الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 216  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]

لغوی تشریح:
«يُحَاذِيّ» «يُقَابِلُ» کے معنی میں ہے، یعنی بالمقابل یا برابر۔
«ثُمَّ يُكَبِّر» افتتاح صلاۃ کے وقت پہلے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر اللہ اکبر کہتے۔ اس کے برعکس پہلے تکبیر، پھر رفع الیدین اور تکبیر کے ساتھ ہی رفع الیدین کا ذکر بھی حدیث میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس فعل میں وسعت ہے۔ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت جسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور مصنف نے اسی پر انحصار کیا ہے، اس میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع الیدین کا ذکر ہے۔
«نَحْوَ حَدِيث ابْنِ عُمَر» یعنی جس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں تین مواقع پر رفع الیدین ثابت ہے اسی طرح اس میں ہے۔
«فُرُوع أُذُنَيْهِ» کانوں کے اطراف، یعنی اوپر والے کنارے۔ یہ اس روایت کے مخالف ہے جس میں رفع الیدین کندھوں تک کرنے کا ذکر ہے۔ دونوں روایتوں میں تطبیق و موافقت اس طرح ہے کہ ہاتھوں کی ہتھیلیاں تو کندھوں کے برابر اور انگلیوں کے پورے کانوں کے مقابل تک اٹھائے جائیں۔ یہ تطبیق اچھی ہے۔ اور اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے توسع پر محمول کیا جائے کہ کبھی کانوں کے برابر اور کبھی کندھوں کے برابر اٹھائے۔

فوائد و مسائل:
➊ تین جگہوں پر رفع الیدین کی احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ جس کی مساوات و برابری نہیں کی جا سکتی اور اس قدر صحت کے ساتھ ثابت ہیں کہ رد نہیں کی جا سکتیں۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین مسنون ہے۔
➋ بعض احادیث سے دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کی ابتدا میں بھی رفع الیدین ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحيح البخاري، الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث: 739، ومسند أحمد: 145/2، وسنن أبى داود، الصلاة، باب من ذكر أنه يرفع يديه إذا قام من الثنتين، حديث: 743، 744]
اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا اسی پر عمل ہے۔ امام شافعی، احمد، ابوثور، ابن مبارک، اسحاق بن راہویہ اور صحیح روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے، بلکہ زاد المعاد اور التلخیص الحبیر وغیرہ میں مروی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم تادم زیست رفع الیدین کرتے رہے۔ خلفائے راشدین بلکہ باقی عشرہ مبشرہ سے بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ اس کے برعکس رفع الیدین نہ کرنے کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں۔ جس کی تفصیل [فتح الباري، التلخيص الحبير اور جلاء العينين فى تخريج روايات البخاري فى جزء رفع اليدين] وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی شہادت اس مسئلے میں اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہمیشہ عمل رہا۔
چنانچہ منقول ہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے بعد 9 ہجری میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ [البداية والنهاية: 75/5، وشرح العيني على صحيح البخاري: 43/9] اور پھر واپس اپنے ملک چلے گئے۔ آئندہ سال جب دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا۔ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کپڑوں کے نیچے سے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ یہ 10 ہجری کے آخری مہینے تھے۔ اس کے بعد 11 ہجری میں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ زندگی کے آخری حصے تک رفع الیدین کرتے رہے۔ یہ عمل منسوخ ہوا نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ کوفے کے علاوہ باقی تمام بلاد اسلامیہ میں اس پر عمل رہا۔ فقہائے اسلام کی اکثریت نے اس کو پسند کیا ہے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی، موطا امام مالک، مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند أحمد، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مسند ابی عوانہ، سنن دارقطنی اور سنن کبری بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔
253

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.