حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 35  
´مومن کے اوصاف`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ: «لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اکثر خطبوں میں فرمایا کرتے تھے کہ جو امانتدار نہیں وہ ایماندار نہیں ہے اور جو وعدہ (عہد) کو نہ پورا کرے وہ دیندار نہیں ہے . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 35]

تحقیق الحدیث:
حسن ہے۔
اسے بیہقی [السنن الكبريٰ 288/6، 931 شعب الايمان] احمد [135/3 ح12383] ابن ابی شیبہ [11/11] عبد بن حمید [المنتخب: 1198] اور البغوی فی شرح السنۃ [1؍75 ح38] «وقال: هذا حديث حسن» وغیرہم نے «ابوهلال محمد بن سليم الراسبي عن قتادة عن انس رضي الله عنه» کی سند سے روایت کیا ہے۔
یہ سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ قتادہ مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسين لابن حجر 3/92، المرتبة الثالثة]
◈ اور یہ سند معنعن (عن سے) ہے۔
➋ ابوہلال الراسبی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے۔

تنبیہ:
راقم الحروف نے جزء رفع الیدین کی تحقیق میں لکھا ہے کہ:
ابوہلال محمد بن سلیم الرسبی البصری کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ حسن الحدیث ہے۔ واللہ اعلم [ص55 تحت ح 30]
یہ تحقیق غلط ہے، صحیح یہی ہے کہ ابوہلال مذکور ضعیف ہے، لہٰذا جزء والی عبارت کی اصلاح کر لی جائے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جزء والی روایت سابقہ شاہد (جزءرفع الیدین: 29) کی رو سے حسن ہے۔ «والحمد لله»
اب روایت مذکورہ کے چند شواہد کی مختصر تخریج پیش خدمت ہے:
«المغيرة بن زياد الثقفي عن أنس رضى الله عنه . الخ» [مسند احمد 251/3 ح 113637]
مغیرہ بن زیاد مجہول الحال ہے۔ دیکھئے: تعجیل المنفعۃ [ص410] وزبدۃ تعجیل المنفعۃ [للشيخ ابي الاشبال صغير احمد شاغف بهاري المكي ص118] لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
«مؤمل بن اسماعيل عن حماد بن سلمة عن ثابت عن انس رضى الله عنه . الخ» [صحيح ابن حبان، الاحسان: 194 و سنده صحيح]
مؤمل بن اسماعیل جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق تھے، لہٰذا اُن کی بیان کردہ حدیث حسن کے درجہ سے نہیں گرتی، باقی سند صحیح لذاتہ ہے۔
«سنان بن سعد الكندي عن أنس بن مالك أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا إيمان لمن لا أمانة له إلخ» [صحيح ابن خزيمه 4؍51 ح2335 وسنده ضعيف]
اس کے راوی سنان بن سعد جمہور کے نزدیک موثق اور حسن الحدیث ہیں، لیکن یزید بن ابی حبیب کی ان سے روایات میں کلام ہے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
درج بالا روایت شاہد نمبر2 کے ساتھ حسن ہے۔ «والْحَمْدُ لِلَّـه»

فقہ الحدیث:
➊ معلوم ہوا کہ جس شخص میں امانت اور عہد سرے سے موجود نہیں ہے۔ وہ ہر شخص کے ساتھ بلکہ اللہ و رسول کے ساتھ بھی خیانت اور بدعہدی ہی کرتا رہتا ہے تو ایسے شخص کا کوئی ایمان اور دین نہیں ہے۔ جو شخص بعض لوگوں کے ساتھ امانت اور پابندی عہد پر عمل کرتا ہے اور بعض کے ساتھ خیانت اور وعدہ خلافی کا ارتکا ب کرتا ہے تو وہ «لا ايمان» اور «لادين» کا مخاطب نہیں، بلکہ اس کی مذمت کے لئے دوسرے دلائل ہیں۔ ایسا شخص فاسق و فاجر اور ناقص الایمان ہے، جب کہ اول الذکر شخص میں ایمان سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
➋ اگر اسم نکرہ پر «لا» داخل ہو کر اسے نصب دے تو جنس کی نفی مراد ہوتی ہے۔ دیکھئے قطرالندی و بل الصدی [ص229] والکافیۃ فی النحو [ص 115]
لہٰذا اس حدیث میں ایمان، امانت، دین اور عہد سب کی نفی جنس مراد ہے۔ بعض لوگ اسے نفی کمال پر محمول کرتے ہیں، ان کا قول قواعد نحو کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔ «والله اعلم»
1952

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.