الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 164  
´عدم واقفیت، ابر آلودگی یا دیگر کسی سبب کے باعث سمت قبلہ صحیح طور پر معلوم نہ ہونے پر نماز`
«. . . وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم في ليلة مظلمة فاشكلت علينا القبلة فصلينا . . .»
. . . سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک تاریک و اندھیری رات میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، قبلہ کا رخ شناخت کرنا ہم پر دشوار و مشکل ہو گیا۔ ہم نے (اندازاً قبلہ کا رخ متعین کر کے) نماز پڑھ لی . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 164]

لغوی تشریح:
«مُظْلِمَةٍ» میم پر ضمہ اور لام مکسور ہے۔ تاریک رات۔
«فَأَشْكَلْتُ» مشتبہ ہو گئی۔
«تُوَلُّوْا» رخ کرو گے۔
«فَثَمَّ» ثا پر فتحہ اور میم پر تشدید اور فتحہ ہے۔ اس کے معنی ہیں: وہاں۔

فوائد و مسائل:
➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إرواء الغليل، رقم: 291] بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عدم واقفیت، ابر آلودگی یا دیگر کسی سبب کے باعث سمت قبلہ صحیح طور پر معلوم نہ ہو سکے اور آدمی اپنی دانست کے مطابق غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس اندازے میں اگر غلطی ہو جائے تو معاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا» [البقرة 2: 286] اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلّف نہیں ٹھہراتا۔
➋ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وقت نکلنے سے پہلے اور بعد میں ہر صورت میں اعادہ واجب ہے کیونکہ قبلہ رخ ہونا فرض ہے، نیز وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔
➌ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس بنا پر ضعیف کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں اشعث بن سعید راوی ضعیف قرار دیا گیا ہے، مگر امام ترمذی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت كتاب الصلاة، باب ماجاء فى الرجل يصلي۔۔۔، حديث: 345 ميں لکھتے ہیں: اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے، پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔
➍ اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کو چاہیے کہ دوران نماز ہی میں قبلہ رخ ہو جائے جیسا کہ اہل قبا نے تحویل قبلہ کی خبر سن کر نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا، اور باقی نماز صحیح سمت ہو کر مکمل کر لے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ) قبیلہ عنز بن وائل میں سے ہیں۔ بکر اور تغلب جو وائل کے بیٹے تھے، عنز ان کا بھائی تھا۔ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں سے شرف یاب ہوئے۔ غزوہ بدر اور دیگر تمام معرکوں میں داد شجاعت دیتے رہے۔ ان کے سن وفات میں اختلاف ہے۔ 32، 33 یا 35 ہجری میں سے کسی سن میں وفات پائی۔
307

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.