وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي[90] قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَى[91]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیاتھا کہ اے میری قوم! بات یہی ہے کہ اس کے ساتھ تمھاری آزمائش کی گئی ہے اور یقینا تمھارا رب رحمان ہی ہے، سو میرے پیچھے چلو اور میرا حکم مانو۔ [90] انھوں نے کہا ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے، یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس آئے۔ [91]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ہارون (علیہ السلام) نےاس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے تو صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمنٰ ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ [90] انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے [91]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو اس سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے۔ اور تمہارا پروردگار تو خدا ہے تو میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو [90] وہ کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ ہمارے پاس واپس نہ آئیں ہم تو اس کی پوجا پر قائم رہیں گے [91]۔
........................................
موسیٰ علیہ السلام کے آنے سے پہلے ہارون علیہ السلام نے انہیں ہر چند سمجھایا بجھایا کہ دیکھو فتنے میں نہ پڑو۔ اللہ رحمان کے سوا اور کسی کے سامنے نہ جھکو۔ وہ ہرچیز کا خالق و مالک ہے، سب کا اندازہ مقرر کرنے والا وہی ہے، وہی عرش مجید کا مالک ہے، وہی جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ تم میری تابعداری اور حکم برداری کرتے رہو۔ جو میں کہوں وہ بجا لاؤ، جس سے روکوں رک جاؤ۔ لیکن ان سرکشوں نے جواب دیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی سن کر تو خیر ہم مان لیں گے۔ تب تک تو ہم اس کی پرستش نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ لڑنے اور مرنے مارنے کے واسطے تیار ہو گئے۔