فوائد و مسائل اردو الفاظ سرچ
فوائد و مسائل میں اردو لفظ / الفاظ تلاش کیجئیے۔
تلاش کیجئیے: رزلٹ فی صفحہ:
منتخب کیجئیے: فوائد و مسائل میں کوئی بھی ایک لفظ ہو۔ فوائد و مسائل میں لازمی تمام الفاظ آئے ہوں۔
نوٹ: اگر ” آ “ پر کوئی رزلٹ نہیں مل رہا تو آپ ” آ “ کو + Shift سے لکھیں یا اس صفحہ پر دئیے ہوئے ورچول کی بورڈ سے ” آ “ لکھیں مزید اگر کوئی لفظ نہیں مل رہا تو اس لفظ کے پہلے تین حروف تہجی کے ذریعے سٹیمنگ ٹیکنیک کے ساتھ تلاش کریں۔
سبمٹ بٹن پر کلک کرنے کے بعد کچھ دیر انتظار کیجئے تاکہ ڈیٹا لوڈ ہو جائے۔


نتائج
نتیجہ مطلوبہ تلاش لفظ / الفاظ: اسحاق سلفي
6 رزلٹ جن میں تمام الفاظ آئے ہیں۔ 53 رزلٹ جن میں کوئی بھی ایک لفظ آیا ہے۔
... الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله فوائد و مسائل تحت الحديث سنن ابن ماجه 2024 ...
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  2k
... الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله فوائد و مسائل تحت الحديث سنن ترمذي 1074 ...
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  7k
... الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله فوائد و مسائل تحت الحديث سنن ابي داود 76 ...
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  2k
... الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله فوائد و مسائل تحت الحديث سنن ترمذي 2517 ...
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  2k
... الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله فوائد و مسائل تحت الحديث سنن ابي داود 3785 ...
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  5k
... الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله فوائد و مسائل تحت الحديث سنن ترمذي 3451 ...
Terms matched: 2  -  Score: 22  -  14k
... یہ حدیث بھی صحیح ہے اور اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ اس کو ترمذی اور دارقطنی نے حسن [الاحسان فى تقريب صحيح ابن حبان 86/5] اور بیہقی نے صحيح [بيهقي فى السنن 164/2] اور حاکم نے اسناده مستقيم [حاكم فى المستدرك: 238/1] اور خطابی نے اسناده جيد لا مطعن فيه [معالم السنن: 177/1] اور ابن حجر نے رجاله ثقات [دراية لابن حجر:164/1] اور مولانا عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ نے صحيح قوي السند [السعايه:303/2] کہا ہے اعتراض: اگر کوئی کہے کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے اور وہ متکلم فیہ ہے جواب: جواب اس کا یہ ہے کہ ابن اسحاق کے متعلق جتنی جرحیں نقل شدہ ہیں وہ سب مرفوع ہیں اور حق یہ ہے کہ وہ بالکل ثقہ ہے اور ان کی توثیق کے متعلق علماء حنفیہ کی کتب کی طرف رجوع کیجئے مثلاً: فتح القدیر لابن الہمام محلیٰ شرح المؤطا للشیخ سلام اللہ الدہلوی اور سعایہ للمولانا عبدالحی اللکھنوی شهد شاهد بن اهلها اعتراض: اگر کوئی کہے کہ محمد بن اسحاق مدلس بھی ہے جواب: اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ حدیث سنن دارقطنی اور بیہقی اور مسند احمد میں دوسری سند سے مروی ہے جس میں ابن اسحاق نے اپنے استاذ مکحول سے سماع کی تصریح کی ہے اور کہا ہے ...
Terms matched: 1  -  Score: 53  -  4k
... ابی السفر (لعلہ یوسف بن السفر: کاتب الاوزاعی) کذاب تھا اور وہ (ولید بن مسلم) کہتے: اوزاعی نے کہا [تاريخ دمشق 66 212 وسنده صحيح] اس قول کی سند صحیح ہے اور راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے: ابوالقاسم بن السمرقندی شیخ ابن عساکر ثقہ تھے دیکھئے [سير اعلام النبلاء 20 28- 31] ابوالفضل بن البقال ثقہ تھے دیکھئے [المنتظم 16 2 3 2 4 ت3495 وفيات 471ه] ابوالحسین بن بشران صدوق تھے دیکھئے [سير اعلام النبلاء 17 312] عثمان بن أحمد عرف ابن السماک ابوعمر والدقاق ثقہ و صدوق تھے دیکھئے [لسان الميزان 4 131- 132 دوسرا نسخه 4 588- 590] حنبل بن اسحاق ثقہ تھے ہمارے عربی دوست اور الشیخ الصالح ابوجابر عبداللہ بن محمد بن عثمان الانصاری المدنی حفظہ اللہ نے تین جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے: القول النفيس فى براءة الوليد بن مسلم من التدليس اس کتاب میں حنبل بن اسحاق کے بارے میں ابوجابر الانصاری المدنی حفظہ اللہ نے سیوطی سے نقل کیا:... له تاريخ حسن وغيره وله عن أحمد سؤالات يأتي فيها بغرائب ويخالف رفاقه... "اس کی تاریخ اچھی ہے وغیرہ اور اس نے أحمد بن حنبل سے سوالات کئے جن میں وہ غرائب لاتا تھا اور اپنے رفقاء کی مخالفت کرتا تھا" [بحواله طبقات الحفاظ ص272 ت611] اور حافظ ذہبی کی [سير اعلام النبلاء 13 52] سے ...
Terms matched: 1  -  Score: 45  -  10k
... تحقیق الحدیث: یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے سنن ترمذی والی روایت میں اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ القرشی التیمی ضعیف ہے [ديكهئے تقريب التهذيب: 39] امام ترمذی نے اسی مقام پر فرمایا: یہ حدیث غریب ہے اور اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ ان (محدثین) کے نزدیک القوی نہیں ہے اس کے حافظے کے بارے میں کلام کیا گیا ہے [جامع ترمذي ص598 بتحقيق الالباني] اُس پر امام أحمد بن حنبل وغیرہ نے شدید جرح کی ہے سنن ابن ماجہ [253] والی روایت میں حماد بن عبدالرحمٰن ضعیف [تقريب التهذيب: 1502] اور ابوکرب الازدی مجہول ہے [تقريب التهذيب: 8326] سنن ابن ماجہ [254] وغیرہ میں ابن جريح عن ابي الزبير عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه کی سند سے آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تعملوا العلم لتباهوا به العلماء ولا لتماروا به السفهاء ولا تخيروا به المجالس فمن فعل ذلك فالنار النار. اس کی سند ابن جریح اور ابوالزبیر دو مدلسوں کے عن عن کی وجہ سے ضعیف ہے سنن ابن ماجہ میں ہی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك فهو فى النار. [ح259] اس روایت کی سند میں بشیر بن میمون: ...
Terms matched: 1  -  Score: 41  -  4k
... ' ایک آدمی نے اکیلے صف کے پیچھے نماز ادا ی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم فرمایا" [جامع الترمذي: 230 سنن أبى داود: 682 سنن ابن ماجه: 1004 مسند الإمام أحمد: 228/4 مسند الدارمي: 815/2 ح: 1322 وسنده صحيح]* اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے '' حسن"جبکہ امام ابن جارود [319] اور امام ابن حبان [الموارد: 405] رحمہ اللہ نے '' صحیح" کہا ہے* امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد ثبت هذا الحديث احمد واسحاق '' اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ نے صحیح قرار دیا ہے" [الاوسط فى السنن والاجماع والاختلاف لابن المنذر:184/4] دلیل نمبر 2: سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فانصرف فراى رجلا يصلي فردا خلف الصف فوقف نبي الله صلى الله عليه وسلم حتي انصرف الرجل من صلاته ف قال له: "استقبل صلاتك فلا لفرد خلف الصف" '' آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نماز سے فارغ ہونے تک اس کے پاس کھڑے ہو گئے پھر (جب اس نے سلام پھیرا تو) اس سے ...
Terms matched: 1  -  Score: 35  -  32k
... ساتھ رفع الیدین کرو" [احكام العيدين للفريابي: 136 وسنده صحيح] امام مالک رحمہ اللہ: امام مالک بن انس رحمہ اللہ (93-179ھ) سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: نعم ارفع يديك مع كل تكبيرة ولم اسمع فيه شيئا "ہاں ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو میں نے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں سنا" [احکام العیدین للفریابی: ۱۳۷ وسندہ صحیح] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164-241ھ) فرماتے ہیں: يرفع يديه فى كل تكبيرة "ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرے گا" [مسائل الامام احمد بروايه ابي داؤ د: 87] امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (161 238ھ) کا بھی یہی مذہب ہے [مسائل الامام احمد و اسحاق: 4054/8 م: 2890] ...
Terms matched: 1  -  Score: 31  -  5k
... تحقیق الحدیث: اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اسے ترمذی نے "حسن غریب" اور ابن حبان [الاحسان: 7031] نے صحیح قرار دیا ہے یہ حدیث امام بیہقی کی کتاب اثبات عذاب القبر [ح54 55 بتحقيقي] میں بھی عبدالرحمٰن بن اسحاق المدنی کی سند سے موجود ہے اور عبدالرحمٰن المدنی بقولِ راجح حسن الحدیث ہیں فقہ الحدیث: مرنے والے سے قبر میں منکر نکیر دو فرشتوں کا سوال کرنا برحق ہے سوال و جواب کے وقت ان فرشتوں کو اس لئے ڈراؤنی شکل میں بھیجا جاتا ہے تاکہ میت کو اپنی گزشتہ زندگی کا احساس اور اللہ کا خوف ہو مومن اللہ کے فضل سے محفوظ رہتا ہے هذا الرجل سے حاضر نہیں بلکہ غائب مراد ہے کیونکہ مومن کہتا ہے: هُوَ وہ یہ صیغۂ غائب ہے هذا الرجل سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائے جاتے ہیں صحیح حدیث میں آیا ہے کہ میت اس سوال کے جواب میں کہتی ہے: اي رجل کون سا آدمی [ديكهئے المستدرك للحاكم 3801/1 ح1709 وسنده حسن و صحيح ابن حبان الاحسان: 3119/3103و صححه الحاكم و وافقه الذهبي] اگر قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا تو مرنے والا یہ کبھی نہ پوچھتا کون سا آدمی آج کل ولاتليتَ سے بعض تقلیدی لوگ تقلید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد کتاب اللہ کی تلاوت یا انبیاء کرام ...
Terms matched: 1  -  Score: 27  -  5k
... تحقیق الحدیث: اس کی سند حسن ہے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے [مسند أحمد 182/5 ح 21589] اور اسحاق بن سلیمان الرازی وغیرہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے اس روایت کو ابن حبان [الاحسان: 727 الموارد: 1817] نے صحیح قرار دیا ہے ابوسنان سعید بن سنان البرجمی الشیبانی حسن الحدیث ہیں جمہور محدثین نے انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے فقہ الحدیث تقدیر پر ایمان لائے بغیر قیامت کے دن نجات نہیں ہو گی صحابہ کرام کا یہ (اجماعی) عقیدہ تھا کہ تقدیر برحق ہے آدمی کو چاہئیے کہ وہ مسلسل تحقیق میں مشغول رہے اور جب بھی دلیل ملے تو اسے مضبوطی سے تھام لے ایک عالم سے مسئلہ پوچھنے کے بعد دوسرے عالم سے بھی مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے مرفوع حدیث کو بعض راویوں کے موقوف بیان کرنے سے مرفوع حدیث ضعیف نہیں ہو جاتی عقائد میں تمام اہل حق متحد ہیں اختلاف تو صرف اجتہاد ی مسائل میں ہے اگر کسی آدمی کو اہلِ بدعت اپنی چرب زبانی کی وجہ سے شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کریں تو علمائے حق کی طرف رجوع کرنا چاہئیے سلف صالحین کا فہم وہ مشعل ہے جس کی وجہ آدمی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے علمائے حق کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلہ بیان کرتے وقت ضرور بالضرور دلیل بیان کریں البتہ دلیل پوچھنے پر ٹال مٹول اور قیل و قال کے بجائے ...
Terms matched: 1  -  Score: 27  -  4k
... تحقیق الحدیث: صحیح ہے دیکھئے حدیث: [اضواء المصابيح: 228- 229] سنن دارمی والی روایت میں یحییٰ بن موسیٰ البلخی ابوسعید عمرو بن محمد العنقزی القرشی الکوفی اور اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی تینوں ثقہ تھے عبدالرحمٰن بن زبید بن الحارث الیامی کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا اور اس پر امام بخاری کی طرف منسوب جرح منکر الحدیث جو امام بخاری سے ثابت نہیں لہٰذا عبدالرحمٰن مذکور مجہول الحال ہے ابوالعجلان کو بقول حافظ ابن حجر عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے لیکن ہمیں یہ حوالہ کتاب الثقات (التاریخ) للعجلی میں نہیں ملا والله اعلم مختصر یہ کہ دارمی والی سند عبدالرحمٰن بن زبید کی جہالت حال وغیرہ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس کے صحیح شواہد ہیں لہٰذا یہ حدیث شواہد کے ساتھ صحیح ہے والحمد لله فائدہ: دارمی والی روایت مذکورہ کو طبرانی نے اسرائيل عن عبدالرحمٰن بن زبيد کی سند سے بیان کیا ہے [ديكهئے جامع المسانيد لابن كثير 13 652 653 ح11187 وفي المطبوع تصحيف] فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے حدیث سنن ترمذی: 2656 تنبیہ: نضر الله امرءًا اور نضر الله امرأً دونوں طرح لکھنا صحیح ہے جبکہ اول الذکر زیادہ فصیح ہے ...
Terms matched: 1  -  Score: 26  -  3k
... المبادرة بصلوٰة الفجر فى اول الوقت وقد اختلف العلماءفي ذلك فذهب العترة ومالك والشافعي و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعي وداؤد بن على وابوجعفر الطبري وهوالمروي عن عمروبن عثمان وابن الزبير وانس وابي موسيٰ وابي هريرة الي ان التغليس افضل وان الاسفار غيرمندوب وحكي هذاالقول الحازمي عن بقية الخلفاءالاربعة وابن مسعود وابي مسعود الانصاري واهل الحجاز واحتجوا بالاحاديث المذكورة فى هذاالباب وغيرها ولتصريح ابي مسعود فى الحديث بانها كانت صلوٰة النبى صلى الله عليه وسلم التغليس حتيٰ مات ولم يعدالي الاسفار [نيل ج2 ص: 19] خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے اور خلفائے اربعہ اور اکثر ائمہ دین امام مالک شافعی احمد اسحاق و اہل بیت نبوی اور دیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اور سارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: عن مغيث بن سمي قال صليت مع عبدالله بن الزبير الصبح بغلس فلما سلم اقبلت على ابن عمر فقلت ماهذه الصلوٰة قال هذه صلوٰتنا كانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر فلما طعن عمر اسفربها عثمان و ...
Terms matched: 1  -  Score: 26  -  12k
... و أ كثر فقهاء الكوفيين كسفيان الثوري و محمد بن عبدالرحمن بن أ بي ليلي و أ بي داوٗد وجماهير فقهاء الحديث من المتأ خرين: كابن المنذر وابن خزيمة والخطابي وغيرهم و أ هل الظاهر و أ كثر أ صحاب أ بي حنيفة إ لي جواز المزراعة والمؤ عة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أ صحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين "سنت رسول خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث مثلا امام احمد بن حنبل آ پ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب امام اسحاق بن راہویہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ امام سلیمان بن داؤ د ہاشمی امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب اکثر فقہائے کوفہ جیساکہ امام سفیان ثوری محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد امام بخاری امام ابوداؤ د اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث مثلا امام ابن منذر امام ابن خزیمہ خطابی اور اہل ظاہر امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے" [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29 القواعد النوانية الفقهية: 163] شیخ اسلام ثانی عالم ربانی امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: و قال ابن المنذر: قد جائت الأ خبار عن رافع بعلل تدل على أ ن النهي كان ...
Terms matched: 1  -  Score: 25  -  22k
... فى الصلاة قال يرد بشق رأ سه الايمن "ابومجلز (لاحق بن حمید تابعی) رحمہ اللہ سے ایسے نمازی کے بارے میں سوال کیا گیا جس کو سلام کہا جائے آپ نے فرمایا وہ اپنے سر کی دائیں جانب کے ساتھ (اشارہ کرتے ہوئے) جواب لوٹائے" [مصنف ابن ابي شيبه 73/2 ح: 485 وسنده صحيح] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان شأ أ شاره و أ ما بالكلام فلا يرد "نمازی اگر چاہے تو اشارے سے سلام کا جواب دے دے لیکن زبان سے کلام کر کے جواب نہ لوٹائے"[ مسائل احمد لابي داوّد: ص 37 مسائل احمد لابي هاني 44/1] تنبیہ: امام اسحاق بن راہویہ امام احمد بن حنبل اور امام سفیان الثوری رحمہم اللہ سے روایت ہے ان کا قول ہے: اذا رد عليه استقبل الصلاة [مسائل احمد و اسحاق 83/1] اس قول سے ان ائمہ کی مراد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کو معلوم ہو کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب دینا ممنوع اور منسوخ ہے اس کے باوجود ایسا کرے تو اسے نماز لوٹانی ہو گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر نماز میں کلام کیا ہے ہم بھی یہی کہتے ہیں تنبیہ: اگر حالت نماز میں جہالت کی بنا پر سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہہ دے تو نماز باطل نہیں ہو گی ...
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  4k
... ان سے بے وضو انسان کے قرآن کریم کو پکڑنے کے بارے میں پوچھا گیا تو دونوں کا فتویٰ یہ تھا: إذا كان فى علاقة فلا بأس به. '' جب قرآن کریم غلاف میں ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں" [كتاب المصاحف لابن ابي داود: 762 وسندهٔ صحيح] یعنی بغیر غلاف کے بے وضو چھونا ان صاحبان کے ہاں بھی درست نہیں امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لا يحمل المصحف بعلاقته ولا علٰي وسادة أحد إلا وهو طاهر. '' قرآن پاک کو غلاف کے ساتھ یا تکیے پر رکھ کر بھی کوئی پاک شخص ہی اٹھائے" [الموطا: 199/1] امام شافعی امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا بھی یہی موقف تھا جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وبه قال غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم والتابعين قالوا: يقرا الرجل القرآن على غير وضوء ولا يقرا فى المصحف إلا وهو طاهر وبه يقول سفيان الثوري والشافعي وأحد وإسحاق. '' بہت سے اہل علم صحابہ و تابعین کا یہی کہنا ہے کہ بے وضو آدمی قرآن کریم کی زبانی تلاوت تو کر سکتا ہے لیکن مصحف سے تلاوت صرف طہارت کی حالت میں کرے امام سفیان ثوری امام شافعی امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا یہی مذہب ہے" [سنن الترمذي تحت الحديث: 146] شارح ترمذی علامہ ...
Terms matched: 1  -  Score: 24  -  9k
... تحقیق الحدیث: اس کی سند سخت ضعیف و مردود ہے اور یہ روایت ضعیف ہے اس میں وجہ ضعف دو ہیں: نہشل بن سعید شدید مجروح اور ساقط العدالت راوی ہے اس کے بارے میں امام ابوداود الطیالسی اور امام اسحاق بن راہویہ دونوں نے کہا: كذاب [كتاب الجرح والتعديل 8 496 وسنده صحيح] حاکم نیشاپوری نے کہا: روي عن الضحاك بن مزاحم الموضوعات... اس نے ضحاک بن مزاحم سے موضوعات (موضوع روایتیں) بیان کی ہیں [المدخل الي الصحيح ص218 ت209] یہ روایت بھی ضحاک سے ہے لہٰذا موضوع ہے معاویہ بن سلمہ النصری مجہول الحال ہے اور بعض غیر موثق روایتوں میں اس کی توثیق بھی مروی ہے [اخلاق العلماء للآجري ص92] میں یہی روایت شعيب بن ايوب: أخبرنا عبدالله بن نمير: أخبرنا معاوية النصري. إلخ کی سند سے موجود ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ نہشل اس روایت کے ساتھ منفرد نہیں ہے اس روایت کے سارے شواہد ضعیف ہیں تنبیہ: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من كانت الدنيا همه فرق الله عليه أمره وجعل فقره بين عينيه ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له ومن كانت الآخرة نيته جمع الله له أمره وجعل غناه فى قلبه وأتته الدنيا وهى راغمة. جسے (صرف) دنیا کا ہی غم ہو اللہ اس کے معاملات منتشر کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں ...
Terms matched: 1  -  Score: 15  -  3k
... تحقیق الحدیث: اس کی سند سخت ضعیف و مردود ہے اور یہ روایت ضعیف ہے اس میں وجہ ضعف دو ہیں: نہشل بن سعید شدید مجروح اور ساقط العدالت راوی ہے اس کے بارے میں امام ابوداود الطیالسی اور امام اسحاق بن راہویہ دونوں نے کہا: كذاب [كتاب الجرح والتعديل 8 496 وسنده صحيح] حاکم نیشاپوری نے کہا: روي عن الضحاك بن مزاحم الموضوعات... اس نے ضحاک بن مزاحم سے موضوعات (موضوع روایتیں) بیان کی ہیں [المدخل الي الصحيح ص218 ت209] یہ روایت بھی ضحاک سے ہے لہٰذا موضوع ہے معاویہ بن سلمہ النصری مجہول الحال ہے اور بعض غیر موثق روایتوں میں اس کی توثیق بھی مروی ہے [اخلاق العلماء للآجري ص92] میں یہی روایت شعيب بن ايوب: أخبرنا عبدالله بن نمير: أخبرنا معاوية النصري. إلخ کی سند سے موجود ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ نہشل اس روایت کے ساتھ منفرد نہیں ہے اس روایت کے سارے شواہد ضعیف ہیں تنبیہ: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من كانت الدنيا همه فرق الله عليه أمره وجعل فقره بين عينيه ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له ومن كانت الآخرة نيته جمع الله له أمره وجعل غناه فى قلبه وأتته الدنيا وهى راغمة. جسے (صرف) دنیا کا ہی غم ہو اللہ اس کے معاملات منتشر کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں ...
Terms matched: 1  -  Score: 15  -  3k
... تشریح: مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے فاناخ بعيره على باب المسجد یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارك اللهم نعم کا استعمال فرماتے رہے اللهم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  3k
... مشکل ہے لہٰذا ایک دن مسواک کا متعین کرنا مشکل نہیں باقی دنوں میں بہتر دن جمعہ کا ہے اور جمعہ کو روز خوشبو لگانا صاف ستھرے کپڑے پہننا مشروع ہے اور اسی دن مسواک کا بھی استعمال بہترین عمل میں داخل ہے ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث سے استدلال اور مطابقت (ترجمۃ الباب کی) یہ ہے کہ جب مسواک کرنا پنج وقتہ نمازوں میں ثابت ہوا تو جمعہ کے روز جس میں غسل وغیرہ ہے تو مسواک کرنا بالاولی ثابت ہو گا" [التوضيح ج8 ص421] تنبیہ: مذکورہ بالا حدیث کے پیش نظر ابن حزم رحمہ اللہ اس کے وجوب کی طرف گئے ہیں کہ مسواک کرنا جمعہ کے روز فرض ہے اور محدث اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منقول ہے کہ هو واجب لكل صلاة فمن تركه عامداً بطلت صلاته مسواک کرنا واجب ہے ہر نماز کے لیے پس جس نے جان کر اسے چھوڑ دیا تو اس کی نماز باطل ہو گی [فتح الباري ج8 ص123] لیکن ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس قول کی نسبت ابن راھویہ کی طرف درست نہیں ہے [فتح الباري ج8 ص123] لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح سے ہوئی کہ عام نمازوں میں مسواک کرنا مشروع ہے تو جمعہ کے روز بھی بالاولی مشروع ہو گا کیونکہ اس دن نظافت غسل اور عطر کے استعمال کی خاص ترغیب موجود ہے تیسری حدیث جو سیدنا حذیفہ رضی ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  9k
... فى صحيحه: الاحسان ح6549 6550 دوسرا نسخه: 6583 6584] ابوعوانه [فى الطب/ اتحاف المهرة 17 319 ح22316] الطحاوي [مشكل الآ ثار/ تحفة الاخيار 6 609 ح4788] الطبراني [الاوسط: 5922] البيهقي [السنن الكبريٰ 8 135 دلائل النبوة 6 247] ابن سعد [الطبقات 2 196] ابن جرير الطبري [فى تفسيره 1 366 367] البغوي [شرح السنة 12 185 186 ح3260 وقال: هذا حديث متفق على صحته] امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے اسے درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے: أحمد بن حنبل [المسند 6 50 57 63 96] الحميدي [260 بتحقيقي ابن ابي شيبه المصنف 7 388 389 ح23509] اسحاق بن راهويه [المسند قلمي ص86أ ح737] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت مشہور ثقہ امام و تابعی عروہ بن زبیر نے بیان کی ہے عروہ سے ان کے صاحب زادے ہشام بن عروہ (ثقہ امام) نے یہ روایت بیان کی ہے فائدہ: ہشام بن عروہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے [صحيح بخاري: 3175] فائدہ: ہشام سے یہ روایت انس بن عیاض المدنی [صحيح بخاري: 2691] اور عبدالرحمٰن بن ابی الزناد المدنی [صحيح بخاري: 5763 تفسير طبري 1 366 367 وسنده حسن] وغیرہما نے بھی بیان کی ہے والحمدلله اس روايت كي تائيد كے لئے ديكهئے: مصنف عبدالرزاق [19764] وصحيح بخاري [قبل ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  6k
... پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حدیث سے معلوم ہوا ب"عض لوگ اغلام کرتے تھے" SH تبصرہ: صحیح بخاری میں لکھا ہوا ہے کہ: حدثني إسحاق: أخبرنا النضر بن شميل: أخبرنا ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر رضي الله عنهما إذا قرأ القرآ ن لم يتكلم حتي يفرغ منه فأخذت عليه يومًا فقرأ سورة البقرة حتي انتهي إلى مكان قال: تدري فيما أنزلت قلت: لا قال: أنزلت فى كذا وكذا ثم مضي وعن عبدالصمد: حدثني أبى: حدثني أيوب عن نافع عن ابن عمر فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ قال: يأيتها فى. رواه محمد بن يحيٰي بن سعيد عن أبيه عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر. ہمیں اسحاق (بن راہویہ) نے حدیث بیان کی: ہمیں نضر بن شمیل نے خبر دی: ہمیں (عبداللہ) ابن عون نے خبر دی وہ نافع سے بیان کرتے ہیں کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما جب قرآ ن پڑھتے تو (قرأت سے) فارغ ہونے تک کوئی کلام نہ کرتے ایک دن میں نے ان کے سامنے (قرآن مجید) لیا تو آپ نے سورۃ البقرہ پڑھی جب آپ ایک مقام پر پہنچے فرمایا: تجھے پتا ہے یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے میں نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: یہ اس اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے پھر آپ (تلاوت میں لگ) گئے عبدالصمد (بن عبدالوارث) سے ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  4k
... مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی ان پر جنازہ ادا کروں لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا: "اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پرنماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی" ایک اور روایت میں صراحت ہے کہ ان کی نماز جنازہ بیچ مسجد میں ادا کی گئی تھی امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: والحديث يدل على جواز ادخال الميت فى المسجد والصلاة عليه فيه وبه قال الشافعي وأحمد وإسحاق والجمهور "حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا اور جنازے کا داخل کرنا جائز ہے امام شافعی رحمہ الله امام أحمد رحمہ الله اسحاق اور جمہور کا بھی یہی مذہب ہے" جہاں تک تعلق ہے میت کے ناپاک اور پاک ہونے کا تو صحیح مسلم میں واضح طور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ مسلمان ناپاک نہیں ہوتا لہٰذا مؤمن ناپاک نہیں ہوتا چاہے وہ زندہ یا مردہ ہو بنوبیضاء تین بھائی تھے سہل سہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاء کہا گیا ہے ان کا نام رعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری تھا صاحب مرعاۃ عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہیت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیوں کہ اکثر نبی کریم ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  11k
... کریم اور ذکر الٰہی کے ساتھ دم کیا جا سکتا ہے اور اس پر اجرت لینا بھی جائز ہے [شرح السنة:268/8 المكتب الإسلامي بيروت 1983] (8) شارحِ صحیح مسلم حافظ ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ (۶۳۱ ۶۷۶ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان سے بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ نکالو اس بات میں صریح ہے کہ سورہ فاتحہ اور ذکر الہیٰ کے ذریعے دم کرنے کی اجرت لینا جائز و حلال ہے اس میں کوئی کراہت نہیں یہی حکم قرآ ن کریم کی تعلیم کا بھی ہے امام شافعی امام مالک امام احمد امام اسحاق بن راہویہ امام ابوثور دیگر اسلاف اور بعد میں آنے والے اہل علم کا یہی مذہب تھا ہاں امام ابو حنیفہ نے قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت سے منع کیا ہے البتہ دم پر اجرت کی انہوں نے بھی اجازت دی ہے" [المنھاج شرح مسلم بن الحجاج:188/14 دار إحياء التراث العربي بيروت 1392ھ] (9) مشہور مفسر علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمہ اللہ (۶۰۰-۶۷۱ھ) لکھتے ہیں: "قرآنی تعلیم پر اجرت لینے کو امام مالک شافعی احمد بن حنبل ابوثور اور اکثر علما جائز قرار دیتے ہیں کیوں کہ صحیح بخاری میں مذکور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دم والی حدیث میں آ پ صلی ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  23k
... میں قوت شیطانیہ ہوتی ہے اور کھانے والے کی مشابہت کھانے کے ساتھ ہو گی اس لیے جب کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھائے گا تو اس میں ازخود قوت شیطانیہ پیدا ہو گی اور شیطان کی تخلیق آ گ سے ہوئی ہے اور آ گ کو پانی کے ذریعے سے بجھایا جاتا ہے حدیث مذکور بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے جب بندہ اونٹ کا گوشت کھا کر بعد میں وضو کرے گا تو اس کے وضو میں وہ چیز شامل ہو گی جو اس شیطانی قوت کو بجھائے گی اور ایسی صورت میں یہ فساد انگیز چیز زائل ہو جائے گی اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں اس بارے میں ائمہ اہلِ سنت میں اختلاف ہے امام أحمد اسحاق بن راہویہ ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ وغیرہ محدثین علماء کا یہی مذہب ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو برقرار نہیں رہتا بیہقی اور تمام اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے اس کے برعکس امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کسی بھی حلال جانور کے گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل نہیں ہیں ان کے نزدیک وضو برقرار رہتا ہے ان کی دلیل ابوداؤد ترمذی نسائی ابن ماجہ اور حبان وغیرہ کی روایت ہے [سنن ابي داؤد الطهارة باب فى ترك الوضوء ممامست النار حديث: 187] یہ حضرات اس حدیث میں بیان ہونے والے وضو سے ہاتھ منہ دھونا مراد لیتے ہیں ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  5k
... لغوی تشریح: أَقْبَلَ بِيَدَيٰهِ وَأَدٰبَرَ یعنی مسح دونوں ہاتھوں سے سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور پھر سر کے آخری حصے یعنی پچھلے حصے تک کیا اس کی وضاحت دوسری روایت میں مذکور جملہ: بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ کر رہا ہے قَفَا سر کے آخری حصے کو کہتے ہیں جو گردن کے پچھلے حصے کے ساتھ ملحق ہے یعنی گُدّی رَجَعَ رَجُعٌ سے ماخوذ ہے اور یہاں متعدی استعمال ہوا ہے فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسح کا آغاز سر کے اگلے حصے سے کرنا چاہئیے ائمہ اربعہ کے علاوہ اسحاق بن راہویہ کی بھی یہی رائے ہے لیکن ترمذی میں منقول ایک روایت (جسے امام ترمذی نے حسن کہا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کے مسح کا آغاز پچھلے حصے سے کرنا بھی جائز ہے اس بنا پر بعض اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے وکیع بن جراح بھی انہی لوگوں میں سے ہیں مگر یہ روایت حسن نہیں اس کا راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متكلم فيه ہے محدثین کی ایک جماعت نے اس پر حافظے کی وجہ سے جرح کی ہے لہٰذا مسح کا پہلا طریقہ ہی صحیح ہے راوی حدیث: سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ آپ انصاری تھے انصار کے قبیلہ بنی مازن بن نجار کے فرد تھے اس لیے مازنی کہلائے غزوۂ احد میں شریک ہوئے جنگ یمامہ میں وحشی کے ساتھ مل کر مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو قتل کیا 63 ہجری میں معرکہ حرہ کے روز ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  3k
... نہیں کی جا سکتی اور اس قدر صحت کے ساتھ ثابت ہیں کہ رد نہیں کی جا سکتیں ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین مسنون ہے بعض احادیث سے دو رکعتوں کے بعد تیسری رکعت کی ابتدا میں بھی رفع الیدین ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: [صحيح البخاري الأذان باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين حديث: 739 ومسند أحمد: 145/2 وسنن أبى داود الصلاة باب من ذكر أنه يرفع يديه إذا قام من الثنتين حديث: 743 744] اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا اسی پر عمل ہے امام شافعی احمد ابوثور ابن مبارک اسحاق بن راہویہ اور صحیح روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سے بھی یہی منقول ہے بلکہ زاد المعاد اور التلخیص الحبیر وغیرہ میں مروی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم تادم زیست رفع الیدین کرتے رہے خلفائے راشدین بلکہ باقی عشرہ مبشرہ سے بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے اس کے برعکس رفع الیدین نہ کرنے کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں جس کی تفصیل [فتح الباري التلخيص الحبير اور جلاء العينين فى تخريج روايات البخاري فى جزء رفع اليدين] وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی شہادت اس مسئلے میں اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین پر نبی ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  6k
... تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند حسن (لذاتہ) ہے اسے نسائی [الكبريٰ: 10497 عمل اليوم والليلة: 661] ابن السنی[ 627 دوسرا نسخه: 628] ابن ابی عاصم [السنة: 653 دوسرا نسخه: 665] اور ابن عبدالبر [التمهيد 7 146 من حديث ابي داود] نے محمد بن إسحاق بن يسار: حدثني عتبة بن مسلم مولىٰ بني تيم عن أبى سلمة بن عبدالرحمٰن عن أبى هريرة رضي الله عنه کی سند سے الفاظ کے اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے محمد بن اسحاق بن یسار اگر سماع کی تصریح کریں تو صدوق حسن الحدیث ہیں خواہ احکام ہوں یا تاریخ ومغازی راقم الحروف نے ان کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ہے نیز دیکھئے: [الحديث حضرو: 71 ص18 43] عتبہ بن مسلم سے لے کر آخر تک سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے فقہ الحدیث: شیطانی وسوسوں پر انسان کا کنٹرول نہیں ہے اگر ایسے وسوسے اس کے دل میں آئیں تو اسے چاہئیے کہ فوراً اللہ سے دعا کرے کہ وہ اسے شیطان مردود کے وسوسوں سے بچائے اسے بائیں طرف تھتکارنا بھی چاہئے تاکہ اس شیطانی وسوسے کا اثر زائل ہو جائے فضول سوالات سے مکمل اجتناب کرنا چاہئیے سیدنا عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا: "تمہارا خون تمہارے مال اور عزتیں تم پر اس ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  3k
... همام عن أ بي هريره به] صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں موجود ہے: صحيح مسلم [63 1468 وترقيم دارالسلام: 3648] صحيح ابن حبان [الاحسان: 4157 نسخة محققه: 4169] شرح السنة للبغوي [9 164 ح2335 وقال: "هذا حديث متفق على صحته"] المستخرج على صحيح مسلم لابي نعيم الاصبهاني [4 143 ح3450] امام بخاری سے پہلے اسے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے: ہمام بن منبہ [الصحيفة: 58] أحمد بن حنبل [المسند 2 315 ح8155] ہمام بن منبہ بالاجماع ثقہ ہیں لہٰذا یہ روایت بلحاظ اصول حدیث بالکل صحیح ہے اس کے دوسرے شواہد کے لئے دیکھئیے: مسند اسحاق بن راہویہ [117] ومسند أحمد [2 304] وحلیۃ الاولیاء [8 389] ومستدرک الحاکم [4 175] منکرین حدیث نے اس حدیث کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "جب کہ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ گوشت سڑنے کی وجہ قوم بنی اسرائیل نہیں بلکہ جراثیم ہیں" عرض ہے کہ کیا ان جراثیم کی وجہ سے خود بخود گوشت خراب ہو جاتا ہے یا اس کے خراب ہونے میں اللہ تعالیٰ کا مشیت ہے اور یہ جراثیم اسی کے پیدا کردہ ہیں نام نہاد تجربے کی وجہ سے صحیح حدیث کا رد کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول کا کام صرف قرآن پہنچانا تھا اس نے پہنچا دیا ...
Terms matched: 1  -  Score: 14  -  4k
... فقہ الحدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من اشارة فى الصلاته اشارة تفهم عنه فليعد لها "جو آدمی اپنی نماز میں ایسا اشارہ کرے جو اس کی طرف سمجھ لیا جائے وہ اپنی نماز دہرائے" [سنن ابي داود 944 سنن الدارقطني: 83/2 شرح معاني الآثار للطحاوي: 453/1] یہ حدیث "ضعیف" ہے اس میں محمد بن اسحاق حسن الحديث ثقه الجمهور مشہور "مد لس" ہیں جو کہ بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں سماع کی تصریح نہیں ملی پھر یہ "صحیح" احادیث کے خلاف بھی ہے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  2k
... ابن الجوزی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54 ھ میں فوت ہوئے [المنتظم 268/5] 20: ابن العماد الحنبلی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ 54 ھ میں فوت ہوئے [شذرات الذهب 60/1] 21: عینی حنفی نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ (ایک قول میں) 54 ھ میں فوت ہوئے [عمدة القاري 294/2 ح 153 باب النهي عن الاستنجاء باليمين] اس جم غفیر اور جمہور کے مقابلے میں حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی حیاتی نے ہثیم بن عدی (کذاب) سے نقل کیا ہے کہ (سیدنا) ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 38 ھ میں فوت ہوئے [نور الصباح ص 207] حنبل بن اسحاق نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ 38 ھ میں فوت ہوئے [تاريخ بغداد 161/1] یہ اقوال جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ہثیم بن عدی كذاب پر جرح کے لئے دیکھئے میزان الاعتدال [324/4 ت 9311] و عام کتب المجروحین امام یحییٰ بن معین نے کہا: كوفي ليس بثقة كذاب [الجرح و التعديل 75/9و سنده صحيح] حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا یہ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  7k
... البتہ یہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ضرور ہے جسے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے فرمان نبوی کے مطابق مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے [صحيح: صحيح الترغيب 209 إرواء الغليل 66 أحمد 124/6 حميدي 162] اور جس روایت میں ہے کہ مسواک کے ساتھ نماز عام نماز سے ستر گنا افضل ہے اسے اہل علم نے ضعیف کہا: ہے [ضعيف: أحمد 272/6 ابويعلي 4738] شیخ عبدالرزاق مہدی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے [التعليق على شرح فتح القدير 23/1] شیخ شعیب أرنؤوط نے کہا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند منقطع ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ حدیث امام زہری رحمہ اللہ سے نہیں سنی [مسند أحمد محقق 26340] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: اس روایت کی کوئی سند بھی صحیح نہیں اور یہ روایت باطل ہے [تلخيص الحبير 68/1] ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  2k
... عن عبد الله بن المبارك أنه قال: لا يغتسل ولا يتوضا من غسل الميت. '' مردے کو نہلانے والے (پر غسل) کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے صحابہ کرام وغیرہ پر مشتمل بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب کوئی میت کو غسل دے تو اس پر بھی غسل ہے بعض کا کہنا ہے کہ اس پر وضو ہے امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں مردے کو نہلانے والے کے لیے غسل کو مستحب سمجھتا ہوں واجب نہیں امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ میرے خیال میں میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں البتہ اسے کم از کم وضو کا کہا گیا ہے امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: اس کے لیے وضو ضروری ہے جبکہ امام عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ اسے نہ غسل کرنے کی ضرورت ہے نہ وضو کرنے کی" [سنن الترمذي تحت الحديث: 993] Sh2 اس حدیث کے بارے میں اصولی تنبیہات Eh2 بعض محدثین کرام نے اس حدیث کی سند پر اعتراض کیا ہے جیسا کہ: امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمہ اللہ (م: 258 ھ) فرماتے ہیں: لا أعلم فيمن غسل ميتا فليغتسل حديثا ثابتا ولو ثبت لزمنا استعماله '' میرے علم میں مردے کو غسل دینے والے پر غسل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو ہمارے لیے اس پر عمل لازم ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  20k
... یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ضرور ہے جسے اپنانے کی کوشش کرنا چاہیئے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسواک منہ کی پاکیزگی اور رب کی رضامندی کا ذریعہ ہے [صحيح: صحيح الترغيب 209 ارواء الغليل 66 أحمد 124/6 حميدي 162] اور جیس روایت میں ہے کہ مسواک کے ساتھ نماز عام نماز سے ستر گناہ افضل ہے اس اہل علم نے ضعیف کہا ہے [ضعيف: احمد 272/6 ابويعلي 4738] شیخ عبدالرزاق مہدی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے [التعليق على شرح فتح القدير 23/1] شیخ شعیب ارناؤط نے کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند منقطع ہے کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ حدیث امام زہری سے نہیں سنی [مسند أحمد محقق 26340] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے یں کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: اس روایت کی کوئی سند بھی صحیح نہیں اور یہ روایت باطل ہے [تلخيص الحبير 68/1] ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  2k
... سامنے آ گئی تو اس پر ایمان لایا پھر اس پر عمل کرتا رہا اور آخر تک کیا دوسرے کو اس لیے کہ اس نے دو مالکوں کی اطاعت کی ایک حقیقی مالک (اللہ) کی اور دوسرے مجازی مالک کی اور تیسرے کو اس لیے دو گنا اجر ہے کہ لونڈی اسی کی تھی حقوق زوجیت اس کو پہلے بھی حاصل تھے پھر اس نے لونڈی کو علم سکھایا تہذیب سے روشناس کرایا پھر آزاد کر کے اس کی حیثیت عرفی میں بہت کچھ اضافہ کر دیا پھر خود اس سے شادی کر کے اس کو اس گھر کی مالکہ بنا دیا جس گھر میں وہ صرف ایک خدمت گزار کی حیثیت رکھتی تھی" [مشكوٰة مترجم ومحشي: شيخ محمد اسماعيل سلفي رحمه الله ج 1 ص123 طبع مكتبه نعمانيه لاهور] اس حدیث اور دیگر دلائل شرعیہ سے یہ ثابت ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا بڑے ثواب کا کام ہے مشکٰوۃ میں مذکور الفاظ حدیث امام بخاری کی کتاب الادب المفرد [203] کی روایت سے مشابہ ہیں یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صاحب مشکوۃ کا رواہ البخاری یا رواہ مسلم وغیرہ کہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ ہو بہو یہ الفاظ اسی کتاب میں ہیں مراد یہ ہے کہ یہ روایت اپنے مفہوم کے ساتھ کتاب مذکور میں بایں الفاظ یا بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اس حدیث سے تعلیم نسواں کا ثبوت ملتا ہے عورتوں کو تعلیم دینا (اور لکھنا پڑھنا سکھانا) دوسرے دلائل سے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  8k
... حدیث میں موافقت پیدا ہوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ [الحج: 78] اس آیت میں آسان دین کو ملت ابراہیم سے تعبیر کیا گیا ہے اور دین ابراہیم کا نام حنفية یعنی "سیدھا اور سچا" ہے لہٰذا یہاں سے یہ بھی یہ مسئلہ واضح ہوا کہ دین سے مراد دین حنیف ہی ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جو الفاظ نقل فرمائے ہیں الحنيفية السمحة ان الفاظ کی حدیث تو پیش نہیں کی کیوں کہ وہ آپ کی شرائط کے مطابق نہ تھی لیکن اسے اپنی کتاب "الادب المفرد" میں ذکر فرمایا ہے جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی بطریق محمد بن اسحاق عن داؤد بن الحصين عن عكرمه ابن عباس رضي الله عنه سے بروایت سند حسن نقل فرمایا ہے شاہ ولی اللہ محدث الدھلوی رقمطراز ہیں: هذا الحديث المعلق لم يسنده المؤلف فى هذا الكتاب لانه ليس على شرطه نعم وصله فى كتاب الادب المفرد وكذا وصله أحمد بن حنبل [شرح تراجم ابواب البخاري ص 38] شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی وضاحت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ الحنفية السمحة امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح میں ذکر نہیں فرمائی مگر آ پ نے "الادب المفرد" میں اسے ذکر فرمایا ہے اور اسے وصل سے مراد موصول بیان کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے دوسری مناسبت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام بخاری ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  5k
... ] فائدہ: صحیح یہ ہے کہ مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا فَلْيَغْتَسِلُ میں حکم استحباب کے لیے ہے یعنی میت کو نہلانے والے کے لیے خود غسل کرنا ضروری نہیں اس کی دلیل سنن دارقطنی میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ بیان ہے کہ ہم میت کو غسل دیا کرتے تھے پھر بعد میں بعض لوگ غسل کر لیتے اور بعض نہیں کرتے تھے [سنن الدار قطني: 71/2 72 حديث: 1796] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے بیہقی اور حاکم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بھی اس کی مؤید ہے حضرت ابن عباس ابن عمر عائشہ رضی اللہ عنہم حسن بصری ابراہیم نخعی امام شافعی اسحاق رحمہم اللہ اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے البتہ بعض وجوب کے بھی قائل ہیں مگر جنازہ اٹھانے والے پر وضو کے وجوب کا کوئی بھی قائل نہیں ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  3k
... قال: (هل تدرون أى عرى الإيمان أوثق) قلت: الله ورسوله أعلم قال: (الولاية فى الله والحب فى الله والبغض فى الله...) اس روایت کے ایک راوی ولید بن مسلم مدلس تھے آپ تدلیس تسویہ کرتے تھے دیکھئے:[ تقريب التهذيب: 7456] تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں وہ آخر تک سماع مسلسل کی تصریح کرے اس روایت میں سماع مسلسل کی تصریح نہیں ہے ہشام بن عمار آخری عمر میں کچھ تغیر (اختلاط) کا شکار ہو گئے تھے دیکھئے: [الكواكب النيرات فى معرفة من اختلط من الرواة الثقات ص 84] اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اسحاق الانماطی نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی تھیں لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے عن عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ[ مسند أحمد 3 430] اس کی سند ضعیف ہے رشدین بن سعد ضعیف ہے دیکھئے: [تقریب التہذیب 1942] اور سند منقطع ہے ابومنصور کی عمرو بن الجموح سے ملاقات ثابت نہیں ہے عن معاذ بن انس الجھنی رضی اللہ عنہ[ مسند أحمد 3 438] اس کی سند ضعیف ہے زبان بن فائد ضعیف ہے دیکھئے شاہد نمبر وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "من أعطى لله تعالى ومنع لله وأبغض لله وأنكح لله فقد استكمل ايمانه "جو اللہ کے لئے (مال) دے اور اللہ کے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  10k
... لیلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ہم اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی نماز جنازہ پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے" [ابن ابي شيبه 3 317 ح11590 وسنده صحيح] امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: والعمل عليه عند بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم قالوا: يصليٰ على الطفل وإن لم يستهل بعد أن يعلم أنه خلق وهو قول أحمد وإسحاق "صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض کا اسی پر عمل ہے انہوں نے کہا: بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ پیدا ہوتے وقت آواز نہ نکالے یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ اس کی تخلیق (مکمل) ہو چکی ہے اور أحمد (بن حنبل) اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے" [سنن الترمذي: 1031] جو علماء مردہ بچے کی نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں ان کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک و ناقابل حجت ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چھوٹے بچے پر نماز جنازہ میں درج ذیل دعا پڑھتے تھے: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ فَرَطَاً وَذُخْراً "اے اللہ! اسے امیر سامان آگے چلنے والا اور ذخیرہ بنادے" [السنن الكبريٰ للبيهقي 4 10 وسنده حسن] ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  6k
... کیونکہ قبلہ رخ ہونا فرض ہے نیز وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس بنا پر ضعیف کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں اشعث بن سعید راوی ضعیف قرار دیا گیا ہے مگر امام ترمذی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت كتاب الصلاة باب ماجاء فى الرجل يصلي حديث: 345 ميں لکھتے ہیں: "اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے سفیان ثوری ابن مبارک احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے" اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کو چاہیے کہ دوران نماز ہی میں قبلہ رخ ہو جائے جیسا کہ اہل قبا نے تحویل قبلہ کی خبر سن کر نماز ہی میں اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا اور باقی نماز صحیح سمت ہو کر مکمل کر لے راویٔ حدیث: (سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ) قبیلہ عنز بن وائل میں سے ہیں بکر اور تغلب جو وائل کے بیٹے تھے عنز ان کا بھائی تھا قدیم الاسلام صحابی ہیں ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں سے شرف یاب ہوئے غزوہ بدر اور دیگر تمام معرکوں میں داد شجاعت دیتے رہے ان کے سن وفات میں اختلاف ہے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  4k
... اپنے گھر میں اہل و عیال کی طرح پرورش کرتا اور پالتا ہے رِجْسٌ "را" کے کسرہ اور "جیم" کے سکون کے ساتھ ہے ہر وہ چیز جسے انسان گندگی تصور کرتا ہے خواہ وہ نجس ہو یا نہ ہو لہٰذا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ گدھے کا جوٹھا نجس اور ناپاک ہے فوائد و مسائل: گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے جائز سمجھتے تھے گدھے کا جوٹھا پاک ہے یا نہیں اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ پاک کہتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ یہ نجس ہے امام حسن بصری ابن سیرین اوزاعی اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا بھی یہی قول ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی پانی نہ ملے تو گدھے کے جوٹھے پانی سے وضو کیا جائے اور تیمم بھی کر لیا جائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے مگر امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات زیادہ قرین صواب ہے علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے والله اعلم راویٔ حدیث: سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ابوطلحہ کنیت اور نام زید بن سہل بن اسود بن حرام انصاری ہے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شریک رہے غزوۂ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے ان کا ہاتھ ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  4k
... دھونا اور لڑکے کے پیشاب کے لیے پانی کا چھڑکنا اس وقت تک ہے جب تک دونوں کی مستقل غذا دودھ ہے دودھ کے علاوہ غذا کھانے کی صورت میں دونوں کا پیشاب نجاست کے اعتبار سے یکساں حکم رکھتا ہے بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاک ہے بس حدیث میں اس سے زیادہ کچھ دلیل نہیں کہ بچے کے پیشاب کو پاک کرنے میں شریعت نے ذرا نرمی دی ہے [سل السلام] خلاصہ کلام یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے پیشاب میں فرق ہے شیرخوارگی کے ایام میں لڑکی کا پیشاب لڑکے کی بہ نسبت زیادہ ناپاک ہے شیرخوارگی کے بعد دونوں میں کوئی فرق نہیں امام شافعی امام أحمد ابن وہب حسن بصری اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ دھونے کو ضروری قرار دیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے راوی حدیث: أَبُو السَّمْح رضی اللہ عنہ "سین" پر فتحہ اور "میم" ساکن "أبو سمح" ان کی کنیت ہے ایاد (" ہمزہ" کے کسرہ کے ساتھ) ان کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نام اور کنیت ایک ہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے خادم تھے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق یہ گم ہو گئے تھے معلوم ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  4k
... دو مٹکوں) کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگی تو محض وقوع نجاست سے وہ ناپاک نہیں ہوگا بلکہ وہ خود بھی پاک ہی رہے گا اور دوسری چیز کو بھی پاک کرے گا البتہ جب اس نجاست کی وجہ سے ان اوصاف ثلاثہ (بو ذائقہ اور رنگت) میں سے کوئی وصف تبدیل ہو جائے گا تو پھر وہ پانی ناپاک شمار ہوگا جیسا کہ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے جہاں تک بئر بضاعه والی حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں معلوم ہوچکا ہے کہ اس میں پانی دو قلے یا اس سے بھی زیادہ تھا اس حدیث کو حفاظ ائمہ حدیث کے ایک جم غفیر: امام شافعی ابوعبیدہ أحمد اسحاق یحییٰ بن معین ابن خزیمہ طحاوی ابن حبان دارقطنی ابن مندہ حاکم خطابی بیہقی ابن حزم اور دیگر آئمہ رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ سیوطی نے "قوت المغتذي" میں نقل کیا ہے یہ اہلحدیث اور شوافع کی دلیل ہے کہ دو قلوں سے کم پانی کثیر کے زمرے میں نہیں آتا اور دو قلوں یا اس سے زیادہ پانی کی مقدار کثیر ہے احناف کا دہ در دہ کا مسئلہ عقلی ہے حدیث کے مقابلے میں عقل کی کیا حیثیت ہے راوئ حدیث: سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آپ زاہد اور پختہ علم والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں صغر سنی میں مشرف بہ اسلام ہوئے مکہ سے مدینہ ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  5k
... وسلم سے ثابت نہیں ہے یہ حدیث اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے اسی طرح یہ حدیث اس کا بھی ثبوت ہے کہ پگڑی پر مسح جائز اور درست ہے اس کی دو صورتیں ممکن ہیں پہلی صورت یہ کہ کچھ مسح سر پر کیا جائے اور کچھ پگڑی پر اس میں اختلاف نہیں ہے دوسری صورت یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کیا جائے ترمذی میں منقول ایک صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے [جامع الترمذي الطهارة باب ما جاء فى المسح على العمامة حديث: 100 101] نیز سیدنا ابوبکر عمر انس اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ عمر بن عبد العزیز حسن بصری مکحول ابوثور امام أحمد اوزاعی اسحاق بن راہویہ اور وکیع رحمه الله علیہم وغیرہ اس کے قائل ہیں امام ابوحنیفہ رحمه الله کے علاوہ باقی ائمہ ثلاثہ محض پگڑی پر مسح کو ناکافی سمجھتے ہیں راوی حدیث: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ان کی کنیت ابوعبد اللہ یا عیسیٰ ہے سلسلہ نسب یوں ہے مغیرہ بن شعبہ بن مسعود ثقفی مشہور و معروف صحابی ہیں غزوہ خندق کے ایام میں مسلمان ہوئے اور ہجرت کر کے مدینہ آئے صلح حدیبیہ میں شامل ہوئے یہ ان کا پہلا معرکہ تھا جس میں وہ شریک ہوئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفے کو گورنر مقرر ہوئے اور 50 ہجری میں کوفہ ہی میں وفات پائی ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  4k
... اور وجود کی نفی مراد ہے جیسا کہ لائے نفی جنس سے یہی مراد ہوتا ہے لیکن امام أحمد رحمه الله اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں البتہ اس کے مختلف طرق اور کثیر شواہد کی بنا پر حافظ ابن صلاح ابن کثیر اور علامہ عراقی رحمها الله وغیرہ نے اسے حسن کہا ہے عصر حاضر کے عظیم محقق علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے لہٰذا اسے پڑھنا سنت ہے اس لیے ہر وضو کرنے والے کو وضو کی ابتدا میں بسم الله پڑھ لینی چاہئے ائمہ ثلاثہ کے نزدیک وضو کے آ غاز میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے داود ظاہری کے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جس نے عمداً بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا اور یہی بات راجح ہے راویٔ حدیث: سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل العدوی القرشی ہیں ان کی کنیت ابوالاعور ہے ان دس خوش قسمت ترین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جنہیں رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی ہے یہ قدیم الاسلام صحابی ہیں ان کی زوجیت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا تھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں آ نے کا ذریعہ اور سبب یہی خاوند بیوی بنے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  3k
... ہے حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم برا بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو حیا وشرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے اسی لیے فرمایا گیا اذا لم تستحي فاصنع ما شئت "جب تم شرم و حیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو" کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان و شعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کو اعمال قلب( دل کے کام) اعمال لسان( زبان کے کام) اعمال بدن( بدن کے کام) پر تقسیم فرما کر اعمال قلب کی 24 شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38 شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ لااله الا الله اور ادنیٰ شاخ اماطة الاذي عن الطريق بتلائی گئی ہے اس میں تعلق باللہ اور خدمت ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  12k
... جاتا ہے جمہور علماء کا قول ہے کہ اس کی نماز جائز ہے لیکن امام احمد ابوثور اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اس کی نماز فاسد ہے" یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ علامہ ابن رشد جب جمہور کا لفظ استعمال کریں تو اس سے مراد امام مالک شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم مراد ہوتی ہے [ديكهئے بداية المجتهد 1/51] جو علماء صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کے جواز یا عدم جواز کے قائل ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے امام بغوی ابن قدامہ حافظ ابن حجر شمس الحق عظیم آبادی اور عبدالرحمن مبارک پوری رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی تصریحات کے مطابق یوں ہے '' امام أحمد امام اسحاق بن راہویہ حکم ابن المنذر بعض محدثین شافعیہ ابن خزیمہ نخعی حسن بن صالح اور اہل کوفہ کی ایک جماعت مثلاً حماد بن ابی سلیمان ابن ابی لیلی اور وکیع وغیرھم رحمہ اللہ علیہم عدام جواز کے قائل ہیں جبکہ حسن بصری امام اوزاعی امام مالک سفیان ثوری ابن مبارک امام شافعی رحمہ اللہ علیہم اور اہل رائے یعنی حنفی حضرات کا قول اس کے جواز کا ہے تفصیل کے لئے مراجعت کی جائے [شرح السنة للبغوي 378/3 المغني لابن قدامه 42/2 عون المعبود 254/1 فتح الباري 247/2 تحفة الاحوذي 22/2] ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  9k
... تشریح: ٹھنڈا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ زوال کے بعد پڑھے نہ یہ کہ ایک مثل سایہ ہو جانے کے بعد کیونکہ ایک مثل سایہ ہو جانے پر تو عصر کا اوّل وقت ہو جاتا ہے جمہور علماءکا یہی قول ہے زوال ہونے پر فوراً پڑھ لینا یہ تعجیل ہے اور ذرا دیر کر کے تاکہ موسم گرما میں کچھ خنکی آ جائے پڑھنا یہ ابراد ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقداختار قوم من اهل العلم تاخيرصلوٰة الظهر فى شدة الحر وهوقول ابن المبارك واحمدواسحاق یعنی اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب مختار یہی ہے کہ گرمی کی شدت میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھی جائے عبداللہ بن مبارک و احمد و اسحاق کا یہی فتوی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ ظہر کو عصر کے اول وقت ایک مثل تک کے لیے مؤخر کر دیا جائے جب کہ بدلائل قویہ ثابت ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے کے بعد شروع ہو جاتا ہے خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مقام پر متعدد روایات سے عصر کا اوّل وقت بیان فرمایا ہے جو ایک سایہ ہونے پر شروع ہو جاتا ہے جو کہ مختار مذہب ہے اور دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ہے ...
Terms matched: 1  -  Score: 13  -  2k
Result Pages: 1 2 Next >>


Search took 0.074 seconds