حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6251  
´احادیث کو ٹکڑوں کی صورت میں جمع کیا جانا`
جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]

فقہ الحدیث
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ راوی ایک روایت بیان کرتا ہے، اس کے بعض شاگرد اسے مکمل مطول اور بعض شاگرد مختصر و ملخص بیان کرتے ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری میں «مسئي الصلوة» کی حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا قمت إلى الصلوة فكبر» إلخ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ…..إلخ [كتاب الاذان، باب وجوب القرأة للإمام و المأموم۔۔ ح757]
↰ اس میں قبلہ رخ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ قبلہ رخ ہونا نماز کا رکن اور فرض ہے۔ وضو کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس حدیث کی دوسری سند میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا قمت إلى الصلوة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر» إلخ
جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو پورا وضو کر، پھر قبلہ رخ ہو جا، پس تکبیر کہہ۔ إلخ [صحيح البخاري، كتاب الاستئذان، باب من رد فقال: عليك السلام ح 6251]
اب اگر کوئی منکر حدیث یہ شور مچانا شروع کر دے کہ پہلی حدیث میں استقبال قبلہ اور وضو کا ذکر نہیں ہے۔ اور معرض بیان میں عدم ذکر کتمان ہے جو یہود کا شیوہ ہے!
تو اس گمراہ و بے وقوف کا شور باطل و مردود ہے۔ اسے سمجھایا جائے گا کہ ایک صحیح روایت میں ذکر ہو اور دوسری صحیح میں ذکر نہ تو عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ احادیث کی تمام سندیں اور متون جمع کر کے مشترکہ مفہوم پر عمل کرنا چاہئے۔

◈ انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں کہ:
«اعلم أن الحديث لم يجمع إلا قطعة فتكون قطعة عند واحد وقطعة أخري عند واحد فليجمع طرقه و ليعمل بالقدر المشترك ولا يجعل كل قطعة منه حديثا مستقلا»
مفہوم: اور جان لو کہ احادیث کو ٹکڑوں کی صورت میں جمع کیا گیا ہے۔ پس ایک ٹکڑا ایک راوی کے پاس ہوتا ہے اور دوسرا دوسرے کے پاس، لہٰذا چاہئے کہ احادیث کی تمام سندیں (اور متون) جمع کر کے حاصل مجموعہ پر عمل کیا جائے اور ہر ٹکڑے کو مستقل حدیث نہ بنایا جائے [فیض الباری ج 3 ص 455]

◈ احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ:
صدہا مثالیں اس کی پائے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں، کوئی پوری، کوئی ایک ٹکڑا، کوئی دوسرا ٹکڑا، کوئی کس طرح، کوئی کس طرح۔ جمع طرق سے پوری بات کا پتہ چلتا ہے۔ [فتاوي رضويه نسخه جديده ج 5 ص 301]
↰ لہذا جو لوگ شور مچاتے ہیں کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ والی حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین نہیں ہے، ان کا شور غلط اور مردود ہے۔
 حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا یہ مکمل مضمون طریقہ نماز سے متعلق مشہور حدیثِ ابو حمید الساعدی، سند کی تحقیق اور شبہات کا ازالہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔
1822

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.