتا ہے۔
نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
«في اسناده ضعف واخرجه ابو يعلي من حديث انس نحوه واسناده اضعف»
یعنی اس کی سند میں ضعف ہے۔اور اس کی مانند حدیث ابو یعلیٰ نے بھی حضرت انس سے بیان کی ہے لیکن اس کی سند اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔

مذکورہ حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«هذا حديث غريب وليس اسناده بمتصل وبيعة بن سيف انما يروي عن ابي عبد الرحمٰن الحبلي عن عبدا لله بن عمر و ولا تعرف لربعة من سيف سماعا من عبدالله بن عمرو»
یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ربیعہ بن سیف کی روایت تو عبد اللہ بن عمرو سے ابو عبد الرحمٰن حبلی کے واسطہ سے ہے۔ ربیعہ بن سیف کا سماع عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معلوم نہیں ہو سکا۔ «باب ما جاء فيمن يموت يوم الجمعة»
◈ شارح ترمذی علامہ مبارک پوری فرماتے ہیں:
«فالحديث ضعيف لانقطاعه لكن له شواهد»
پس انقطاع کی بنا پر حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے کچھ شواہد ہیں۔
پھر علامہ سیوطی سے بحوالہ مرقاۃ کچھ آثار وشواہد نقل کئے ہیں۔ [تحفه الاحوذي:4/ 188] بہرصورت ان آثار کی صحت یاقابل صحت ہونا مشکوک ہی نظر آتا ہے جب کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بھی رطب و یابس جمع کرنے میں معروف ہے مجھے اس وقت سخت تعجب ہوا جب میں نے استاد محترم مفتی محمد عبدہ صاحب مدظلہ العالی کی کتاب احکام الجنائز کا مراجعہ کیا تو اس کے حواشی میں بحوالہ تحفہ فرماتے ہیں:
«مسند احمد وترمذي وله شواهد فالحديث بمجموع طرقه حسن او صحيح»
یعنی عبدا للہ بن عمرو کی روایت مسنداحمد اور ترمذی میں ہے اور اس کے کچھ شواہد بھی ہیں۔ پس حدیث مجموع طرق کے اعتبار سے حسن یا صحیح ہے۔
دراں حالیکہ مذکور عبارت محل مقصود میں قطعاً نہیں ہے۔ البتہ ایک دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں:
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن اس کی تائید متعدد حدیثوں سے ہوتی ہے۔ [فتاويٰ ثنائيه:2/25]
↰ گویا کہ موصوف کا رجحان اثبات مسئلہ رفع عذاب کی طرح ہے لیکن اس بارے میں درجہ حجت واستدلال کاحصول ایک مشکل امر ہے۔ اور یہ بات مسلمہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کے روز ہوا تھا۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرض الموت میں اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ اس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں تبویب یوں قائم کی ہے: «باب موت يوم الاثنين» صحيح البخاري كتاب الجنائز رقم الباب [94]
شارحین حدیث نے لکھا ہے: اس سے مصنف کا مقصود جمعہ کی فضیلت کے بارے میں وارد حدیث کی تضعیف ہے۔
واقعاتی طور پر وفات کا جو دن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منتخب اور پسند فرمایا وہی افضل اور بہتر ہونا چاہیے۔ اسی بناء پر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن موت کی چاہت کی تھی۔
«هذا ما عندي والله اعلم بالصواب»
1796

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.