مولانا داود راز رحمہ اللہ
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 578  
´نماز فجر کا وقت`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: "كُنَّ نِسَاءُ الْمُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلَاةَ لَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الْغَلَسِ " . . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْفَجْرِ:: 578]

تشریح:
امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہو جایا کرتی تھی۔ لفظ «غلس» کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت «غلس» اور آخر وقت «اسفار» معلوم ہو جائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔

جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
«عن ابي مسعود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلوٰة الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخري فاسفربها ثم كانت صلوٰته بعد ذالك التغليس حتي مات ولم يعدالي ان يسفر رواه ابوداؤد ورجاله فى سنن ابي داؤد رجال الصحيح۔»
یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر «غلس» (اندھیرے) میں پڑھائی اور پھر ایک مرتبہ «اسفار» (یعنی اجالے) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو «اسفار» یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔

حدیث عائشہ کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«والحديث يدل على استحباب المبادرة بصلوٰة الفجر فى اول الوقت وقد اختلف العلماءفي ذلك فذهب العترة ومالك والشافعي و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعي وداؤد بن على وابوجعفر الطبري وهوالمروي عن عمروبن عثمان وابن الزبير وانس وابي موسيٰ وابي هريرة الي ان التغليس افضل وان الاسفار غيرمندوب وحكي هذاالقول الحازمي عن بقية الخلفاءالاربعة وابن مسعود وابي مسعود الانصاري واهل الحجاز واحتجوا بالاحاديث المذكورة فى هذاالباب وغيرها ولتصريح ابي مسعود فى الحديث بانها كانت صلوٰة النبى صلى الله عليه وسلم التغليس حتيٰ مات ولم يعدالي الاسفار۔» [نيل، ج2، ص: 19]
خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز «غلس» یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اور خلفائے اربعہ اور اکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، و اہل بیت نبوی اور دیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک «غلس» ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اور سارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: «عن مغيث بن سمي قال صليت مع عبدالله بن الزبير الصبح بغلس فلما سلم اقبلت على ابن عمر فقلت ماهذه الصلوٰة قال هذه صلوٰتنا كانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر فلما طعن عمر اسفربها عثمان و اسناده صحيح۔» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 144]
یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز «غلس» میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز «غلس» ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیا گیا تو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔

اس سے بھی ظاہر ہوا کہ نماز فجر کا بہترین وقت «غلس» یعنی اندھیرے ہی میں پڑھنا ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس کے لیے «اسفار» یعنی اجالے میں پڑھنا بہتر مانا گیا ہے۔ مگر دلائل واضحہ کی بنا پر یہ خیال درست نہیں۔

حنفیہ کی دلیل رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مذکور ہے کہ «اسفروا بالفجر فانه اعظم للاجر» یعنی صبح کی نماز اجالے میں پڑھو اس کا ثواب زیادہ ہے۔ اس روایت کا یہ مطلب درست نہیں کہ سورج نکلنے کے قریب ہونے پر یہ نماز ادا کرو جیسا کہ آج کل حنفیہ کا عمل ہے۔ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام ترمذی نے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں: «وقال الشافعي واحمد واسحاق معنى الاسفار ان يضح الفجر فلايشك فيه ولم يروا ان معنى الاسفار تاخيرالصلوٰة» یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ واحمد و اسحاق فرماتے ہیں کہ یہاں «اسفار» کا مطلب یہ ہے کہ فجر خوب واضح ہو جائے کہ کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اور یہ معنی نہیں کہ نماز کو تاخیر کر کے پڑھا جائے (جیسا کہ حنیفہ کا عام معمول ہے) بہت سے ائمہ د ین نے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ نماز فجر کواندھیرے میں «غلس» میں شروع کیا جائے اور قرات اس قدر طویل پڑھی جائے کہ سلام پھیرنے کے وقت خوب اجالا ہو جائے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ [تفہیم البخاری، پارہ3، ص: 33] حضرت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں بھی یہی تفصیل بیان کی ہے۔

یادرکھنے کی باتیں:
یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت و افضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہر شخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت «غلس» اور آخر وقت طلوع شمس ہے اور درمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام و خواص برادران پر جو کبھی «غلس» میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر «غلس» میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بنا پر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اور ایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خود اکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ «غلس» کا عمل رہا ہے۔

دیوبند میں نماز فجر غلس میں:
صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیا ہے، اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینوں میں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعد فوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہو کر سو نہ جائیں۔ اور نماز ہی فوت ہو جائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہد سے اس پر عمل رہا ہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہو جاتی ہے۔ [تفہیم بخاری، پ3، ص: 34]

محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایا ہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ «غلس» میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان و غیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔

بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کر لیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہو سکیں اور سردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔

بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اور اسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔
735

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.