مولانا داود راز رحمہ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 10  
´ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 10]

تشریح:
امیر المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگر حاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں، نہ اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔
«جراحات السنان لها التيام ٭ ولايلتام ماجرح اللسان»
یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھر سکتے۔

«من سلم المسلمون» کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مسلمانوں کو زبان یا ہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں «من امنه الناس» کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ و اخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی «سلم» ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بد داخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مار پیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ تو عوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جو دارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہر جگہ جاری رہے گی۔

حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دو تعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہر دو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے «عن عامر قال سمعت عبدالله بن عمرو» کے الفاظ نقل کئے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سماع ثابت ہو گیا۔

دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں «عبدالله» کو غیر منتسب ذکر کیا گیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں «عن عبدالله بن عمرو» کی صراحت کر دی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو عاص مراد ہیں۔
691

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.