الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 70  
´اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے`
«. . . وعن جابر بن سمرة رضى الله عنه ان رجلا سال النبى صلى الله عليه وآله وسلم:اتوضا من لحوم الغنم؟ قال: ‏‏‏‏إن شئت ‏‏‏‏ قال: اتوضا من لحوم الإبل؟ قال: ‏‏‏‏نعم . . .»
. . . سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کیا میں بکری کا گوشت کھاؤں تو بعد میں وضو کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دل چاہے تو کر لو۔ اس شخص نے پھر عرض کیا اور اونٹ کے گوشت سے؟ فرمایا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیئے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 70]

لغوی تشریح:
«أَتَوَضَّأُ» ہمزہ استفہام اس جگہ محذوف ہے اور یہ واحد متکلم کا صیغہ ہے۔
«مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ» بکری کا گوشت کھانے کی وجہ سے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اسے کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے۔ اکثر اصحاب حدیث کی رائے یہی ہے۔ اس کے گوشت کے ناقض وضو ہونے کی حکمت اور سبب معلوم ہونا ضروری نہیں کیونکہ تعبدی احکام کی حکمت کا عقل میں آنا ضروری نہیں۔
➋ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین [1؍147] میں اس کی بڑی عمدہ اور معنوی اعتبار سے بڑی معقول وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: روایات میں آیا ہے کہ ہر اونٹ کی کوہان پر شیطان ہوتا ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اونٹ جنوں میں سے ہیں اور انہیں سے پیدا کیے گئے ہیں، لہٰذا ان میں قوت شیطانیہ ہوتی ہے اور کھانے والے کی مشابہت کھانے کے ساتھ ہو گی، اس لیے جب کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھائے گا تو اس میں ازخود قوت شیطانیہ پیدا ہو گی۔ اور شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے سے بجھایا جاتا ہے۔ حدیث مذکور بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے۔ جب بندہ اونٹ کا گوشت کھا کر بعد میں وضو کرے گا تو اس کے وضو میں وہ چیز شامل ہو گی جو اس شیطانی قوت کو بجھائے گی اور ایسی صورت میں یہ فساد انگیز چیز زائل ہو جائے گی۔
➌ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ائمہ اہل سنت میں اختلاف ہے۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ وغیرہ محدثین علماء کا یہی مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو برقرار نہیں رہتا۔ بیہقی اور تمام اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کسی بھی حلال جانور کے گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک وضو برقرار رہتا ہے۔ ان کی دلیل ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حبان وغیرہ کی روایت ہے۔ [سنن ابي داؤد، الطهارة، باب فى ترك الوضوء ممامست النار، حديث: 187] یہ حضرات اس حدیث میں بیان ہونے والے وضو سے ہاتھ منہ دھونا مراد لیتے ہیں جس طرح خور و نوش سے فارغ ہو کر ہاتھ منہ دھویا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک وضو کے لغوی معنی مراد ہوں گے، اصطلاحی معنی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری حکم یہ ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ وغیره کا مسلک دلیل کے اعتبار سے مضبوط ہے۔ ابوداؤد وغیر کی حدیث عام ہے اور صحیح مسلم کی یہ حدیث خاص اونٹ کے بارے میں ہے، اس لیے خاص حکم، عام حکم سے مقدم ہے، نیز ایک شرعی لفظ وضو کو بلا دلیل لغوی معنی پر محمول کرنا بھی درست نہیں۔
382

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.