الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 85. باب فَضْلِ الْمَدِينَةِ وَدُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا بِالْبَرَكَةِ وَبَيَانِ تَحْرِيمِهَا وَتَحْرِيمِ صَيْدِهَا وَشَجَرِهَا وَبَيَانِ حُدُودِ حَرَمِهَا: باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی حرمت اس کی ظاہر کی ورنہ حرمت اس کی آسمان و زمین کے بننے کے دن تھی) اور اس کے لوگوں کے لئے دعا کی اور میں نے مدینہ کو حرام کیا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام کیا اور میں نے دعا کی مدینہ کے صاع اور مد کے لئے اس سے دو حصے برابر جیسے ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی اہل مکہ کے لئے۔“
عمرو سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہوا اور لیکن وہیب کی روایت میں تو «الدَّرَاوَرْدِىِّ» کی مثل یہی ہے کہ ”میں نے دعا کی ابراہیم علیہ السلام کے دو حصہ برابر۔“ اور سلیمان بن بلال اور عبدالعزیز کی روایت میں یہ ہے کہ ”دعا کی میں نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے برابر۔“
رافع نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرام قرار دیتا ہوں۔“ مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہے۔
نافع نے کہا کہ مروان نے خطبہ پڑھا اور ذکر کیا مکہ کا اور اس کے رہنے والوں کا سو پکارا اس کو سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ صحابی نے اور کہا کہ یہ کیا سنتا ہوں میں تجھ سے کہ تو نے ذکر کیا مکہ کا اور اس کے لوگوں کا اور اس کے حرم ہونے کا اور نہ ذکر کیا مدینہ کا اور نہ وہاں کے لوگوں کا اور نہ اس کے حرم ہونے کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم ٹھہرایا ہے۔ دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں اور یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم ٹھہرانے کی ہمارے پاس ایک خولانی چمڑے پر لکھی ہوئی ہے اگر تم چاہو تو میں تم کو پڑھا دوں۔ راوی نے کہا کہ مروان خاموش ہو رہا اور کہا کہ میں نے بھی اس میں سے کچھ سنا ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ابراہیم علیہ السلام نے حرم مقرر کیا مکہ کا اور میں حرم مقرر کرتا ہوں مدینہ کا دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں (یعنی جو مدینہ کے دونوں طرف واقع ہیں) کوئی کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کوئی جانور شکار کیا جائے۔“
عامر بن سعد نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے حرم مقرر کر دیا درمیان دونوں میدانوں کالے پتھر والوں کے کہ نہ کاٹا جائے کانٹے دار درخت وہاں کا۔“ اور فرمایا: ”کہ مدینہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور نہیں چھوڑتا کوئی مدینہ کو مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں صبر کرتا ہے کوئی اس کی بھوک، پیاس پر اور محنت و مشقت پر مگر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوتا ہوں قیامت کے دن۔“
سیدنا عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے وہی روایت بیان کی مثل حدیث ابن نمیر کی اور اس میں زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”نہیں ارادہ کرتا ہے کوئی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کو گھلا دیتا ہے ایسا جیسے سیسہ گھل جاتا ہے آگ میں یا نمک گھل جاتا ہے پانی میں۔“
عامر بن سعد نے کہا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا، راہ میں ایک غلام کو دیکھا کہ وہ ایک درخت کاٹ رہا ہے یا پتے توڑ رہا ہے۔ سو اس کے کپڑے چھین لئے اور اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا: آپ وہ اس کو پھیر دیجئے یا ہم کو عنایت کیجئے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ اس سے کہ میں وہ چیز پھیر دوں۔ جو مجھے بطریق انعام کے عنایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہرگز نہ پھیرا انہوں نے سامان اس کا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”کہ ایک لڑکا ڈھونڈھو جو ہماری خدمت کرے۔“ سو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے لے کر گئے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے۔ پھر ایک حدیث میں کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ جب کوہ احد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد ہم کو دوست رکھتا ہے اور ہم احد کو دوست رکھتے ہیں۔“ پھر جب مدینہ کے قریب آئے تو فرمایا: ”کہ یا اللہ! حرام کرتا ہوں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کو جیسا ابراہیم علیہ السلام نے حرام کیا مکہ کو۔ یا اللہ! برکت دے ان کو ان کے مد اور صاع میں۔“
کہا مسلم رحمہ اللہ نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث سعید اور قتیبہ نے، ان سے یعقوب نے، ان سے عمرہ بن ابی عمرہ نے، ان سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مثل اس کے جو اوپر گزری مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرام ٹھہراتا ہوں درمیان دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں۔“
عاصم نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم ٹھہرایا مدینہ کو؟ کہا: ہاں فلاں مقام سے فلاں تک۔ ”سو جو اس میں کوئی بات نکالے یعنی گناہ کی تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتون اور لوگوں کی، نہ قبول کرے گا اللہ اس سے قیامت کے دن فرض نہ نفل۔“ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے کہا: یا جگہ دی کسی نئے گناہ کی بات کرنے والے کو۔
عاصم نے کہا کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مدینہ کو حرم ٹھہرایا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں وہ حرم ہے نہ توڑا جائے گا درخت اس کا اور جو ایسا کرے گا اس پر اللہ اور فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِى مِكْيَالِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِى صَاعِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِى مُدِّهِمْ» کہ ”یااللہ! برکت دے ان کو (یعنی مدینہ والوں کو) ان کے ماپ میں اور برکت دے ان کے صاع میں اور برکت دے ان کے مد میں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَىْ مَا بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ» کہ ”یا اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔“
ابراہیم نے اپنے باپ سے روایت کہ خطبہ پڑھا ہم پر سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اور فرمایا: کہ جو دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے) کوئی اور چیز ہے سوا کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے اور راوی نے کہا کہ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا ان کی تلوار کی میان میں تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمریں (یعنی زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان تھا (یعنی ان کے قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے عیر اور ثور کے بیچ میں سو جو شخص کہ کوئی نئی بات نکالے اس جگہ یا جگہ دے کسی نئی بات نکالنے والوں کو تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی، نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا کوئی فرض، نہ سنت اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ اعتبار کیا جاتا ہے ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اور جس نے اپنے کو اپنے باپ کے سوا غیر کا فرزند ٹھہرایا یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے کو قرار دیا، اس پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور نہ قبول کرے گا اس سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض، نہ سنت۔“ مسلم رحمہ اللہ نے کہا کہ روایت ابوبکر و زہیر کی تو وہیں تک ہو چکی کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار ہے اور ان دونوں کی روایت میں یہ ذکر نہیں کہ صحیفہ تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا۔
اعمش نے اسی اسناد سے یہی مضمون مثل ابوکریب کے روایت کیا جو ابو معاویہ سے مروی ہے، اخیر تک بیان فرمایا اور اتنا زیادہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جو پناہ توڑے کسی مسلمان کی اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض، نہ سنت۔“ اور ان کی دونوں حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ جو اپنے کو باپ کے سوا کسی غیر کا فرزند بنا دے اور وکیع کی روایت میں قیامت کا دن مذکور نہیں۔
مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے اس سند سے بھی مروی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے پھر جو کوئی اس میں گناہ کرے یا کوئی گناہ کرنے والے کو جگہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کوئی فرض نہ نفل۔“
مذکورہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں «يوم القيامه» کے الفاظ نہیں اور یہ اضافہ ہے کہ ”مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے اور ایک عام مسلمان کی پناہ کا بھی اعتبار کیا جائے گا جس کسی نے مسلمانوں کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس سے قیامت کے دن کوئی نفل اور فرض قبول نہیں کیا جائے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں کسی ہرن کو مدینہ میں چرتا دیکھتا ہوں تو کبھی نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ ”دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرم ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں کہ جو مدینہ کے مشرق اور مغرب کی طرف واقع ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں کسی ہرن کو پاؤں جو ان کے بیچ میں چرتا ہو تو کبھی نہ ڈراؤں اور نہ بھگاؤں اس کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ میل کو مدینہ کے گرداگرد رمنا مقرر کر دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں کی عادت تھی کہ جب نیا کوئی پھل دیکھتے تھے (یعنی ابتدائے فصل کا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کو لے لیتے تو دعا کرتے «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى ثَمَرِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنِّى عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَإِنِّى أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ» کہ ”یا اللہ! برکت دے ہمارے پھلوں میں، برکت دے ہمارے شہر میں، اور برکت دے ہمارے صاع میں، اور برکت دے ہمارے مد میں۔ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے غلام اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا غلام اور نبی ہوں اور انہوں نے دعا کی تجھ سے مکہ کے لیے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اس کے برابر جو انہوں نے مکہ کے لیے کی مثل اس کے اور بھی۔“ اس کے ساتھ بلاتے آپ کسی چھوٹے لڑکے اپنے کو اور وہ پھل اسے دے دیتے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلا پھل آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا وَفِى ثِمَارِنَا وَفِى مُدِّنَا وَفِى صَاعِنَا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ» کہ ”یااللہ! برکت دے ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں، اور ہمارے صاع میں برکت پر برکت دے۔“ پھر وہ پھل دے دیتے کسی چھوٹے لڑکے کو جو اس وقت حاضر ہوتا۔
|