الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 81  
´مقامات اور جگہیں ایسی ہیں جہاں رفع حاجت کرنے کی ممانعت ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏اتقوا اللعانين: الذي يتخلى في طريق الناس،‏‏‏‏ او في ظلهم . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے اجتناب کرو، ایک لوگوں کے راستہ میں۔ دوسرا (ان کے بیٹھنے آرام کرنے کی) سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرنے سے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 81]

لغوی تشریح:
«اِتَّقُوْا» پرہیز کرو، اجتناب کرو۔
«لَاعِنَیْنِ» «لَاعِنٌ» سے تثنیہ ہے۔ اس کا مطلب ہے: ان دو امور سے اجتناب کرو جو لعنت کا سبب بنتے ہیں۔ اس کا بھی احتمال ہے کہ «لَاعِن» سے مراد صاحب لعن ہو۔ جیسے «صَاحِبُ اللَّبَن» کو «لَابِن» اور «صَاحِبُ التَّمر» کو «تَامِر» کہہ دیتے ہیں۔ (اسی کو فاعل ذی کذا کہتے ہیں)۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «لَاعِنٌ»، «مَلْعُوْنٌ» کے معنی میں ہے۔
«اَلَّذِي یَتَخَلّٰی» جو قضائے حاجت، یعنی پاخانہ کرتا ہے۔
«فِي طَرِیْقِ النَّاسِ» لوگوں کے عام آمد و رفت کے راستے میں۔ یہ لعنت کے اسباب میں سے ایک ہے۔ اور دوسرا «أَوْفِي ظِلِّھِمْ» وہ مقام اور جگہ جہاں لوگ سایہ حاصل کرتے ہوں، قیلولہ کے لیے استعمال میں لاتے ہوں، اپنے اترنے اور آرام کی خاطر بیٹھنے کے لیے استعمال کرتے ہوں۔ اس سے مطلق سایہ مراد نہیں ہے کیونکہ جس سائے کی لوگوں کو ضرورت نہ ہو وہاں قضائے حاجت میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔
«اَلْمَلَاعِنَ» «مَلْعَنٌ» کی جمع ہے۔ میم پر فتحہ ہے۔ ایسی جگہیں جو لعنت کا موجب ہوں۔
«اَلثَّلَاثَةُ» ملاعن کی صفت ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔
«اَلْبَرَاز» با پر فتحہ ہے۔ اور براز اصل میں کھلی اور وسیع جگہ کو کہتے ہیں، مگر یہ «اَلْغَائِط»، یعنی پیٹ سے بذریعہ مقعد خارج ہونے والے فضلے سے کنایہ ہے۔ اگر «اَلْبَرَاز» کو منصوب پڑھیں تو اس صورت میں «ملاعن» سے بدل ہو گا اور اگر اسے مرفوع پڑھیں تو پھر یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے۔
«فِي الْمَوَارِدِ» مورد کی جمع ہے۔ اس جگہ، چشمے یا نہر وغیرہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ پانی پینے یا پلانے یا وضو اور غسل وغیرہ کے لیے پانی لینے جاتے ہیں (جنہیں گھاٹ کہتے ہیں)۔
«قَارِعَةِ الطَّرِیقِ» ایسے کھلے راستے کو کہتے ہیں جہاں سے لوگ گزرتے ہوں اور اپنے جوتے، پاؤں اور سواریوں کے ذریعے سے اسے پامال کرتے ہوں۔
«أَوْ نَقْعِ مَاءٍ» نون پر فتحہ اور قاف ساکن ہے۔ جمع شدہ پانی یا پانی کے جمع ہونے کی جگہ۔
«فِیْھِمَا ضَعْفٌ» اس سے مراد ہے کہ سیدنا معاذ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی دونوں روایات ضعیف ہیں۔
◈ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت تو اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اس کو ابوسعید حمیری، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے، حالانکہ وہ ان کو ملا تک نہ تھا، لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔
◈ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت کے ضعیف ہونے کے دو سبب ہیں: ایک تو یہ کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ہے، جب اس کی کتابیں جل گئیں تو اس نے روایات کو خلط ملط کرنا شروع کردیا۔ اور دوسرا سبب یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو راوی روایت کرتا ہے وہ مبہم ہے۔ اس کا نام نہیں لیا گیا۔
«تَحْتَ الْأَشْجَارِ الْمُثْمِرَةِ» پھل دار درختوں کے نیچے گندگی کرنے سے۔ یہ اس خطرے کی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ جو پھل پک کر نیچے گرے گا وہ گندگی سے ملوث ہو کر گندا ہو جائے گا اور کھانے اور استعمال کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ یہاں سے گزرنے والا نادانستگی میں اسے اٹھائے یا کسی اور ضرورت و حاجت کے لیے یہاں سے گزرے تو ان گندگیوں سے اذیت پائے گا۔
«ضَفَّةِ النَّھْرِ» ضاد پر فتحہ اور فا پر تشدید ہے۔ کنارے اور ساحل کو کہتے ہیں۔ اور اس کا سبب بھی وہی ہے کہ لوگ اس سے اذیت و تکلیف اٹھائیں گے۔
«بِسَنَدٍ ضَعِیْفٍ» اس کی سند میں فرات بن سائب متروک راوی ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی ضعیف ہے۔

فوائد ومسائل:
➊ صحیح مسلم کی روایت کے علاوہ دیگر روایات سنداً کمزور ہیں تاہم شواہد کی بنا پر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔
➋ ان احادیث میں قضائے حاجت کے آداب کی تعلیم دی گئی ہے۔
➌ پانچ مقامات اور جگہیں ایسی ہیں جہاں رفع حاجت کرنے کی ممانعت ہے اور وہ یہ ہیں: عام راستے پر، سایہ دار درخت کے نیچے، پانی کے گھاٹ پر، پھل دار درخت کے نیچے اور رواں دواں نہر کے کنارے پر۔ شارع عام پر رفع حاجت ممنوع ہے، البتہ جو راستہ متروک ہو چکا ہو، عام گزرگاہ نہ رہی ہو تو وہاں گنجائش ہے۔

راویٔ حدیث: (سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ) آپ انصاری صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے تعلق تھا، اس لیے خزرجی کہلائے۔ بڑے معزز اور بزرگ فقہائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور غزوہ بدر وغیرہ میں شریک ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا والی (گورنر) بنایا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بعد شام کا والی مقرر کیا۔ 17 ہجری میں طاعون عمواس میں اور ایک قول کے مطابق 18 ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 38 سال تھی۔
392

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.