حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 115  
´مسئلہ تقدیر پر تشکیک کفر کی علامت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ وَقَعَ فِي - [41] - نَفْسِي شَيْء من الْقدر فَحَدثني بِشَيْء لَعَلَّ الله أَن يذهبه من قلبِي قَالَ لَو أَن الله عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مثل ذَلِك قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ . . .»
. . . ابن الدیلمی سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ تقدیر کے متعلق میرے دل میں کچھ شبہات پیدا ہو گئے ہیں آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے تاکہ اللہ تعالیٰ میرے دل سے ان شبہات کو دور کر دے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان والوں کو اور تمام زمین والوں کو عذاب دے تو وہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں ہے، یعنی زمین و آسمان والوں کو کتنے ہی عذاب میں مبتلا کر دے تو وہ ظالم نہیں کہلا سکتا اور اگر ان پر رحم فرمائے تو ان کا رحم ان کے عملوں سے بہتر ہے اگر تو احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کے راستے میں خرچ کرے تو اللہ تیرے اس عمل کو نہیں قبول کرے گا یہاں تک کہ تو تقدیر پر ایمان لے آئے، اور تو اس بات کو جان لے کہ جو کچھ تجھ کو پہنچا ہے وہ رکنے والا اور خطا کرنے والا نہ تھا، اور جو کچھ تجھے نہیں پہنچنے والا تھا وہ تجھ کو نہیں پہنچا (یعنی ہر آرام و تکلیف، امیری غریبی سب تقدیر کے موافق ہے) اور اس میں کسی کے کوشش کا دخل نہیں ہے اور اگر تو اس اعتقاد کے خلاف اور اعتقاد رکھ کر مرا تو جہنم میں داخل ہو گا۔ ابن الدیلمی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی ویسا ہی کہا: تھا جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، پھرمیں حزیفہ بن یمان کے پاس آیا اور ان سے بھی میں نے یہی کہا تو انہوں نے ویسا ہی جواب دیا جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا۔ پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی حدیث بیان فرمائی۔ اس کو ابوداؤد، احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 115]

تخریج الحدیث:
[سنن ابي داود 4699]، [سنن ابن ماجه 77]

تحقیق الحدیث:
اس کی سند حسن ہے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [مسند أحمد 182/5 ح 21589]
اور اسحاق بن سلیمان الرازی وغیرہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
اس روایت کو ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ [الاحسان: 727، الموارد: 1817]
ابوسنان سعید بن سنان البرجمی الشیبانی حسن الحدیث ہیں، جمہور محدثین نے انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔

فقہ الحدیث
➊ تقدیر پر ایمان لائے بغیر، قیامت کے دن نجات نہیں ہو گی۔
➋ صحابہ کرام کا یہ (اجماعی) عقیدہ تھا کہ تقدیر برحق ہے۔
➌ آدمی کو چاہئیے کہ وہ مسلسل تحقیق میں مشغول رہے اور جب بھی دلیل ملے تو اسے مضبوطی سے تھام لے۔
➍ ایک عالم سے مسئلہ پوچھنے کے بعد دوسرے عالم سے بھی مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے۔
➎ مرفوع حدیث کو بعض راویوں کے موقوف بیان کرنے سے مرفوع حدیث ضعیف نہیں ہو جاتی۔
➏ عقائد میں تمام اہل حق متحد ہیں۔ اختلاف تو صرف اجتہاد ی مسائل میں ہے۔
➐ اگر کسی آدمی کو اہل بدعت اپنی چرب زبانی کی وجہ سے شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں تو علمائے حق کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔
➑ سلف صالحین کا فہم وہ مشعل ہے جس کی وجہ آدمی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔
➒ علمائے حق کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلہ بیان کرتے وقت ضرور بالضرور دلیل بیان کریں، البتہ دلیل پوچھنے پر ٹال مٹول اور قیل و قال کے بجائے ضرور دلیل بتانی چاہیے اور افضل یہی ہے کہ مسئلہ دلیل کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ جو زندہ رہے وہ دلیل دیکھ کر جئے اور جو مرے وہ دلیل دیکھ کر مرے۔
➓ دلیل کے مقابلے میں ہر شخص کی بات مردود ہے، چاہے وہ کتنا بڑا مجتہد و امام ہی کیوں نہ ہو۔
⓫ اللہ تعالیٰ کے ہاں اہل بدعت کے اعمال مقبول نہیں ہیں، چاہے وہ کتنے ہی بڑے اعمال کیوں نہ ہوں۔
⓬ تقلید جائز نہیں ہے اور نہ علمائے حق سے مسئلہ پوچھنا تقلید ہے۔
⓭ اجماع شرعی حجت ہے۔
⓮ قرآن و حدیث سے دلوں کو اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔
⓯ بندے کو پہنچنے والا دکھ یا سکھ پہلے سے تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔
23

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.