تفسير ابن كثير



سورۃ محمد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَى لَهُمْ[20] طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ[21] فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ[22] أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ[23]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔ پس ان کے لیے بہتر ہے۔ [20] حکم ماننا اور اچھی بات کہنا، پھر جب حکم لازم ہو جائے تو اگر وہ اللہ سے سچے رہیں تو یقینا ان کے لیے بہتر ہو۔ [21] پھر یقینا تم قریب ہو اگر تم حاکم بن جاؤ کہ زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتوں کو بالکل ہی قطع کر دو۔ [22] یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی۔ پس انھیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ [23]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو لوگ ایمان ﻻئے وه کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وه آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لئے [20] فرمان کا بجا ﻻنا اور اچھی بات کا کہنا۔ پھر جب کام مقرر ہو جائے، تو اللہ کے ساتھ سچے رہیں تو ان کے لئے بہتری ہے [21] اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو [22] یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے [23]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور مومن لوگ کہتے ہیں کہ (جہاد کی) کوئی سورت کیوں نازل نہیں ہوتی؟ لیکن جب کوئی صاف معنوں کی سورت نازل ہو اور اس میں جہاد کا بیان ہو تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھنے لگیں جس طرح کسی پر موت کی بےہوشی (طاری) ہو رہی ہو۔ سو ان کے لئے خرابی ہے [20] (خوب کام تو) فرمانبرداری اور پسندیدہ بات کہنا (ہے) پھر جب (جہاد کی) بات پختہ ہوگئی تو اگر یہ لوگ خدا سے سچے رہنا چاہتے تو ان کے لئے بہت اچھا ہوتا [21] (اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو [22] یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان (کے کانوں) کو بہرا اور (ان کی) آنکھوں کو اندھا کردیا ہے [23]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 20، 21، 22، 23،

ایمان کی دلیل حکم جہاد کی تعمیل ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن تو جہاد کے حکم کی تمنا کرتے ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ جہاد کو فرض کر دیتا ہے اور اس کا حکم نازل فرما دیتا ہے تو اس سے اکثر لوگ ہٹ جاتے ہیں، جیسے اور آیت میں ہے «أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِ‌يقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّـهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُوا رَ‌بَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْ‌تَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِ‌يبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا» [4-النساء:77] ‏‏‏‏ یعنی ” کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جن لوگوں سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے ایک فریق لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے اللہ کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے، اے ہمارے رب! ہم پر تو نے جہاد کیوں فرض کر دیا تو نے ہم کو قریب کی مدت تک ڈھیل کیوں نہ دی؟ تو کہہ کہ دنیا کی متاع بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لیے آخرت بہت ہی بہتر ہے اور تم پر بالکل ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا “۔

پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ایمان والے تو جہاد کے حکموں کی آیتوں کے نازل ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن منافق لوگ جب ان آیتوں کو سنتے ہیں تو بوجہ اپنی گھبراہٹ بوکھلاہٹ اور نامردی کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح تجھے دیکھنے لگتے ہیں جیسے موت کی غشی والا۔
8529

پھر انہیں مرد میدان بننے کی رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کے حق میں بہتر تو یہ ہوتا کہ یہ سنتے مانتے اور جب موقعہ آ جاتا معرکہ کارزار گرم ہوتا تو نیک نیتی کے ساتھ جہاد کر کے اپنے خلوص کا ثبوت دیتے۔

پھر فرمایا ” قریب ہے کہ تم جہاد سے رک جاؤ اور اس سے بچنے لگو تو زمین میں فساد کرنے لگو اور صلہ رحمی توڑنے لگو “، یعنی زمانہ جاہلیت میں جو حالت تمہاری تھی وہی تم میں لوٹ آئے۔

پس فرمایا ” ایسے لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور یہ رب کی طرف سے بہرے اندھے ہیں “۔ اس میں زمین میں فساد کرنے کی عموماً اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں اصلاح اور صلہ رحمی کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان کا حکم فرمایا ہے۔ صلہ رحمی کے معنی ہیں قرابت داروں سے بات چیت میں، کام کاج میں، سلوک و احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا۔ اس بارے میں بہت سی صحیح اور حسن حدیثیں مروی ہیں۔
8530

صحیح بخاری میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمٰن سے چمٹ گیا اس سے پوچھا گیا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا، اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا: کیا تو اس سے راضی نہیں؟ کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں؟ اس نے کہا: ہاں، اس پر میں بہت خوش ہوں اس حدیث کو بیان فرما کر پھر راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو «فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ» [47-محمد:22] ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:4830] ‏‏‏‏ اور سند سے ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کوئی گناہ اتنا بڑا اور اتنا برا نہیں جس کی بہت جلدی سزا دنیا میں اور پھر اس کی برائی آخرت میں بہت بری پہنچتی ہو بہ نسبت سرکشی بغاوت اور قطع رحمی کے ۔ [سنن ابوداود:4902،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے جو شخص چاہے کہ اس کی عمر بڑی ہو اور روزی کشادہ ہو وہ صلہ رحمی کرے ۔ [مسند احمد:279/5:صحیح لغیره] ‏‏‏‏
8531

اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرے نزدیکی قرابت دار مجھ سے تعلق توڑتے رہتے ہیں اور میں انہیں معاف کرتا رہتا ہوں وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں اور میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائیاں کرتے رہتے ہیں تو کیا میں ان سے بدلہ نہ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اگر ایسا کرو گے تو تم سب کے سب چھوڑ دئیے جاؤ گے، تو صلہ رحمی پر ہی رہ اور یاد رکھ کہ جب تک تو اس پر باقی رہے گا اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ہر وقت معاونت کرنے والا رہے گا ۔ [مسند احمد:181/2:حسن لغیره] ‏‏‏‏

بخاری وغیرہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہے، حقیقتًا صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی احسان کے بدلے احسان کرے بلکہ صحیح معنی میں رشتے ناطے ملانے والا وہ ہے کہ گو تو اسے کاٹتا جائے وہ تجھ سے جوڑتا جائے ۔ [صحیح بخاری:5991] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ صلہ رحمی قیامت کے دن رکھی جائے گی، اس کی رانیں ہوں گی مثل ہرن کی رانوں کے، وہ بہت صاف اور تیز زبان سے بولے گی، پس وہ کاٹ دیا جائے گا جو اسے کاٹتا تھا اور وہ ملایا جائے گا جو اسے ملاتا تھا ۔ [مسند احمد:189/2:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم کرتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا۔ رحم رحمان کی طرف سے ہے اس کے ملانے والے کو اللہ ملاتا ہے اور اس کے توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ خود توڑ دیتا ہے ۔ [سنن ابوداود:4941،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔

سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے لوگ گئے تو آپ فرمانے لگے: تم نے صلہ رحمی کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ عزوجل نے فرمایا ہے میں رحمن ہوں اور رحم کا نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اس کے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا ۔ [سنن ابوداود:1694،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
8532

اور حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: روحیں ملی جلی ہیں جو روز ازل میں میل کر چکی ہیں وہ یہاں یگانگت برتتی ہیں اور جن میں وہاں نفرت رہی ہے یہاں بھی دوری رہتی ہے ۔ [طبرانی کبیر:6172:صحیح بالشواهد] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب زبانی دعوے بڑھ جائیں، عملی کام گھٹ جائیں، زبانی میل جول ہو، دلی بغض و عداوت ہو، رشتے دار رشتے دار سے بدسلوکی کرے، اس وقت ایسے لوگوں پر لعنت اللہ نازل ہوتی ہے اور ان کے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر دی جاتی ہیں ۔ [طبرانی کبیر:6170:ضعیف] ‏‏‏‏ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
8533

اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں غور و فکر کرنے اور سوچنے سمجھنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس سے بےپرواہی کرنے اور منہ پھیر لینے سے روکتا ہے۔

پس فرماتا ہے ” غور و تامل تو کجا ان کے دلوں پر تو قفل لگے ہوئے ہیں “۔ کوئی کلام اس میں اثر بھی نہیں کرتا، اندر جائے تو اثر کرے، جائے کہاں سے، جب کہ جانے کی راہ نہ پائے۔

ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے ایک نوجوان یمنی نے کہا بلکہ ان پر ان کے قفل ہیں جب تک اللہ نہ کھولے اور الگ نہ کرے پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ بات رہی یہاں تک کہ اپنی خلافت کے زمانے میں اس سے مدد لیتے رہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:321/11:مرسل] ‏‏‏‏
8534



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.