علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 735، 736، 737  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]

فوائد و مسائل:
اہل فہم اور جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کے اتباع کا شوق عطا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔ ہاں اتنا واضح ہو کہ رفع الیدین کی حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے، حتیٰ کہ چند ائمہ مثلاً:
◈ امام ابن حزم، سیوطی اور مجدد الدین الفیروز آبادی وغیرہم اس حدیث کے متواتر ہونے کے قائل ہیں [المحليٰ لابن حزم: 934، الازها، المتناثره فى الاخبار المتواتره للسيوطي: 48، سفر السعادة: 14]
◈ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اپنے استاذ امام عراقی سے نقل فرمایا ہے کہ:
میں نے اس حدیث کے روایت کنندہ صحابہ کا تتبع کیا تو پچاس کو پہنچا۔ [فتح الباري: 149/2]
↰ اور اس مسکین نے بھی ان کا تتبع کیا تو باوجود کم علمی کے اور قلت الاطلاع علیٰ نسب الحدیث کے بیس کو پہنچا، جن کے اسماء گرامی یہ ہیں:
➊ ابوبکر صدیق
➋ عمر بن الخطاب
➌ علی بن ابی طالب
➍ ابن عمر
➎ ابن عباس
➏ ابن الزبیر
➐ ابوہریرۃ
➑ ابوموسیٰ اشعری
➒ ابوحمید ساعدی
➓ محمد بن مسلمہ
⓫ ابواسید
⓬ مالک بن الحویرث
⓭ وائل بن حجر
⓮ سہل بن سعد
⓯ ابوقتادہ
⓰ انس بن مالک
⓱ جابر بن عبداللہ
⓲ براء بن عازب
⓳ عمر اللیثی
⓴ معاذ بن جبل [ديكهئيے اثبات رفع اليدين، جلاء العينين، تمييز الطيب]
نیز حافظ زیلعی نصب الرایہ میں امام بیہقی کے خلافیات سے ایک حدیث شریف لائے ہیں، جس سے رفع الیدین کے متعلق مواطن مذکورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امر ثابت ہوتا ہے۔ [نصب الراية فى التخريج احاديث هدايه]

نیز مالک بن الحویرث کی حدیث سے بھی امر مستفاد ہے۔ اس لئے چند محدثین مثلاً:
➊ محمد بن سیرین،
➋ حمیدی،
➌ اوزاعی،
➍ امام احمد بن حنبل،
➎ امام ابن خزیمہ اور
➏ امام ابن حبان وغیرہم
رفع الیدین کے وجوب کے قائل ہیں اور احقر کے ہاں بھی یہ قول مستند ہے۔ اس لیے کہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے جب تک اس کے لئے دلیل صارف نہ پائی جائے اور «فيما نحن فيه امر» کا بھی کوئی دلیل صارف نہیں ہے۔

◈ اور جو عبداللہ بن مسعود والی حدیث ہے اس کو محدثین نے ضعیف بتلایا ہے۔ [جزء رفع اليدين للبخاري طبع دهلي]
↰ اور امام ابوحنیفہ کے تلمیذ رشید امیر المجاہدین والزاہدین عبداللہ بن المبارک نے اس حدیث کے متعلق یوں کہا ہے: «لم يثبت حديث ابن مسعود . . . .» الخ [سنن ترمذي ابواب الصلوة، باب رفع اليدين عند الركوع]

◈ باقی رہی «كاذناب الخيل الشمس» والی حدیث، سو وہ تو سلام کے متعلق ہے اور اس کا رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ [جزء رفع اليدين للبخاري]
↰ اس لئے کہ اگر اس حدیث کا تعلق رفع الیدین کے ساتھ مانا جائے تو پھر مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان میں کوئی تعلق اور مناسبت نہیں رہتی اور شارع بارع علیہ السلام کا یہ کلام _ بن جاتا ہے۔ «حاشاًلله»
کیونکہ آپ خالی الذہن ہو کر غور کریں تو آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ مذکورہ ہیبت پر رفع الیدین کرنے اور گھوڑے کی دم ہلانے کے درمیان کتنا ہی بون بعید ہے۔ ہاں اگر سلام کے جواب کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو پھر مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان میں مناسبت پوری طرح ہے۔

نیز اگر اس کا رفع الیدین در اوقات مخصوصہ کے ساتھ تعلق مانا جائے تو بھی یہ حدیث حنفیہ کے لئے مذہب شکن ہے۔ کیونکہ وہ تکبیرات عیدین اور وتر میں قنوت کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔ «فما هو جوابهم فهو جوابنا» معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا امر کا کوئی قرینہ صارفہ نہیں ہے۔
اس لئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قاعدہ تھا جیسا کہ ان سے امام بخاری کے جزء رفع الیدین میں اور سنن دارقطنی میں مروی ہے کہ:
«اذا راي رجلا لا يرفع يديه اذا ركع واذا رفع رماه بالحصيٰ» [جزء رفع اليدين للبخاري، سنن دارقطني مع التعليق المغني: 392/1، 1105]
آپ جس کو دیکھتے کہ وہ رکوع کی طرف جاتے اور رکوع سے واپس آنے کے وقت رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کو کنکریاں مارتے تھے۔

اور یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسا جلیل القدر امام کسی کو مستحب کے ترک کرنے پر سزا دے، بلکہ ضرور ان کے ہاں رفع الیدین کا وجوب ثابت ہوا ہے اور اگر مستحب چھوڑنے پر بھی سزا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو جس نے کہا کہ «لا يزيد على هذا ولا انقص» میں اس کو بہشتی کہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ «فاعتبروا يا اولي الابصار .»
229

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.