958 صحيح حديث عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من اعتق شركا له في عبد، فكان له مال يبلغ ثمن العبد، قوم العبد قيمة عدل فاعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق958 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ، فَكَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ، قُوِّمَ الْعَبْدُ قِيمَةَ عَدْلٍ فَأَعْطَى شُرَكَاءَهُ حِصَصَهُمْ وَعَتَقَ عَلَيْهِ، وَإِلاَّ فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام میں اپنے حصے کو آزاد کر دیا اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ غلام کی پوری قیمت ادا ہو سکے تو اس کی قیمت انصاف کے ساتھ لگائی جائے گی اور باقی حصہ داروں کو ان کے حصے کی قیمت (اسی کے مال سے) دے کر غلام کو اسی کی طرف سے آزاد کر دیا جائے گا ورنہ غلام کا جو حصہ آزاد ہو چکا وہ ہو چکا (باقی حصوں کی آزادی کے لئے غلام کو خود کوشش کر کے قیمت ادا کرنی ہو گی)
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 4 باب إذا أعتق عبدا بين اثنين»
959 صحيح حديث ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: من اعتق شقيصا من مملوكه فعليه خلاصه في ماله، فإن لم يكن له مال قوم المملوك قيمة عدل، ثم استسعي غير مشقوق عليه959 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا مِنْ مَمْلُوكِهِ فَعَلَيْهِ خَلاَصُهُ فِي مَالِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ قُوِّمَ الْمَمْلُوكُ قِيمَةَ عَدْلٍ، ثُمَّ اسْتُسْعِيَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلا دے لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود کما کر ادا کر لے لیکن غلام پر اس کے لئے کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 47 كتاب الشركة: 5 باب تقويم الأشياء بين الشركاء بقيمة عدل»
960 صحيح حديث عائشة ان بريرة جاءت تستعينها في كتابتها، ولم تكن قضت من كتابتها شيئا قالت لها عائشة: ارجعي إلى اهلك فإن احبوا ان اقضي عنك كتابتك ويكون ولاؤك لي فعلت فذكرت ذلك بريرة لاهلها فابوا، وقالوا: إن شاءت ان تحتسب عليك فلتفعل ويكون ولاؤك لنا؛ فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابتاعي فاعتقي، فإنما الولاء لمن اعتق قال، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما بال اناس يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فليس له، وإن شرط مائة شرط، شرط الله احق واوثق960 صحيح حديث عَائِشَةَ أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَكَرَتْ ذلِكَ بَرِيرَةُ َلأهْلِهَا فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لَنَا؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كَتَابِ اللهِ، مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنْ شَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ، شَرْطُ اللهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سیّدہ بریرہ رضی اللہ عنہ ن کے پاس اپنے معاملہ مکاتبت میں مدد لینے آئیں ابھی انہوں نے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ تو اپنے مالکوں کے پاس جا اگر وہ یہ پسند کریں کہ تیرے معاملہ مکاتبت کی پوری رقم میں ادا کر دوں اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہو تو میں ایسا کر سکتی ہوں سیّدہ بریرہ نے یہ صورت اپنے مالکوں کے سامنے رکھی لیکن انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) تمہارے ساتھ ثواب کی نیت سے یہ نیک کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اختیار ہے لیکن تمہاری ولاء تو ہمارے ہی ساتھ رہے گی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ تو خرید کر انہیں آزاد کر دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ ہوتی ہے جو آزاد کر دے راوی نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل کتاب اللہ میں نہیں پس جو بھی کوئی ایسی شرط لگائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ ان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا خواہ وہ ایسی سو شرطیں کیوں نہ لگا لے اللہ تعالیٰ کی شرط ہی سب سے زیادہ معقول اور مضبوط ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 50 كتاب المكاتب: 2 باب ما يجوز من شروط المكاتب»
961 صحيح حديث عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان في بريرة ثلاث سنن: إحدى السنن انها اعتقت فخيرت في زوجها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولاء لمن اعتق ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحم، فقرب إليه خبز وادم من ادم البيت؛ فقال: الم ار البرمة فيها لحم قالوا: بلى، ولكن ذلك لحم تصدق به على بريرة، وانت لا تاكل الصدقة؛ قال: عليها صدقة ولنا هدية961 صحيح حديث عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلاَثُ سُنَنٍ: إِحْدَى السُّنَنِ أَنَّهَا أُعْتِقَتْ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ؛ فَقَالَ: أَلَمْ أَرَ الْبُرْمَةَ فِيهَا لَحْمٌ قَالُوا: بَلَى، وَلكِنْ ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لاَ تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ؛ قَالَ: عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ بریرہ سے دین کے تین مسئلے معلوم ہو گئے اول یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا اور پھر ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے نکاح میں رہیں ورنہ الگ ہو جائیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں کے بارے میں) فرمایا کہ ولا اسی سے قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے اور ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی میں گوشت پکایا جا رہا تھا پھر کھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو ہانڈی میں گوشت پکتا دیکھا ہے؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں لیکن وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 14 باب لا يكون بيع الأمة طلاقا»
وضاحت: سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کے واقعہ کے سبب تین شرعی احکام معلوم ہوئے (۱) جب خاوند اور بیوی دونوں غلام ہوں اور بیوی پہلے آزاد ہو جائے تو اسے نکاح کے فسخ کا اختیار ہو گا۔(۲) جب صدقہ اس کے مستحق کو مل جائے تو وہ ایسے آدمی کو بھی کھلا اور عطا کر سکتا ہے جو صدقہ کا مستحق نہیں۔(۳) آزادی کی نسبت(ولاء کی نسبت) اس کی طرف ہو گی جو رقم لگا کر آزاد کرتا ہے۔(مرتبؒ)
962 صحيح حديث ابن عمر، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الولاء وعن هبته962 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَلاَءِ وَعَنْ هِبَتِهِ
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 10 باب بيع الولاء وهبته»
وضاحت: ابن بطال فرماتے ہیں کہ تحویل نسب(نسب کے بدلنے) کے حرام ہونے پر علماء کا اجماع ہے، چونکہ ولاء کا حکم بھی نسب والا ہے اس لیے جس طرح نسب منتقل نہیں ہو سکتا اسی طرح ولاء کو منتقل کرنا بھی ناجائز ہے جب کہ جاہلیت میں لوگ ولاء کو بیع وغیرہ کے ذریعے پھیر دیتے تھے اس لیے شریعت نے منع فرمایا ہے۔(مرتبؒ)
963 صحيح حديث علي بن ابي طالب رضي الله عنه، خطب على منبر من آجر وعليه سيف فيه صحيفة معلقة، فقال: والله ما عندنا من كتاب يقرا إلا كتاب الله وما في هذه الصحيفة، فنشرها؛ فإذا فيها: اسنان الإبل، وإذا فيها: المدينة حرم من عير إلى كذا فمن احدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا، وإذا فيه: ذمة المسلمين واحدة، يسعى بها ادناهم، فمن اخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا، وإذا فيها: من والى قوما بغير إذن مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا963 صحيح حديث عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه، خَطَبَ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ، فَقَالَ: وَاللهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلاَّ كِتَابُ اللهِ وَمَا فِي هذِهِ الصَّحِيفَةِ، فَنَشَرَهَا؛ فَإِذَا فِيهَا: أَسْنَانُ الإِبِلِ، وَإِذَا فِيهَا: الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَة اللهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً، وَإِذَا فِيهِ: ذِمَّةُ الْمُسْلِمينَ وَاحِدَةٌ، يَسْعى بِهَا أَدْنَاهُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً، وَإِذَا فِيهَا: مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اینٹ سے بنے ہوئے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا آپ تلوار لئے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا آپ نے فرمایا واللہ ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوائے اس صحیفہ کے پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اللہ اس کی کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنی مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنے والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 96 كتاب الاعتصام: 5 باب ما يكره من التعمق والتنازع في العلم»
964 صحيح حديث ابي هريرة رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ايما رجل اعتق امرءا مسلما استنقذالله بكل عضو منه عضوا منه من النار964 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَءًا مُسْلِمًا اسْتَنْقَذَاللهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بھی کبھی کسی مسلمان (غلام) کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے جسم کے ہر عضو کی آزادی کے بدلے اس شخص کے جسم کے بھی ایک ایک عضو کو دوزخ سے آزاد کرے گا۔
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 49 كتاب العتق: 1 باب ما جاء في العتق وفضله»
وضاحت: امام خطابی فرماتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آزاد کردہ غلام کامل اعضاء والا ہونا چاہیے۔ لنگڑا، بھینگا یا ٹنڈا منڈا نہ ہو تاکہ آزاد کرنے والے کو قیامت کے دن جہنم سے پورے جسم کے ساتھ آزادی حاصل ہو۔(مرتبؒ)