الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
عیدین کے مسائل
216. باب في الأَكْلِ قَبْلَ الْخُرُوجِ يَوْمَ الْعِيدِ:
216. عید گاہ جانے سے پہلے کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 1639
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا عقبة بن الاصم، حدثنا عبد الله بن بريدة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"كان يطعم يوم الفطر قبل ان يخرج، وكان إذا كان يوم النحر، لم يطعم حتى يرجع فياكل من ذبيحته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ الْأَصَمِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَطْعَمُ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ، وَكَانَ إِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ، لَمْ يَطْعَمْ حَتَّى يَرْجِعَ فَيَأْكُلَ مِنْ ذَبِيحَتِهِ".
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھا کر باہر نکلتے تھے، اور عیدالاضحیٰ میں کچھ نہ کھاتے تھے یہاں تک کہ واپس آ جاتے اور اپنی قربانی ہی سے کھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «هذا إسناد ضعيف لضعف عقبة وهو: ابن عبد الله بن الأصم. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1641]»
اس روایت میں عقبہ بن عبدالله الاصم ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے حدیث رقم 1640۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هذا إسناد ضعيف لضعف عقبة وهو: ابن عبد الله بن الأصم. ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 1640
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، حدثنا هشيم، عن محمد بن إسحاق، عن حفص بن عبيد الله، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ہم معنی روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1642]»
پہلی روایت میں عقبہ بن عبدالله الاصم ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ اس دوسری سند سے واقع ہے، جس کے تمام رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 953]، [ترمذي 542]، [ابن ماجه 1754، 1756]، [ابن حبان 2812، 2813]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1638 سے 1640)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ عید الفطر میں نماز کے لئے نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا بہتر ہے اور کھجور میسر ہوں تو اچھا ہے ورنہ کوئی بھی میٹھی یا نمکین چیز کھا کر گھر سے نکلنا سنّت اور مستحب ہے، اس کے برعکس بقرہ عید کے دن بلا کچھ کھائے نماز کے لئے نکلنا اور اپنے ذبیحہ قربانی کے گوشت سے کھانا کھانا سنّت ہے، بڑی عجیب بات یہ ہے کہ لوگ عید الاضحیٰ میں گوشت سے افطار کرنے کو تو واجب سمجھتے ہیں لیکن فرض نمازوں اور روزوں کو چھوڑ دیتے ہیں، قربانی سے پہلے ذوالحجہ کے چاند کو دیکھنے کے بعد سے بال یا ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے لیکن نماز سے پہلے داڑھی منڈانے میں ذرا تأمل نہیں کرتے بلکہ کلین شیو نماز عید الاضحیٰ کو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور تمام سنتوں کی پیروی کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس ولكن الحديث صحيح
217. باب صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ بِلاَ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ:
217. نماز عیدین بلا اذان و اقامت خطبے سے پہلے پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1641
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن جابر، قال:"شهدت الصلاة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم عيد، فبدا بالصلاة قبل الخطبة بغير اذان ولا إقامة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:"شَهِدْتُ الصَّلَاةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز کے لئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا اذان و اقامت خطبے سے پہلے نماز پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1643]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 958]، [مسلم 885]، [أبوداؤد 1141]، [نسائي 1574]، [ابن حبان 2819]، [أبويعلی 2033]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1642
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثني ابن عيينة، حدثني ايوب السختياني، قال: سمعت عطاء يقول: سمعت ابن عباس، يقول:"اشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم انه بدا بالصلاة قبل الخطبة يوم العيد، ثم خطب فرئي انه لم يسمع النساء فاتاهن، فذكرهن ووعظهن، وامرهن ان يتصدقن، وبلال قابض بثوبه، فجعلت المراة تجيء بالخرص والشيء، ثم تلقيه في ثوب بلال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ:"أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ بَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ، ثُمَّ خَطَبَ فَرُئِيَ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ النِّسَاءَ فَأَتَاهُنَّ، فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ، وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَتَصَدَّقْنَ، وَبِلَالٌ قَابِضٌ بِثَوْبِهِ، فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تَجِيءُ بِالْخُرْصِ وَالشَّيْءِ، ثُمَّ تُلْقِيهِ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے عید کے دن خطبہ سے پہلے نماز شروع کی پھر خطبہ دیا، خیال کیا گیا کہ خواتین نہیں سن سکیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے، ان کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کو پکڑے ہوئے تھے اور خواتین سونے چاندی کے زیور لے کر آ تیں اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالتی رہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1644]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 961]، [مسلم 884]، [أبوداؤد 1142]، [نسائي 1568]، [ابن ماجه 1223]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1643
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، اخبرنا الحسن بن مسلم، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال:"شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وابا بكر، وعمر، وعثمان يصلون قبل الخطبة في العيد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، قَالَ:"شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ يُصَلُّونَ قَبْلَ الْخُطْبَةِ فِي الْعِيدِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عید کے دن حاضر ہوتا رہا، سب ہی عید میں خطبے سے پہلے نماز پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1645]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 962]، [مسلم 884]، [أبوداؤد 1147]، [ابن ماجه 1273]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1640 سے 1643)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ عیدین کا خطبہ نماز کے بعد ہے، اور عیدین کی نماز کے لئے نہ اذان ہے اور نہ ا قامت (تکبیر)۔
عید کی نماز کے بارے میں اختلاف ہے کہ سنّت ہے یا واجب، وجوب کے قائلین نے « ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ » سے عید کی نماز مراد لی ہے جس کا امر ہے اور امر وجوب کے لئے ہوتا ہے۔
نیز مذکورہ بالا طویل حدیث سے عورتوں کا نماز کے لئے عیدگاہ جانا بھی ثابت ہوا حتیٰ کہ حیض والی عورتوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ جانے کے لئے کہا تاکہ کم از کم دعا میں شریک رہیں، تفصیلی حدیث آگے نمبر (1648) پر آ رہی ہے۔
نیز اس حدیث سے اجنبی عورتوں سے کلام کرنا اور عورتوں کا اجنبی مرد کا کلام سننا بھی ثابت ہوا، نیز اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر صدقہ و خیرات کرنا بھی ثابت ہوا، (واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
218. باب لاَ صَلاَةَ قَبْلَ الْعِيدِ وَلاَ بَعْدَهَا:
218. عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی (نفلی) نماز نہیں
حدیث نمبر: 1644
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، حدثني عدي بن ثابت، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم"خرج يوم الفطر فصلى ركعتين، ولم يصل قبلها ولا بعدها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عيد الفطر کے دن تشریف لائے اور دوگانہ نماز ادا کی اور اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1646]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 964]، [مسلم 884/13]، [أبوداؤد 1159]، [ترمذي 537]، [نسائي 1586]، [ابن ماجه 1291]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1643)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں عیدگاہ میں کوئی نماز نہیں، اگر مسجد میں نماز پڑھی جائے اور نماز سے پہلے کوئی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھ سکتا ہے، ایک روایت میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو عید کی نماز سے پہلے نفل پڑھتے دیکھا تو انہوں نے اس کو منع کیا، وہ شخص بولا: نماز پڑھنے پر اللہ تعالیٰ مجھ کو عذاب نہ کرے گا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تعالیٰ سنّت کی مخالفت پرتمہیں عذاب ضرور کرے گا، «كما نقله العلامه وحيدالدين في» [شرح سنن ابن ماجه 1291] ۔
اسی طرح کا قول سعيد بن المسيب رحمہ اللہ سے امام دارمی رحمہ اللہ نے (449) پر ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
219. باب التَّكْبِيرِ في الْعِيدَيْنِ:
219. عیدین کی نماز میں تکبیرات (زائدہ) کا بیان
حدیث نمبر: 1645
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن الحجاج، عن عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد المؤذن، عن عبد الله بن محمد بن عمار، عن ابيه، عن جده، قال:"كان النبي صلى الله عليه وسلم يكبر في العيدين، في الاولى سبعا , وفي الاخرى خمسا، وكان يبدا بالصلاة قبل الخطبة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ الْمُؤَذِّنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الْعِيدَيْنِ، فِي الْأُولَى سَبْعًا , وَفِي الْأُخْرَى خَمْسًا، وَكَانَ يَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ".
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی پہلی رکعت میں سات بار تکبیر کہتے اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے اور خطبے سے پہلے نماز سے ابتدا کرتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن سعد، [مكتبه الشامله نمبر: 1647]»
اس حدیث کی سند میں عبدالرحمٰن بن سعد الموذن ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے بھی مروی ہونے کے سبب حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1277، 1278]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1644)
اس حدیث سے عیدین میں بارہ تکبیرات زائدہ کہنا ثابت ہوا، امام احمد رحمہ اللہ اور اہل الحدیث کا یہی مسلک ہے اور دلیل کی رو سے یہ ہی راجح ہے، ابن ماجہ میں دوسری صحیح سند سے بھی ایسا ہی مروی ہے جس کے بارے میں عراقی نے کہا: اس کی سند جید ہے، اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ یہ حدیث صحیح ہے، دارقطنی میں بھی روایت ہے کہ عید الفطر میں تکبیرات پہلی رکعت میں سات ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ اور دونوں رکعت میں تکبیرات کے بعد قرأت کرے، احناف کے نزدیک پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے تین تکبیر اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین تکبیر کہنے کا رواج ہے جو احادیثِ صحیحہ کے مخالف ہے۔
سعودی عرب میں اور بلادِ عربیہ میں ہر جگہ امام احمد رحمہ اللہ اور اہل الحدیث کا طریقہ رائج ہے اور یہی صحیح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن سعد
220. باب الْقِرَاءَةِ في الْعِيدَيْنِ:
220. نماز عیدین میں قرأت کا بیان
حدیث نمبر: 1646
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن ابيه، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، قال:"كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرا في العيدين والجمعة بسبح اسم ربك الاعلى وهل اتاك حديث الغاشية، وربما اجتمعا فقرا بهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَالْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ، وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فَقَرَأَ بِهِمَا".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» اور «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» پڑھتے تھے، اور جب کبھی عید و جمعہ ایک ساتھ ہو جاتے تو بھی انہیں دونوں سورتوں کو پڑھتے تھے۔ (یعنی «سورة الأعلى و الغاشية» کو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1648]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 878/63]، یہ حدیث (1607) میں گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1645)
اس صحیح حدیث سے نمازِ جمعہ و عیدین میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورة الاعلی اور دوسری رکعت میں سورة الغاشیہ پڑھنا ثابت ہوا جو سنّتِ رسول ہے، دوسری سورتیں اور آیات بھی پڑھی جا سکتی ہیں لیکن افضل یہ ہی سورتیں ہیں۔
نیز یہ کہنا کہ کسی نماز کے لئے کوئی سورت خاص کرنا سہی نہیں ہے، یہ بات درست نہیں۔
«(مَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
221. باب الْخُطْبَةِ عَلَى الرَّاحِلَةِ:
221. سواری پر خطبہ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 1647
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سلمة يعني ابن نبيط، حدثني ابي او نعيم بن ابي هند، قال: حججت مع ابي وعمي، فقال لي ابي: "ترى ذلك صاحب الجمل الاحمر الذي يخطب؟ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ نُبَيْطٍ، حَدَّثَنِي أَبِي أَوْ نُعَيْمُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ أَبِي وَعَمِّي، فَقَالَ لِي أَبِي: "تَرَى ذَلِكَ صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ الَّذِي يَخْطُبُ؟ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سلمہ بن نبیط نے بیان کیا کہ میرے والد یا نعیم بن ابی ہند نے کہا: میں نے اپنے والد اور چچا کے ساتھ حج کیا تو میرے والد نے کہا: دیکھو وہ سرخ اونٹ پر جو خطبہ دے رہے ہیں وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح بفرعيه وسلمة بن نبيط قيل: إنه لم يسمع من أبيه ولكنه ثقة وقد صرح بالتحديث. وهو ليس ممن وصفوا بالتدليس، [مكتبه الشامله نمبر: 1649]»
اس روایت کی سند اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1286]، [أبوداؤد 1916]، [نسائي 253/5 في المناسك] و [أحمد 306/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1646)
اس حدیث سے وقتِ ضرورت سواری پر بیٹھے ہوئے خطبہ دینا ثابت ہوا، مذکورہ بالا خطبہ عرفات کے دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات میں دے رہے تھے، جیسا کہ مسند احمد میں اس کی تصریح موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح بفرعيه وسلمة بن نبيط قيل: إنه لم يسمع من أبيه ولكنه ثقة وقد صرح بالتحديث. وهو ليس ممن وصفوا بالتدليس
222. باب خُرُوجِ النِّسَاءِ في الْعِيدَيْنِ:
222. نماز عیدین کے لئے عورتوں کے نکلنے کا بیان
حدیث نمبر: 1648
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن موسى، حدثنا عبد العزيز بن عبد الصمد، عن هشام، عن حفصة، عن ام عطية، قالت: "امرنا بابي هو ان نخرج يوم الفطر، ويوم النحر العواتق وذوات الخدور، فاما الحيض، فإنهن يعتزلن الصف، ويشهدن الخير ودعوة المسلمين. قال: قلت: يا رسول الله، فإن لم يكن لإحداهن الجلباب؟ قال:"تلبسها اختها من جلبابها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "أَمَرَنَا بِأَبِي هُوَ أَنْ نُخْرِجَ يَوْمَ الْفِطْرِ، وَيَوْمَ النَّحْرِ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ، فَإِنَّهُنَّ يَعْتَزِلْنَ الصَّفَّ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِإِحْدَاهُنَّ الْجِلْبَابُ؟ قَالَ:"تُلْبِسُهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے باپ ان پر فدا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں جوان کنواری لڑکیوں اور پردے والیوں کو بھی ساتھ لے جائیں اور حیض والی عورتیں (بھی عیدگاہ آئیں لیکن) صف سے دور رہیں اور اچھے عمل (یعنی خطبہ سننے) و مسلمانوں کی دعاؤں میں شامل رہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کسی کے پاس پردے کی چادر نہ ہو تو؟ فرمایا: اس کی بہن اپنی چادر اس کو اوڑھا دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1650]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 351]، [مسلم 890]، [ترمذي 540]، [ابن ماجه 1307]، [ابن خزيمه 1466، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1647)
اس حدیث سے عورتوں کے عیدین میں نماز کے لئے جانے کی تاکید ثابت ہوئی، جوان، بوڑھی حتیٰ کہ حیض کی حالت میں بھی، اور وہ غریب عورتیں بھی جن کے پاس اوڑھنی، چادر یا شرعی برقعہ نہ ہو وہ بھی عیدگاہ جائیں اور نماز و دعا اور تکبیرات میں شریک ہوں، حائضہ عورت صرف نماز میں شریک نہ ہوگی، یہ ہی سنّت ہے اور قیامت تک یہ حکم جاری ہے ان شرطوں کے ساتھ کہ عورت پردے کے ساتھ گھر سے نکلے اور زیب و زینت ظاہر نہ کرے اور عطر و خوشبو اور سینٹ وغیرہ استعمال نہ کرے۔
تمام ازواجِ مطہرات، مہاجرین و انصار کی بیویاں، مائیں اور بیٹیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قرونِ اولیٰ مفضلہ میں ہمیشہ عیدگاہ جاتی رہی ہیں، یہ کہنا کہ یہ حکم صرف رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک تھا سراسر ہٹ دھرمی ہے، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ و فساد کو دیکھتے تو عورتوں کو منع فرما دیتے بھی دلیل نہیں، کیونکہ خود وہ ہمیشہ عیدگاہ جاتی رہیں، حتیٰ کہ بصرہ میں بھی جنگِ جمل کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے گئیں، پھر یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال ہے جو صریح قولِ پیغمبر کے خلاف ہونے کے سبب قابلِ قبول نہیں، حیرت ان لوگوں پر ہے جو بازاروں، عرس، گانے، مشاعرے اور قوالیوں میں اپنی بیگمات کو جانے سے نہیں روکتے لیکن نماز، خطبہ اور دعا سے روکنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے اور بے جا تعصب اور ہٹ دھرمی سے دور رکھے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.