الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
46. باب إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَتَصَبُّرِ مَنْ قَوِيَ إِيمَانُهُ:
باب: قوی الایمان لوگوں کو صبر کی تلقین۔
حدیث نمبر: 2436
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني انس بن مالك ، ان اناسا من الانصار قالوا يوم حنين حين افاء الله على رسوله من اموال هوازن ما افاء، فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي رجالا من قريش المائة من الإبل، فقالوا: يغفر الله لرسول الله يعطي قريشا ويتركنا، وسيوفنا تقطر من دمائهم، قال انس بن مالك: فحدث ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من قولهم، فارسل إلى الانصار فجمعهم في قبة من ادم، فلما اجتمعوا جاءهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " ما حديث بلغني عنكم؟ " فقال له فقهاء الانصار: اما ذوو راينا يا رسول الله فلم يقولوا شيئا، واما اناس منا حديثة اسنانهم قالوا: يغفر الله لرسوله يعطي قريشا، ويتركنا وسيوفنا تقطر من دمائهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فإني اعطي رجالا حديثي عهد بكفر اتالفهم، افلا ترضون ان يذهب الناس بالاموال، وترجعون إلى رحالكم برسول الله، فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به "، فقالوا: بلى يا رسول الله قد رضينا، قال: " فإنكم ستجدون اثرة شديدة، فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله، فإني على الحوض "، قالوا: سنصبر،حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ الْأنْصَارِ قَالُوا يَوْمَ حُنَيْنٍ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَحُدِّثَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ " فَقَالَ لَهُ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ يُعْطِي قُرَيْشًا، وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ "، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا، قَالَ: " فَإِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَثَرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ "، قَالُوا: سَنَصْبِرُ،
‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: انصار کے چند لوگوں نے حنین کے دن کہا، جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اموال ہوازن میں سے کچھ مال بغیر لڑے بھڑے دلوا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کو قریش میں سے سو اونٹ دئیے تو انصار کے لوگ کہنے لگے: اللہ اپنے رسول کہ بخشے کہ وہ قریش کو دیتے ہیں ہمیں چھوڑ کر اور ہماری تلواریں ابھی تک قریش کا خون ٹپکا رہی ہیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلا بھیجا اور ان کو چمڑے کے خیمے میں جمع کیا پھر جب سب جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: یہ کیا بات ہے جو تمہارے طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ تب ان میں سے سمجھ دار لوگوں نے کہا کہ جو ہم میں فہمیدہ لوگ ہیں یارسول اللہ انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا، کم سن لوگ ہم میں سے بولے کہ اللہ بخشے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ قریش کو دیتے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے اور ہماری تلواریں ان کے خون ابھی تک ٹپکا رہی ہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جو ابھی کافر تھے ان کا دل خوش کرنے کو اور تم لوگ خوش نہیں ہوتے اس سے کہ لوگ تو مال لے کر اپنے گھر چلے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔ سو البتہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی تم جو لے کر گھر جاؤ گے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے کر گھر جائیں گے۔ (البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ساری دنیا سے بہتر ہے) پھر سب انصار نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! ہم راضی ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگے تم پر بہت لوگ مقدم کیئے جائیں گے۔ (یعنی تمہیں چھوڑ کر اوروں کو دیں گے) تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ ملاقات کرو تم اللہ سے اور اس کے رسول سے کہ میں حوض (کوثر) پر ہوں گا۔ انہوں نے کہا: اب ہم صبر کریں گے۔ «بعون الله و قوته» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 2437
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن الحلواني ، وعبد بن حميد ، قالا: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، حدثني انس بن مالك ، انه قال: لما افاء الله على رسوله ما افاء من اموال هوازن "، واقتص الحديث بمثله، غير انه قال: قال انس: فلم نصبر، وقال: " فاما اناس حديثة اسنانهم "،حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مَا أَفَاءَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ "، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ، وَقَالَ: " فَأَمَّا أُنَاسٌ حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ "،
‏‏‏‏ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وہی روایت دوسرے سند سے مروی ہوئی اسی روایت کی مثل جو گزری اس میں اتنا زیادہ ہے کہ انس نے کہا: پھر ہم لوگ صبر نہ کر سکے اور «أُنَاسٌ منا» میں «منا» کا لفظ نہیں کہا باقی مضمون وہی ہے کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے زہیر بن حرب نے، ان سے یعقوب نے، ان سے ابن شہاب کے بھتیجے نے، ان سے ان کے چچا نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور روایت کی حدیث مثل اس کی (جو گزری) اور اس میں بھی ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم صبر نہ کر سکے جیسے روایت یونس کی ہے زہری سے (جو اس کے اوپر گزری)۔
حدیث نمبر: 2438
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: اخبرني انس بن مالك ، وساق الحديث بمثله، إلا انه قال: قال انس: قالوا: نصبر، كرواية يونس، عن الزهري.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بمثله، إلا أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: قَالُوا: نَصْبِرُ، كَرِوَايَةِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
‏‏‏‏ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ انہوں نے کہا: ہم صبر کریں گے۔
حدیث نمبر: 2439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك ، قال: جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم الانصار، فقال: " افيكم احد من غيركم؟، فقالوا: لا إلا ابن اخت لنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن ابن اخت القوم منهم، فقال: إن قريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة، وإني اردت ان اجبرهم واتالفهم، اما ترضون ان يرجع الناس بالدنيا، وترجعون برسول الله إلى بيوتكم، لو سلك الناس واديا، وسلك الانصار شعبا، لسلكت شعب الانصار ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ؟، فَقَالُوا: لَا إِلَّا ابْنُ أُخْتٍ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَمُصِيبَةٍ، وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ وَأَتَأَلَّفَهُمْ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى بُيُوتِكُمْ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ ".
‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور فرمایا: تم میں کوئی غیر ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں مگر ایک ہماری بہن کا لڑکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہن کا لڑکا قوم میں داخل ہے۔ پھر فرمایا: قریش نے ابھی جاہلیت کو چھوڑا ہے اور ابھی مصیبت سے نجات پائی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کی فریاد رسی کروں اور ان کی دلجوئی کروں اور کیا تم خوش نہیں ہوتے ہو کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ (باقی رہی میری محبت اور رفاقت تمہارے ساتھ وہ تو ایسی ہی ہے) کہ اگر سب لوگ ایک میدان کی راہ لیں اور انصار ایک گھاٹی کی (جو دو پہاڑوں کے بیچ میں ہو) تو میں انصار ہی کی گھاڑی میں جاؤں۔ (اور ان کا ساتھ کبھی نہ چھوڑوں)۔
حدیث نمبر: 2440
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن الوليد ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، قال: سمعت انس بن مالك ، قال: لما فتحت مكة، قسم الغنائم في قريش، فقالت الانصار: إن هذا لهو العجب إن سيوفنا تقطر من دمائهم، وإن غنائمنا ترد عليهم، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فجمعهم، فقال: " ما الذي بلغني عنكم؟ "، قالوا: هو الذي بلغك، وكانوا لا يكذبون، قال: " اما ترضون ان يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم، وترجعون برسول الله إلى بيوتكم، لو سلك الناس واديا او شعبا، وسلكت الانصار واديا او شعبا، لسلكت وادي الانصار، او شعب الانصار ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ، قَسَمَ الْغَنَائِمَ فِي قُرَيْشٍ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْعَجَبُ إِنَّ سُيُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، وَإِنَّ غَنَائِمَنَا تُرَدُّ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَهُمْ، فَقَالَ: " مَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ "، قَالُوا: هُوَ الَّذِي بَلَغَكَ، وَكَانُوا لَا يَكْذِبُونَ، قَالَ: " أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا إِلَى بُيُوتِهِمْ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى بُيُوتِكُمْ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ، أَوْ شِعْبَ الْأَنْصَارِ ".
‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مکہ فتح ہوا تو غنیمت قریش میں بانٹی گئی اور انصار نے کہا: یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ ہماری تو تلواریں خون بہائیں اور غنیمت یہ لوگ لے جائیں اور یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اکھٹا کیا اور فرمایا: یہ کیا بات ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے؟ انہوں نے غرض کی کہ جی ہاں وہی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور وہ لوگ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم کو خوشی نہیں ہوتی کہ اور لوگ دنیا لے کر اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ اور میرا حال تو یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک میدان کی راہ لیں یا گھاٹی کی اور انصار ایک وادی یا گھاٹی کی تو میں انصار کی وادی میں چلوں یا انہی کی گھاٹی میں۔
حدیث نمبر: 2441
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وإبراهيم بن محمد بن عرعرة ، يزيد احدهما على الآخر الحرف بعد الحرف، قالا: حدثنا معاذ بن معاذ ، حدثنا ابن عون ، عن هشام بن زيد بن انس ، عن انس بن مالك ، قال: لما كان يوم حنين، اقبلت هوازن وغطفان وغيرهم بذراريهم ونعمهم، ومع النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ عشرة آلاف ومعه الطلقاء، فادبروا عنه حتى بقي وحده، قال: فنادى يومئذ نداءين لم يخلط بينهما شيئا، قال: فالتفت عن يمينه، فقال: يا معشر الانصار، فقالوا: لبيك يا رسول الله ابشر نحن معك، قال: ثم التفت عن يساره، فقال: يا معشر الانصار، قالوا: لبيك يا رسول الله ابشر نحن معك، قال: وهو على بغلة بيضاء فنزل، فقال: انا عبد الله ورسوله، فانهزم المشركون واصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائم كثيرة، فقسم في المهاجرين والطلقاء، ولم يعط الانصار شيئا، فقالت الانصار: إذا كانت الشدة فنحن ندعى وتعطى الغنائم غيرنا، فبلغه ذلك فجمعهم في قبة، فقال: يا معشر الانصار، ما حديث بلغني عنكم؟ فسكتوا، فقال: يا معشر الانصار اما ترضون ان يذهب الناس بالدنيا، وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم، قالوا: بلى يا رسول الله رضينا، قال: فقال: لو سلك الناس واديا، وسلكت الانصار شعبا، لاخذت شعب الانصار "، قال هشام: فقلت يا ابا حمزة انت شاهد ذاك؟، قال: واين اغيب عنه،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ ، يزيد أحدهما على الآخر الحرف بعد الحرف، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَنَعَمِهِمْ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمَعَهُ الطُّلَقَاءُ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، قَالَ: فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ فَنَزَلَ، فَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى وَتُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ فَسَكَتُوا، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ رَضِينَا، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ "، قَالَ هِشَامٌ: فَقُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ؟، قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ،
‏‏‏‏ سيدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حنین کا دن ہوا ہوازن اور غطفان اور قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ بھی جن کو طلقاء کہتے ہیں پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے دئیے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے اور اس دن دو آوزیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا پہلے داہنی طرف منہ کیا اور پکارا: اے انصار کے گروہ! تو انصار نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ کے رسول! آپ خوش ہوں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا اے گروہ انصار کے! تو انہوں نے پھر جواب دیا اور کہا کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ کے رسول! آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے۔ اس سے اتر پڑے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں، شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت خاص ہے انبیاء کے واسطے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ! اللہ کا بندہ ہونا کتنی بڑی نعمت ہے کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے۔ ؎ داغ غلامیت کز و پایہ خسر و بلند صد ر ولایت شود بندہ کہ سلطان خرید) اور اس کا رسول، اور شکست کھا گئے مشرک لوگ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت لوٹ کا مال ہاتھ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور مکہ کے لوگوں میں اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ کٹھن گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر لگی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا: اے انصار کے گروہ! یہ کیا بات ہے جو مجھ کو تم سے پہنچی ہے۔ تب وہ چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کے گروہ! کیا تم خوش نہیں ہوتے ہو اس پر کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں گے اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جا کر اپنے گھر میں محفوظ رکھ لو۔ انہوں نے کہا: بیشک اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری میں تو میں تو انصار کی گھاٹی کی راہ لوں۔ ہشام نے کہا: میں نے کہا: اے ابوحمزہ! تم اس وقت حاضر تھے؟ انہوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟
حدیث نمبر: 2442
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ ، وحامد بن عمر ، ومحمد بن عبد الاعلى ، قال ابن معاذ: حدثنا المعتمر بن سليمان ، عن ابيه ، قال: حدثني السميط ، عن انس بن مالك ، قال: افتتحنا مكة، ثم إنا غزونا حنينا، فجاء المشركون باحسن صفوف رايت، قال: فصفت الخيل، ثم صفت المقاتلة، ثم صفت النساء من وراء ذلك، ثم صفت الغنم، ثم صفت النعم، قال: ونحن بشر كثير قد بلغنا ستة آلاف، وعلى مجنبة خيلنا خالد بن الوليد، قال: فجعلت خيلنا تلوي خلف ظهورنا، فلم نلبث ان انكشفت خيلنا، وفرت الاعراب ومن نعلم من الناس، قال فنادى رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا للمهاجرين يا للمهاجرين "، ثم قال: " يا للانصار يا للانصار "، قال: قال انس: هذا حديث عمية، قال: قلنا: لبيك يا رسول الله، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " فايم الله ما اتيناهم حتى هزمهم الله "، قال: فقبضنا ذلك المال، ثم انطلقنا إلى الطائف فحاصرناهم اربعين ليلة، ثم رجعنا إلى مكة فنزلنا، قال: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي الرجل المائة من الإبل، ثم ذكر باقي الحديث كنحو حديث قتادة، وابي التياح، وهشام بن زيد.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي السُّمَيْطُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: افْتَتَحْنَا مَكَّةَ، ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَيْنًا، فَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَيْتُ، قَالَ: فَصُفَّتِ الْخَيْلُ، ثُمَّ صُفَّتِ الْمُقَاتِلَةُ، ثُمَّ صُفَّتِ النِّسَاءُ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ، ثُمَّ صُفَّتِ الْغَنَمُ، ثُمَّ صُفَّتِ النَّعَمُ، قَالَ: وَنَحْنُ بَشَرٌ كَثِيرٌ قَدْ بَلَغْنَا سِتَّةَ آلَافٍ، وَعَلَى مُجَنِّبَةِ خَيْلِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ خَيْلُنَا تَلْوِي خَلْفَ ظُهُورِنَا، فَلَمْ نَلْبَثْ أَنِ انْكَشَفَتْ خَيْلُنَا، وَفَرَّتِ الْأَعْرَابُ وَمَنْ نَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ فَنَادَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا لَلْمُهَاجِرِينَ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا لَلْأَنْصَارِ يَا لَلْأَنْصَارِ "، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: هَذَا حَدِيثُ عِمِّيَّةٍ، قَالَ: قُلْنَا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَايْمُ اللَّهِ مَا أَتَيْنَاهُمْ حَتَّى هَزَمَهُمُ اللَّهُ "، قَالَ: فَقَبَضْنَا ذَلِكَ الْمَالَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاهُمْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى مَكَّةَ فَنَزَلْنَا، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الرَّجُلَ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، ثُمَّ ذَكَرَ بَاقِيَ الْحَدِيثِ كَنَحْوِ حَدِيثِ قَتَادَةَ، وَأَبِي التَّيَّاحِ، وَهِشَامِ بْنِ زَيْدٍ.
‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے مکہ فتح کیا پھر جہاد کیا حنین پر اور مشرک خوب صفیں باندھ کر آئے جو میں نے دیکھیں اور پہلے گھوڑوں نے صف باندھی (یعنی سواروں نے) پھر لڑنے والے لوگوں نے، پھر عورتوں نے، ان کے پیچھے پھر صف باندھی بکریوں نے، پھر چار پایوں نے اور ہم بہت لوگ تھے کہ پہنچ گئے تھے چھ ہزار کو (اور یہ راوی کی غلطی ہے حقیقت میں اس دن بارہ ہزار آدمی تھے جیسا اوپر کی روایت میں گزرا) اور ہماری ایک جانب کے سواروں پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسالدار تھے اور ایک بارگی ہمارے گھوڑے پیٹھ کی طرف جھکنے لگے اور ہم نہ ٹھہرے یہاں تک کہ ننگے ہوئے گھوڑے ہمارے اور گاؤں کے لوگ بھاگنے لگے اور جن لوگوں کو میں جانتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا کہ ہاں اے مہاجرین! ہاں اے مہاجرین! پھر پکارا کہ اے انصار! اے انصار! اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث ایک جماعت کی ہے یا کہا: یہ حدیث میرے چچاؤں کی ہے پھر ہم نے کہا: حاضر ہیں ہم اے اللہ کے رسول، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور کہا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اللہ کی قسم! کہ ہم پہنچے نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور ہم نے ان سب کا مال لے لیا پھر ہم طائف کی طرف چلے اور ان کو چالیس روز تک گھیرا پھر مکہ لوٹ آئے اور نزول فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمانے لگے پھر آگے باقی حدیث ذکر کی جیسے روایت قتادہ اور ابوالتیاح اور ہشام بن زید کی اوپر گزری۔
حدیث نمبر: 2443
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن ابي عمر المكي ، حدثنا سفيان ، عن عمر بن سعيد بن مسروق ، عن ابيه ، عن عباية بن رفاعة ، عن رافع بن خديج ، قال: اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا سفيان بن حرب، وصفوان بن امية، وعيينة بن حصن، والاقرع بن حابس، كل إنسان منهم مائة من الإبل، واعطى عباس بن مرداس دون ذلك، فقال عباس بن مرداس: انجعل نهبي ونهب العبيد بين عيينة والاقرع فما كان بدر ولا حابس يفوقان مرداس في المجمع وما كنت دون امرئ منهما ومن تخفض اليوم لا يرفع، قال: فاتم له رسول الله صلى الله عليه وسلم مائة،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ، وَصَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، وَعُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ، وَالْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ دُونَ ذَلِكَ، فَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أنجْعَلُ نَهْبِي وَنَهْبَ الْعُبَيْدِ بَيْنَ عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعِ فَمَا كَانَ بَدْرٌ وَلَا حَابِسٌ يَفُوقَانِ مِرْدَاسَ فِي الْمَجْمَعِ وَمَا كُنْتُ دُونَ امْرِئٍ مِنْهُمَا وَمَنْ تَخْفِضْ الْيَوْمَ لَا يُرْفَعِ، قَالَ: فَأَتَمَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً،
‏‏‏‏ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور صفوان اور عیینہ اور اقرع ان سب کو سو سو اونٹ دئیے اور عباس بن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباس نے یہ اشعار کہے۔ جو اوپر مذکور ہوئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سو اونٹ پورے کردئیے۔ ترجمہ اشعار: آپ میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عینیہ اور اقراع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے یعنی مجھ سے کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوں سے کچھ کم نہیں ہوں اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہوئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ پورے کر دئیے۔
حدیث نمبر: 2444
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا احمد بن عبدة الضبي ، اخبرنا ابن عيينة ، عن عمر بن سعيد بن مسروق بهذا الإسناد، ان النبي صلى الله عليه وسلم قسم غنائم حنين، فاعطى ابا سفيان بن حرب مائة من الإبل، وساق الحديث بنحوه، وزاد واعطى علقمة بن علاثة مائة،وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ، فَأَعْطَى أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِهِ، وَزَادَ وَأَعْطَى عَلْقَمَةَ بْنَ عُلَاثَةَ مِائَةً،
‏‏‏‏ عمر بن سعید مسروق نے دوسری اسناد سے یہی روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم حنین تقسیم کیے اور ابوسفیان کو سو اونٹ دئیے اور حدیث بیان کی مانند اس کی اور اتنی بات زیادہ بیان کی کہ علقمہ بن علاثہ کو سو دئیے۔
حدیث نمبر: 2445
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا مخلد بن خالد الشعيري ، حدثنا سفيان ، حدثني عمر بن سعيد بهذا الإسناد، ولم يذكر في الحديث علقمة بن علاثة، ولا صفوان بن امية، ولم يذكر الشعر في حديثه.وحَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ عَلْقَمَةَ بْنَ عُلَاثَةَ، وَلَا صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الشِّعْرَ فِي حَدِيثِهِ.
‏‏‏‏ عمر بن سعید سے اس سند سے یہی روایت مروی ہوئی اور اس میں علقمہ بن علاثہ اور صفوان بن امیہ کا ذکر نہیں نہ شعروں کا۔
حدیث نمبر: 2446
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سريج بن يونس ، حدثنا إسماعيل بن جعفر ، عن عمرو بن يحيى بن عمارة ، عن عباد بن تميم ، عن عبد الله بن زيد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما فتح حنينا قسم الغنائم، فاعطى المؤلفة قلوبهم، فبلغه ان الانصار يحبون ان يصيبوا ما اصاب الناس، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطبهم، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " يا معشر الانصار الم اجدكم ضلالا فهداكم الله بي، وعالة فاغناكم الله بي، ومتفرقين فجمعكم الله بي، ويقولون: الله ورسوله امن، فقال: الا تجيبوني "، فقالوا: الله ورسوله امن، فقال: اما إنكم لو شئتم ان تقولوا كذا وكذا، وكان من الامر كذا وكذا لاشياء عددها " زعم عمر وان لا يحفظها، فقال: " الا ترضون ان يذهب الناس بالشاء والإبل، وتذهبون برسول الله إلى رحالكم الانصار شعار، والناس دثار ولولا الهجرة لكنت امرا من الانصار، ولو سلك الناس واديا وشعبا، لسلكت وادي الانصار وشعبهم، إنكم ستلقون بعدي اثرة، فاصبروا حتى تلقوني على الحوض ".حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا فَتَحَ حُنَيْنًا قَسَمَ الْغَنَائِمَ، فَأَعْطَى الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ، فَبَلَغَهُ أَنَّ الْأَنْصَارَ يُحِبُّونَ أَنْ يُصِيبُوا مَا أَصَابَ النَّاسُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَهُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ اللَّهُ بِي، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللَّهُ بِي، وَمُتَفَرِّقِينَ فَجَمَعَكُمُ اللَّهُ بِي، وَيَقُولُونَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، فَقَالَ: أَلَا تُجِيبُونِي "، فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ شِئْتُمْ أَنْ تَقُولُوا كَذَا وَكَذَا، وَكَانَ مِنَ الْأَمْرِ كَذَا وَكَذَا لِأَشْيَاءَ عَدَّدَهَا " زَعَمَ عَمْرٌ وَأَنْ لَا يَحْفَظُهَا، فَقَالَ: " أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاءِ وَالْإِبِلِ، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى رِحَالِكُمْ الْأَنْصَارُ شِعَارٌ، وَالنَّاسُ دِثَارٌ وَلَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهُمْ، إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ ".
‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حنین فتح کیا اور غنیمت تقسیم کی اور مؤلفتہ القلوب کو مال دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی کہ انصار چاہتے ہیں کہ جیسا اور لوگوں کو حصہ ملا ہے ویسا ہی ہم کو بھی ملے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: اے انصار کے گروہ! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا پھر اللہ نے تم کو ہدایت کی میرے سبب سے اور کیا میں نے محتاج نہیں پایا تم کو، پھر اللہ نے میرے سبب سے تم کو امیر کیا اور کیا میں نے تم کو متفرق نہیں پایا، پھر اللہ نے اکٹھا کر دیا تم کو۔ (انصار میں دو قبیلے بہت بڑے تھے ایک اوس، دوسرے خزرج ان میں سو برس سے برابر لڑائی چلی آتی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اسے دور کیا) اور وہ کہتے تھے: اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر بہت احسان ہے (یعنی جو آپ نے کیا وہی حق ہے ہم اس پر راضی ہیں) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے جواب نہیں دیتے۔ انہوں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت احسان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو کہ ایسا ایسا ہو۔ کئی چیزوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ عمرو کہتے ہیں: میں انہیں بھول گیا (تو یہ نہیں ہو سکتا) پھر فرمایا: تم اس سے خوشی نہیں ہوتے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر اپنے گھر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔ پھر فرمایا: انصار استر ہیں (یعنی بدن سے ہمارے لگے ہوئے ہیں جیسے استر لگا ہوتا ہے) اور باقی لوگ ابرہ ہیں (یعنی بہ نسبت انصار کے ہم سے دور ہیں جیسے ابرہ بند سے دور ہوتا ہے) اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک آدمی ہوتا اور اگر لوگ ایک میدان اور گھاٹی میں جائیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں جاؤں اور میرے بعد لوگ تم کو پیچھے ڈالیں گے (یعنی تم کو نہ دے کر اوروں کو دیں گے) تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ ملنا مجھ سے حوض پر۔
حدیث نمبر: 2447
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، وعثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: لما كان يوم حنين، آثر رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا في القسمة، فاعطى الاقرع بن حابس مائة من الإبل، واعطى عيينة مثل ذلك، واعطى اناسا من اشراف العرب، وآثرهم يومئذ في القسمة، فقال رجل: والله إن هذه لقسمة ما عدل فيها، وما اريد فيها وجه الله، قال: فقلت: والله لاخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاتيته فاخبرته بما قال، قال: فتغير وجهه حتى كان كالصرف، ثم قال: " فمن يعدل إن لم يعدل الله ورسوله؟، قال: ثم قال: يرحم الله موسى قد اوذي باكثر من هذا فصبر "، قال: قلت: لا جرم، لا ارفع إليه بعدها حديثا.حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإسحاق بن إبراهيم ، قَالَ إسحاق أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، آثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا فِي الْقِسْمَةِ، فَأَعْطَى الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ الْعَرَبِ، وَآثَرَهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْقِسْمَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا عُدِلَ فِيهَا، وَمَا أُرِيدَ فِيهَا وَجْهُ اللَّهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ، قَالَ: فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ حَتَّى كَانَ كَالصِّرْفِ، ثُمَّ قَالَ: " فَمَنْ يَعْدِلُ إِنْ لَمْ يَعْدِلِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ "، قَالَ: قُلْتُ: لَا جَرَمَ، لَا أَرْفَعُ إِلَيْهِ بَعْدَهَا حَدِيثًا.
‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حنین کا دن ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو غنیمت کا مال زیادہ دیا چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے اور عیینہ کو بھی ایسے ہی اور چند آدمیوں کو سردارانِ عرب سے ایسا ہی کچھ دیا اور لوگوں سے ان کو مقدم کیا تقسیم میں۔ سو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تقسیم ایسی ہے کہ اس میں عدل نہیں ہے اور اس میں اللہ کی رضا مندی مقصود نہیں۔ تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کی قسم! میں اس کی خبر دوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل گیا جیسے خون ہوتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون عدل کرے گا اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہ کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم کرے موسیٰ علیہ السلام پر کہ ان کو اس سے زیادہ ستایا گیا مگر انہوں نے صبر کیا۔ اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج سے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بات کی خبر نہ دوں گا (اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں تکلیف ہوتی ہے)۔
حدیث نمبر: 2448
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حفص بن غياث ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما، فقال رجل: إنها لقسمة ما اريد بها وجه الله، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فساررته، فغضب من ذلك غضبا شديدا واحمر وجهه، حتى تمنيت اني لم اذكره له، قال: ثم قال: " قد اوذي موسى باكثر من هذا فصبر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّهَا لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ غَضَبًا شَدِيدًا وَاحْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَذْكُرْهُ لَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " قَدْ أَوُذِيَ مُوسَى بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ".
‏‏‏‏ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال بانٹا اور ایک شخص نے کہا کہ یہ تقسیم ایسی ہے کہ اللہ کی رضا مندی اس سے مقصود نہیں پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر چپکے سے کہہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غصہ ہوئے اور چہرہ آپ کا لال ہو گیا اور میں نے آرزو کی کہ کاش اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو خوب ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ ستایا اور انہوں نے صبر کیا (موسیٰ علیہ السلام پردہ میں چھپ کر نہاتے تھے جاہلوں نے کہا: ان کے انثیین بڑے ہیں ایک بار پتھر پر کپڑے رکھ دئیے وہ بھاگا۔ آپ اس کے پیچھے دوڑے لوگوں نے دیکھ لیا کہ کچھ عیب نہیں اور جب ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا ان کا جنازہ آسمان پر ملائکہ لے گئے۔ جاہلوں نے کہا: انہوں نے ان کو حسد سے مار ڈالا آخر وہ ایک تخت پر آسمان سے ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مجھے نہیں مارا۔ غرض اس طرح ہمیشہ جاہل لوگ انبیاء، علماء کو بدنام کرتے چلے آئے ہیں خدام حدیث اور وارثان علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبر کرتے رہے ہیں)۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.