حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 82  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏عَن عبد الله بن مَسْعُود قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِق المصدوق: «إِن أحدكُم يجمع خلقه فِي بطن أمه أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثمَّ يكون فِي ذَلِك علقَة مثل ذَلِك ثمَّ يكون فِي ذَلِك مُضْغَة مثل ذَلِك ثمَّ يُرْسل الْملك فينفخ فِيهِ الرّوح وَيُؤمر بِأَرْبَع كَلِمَات بكتب رزقه وأجله وَعَمله وشقي أَو سعيد فوالذي لَا إِلَه غَيره إِن أحدكُم لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا» . . .»
. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سچے ہیں اور سچے کیے گئے ہیں ہم لوگوں کو یہ حدیث بیان فرمائی کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش کی (ابتداء میں یہ صورت ہوتی ہے) کہ چالیس روز تک ماں کے پیٹ میں نطفہ جمع کیا جاتا ہے یعنی معمولی تغیر کے ساتھ نطفہ رہتا ہے، پھر یہ نطفہ چالیس روز کے اندر منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے پھر چالیس روز میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے تو وہ فرشتہ اس کے عمل و کام کو، اور اس کی موت کو، اور اس کی روزی کو، اور اس کے نیک بخت اور بدبخت ہونے کو لکھتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ساری زندگی اہل جنت کا کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور جنت میں صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے (مگر اس پر) تقدیر کا لکھا ہوا غالب آ جاتا ہے اور دوزخیوں کا کام کر کے دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے اور (اسی طرح سے) تم میں سے ایک شخص ساری زندگی دوزخیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور آخر عمر میں جنتیوں کا کام کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے (جنتی دوزخی ہونا خاتمہ کے عمل پر موقوف ہے اگر خاتمہ بالخیر ہو تو جنتی اور اگر خاتمہ بالشر ہوا تو جہنمی اور ایک ہاتھ کا فاصلہ مثال کے طور پر کہا گیا ہے مراد نزدیک ہونا ہے۔) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 82]

تخریج:
[صحيح بخاري 6594]،
[صحيح مسلم 6723]

فقہ الحدیث:
➊ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔
➋ کون خوش قسمت ہے اور کون بدقسمت؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور اس نے اپنے علم سے، اسے تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔
➌ سچی توبہ کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لہٰذا کسی توبہ کرنے والے شخص کو سابقہ گناہوں اور غلطیوں پر ملامت نہیں کرنا چاہئیے۔
➍ کفریہ عقائد و اعمال انسان کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی عقائد و اعمال انسان کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
➎ جن عقائد و اعمال پر خاتمہ ہوتا ہے اسی کا اعتبار ہے، لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات میں سچے اور امین تھے، چاہے نبوت سے پہلے کی زندگی تھی یا بعد کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین بھی آپ کو سچا اور امین مانتے تھے۔
➐ جدید طبی تحقیقات نے اس حدیث کی تصدیق کر دی ہے، جس سے اہل ایمان کا ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ «والحمد لله عليٰ كل حال»
➑ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اگر پانچ ماہ یا زیادہ مدت والا بچہ مردہ پیدا ہو جائے یا پیدا ہوتے ہی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والسقط يصلي عليه ويدعيٰ لوالديه بالمغفرة والرحمة»
اور «سقط» (ناتمام بچہ جو اپنی میعاد سے پہلے گر جائے) کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔ [سنن ابي داود: 3180 وسنده صحيح، سنن الترمذي: 1031، وقال: حسن صحيح وصححه ابن حبان: 769 والحاكم عليٰ شرط البخاري 1؍363 ووافقه الذهبي]
◈ اس حدیث کے راوی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«سقط» کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3؍317 ح11589 وسنده صحيح]
◈ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ناتمام مردہ بچے کی نماز جنازہ پڑھی، نافع نے کہا کہ مجھے پتا نہیں کہ وہ زندہ پیدا ہو کر (مر گیا تھا) یا پیدا ہی مردہ ہوا تھا۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح 11584، وسنده صحيح]
◈ مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر اس کی تخلیق پوری ہو جائے تو اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی، جس طرح بڑے آدمی کی پڑھی جاتی ہے۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح11588، وسنده صحيح]
◈ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی نماز جنازہ پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح11590، وسنده صحيح]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والعمل عليه عند بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم، قالوا: يصليٰ على الطفل وإن لم يستهل بعد أن يعلم أنه خلق وهو قول أحمد وإسحاق»
صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے کہا: بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ پیدا ہوتے وقت آواز نہ نکالے، یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ اس کی تخلیق (مکمل) ہو چکی ہے اور أحمد (بن حنبل) اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے۔ [سنن الترمذي: 1031]
↰ جو علماء مردہ بچے کی نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں، ان کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک و ناقابل حجت ہے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چھوٹے بچے پر نماز جنازہ میں درج ذیل دعا پڑھتے تھے:
«اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ فَرَطَاً وَذُخْراً»
اے اللہ! اسے امیر سامان، آگے چلنے والا اور ذخیرہ بنادے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 4؍10، وسنده حسن]
201

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.