الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 112  
´تیمّم کے لیے وقت و مدت کا تعین`
«. . . قال رسول الله: ‏‏‏‏الصعيد وضوء المسلم وإن لم يجد الماء عشر سنين. فإذا وجد الماء فليتق الله وليمسه بشرته . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مٹی مومن مسلمان کا وضو ہے خواہ دس برس تک اسے پانی نہ ملے۔ مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور اسے اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیئے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 112]

لغوی تشریح:
«اَلصَّعِيدُ» پاکیزہ مٹی کو کہتے ہیں۔
«وَإِنْ لَّمْ يَجِدْ» اس میں إن وصلیہ ہے جس کے معنی ہیں: اگرچہ اس کی جزا ہمیشہ محذوف ہوتی ہے جس پر اس کا ماقبل دلالت کر رہا ہوتا ہے۔
«عَشْرَ سِنِينَ» دس برس۔ اس سے مراد مبالغہ ہے، وقت ومدت کا تعین مقصود نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جتنی مدت تک پانی دستیاب نہ ہو اس وقت تک تیمّم کی اجازت ہے۔
«فَلْيَتَّقِ اللهَ» اللہ سے ڈرنا چاہیے کا مفہوم یہ ہے کہ طہارت و وضو میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہونے پائے اور صرف مٹی پر انحصار نہ کرے۔
«وَلْيُمِسَّهُ» «إِمْسَاس» سے ماخوذ ہے، یعنی پانی پہنچائے۔
«بَشَرَتَهُ» با اور شین دونوں پر فتحہ ہے۔ مراد جسم کی کھال ہے۔
«صَوَّبَ» «تَصْوِيب» سے ماخوذ ہے اور معنی یہ ہوئے کہ اس حدیث کا مرسل ہونا درست اور صحیح ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمّم کے لیے وقت و مدت کا تعین نہیں اور جب پانی کی دستیابی کی صورت میں عذر باقی نہ رہے تو پھر پانی کا استعمال واجب ہے۔
➋ اس حدیث میں تیمّم کو وضو قرار دیا گیا ہے تو گویا تیمّم وضو کا قائم مقام اور بدل ہے۔ جب یہ پانی کا بدل ہے تو پھر دونوں کے احکام بھی ایک جیسے ہوں گے، یعنی ایک وضو سے جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہے تیمم سے بھی اتنی پڑھی جا سکتی ہیں۔
➌ بعض لوگ اس حدیث کی رو سے تیمم سے رفع حدث کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک صرف نماز مباح ہوتی ہے، جب نماز سے فارغ ہو گا تو پھر پہلے کی طرح بےوضو یا جنبی شمار ہو گا۔ پہلا مسلک احناف کا ہے، ان کے نزدیک ایک تیمّم سے جب تک تیمّم قائم رہے کئی فرائض ادا ہو سکتے ہیں۔ سعد بن مسیّب، حسن بصری، زہری اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ تیمّم سے طہارت کاملہ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس سے جو طہارت حاصل ہوتی ہے اس کی حیثیت معذور کی اس طہارت کی طرح ہے جو محض ضرورت کے لیے ایک محدود مدت تک حاصل ہوتی ہے اور اس سے صرف ایک ہی فرض (جس کے لیے تیمّم کیا گیا ہو) ادا ہو سکتا ہے۔
➍ ترمذی میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث، جس کا حوالہ دیا گیا ہے، اس طرح ہے: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو جب مدینہ منورہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اونٹوں میں رہنے کا حکم فرمایا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اونٹوں میں رہنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد ابوزر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوذر تو تباہ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ جنابت لاحق ہو جاتی ہے اور میرے پاس پانی نہیں ہوتا (کیا کروں؟) ارشاد ہوا: جسے پانی نہ ملے اس کے لیے مٹی پاک کرنے کا ذریعہ ہے اگرچہ دس سال تک یہی حال رہے۔ ترمذی کی روایت میں اختصار ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: [سنن أبى داود، الطهارة، باب الجنب يتيمم، حديث: 332، 333]

راویٔ حدیث: (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ) را پر تشدید ہے۔ نام ان کا جندب بن جنادہ تھا۔ جنادہ میں جیم پر ضمہ ہے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو زاہد اور دنیا سے بےرغبت تھے۔ مکہ میں ابتدائے اسلام ہی میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوئے۔ مقام ربذہ میں رہائش رکھی، اور وہیں پر 32 ہجری میں وفات پائی۔ بہت متقی، پرہیزگار اور اللہ پر توکل کرنے والے تھے۔
246

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.