سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس کام سے تم کو منع کر دوں اس سے باز رہو، اور جس کام کا حکم کروں اس کو بجا لاؤ جہاں تک تم سے ہو سکے، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ تباہ ہو گئے بہت پوچھنے سے اور اختلاف کرنے سے اپنے پیغمبروں پر۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا مسلمانوں میں قصور اس مسلمان کا ہے جس نے کوئی بات پوچھی وہ حرام نہ تھی، لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہو گئی۔“
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سب سے زیادہ قصور اس مسلمان کا ہے جس نے کسی کام کے متعلق سوال کیا اور وہ حرام نہ تھا لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہو گیا۔“
زہری سے انہی اسناد کے تحت مروی ہے اور حدیث معمر میں ہے کہ ”وہ شخص جس نے کوئی بات پوچھی اور موشگافی کی۔“ اور حدیث یونس میں عامر بن سعد سے مروی ہے کہ اس نے سعد سے سنا۔
حدثنا محمود بن غيلان ، ومحمد بن قدامة السلمي ، ويحيى بن محمد اللؤلئي والفاظهم متقاربة، قال محمود: حدثنا النضر بن شميل ، وقال الآخران: اخبرنا النضر، اخبرنا شعبة ، حدثنا موسى بن انس ، عن انس بن مالك ، قال: بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اصحابه شيء، فخطب، فقال: " عرضت علي الجنة والنار، فلم ار كاليوم في الخير والشر، ولو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا، ولبكيتم كثيرا "، قال: فما اتى على اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم اشد منه، قال: غطوا رءوسهم ولهم خنين، قال: فقام عمر، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا، قال: فقام ذاك الرجل، فقال: من ابي، قال: ابوك فلان، فنزلت: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ السُّلَمِيُّ ، ويحيى بن محمد اللؤلئي وألفاظهم متقاربة، قَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَصْحَابِهِ شَيْءٌ، فَخَطَبَ، فَقَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "، قَالَ: فَمَا أَتَى عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمٌ أَشَدُّ مِنْهُ، قَالَ: غَطَّوْا رُءُوسَهُمْ وَلَهُمْ خَنِينٌ، قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، قَالَ: فَقَامَ ذَاكَ الرَّجُلُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي، قَالَ: أَبُوكَ فُلَانٌ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی کوئی بات سنی (جو بری تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا، فرمایا: ”سامنے لائی گئی میرے جنت اور دوزخ، تو میں نے آج کی سی بہتری اور آج کی سی برائی کبھی نہیں دیکھی (یعنی جنت میں بھلائی اور دوزخ میں برائی) اور اگر تم جانتے ہوتے جو میں جانتا ہوں البتہ کم ہنستے اور بہت رویا کرتے،“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر اس دن سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں گزرا، انہوں نے اپنے سروں کو چھپا لیا اور رونے کی آواز ان میں سے نکلنے لگی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا» راضی ہوئے ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر، ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا: میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ فلاں شخص تھا، اس کا نام بتا دیا۔“ تب یہ آیت اتری: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ»”اے ایمان والو! مت پوچھو ایسی باتیں اگر وہ کھلیں تو تم کو بری لگیں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ فلاں شخص تھا“، تب یہ آیت اتری: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ»”اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھو جن کے کھلنے سے تم کو برا معلوم ہو۔“
وحدثني حرملة بن يحيي بن عبد الله بن حرملة بن عمران التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني انس بن مالك ، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج حين زاغت الشمس، فصلى لهم صلاة الظهر، فلما سلم، قام على المنبر، فذكر الساعة، وذكر ان قبلها امورا عظاما، ثم قال: من احب ان يسالني عن شيء، فليسالني عنه، فوالله لا تسالونني عن شيء إلا اخبرتكم به، ما دمت في مقامي هذا، قال انس بن مالك: فاكثر الناس البكاء حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان يقول: سلوني، فقام عبد الله بن حذافة، فقال: من ابي يا رسول الله، قال: ابوك حذافة، فلما اكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم، من ان يقول: سلوني، برك عمر، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال عمر ذلك، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولى والذي نفس محمد بيده، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا، في عرض هذا الحائط، فلم ار كاليوم في الخير والشر، قال ابن شهاب: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال: قالت ام عبد الله بن حذافة لعبد الله بن حذافة: ما سمعت بابن قط، اعق منك، اامنت ان تكون امك قد قارفت بعض ما تقارف نساء اهل الجاهلية، فتفضحها على اعين الناس؟ قال عبد الله بن حذافة: والله لو الحقني بعبد اسود، للحقته ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى لَهُمْ صَلَاةَ الظُّهْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ السَّاعَةَ، وَذَكَرَ أَنَّ قَبْلَهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَنِي عَنْ شَيْءٍ، فَلْيَسْأَلْنِي عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونَنِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ، مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، بَرَكَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْلَى وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا، فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ: مَا سَمِعْتُ بِابْنٍ قَطُّ، أَعَقَّ مِنْكَ، أَأَمِنْتَ أَنْ تَكُونَ أُمُّكَ قَدْ قَارَفَتْ بَعْضَ مَا تُقَارِفُ نِسَاءُ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَفْضَحَهَا عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ: وَاللَّهِ لَوْ أَلْحَقَنِي بِعَبْدٍ أَسْوَدَ، لَلَحِقْتُهُ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ڈھلے پر باہر آئے اور ظہر کی نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو منبر پر کھڑئے ہوئے اور قیامت کا بیان کیا اور فرمایا کہ قیامت سے پہلے کئی باتیں بڑی بڑی ظاہر ہوں گی، پھر فرمایا: ”جو کوئی مجھ سے کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھ لے، قسم اللہ کی جو بات تم مجھ سے پوچھو گے میں تم کو بتا دوں گا جب تک اس جگہ میں ہوں۔“(نووی رحمہ اللہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے بتلاتے، کیوں کہ غیب کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا جب تک اللہ نہ بتلا دے)۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سن کر لوگوں نے بہت رونا شروع کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمانا شروع کیا: پوچھو مجھ سے، آخر عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! میرا باپ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ تھا۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت فرمانے لگے پوچھو مجھ سے (شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا لوگوں کے بہت پوچھنے سے) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ کر بولے: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً» راضی ہوئے ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے سے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو چپ ہو رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آفت قریب ہے قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ابھی لائی گئیں میرے سامنے جنت اور دوزخ اس دیوار کے کونے میں تو میں نے آج کی سی نہ بھلائی دیکھی نہ برائی دیکھی۔“ ابن شہاب نے کہا: مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی ماں نے ان سے کہا: میں نے کوئی بیٹا تجھ سے زیادہ نافرمان نہیں سنا، کیا تو بے ڈر ہے اس بات سےکہ تیری ماں نے بھی وہی گناہ کیا ہو جیسے جاہلیت کی عورتیں کیا کرتی تھیں پھر تو اس کو رسوا کرے لوگوں کی نگاہ میں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر میرا ناتا ایک حبشی غلام سے لگایا جاتا تو میں اسی سے لگ جاتا (گو زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا پر شاید عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ امر معلوم نہ ہوا)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث بیان کرتے ہیں اور زہری نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبد اللہ نے خبر دی کہ مجھے اہل علم میں سے ایک آدمی نے بیان کیا ہے۔
حدثنا يوسف بن حماد المعني ، حدثنا عبد الاعلى ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن انس بن مالك : ان الناس سالوا نبي الله صلى الله عليه وسلم، حتى احفوه بالمسالة، فخرج ذات يوم، فصعد المنبر، فقال: سلوني، لا تسالوني عن شيء، إلا بينته لكم، فلما سمع ذلك القوم ارموا، ورهبوا، ان يكون بين يدي امر قد حضر، قال انس: فجعلت التفت يمينا وشمالا، فإذا كل رجل لاف راسه في ثوبه يبكي، فانشا رجل من المسجد، كان يلاحى، فيدعى لغير ابيه، فقال: يا نبي الله، من ابي؟ قال: ابوك حذافة، ثم انشا عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا عائذا بالله من سوء الفتن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم ار كاليوم قط في الخير والشر، إني صورت لي الجنة والنار، فرايتهما دون هذا الحائط ".حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنَّ النَّاسَ سَأَلُوا نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ، فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: سَلُونِي، لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ، إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْقَوْمُ أَرَمُّوا، وَرَهِبُوا، أَنْ يَكُونَ بَيْنَ يَدَيْ أَمْرٍ قَدْ حَضَرَ، قَالَ أَنَسٌ: فَجَعَلْتُ أَلْتَفِتُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي، فَأَنْشَأَ رَجُلٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، كَانَ يُلَاحَى، فَيُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ سُوءِ الْفِتَنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ قَطُّ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، إِنِّي صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَرَأَيْتُهُمَا دُونَ هَذَا الْحَائِطِ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کر دیا، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور منبر پر چڑھ گئے پھر فرمایا: ”پوچھو مجھ سے، جو بات تم مجھ سے پوچھو گے میں اس کو بیان کر دوں گا۔“ جب لوگوں نے یہ سنا خاموش ہو رہے اور ڈرے کہیں کوئی بات آنے والی نہ ہو (یعنی اگر پوچھیں اور اللہ کا عذاب آنے والا ہو تو ہلاک ہو جائیں) سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا تو ہر شخص اپنا سر کپڑے میں لپیٹے رو رہا ہے، آخر ایک شخص نے شروع کیا مسجد میں جس سے لوگ جھگڑے تھے (اور اس کو دوسرے کا نطفہ کہتے تھے) اس کو پکارتے تھے اور کسی کا بیٹا کہہ کر اس کے باپ کے سوا، اس نے عرض کیا، اے نبی اللہ کے! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جرات کی اور عرض کیا: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً، عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ سُوءِ الْفِتَنِ» ہم راضی ہیں اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں اللہ کی فتنوں کی برائی سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے آج کی طرح برائی اور بھلائی کبھی نہیں دیکھی، جنت اور دوزخ دونوں کی شکل میرے سامنے لائی گئی، میں نے ان دونوں کو اس دیوار کے پاس دیکھا۔“
حدثنا عبد الله بن براد الاشعري ، ومحمد بن العلاء الهمداني ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن اشياء كرهها، فلما اكثر عليه غضب، ثم قال للناس: سلوني عم شئتم، فقال رجل: من ابي؟ قال: ابوك حذافة، فقام آخر، فقال: من ابي يا رسول الله؟ قال: ابوك سالم مولى شيبة، فلما راى عمر ما في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب، قال: يا رسول الله، إنا نتوب إلى الله، وفي رواية ابي كريب، قال: من ابي يا رسول الله، قال: ابوك سالم مولى شيبة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَلُونِي عَمَّ شِئْتُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے ایسی باتیں پوچھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بری لگیں، جب لوگوں نے بہت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے پھر فرمایا: ”پوچھ لو مجھ سے جو تم چاہو۔“ ایک شخص بولا: میرے باپ کا کیا نام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ پھر ایک دوسرا شخص اٹھا، اور کہنے لگا: میرا باپ کون ہے؟ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا مولیٰ۔“ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! ہم توبہ کرتے ہیں اللہ کی طرف۔