الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب
547. بَابُ الأَمَانَةِ
547. امانت کا بیان
حدیث نمبر: 1154
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو نعيم، قال‏:‏ حدثنا سليمان، عن ثابت، عن انس‏:‏ خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، حتى إذا رايت اني قد فرغت من خدمته قلت‏:‏ يقيل النبي صلى الله عليه وسلم، فخرجت من عنده، فإذا غلمة يلعبون، فقمت انظر إليهم إلى لعبهم، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فانتهى إليهم فسلم عليهم، ثم دعاني فبعثني إلى حاجة، فكان في فيء حتى اتيته‏.‏ وابطات على امي، فقالت‏:‏ ما حبسك‏؟‏ قلت‏:‏ بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى حاجة، قالت‏:‏ ما هي‏؟‏ قلت‏:‏ إنه سر للنبي صلى الله عليه وسلم، فقالت‏:‏ احفظ على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره، فما حدثت بتلك الحاجة احدا من الخلق، فلو كنت محدثا حدثتك بها‏.‏حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ‏:‏ خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، حَتَّى إِذَا رَأَيْتُ أَنِّي قَدْ فَرَغْتُ مِنْ خِدْمَتِهِ قُلْتُ‏:‏ يَقِيلُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَإِذَا غِلْمَةٌ يَلْعَبُونَ، فَقُمْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ إِلَى لَعِبِهِمْ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَهَى إِلَيْهِمْ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ دَعَانِي فَبَعَثَنِي إِلَى حَاجَةٍ، فَكَانَ فِي فَيْءٍ حَتَّى أَتَيْتُهُ‏.‏ وَأَبْطَأْتُ عَلَى أُمِّي، فَقَالَتْ‏:‏ مَا حَبَسَكَ‏؟‏ قُلْتُ‏:‏ بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى حَاجَةٍ، قَالَتْ‏:‏ مَا هِيَ‏؟‏ قُلْتُ‏:‏ إِنَّهُ سِرٌّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ‏:‏ احْفَظْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، فَمَا حَدَّثْتُ بِتِلْكَ الْحَاجَةِ أَحَدًا مِنَ الْخَلْقِ، فَلَوْ كُنْتُ مُحَدِّثًا حَدَّثْتُكَ بِهَا‏.‏
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ یہاں تک کہ جب میں نے دیکھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے فارغ ہوں، تو میں نے کہا کہ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیلولہ (دوپہر کو آرام) کریں گے، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل آیا۔ باہر بچے کھیل رہے تھے تو میں کھڑا ہو کر ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پاس آ کر رک گئے، انہیں سلام کیا، پھر مجھے بلایا اور کسی کام کے لیے بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے واپس آنے تک وہاں سائے میں کھڑے رہے۔ مجھے اپنی والدہ کے پاس جانے سے دیر ہوگئی تو انہوں نے پوچھا: تم نے دیر کیوں کر دی؟ میں نے کہا: مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ انہوں نے پوچھا: کس کام کے لیے بھیجا تھا؟ میں نے کہا: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز ہے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی حفاظت کرنا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات مخلوق میں سے کسی کو نہیں بتائی۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے شاگرد کو فرما رہے ہیں کہ) اگر میں کسی کو بتاتا تو وہ بات تمہیں بتاتا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم مختصرًا: 2482 و ابن أبى شيبة: 25530 و أحمد: 13022»

قال الشيخ الألباني: صحيح
548. بَابُ إِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا
548. کسی کی طرف متوجہ ہوں تو پوری طرح متوجہ ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1155
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن العلاء قال‏:‏ حدثني عمرو بن الحارث قال‏:‏ حدثني عبد الله بن سالم، عن الزبيدي قال‏:‏ اخبرني محمد بن مسلم، عن سعيد بن المسيب انه سمع ابا هريرة يصف رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ كان ربعة، وهو إلى الطول اقرب، شديد البياض، اسود شعر اللحية، حسن الثغر، اهدب اشفار العينين، بعيد ما بين المنكبين، مفاض الجبين، يطا بقدمه جميعا، ليس لها اخمص، يقبل جميعا، ويدبر جميعا، لم ار مثله قبل ولا بعد‏.‏حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْعَلاَءِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَصِفُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ كَانَ رَبْعَةً، وَهُوَ إِلَى الطُّوَلِ أَقْرَبُ، شَدِيدُ الْبَيَاضِ، أَسْوَدُ شَعْرِ اللِّحْيَةِ، حَسَنُ الثَّغْرِ، أَهْدَبُ أَشْفَارِ الْعَيْنَيْنِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، مُفَاضُ الْجَبِينِ، يَطَأُ بِقَدَمِهِ جَمِيعًا، لَيْسَ لَهَا أَخْمُصُ، يُقْبِلُ جَمِيعًا، وَيُدْبِرُ جَمِيعًا، لَمْ أَرَ مِثْلَهُ قَبْلُ وَلا بَعْدُ‏.‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک درمیانہ تھا لیکن قدرے درازی تھی۔ رنگ نہایت سفید، داڑھی کے بال خوب کالے تھے، دانت نہایت خوبصورت، اور آنکھوں کی پلکیں دراز تھیں۔ دونوں مونڈھوں کے درمیان دوری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار برابر تھے۔ پورا قدم جما کر چلتے، تلوؤں میں گہرائی نہیں تھی۔ جب کسی طرف متوجہ ہوتے تو پوری طرح متوجہ ہوتے، اور جب رخ پھیرتے تو بھی پوری طرح ادھر متوجہ ہوتے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «حسن لغيره: أخرجه معمر فى جامعه: 20490 و الطبراني فى مسند الشاميين: 1717 و البيهقي فى دلائل النبوة: 251/1 و ابن عساكر فى تاريخ دمشق: 269/3»

قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
549. بَابُ إِذَا أَرْسَلَ رَجُلًا فِي حَاجَةٍ فَلَا يُخْبِرُهُ
549. جب کوئی آدمی کسی کو کسی دوسرے آدمی کو بلانے کے لیے بھیجے تو قاصد اسے تفصیل سے بتائے بغیر صرف بلا کر لائے
حدیث نمبر: 1156
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد، قال‏:‏ اخبرنا عبد الله بن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن جده قال‏:‏ قال لي عمر‏:‏ إذا ارسلتك إلى رجل، فلا تخبره بما ارسلتك إليه، فإن الشيطان يعد له كذبة عند ذلك‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ‏:‏ قَالَ لِي عُمَرُ‏:‏ إِذَا أَرْسَلْتُكَ إِلَى رَجُلٍ، فَلاَ تُخْبِرْهُ بِمَا أَرْسَلْتُكَ إِلَيْهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يُعِدُّ لَهُ كِذْبَةً عِنْدَ ذَلِكَ‏.‏
حضرت اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: جب میں تمہیں کسی آدمی کے پاس بھیجوں کہ اسے بلا کر لاؤ تو یہ مت بتایا کرو کہ میں نے اسے کس لیے بلایا ہے، کیونکہ اس طرح شیطان اسے (اس بات کے حوالے سے) جھوٹ تیار کر دے گا (اور وہ صحیح بات نہیں بتائے گا)۔

تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 62 و ابن شبة فى تاريخ المدينة: 752/2»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا
550. بَابُ هَلْ يَقُولُ: مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ؟
550. کیا کسی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہو؟
حدیث نمبر: 1157
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حامد بن عمر، عن حماد بن زيد، عن ليث، عن مجاهد قال‏:‏ كان يكره ان يحد الرجل النظر إلى اخيه، او يتبعه بصره إذا قام من عنده، او يساله‏:‏ من اين جئت، واين تذهب‏؟حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ‏:‏ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُحِدَّ الرَّجُلُ النَّظَرَ إِلَى أَخِيهِ، أَوْ يُتْبِعَهُ بَصَرَهُ إِذَا قَامَ مِنْ عِنْدِهِ، أَوْ يَسْأَلَهُ‏:‏ مِنْ أَيْنَ جِئْتَ، وَأَيْنَ تَذْهَبُ‏؟
مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ تیز نظروں سے مسلمان بھائی کی طرف دیکھنا ناپسند کرتے تھے۔ اسی طرح جب وہ اٹھ کر جانے لگے تو پیچھے سے اسے دیکھتے رہنا (کہ کدھر جاتا ہے) بھی ناپسند کرتے تھے، نیز یہ پوچھنا بھی ناپسند کرتے تھے کہ کدھر سے آئے ہو اور کہاں جا رہے ہو۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أنظر الحديث: 771، اس كي سند ميں ليث بن ابي سليم راوي ضعيف هے.»

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 1158
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو نعيم، قال‏:‏ حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، عن مالك بن زبيد قال‏:‏ مررنا على ابي ذر بالربذة، فقال‏:‏ من اين اقبلتم‏؟‏ قلنا‏:‏ من مكة، او من البيت العتيق، قال‏:‏ هذا عملكم‏؟‏ قلنا‏:‏ نعم، قال‏:‏ اما معه تجارة ولا بيع‏؟‏ قلنا‏:‏ لا، قال‏:‏ استانفوا العمل‏.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ زُبَيْدٍ قَالَ‏:‏ مَرَرْنَا عَلَى أَبِي ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ، فَقَالَ‏:‏ مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتُمْ‏؟‏ قُلْنَا‏:‏ مِنْ مَكَّةَ، أَوْ مِنَ الْبَيْتِ الْعَتِيقِ، قَالَ‏:‏ هَذَا عَمَلُكُمْ‏؟‏ قُلْنَا‏:‏ نَعَمْ، قَالَ‏:‏ أَمَا مَعَهُ تِجَارَةٌ وَلاَ بَيْعٌ‏؟‏ قُلْنَا‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ اسْتَأْنِفُوا الْعَمَلَ‏.
مالک بن زبید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم ربذہ کے مقام پر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ ہم نے کہا: مکہ یا بیت العتیق سے آرہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: بس تمہیں یہی کام تھا؟ ہم نے کہا: ہاں۔ انہوں نے فرمایا: اس کے ساتھ تجارت یا خرید و فروخت کا کوئی اور مقصد نہیں؟ ہم نے کہا نہیں۔ انہوں نے فرمایا: اب نئے سرے سے عمل شروع کرو (اللہ نے پہلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أبويوسف فى الآثار، ص: 110 و هو فى الموطأ بنحوه: 424/1»

قال الشيخ الألباني: ضعيف
551. بَابُ مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ
551. ایسے لوگوں کی بات سننا جو بات سنانے کو ناپسند کرتے ہوں
حدیث نمبر: 1159
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا مسدد، قال‏:‏ حدثنا إسماعيل، قال‏:‏ حدثنا ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ”من صور صورة كلف ان ينفخ فيه وعذب، ولن ينفخ فيه‏.‏ ومن تحلم كلف ان يعقد بين شعيرتين وعذب، ولن يعقد بينهما، ومن استمع إلى حديث قوم يفرون منه، صب في اذنيه الآنك‏.‏“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”مَنْ صَوَّرَ صُورَةً كُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهِ وَعُذِّبَ، وَلَنْ يَنْفُخَ فِيهِ‏.‏ وَمَنْ تَحَلَّمَ كُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ وَعُذِّبَ، وَلَنْ يَعْقِدَ بَيْنَهُمَا، وَمَنِ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ يَفِرُّونَ مِنْهُ، صُبَّ فِي أُذُنَيْهِ الآنُكُ‏.‏“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی تصویر بنائی، قیامت کے دن اسے مجبور کیا جائے گا کہ اس میں روح پھونکے، اور عذاب دیا جائے گا، اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔ اور جس نے جھوٹا خواب بنایا تو اسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں میں گرہ لگائے، اور عذاب دیا جائے گا، اور وہ ہرگز ان کو آپس میں گرہ نہیں لگا سکے گا، اور جس نے ایسے لوگوں کی بات سننے کی کوشش کی جو اس سے بھاگتے ہوں، یعنی بات نہ سنانا چاہتے ہوں تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع: 2225، 5963، 7042 و أبوداؤد: 5024 و الترمذي: 1751»

قال الشيخ الألباني: صحيح
552. بَابُ الْجُلُوسِ عَلَى السَّرِيرِ
552. تخت پر بیٹھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1160
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سليمان بن حرب، قال‏:‏ حدثنا الاسود بن شيبان، قال‏:‏ حدثنا عبد الله بن مضارب، عن العريان بن الهيثم قال‏:‏ وفد ابي إلى معاوية، وانا غلام، فلما دخل عليه قال‏:‏ مرحبا مرحبا، ورجل قاعد معه على السرير، قال‏:‏ يا امير المؤمنين، من هذا الذي ترحب به‏؟‏ قال‏:‏ هذا سيد اهل المشرق، وهذا الهيثم بن الاسود، قلت‏:‏ من هذا‏؟‏ قالوا‏:‏ هذا عبد الله بن عمرو بن العاص، قلت له‏:‏ يا ابا فلان، من اين يخرج الدجال‏؟‏ قال‏:‏ ما رايت اهل بلد اسال عن بعيد، ولا اترك للقريب من اهل بلد انت منه، ثم قال‏:‏ يخرج من ارض العراق، ذات شجر ونخل‏.‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُضَارِبٍ، عَنِ الْعُرْيَانِ بْنِ الْهَيْثَمِ قَالَ‏:‏ وَفَدَ أَبِي إِلَى مُعَاوِيَةَ، وَأَنَا غُلاَمٌ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ‏:‏ مَرْحَبًا مَرْحَبًا، وَرَجُلٌ قَاعِدٌ مَعَهُ عَلَى السَّرِيرِ، قَالَ‏:‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنْ هَذَا الَّذِي تُرَحِّبُ بِهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ هَذَا سَيِّدُ أَهْلِ الْمَشْرِقِ، وَهَذَا الْهَيْثَمُ بْنُ الأَسْوَدِ، قُلْتُ‏:‏ مَنْ هَذَا‏؟‏ قَالُوا‏:‏ هَذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قُلْتُ لَهُ‏:‏ يَا أَبَا فُلاَنٍ، مِنْ أَيْنَ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ مَا رَأَيْتُ أَهْلَ بَلَدٍ أَسْأَلَ عَنْ بَعِيدٍ، وَلاَ أَتْرَكَ لِلْقَرِيبِ مِنْ أَهْلِ بَلَدٍ أَنْتَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ‏:‏ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ، ذَاتِ شَجَرٍ وَنَخْلٍ‏.‏
عریان بن ہیثم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میرے والد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جبکہ میں ابھی لڑکا تھا۔ جب وہ داخل ہوئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوش آمدید، خوش آمدید، ان کے ساتھ تخت پر بیٹھے ایک شخص نے کہا: امیر المومنین! یہ کون ہے جس کو آپ خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: یہ اہلِ مشرق (عراق) کے سردار ہیثم بن اسود ہیں۔ میں نے کہا: یہ پوچھنے والے کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اے ابو فلان! دجال کہاں سے نکلے گا؟ انہوں نے فرمایا: اس شہر والوں سے بڑھ کر میں نے کسی شہر والوں کو نہیں دیکھا کہ وہ قریب والوں کو چھوڑ کر دور والوں سے سوال کرتے ہوں۔ تم بھی ان میں سے ہو جہاں سے دجال نکلے گا۔ پھر فرمایا: وہ درختوں اور کھجوروں والی زمین عراق سے نکلے گا۔

تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: أخرجه ابن أبى شيبة: 7511 بنحوه، و كذا فى جامعه: 20829 بنحوه أيضًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا
حدیث نمبر: 1161
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى، قال‏:‏ حدثنا وكيع، قال‏:‏ حدثنا خالد بن دينار، عن ابي العالية قال‏:‏ جلست مع ابن عباس على سرير‏.‏
حدثنا علي بن الجعد، قال‏:‏ حدثنا شعبة، عن ابي جمرة قال‏:‏ كنت اقعد مع ابن عباس، فكان يقعدني على سريره، فقال لي‏:‏ اقم عندي حتى اجعل لك سهما من مالي، فاقمت عنده شهرين.
حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ‏:‏ جَلَسْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى سَرِيرٍ‏.‏
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ‏:‏ كُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَكَانَ يُقْعِدُنِي عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ لِي‏:‏ أَقِمْ عِنْدِي حَتَّى أَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي، فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ شَهْرَيْنِ.
ابو العالیہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تخت پر بیٹھا۔
ابو جمرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تو وہ مجھے اپنے تخت پر بٹھاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا: میرے پاس رک جاؤ یہاں تک کہ میں اپنے مال میں سے تمہارے لیے ایک حصہ مقرر کردوں۔ چنانچہ میں ان کے ہاں دو ماہ تک ٹھہرا رہا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البيهقي فى المدخل: 398 و البخاري: 53 - أنظر المشكاة: 16»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1162
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد، قال‏:‏ حدثنا يونس بن بكير، قال‏:‏ حدثنا خالد بن دينار ابو خلدة قال‏:‏ سمعت انس بن مالك، وهو مع الحكم امير بالبصرة على السرير، يقول‏:‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان الحر ابرد بالصلاة، وإذا كان البرد بكر بالصلاة‏.‏حَدَّثَنَا عُبَيْدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ أَبُو خَلْدَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ مَعَ الْحَكَمِ أَمِيرٌ بِالْبَصْرَةِ عَلَى السَّرِيرِ، يَقُولُ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاةِ‏.‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے امیر بصره حکم بن ابوعقیل ثقفی کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ کر فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرمی میں (ظہر کی) نماز ٹھنڈی کر کے (قدرے تاخیر سے) پڑھتے، اور جب سردی ہوتی تو جلد نماز پڑھتے۔

تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و المرفوع منه صحيح: أخرجه البيهقي فى الكبرىٰ: 191/3 - المشكاة: 620»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد و المرفوع منه صحيح
حدیث نمبر: 1163
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عمرو بن منصور، قال‏:‏ حدثنا مبارك، قال‏:‏ حدثنا الحسن، قال‏:‏ حدثنا انس بن مالك قال‏:‏ دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وهو على سرير مرمول بشريط، تحت راسه وسادة من ادم حشوها ليف، ما بين جلده وبين السرير ثوب، فدخل عليه عمر فبكى، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ ”ما يبكيك يا عمر‏؟“‏ قال‏:‏ اما والله ما ابكي يا رسول الله، الا اكون اعلم انك اكرم على الله من كسرى وقيصر، فهما يعيثان فيما يعيثان فيه من الدنيا، وانت يا رسول الله بالمكان الذي ارى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ ”اما ترضى يا عمر ان تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة‏؟“‏ قلت‏:‏ بلى يا رسول الله، قال‏:‏ ”فإنه كذلك‏.‏“حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُبَارَكٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ‏:‏ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى سَرِيرٍ مَرْمُولٍ بِشَرِيطٍ، تَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، مَا بَيْنَ جِلْدِهِ وَبَيْنَ السَّرِيرِ ثَوْبٌ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ فَبَكَى، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”مَا يُبْكِيكَ يَا عُمَرُ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ أَمَا وَاللَّهِ مَا أَبْكِي يَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَّ أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّكَ أَكْرَمُ عَلَى اللهِ مِنْ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، فَهُمَا يَعِيثَانِ فِيمَا يَعِيثَانِ فِيهِ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ بِالْمَكَانِ الَّذِي أَرَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”أَمَا تَرْضَى يَا عُمَرُ أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ‏؟“‏ قُلْتُ‏:‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ‏:‏ ”فَإِنَّهُ كَذَلِكَ‏.‏“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی رسی سے بنی ہوئی ایک چار پائی یا تخت پر تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک اور تخت کے درمیان کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس دوران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو رو پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: عمر! تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر یہ بات جانتا نہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کی حیثیت قیصر و کسریٰ سے کہیں بڑھ کر ہے تو میں نہ روتا۔ وہ کس قدر دنیاوی ناز و نعمت میں رہ رہے ہیں، اور آپ اللہ کے رسول اس حال میں ہیں جس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟ میں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہ اسی طرح ہے۔

تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الزهد: 4153 و مسلم، الطلاق، باب فى الايلاء و اعتزال النساء و تخبيرهن......: 1479، 30 من حديث عمر بن يونس به مطولًا»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

1    2    3    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.