الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
زکوٰۃ کے مسائل
1. باب في فَرْضِ الزَّكَاةِ:
1. زکاۃ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1653
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن زكريا بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد، عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم لما بعث معاذا إلى اليمن، فقال:"إنك تاتي قوما اهل كتاب، فادعهم إلى ان يشهدوا ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، فإن اطاعوا لك في ذلك، فاخبرهم ان الله فرض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم اطاعوا لك في ذلك، فاخبرهم ان الله فرض عليهم صدقة في اموالهم، تؤخذ من اغنيائهم وترد على فقرائهم، فإن هم اطاعوا لك في ذلك، فإياك وكرائم اموالهم، وإياك ودعوة المظلوم، فإنه ليس لها من دون الله حجاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ:"إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ أَطَاعُوا لَكَ فِي ذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ فِي ذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ فِي ذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَإِيَّاكَ وَدَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ حِجَابٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم ان کو دعوت دینا کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر جب وہ اس بارے میں تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ الله تعالیٰ نے ان پر زکاة دینا فرض کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں میں تقسیم کر دی جائے گی، پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے (زیادہ نفیس) مال لینے سے بچنا اور مظلوم کی آہ (بدعا) سے بچنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1655]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1395]، [مسلم 19]، [أبوداؤد 1584]، [ترمذي 625]، [نسائي 2434]، [ابن ماجه 1783]، [ابن حبان 156، 2419]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1652)
زکاة کا مطلب ہے مخصوص مال میں سے سال گذرنے پر ایک مخصوص مقدار نکال کر غریبوں میں تقسیم کرنا، اس کے قواعد و ضوابط ہیں جو آگے آرہے ہیں، اور زکاۃ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے، مذکور بالا حدیث سے یہ ہی ثابت کرنا مقصود ہے۔
صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود کوئی آدمی اپنے مال کی زکاۃ نہ دے تو اس کے لئے بڑی وعیدِ شدید ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکاة کے لئے بہت سخت الفاظ میں کہا تھا: اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکاة میں چار مہینے کے بکری کے بچے کو بھی دینے سے انکار کیا جس کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے قتال کروں گا۔
پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شروع میں اعتراض کیا لیکن بعد میں کہنے لگے: «فَوَاللّٰهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ» [بخاري: 1400] (قسم اللہ کی زکاۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو شرح صدر عطا فرمایا تھا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ وہی حق پر ہیں)۔
بلکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا: واللہ میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکاة میں تفریق کرے گا۔
بہرحال اس سے زکاة کی فرضیت اور فضیلت ثابت ہوئی، حدیث الباب سے یہ بھی ثابت ہوا کہ داعی الی الله کو سب سے پہلے توحید کی دعوت دینی چاہے پھر دیگر ارکانِ اسلام کی، اس حدیث سے نماز کی فضیلت بھی ثابت ہوئی جو شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے پہلا رکن ہے، اس میں مظلوم کی بددعا سے بھی بچنے کا حکم ہے جو سیدھی عرشِ بریں پر جاتی ہے اور شرفِ قبولیت حاصل کرتی ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزانہ گھر سے نکلتے وقت ظلم سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ، أَوْ أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ» (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ خود گمراہ ہو جاؤں یا گمراہ کر دیا جاؤں، یا پھسلوں یا پھسلا دیا جاؤں، یا ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، یا نادانی کروں یا میرے ساتھ نادانی کی جائے) [أبوداؤد 5094]، [نسائي 5554]، [ترمذي 3427]، [ابن ماجه 3884] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
2. باب مَنِ الْمِسْكِينُ الذي يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ:
2. اس مسکین کا بیان جس کو زکاۃ دی جا سکتی ہے
حدیث نمبر: 1654
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة يحدث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: "ليس المسكين الذي ترده اللقمة واللقمتان، والكسرة والكسرتان، والتمرة والتمرتان، ولكن المسكين الذي ليس له غنى يغنيه، يستحيي ان يسال الناس إلحافا، او لا يسال الناس إلحافا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالْكِسْرَةُ وَالْكِسْرَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَيْسَ لَهُ غِنًى يُغْنِيهِ، يَسْتَحْيِي أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ إِلْحَافًا، أَوْ لَا يَسْأَلُ النَّاسَ إِلْحَافًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے یا ایک دو ٹکڑے یا ایک دو کھجور در در پھرائیں، مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں لیکن اس کو مانگنے سے شرم آتی ہے، یا وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1656]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1476]، [مسلم 1029]، [أبوداؤد 31]، [أبويعلی 6337]، [ابن حبان 3298]، [مسند الحميدي 1090]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1653)
اس حدیث سے مسکین کی تحدید ہوگئی، اصلاً روزانہ پھیری لگانے والے سب ہی مسکین نہیں ہوتے بلکہ حقیقتاً مسکین تو وہ ہے جو فقیر اور محتاج ہو لیکن شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے، ایسے مسکین کو تلاش کر کے ایسے ہی لوگوں کو زکاة دینی چاہیے اور یہ ہی زکاة کے زیادہ مستحق ہیں۔
واللہ علم

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
3. باب مَنْ لَمْ يُؤَدِّ زَكَاةَ الإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ:
3. جو شخص اونٹ، گائے، بکریوں کی زکاۃ نہ دے اس کی سزا کا بیان
حدیث نمبر: 1655
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى بن عبيد، حدثنا عبد الملك، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي حقها، إلا اقعد لها يوم القيامة بقاع قرقر تطؤه ذات الظلف بظلفها، وتنطحه ذات القرن بقرنها، ليس فيها يومئذ جماء ولا مكسورة القرن". قالوا: يا رسول الله، وما حقها؟ قال:"إطراق فحلها، وإعارة دلوها، ومنحتها، وحلبها على الماء، وحمل عليها في سبيل الله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُقْعِدَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَطَؤُهُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِهَا، لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا حَقُّهَا؟ قَالَ:"إِطْرَاقُ فَحْلِهَا، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَمِنْحَتُهَا، وَحَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی اونٹ والا، گائے والا، بکری والا ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے وہ قیامت کے دن سپاٹ زمین پر بٹھایا جائے گا اور کھروں والا جانور اس کو اپنے کھروں سے روندے گا، اور سینگوں والا اپنے سینگوں سے مارے گا، اور اس دن کوئی جانور بے سینگ یا ٹوٹے ہوئے سینگ کا نہ ہو گا، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان کا حق کیا ہے؟ فرمایا: اس کے نر کو جفتی کے لئے دینا، اور اس کے ڈول کو مانگے پر دینا، اور دودھ پینے کے لئے مانگے پر دینا، اور پانی پر اس کا دوھنا، اور اس کو اللہ کے راستے میں سواری یا سامان لادنے کے لئے دینا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1657]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 988/28]، [نسائي 2453]، [ابن ابي شيبه 213/3]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1654)
«حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ» کا مطلب ہے اونٹنی کا پانی پر دوہنا (اونٹوں کو کئی دن بعد پانی پلانے کے لئے لے جایا جاتا ہے، پہلے زمانے میں اس جگہ پر لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے اور وہاں دودھ دوہنے پر کئی فوائد تھے، جانوروں کو آرام ملتا، صفائی ستھرائی ہوتی اور فقراء و مساکین کو دودھ مل جاتا تھا)۔
بعض علماء نے کہا کہ یہ حکم فرضیتِ زکاة سے پہلے کا ہے، جب زکاۃ فرض ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
واللہ اعلم۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب جانوروں کی زکاۃ نہ دی جائے یا ان کا حق ادا نہ کیا جائے تو وہ قیامت کے دن اپنے مالک کو کھروں اور سینگوں سے روند ڈالیں گے، لہٰذا ان کا حق ادا کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن اس عذاب سے محفوظ رہیں۔
اس حدیث سے زکاة کے وجوب کی مزید تشریح اس باب کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1656
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ما من صاحب إبل لا يفعل فيها حقها، إلا جاء يوم القيامة اكثر ما كانت قط، واقعد لها بقاع قرقر تستن عليه بقوائمها واخفافها، ولا صاحب بقر لا يفعل فيها حقها، إلا جاء يوم القيامة اكثر ما كانت، واقعد لها بقاع قرقر، تنطحه بقرونها وتطؤه بقوائمها، ولا صاحب غنم لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، واقعد لها بقاع قرقر , تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، ليس فيها جماء ولا مكسور قرنها، ولا صاحب كنز لا يفعل فيه حقه، إلا جاء كنزه يوم القيامة شجاعا اقرع يتبعه فاتحا فاه، فإذا اتاه، فر منه، فيناديه: خذ كنزك الذي خباته. قال: فانا عنه غني، فإذا راى انه لابد منه، سلك يده في فمه فيقضمها قضم الفحل". قال ابو الزبير: سمعت عبيد بن عمير، يقول هذا القول، ثم سالنا جابر بن عبد الله، فقال مثل قول عبيد بن عمير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُ مَا كَانَتْ قَطُّ، وَأُقْعِدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ بِقَوَائِمِهَا وَأَخْفَافِهَا، وَلَا صَاحِبِ بَقَرٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُ مَا كَانَتْ، وَأُقْعِدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِقَوَائِمِهَا، وَلَا صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُ مَا كَانَتْ، وَأُقْعِدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ , تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، لَيْسَ فِيهَا جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورٍ قَرْنُهَا، وَلَا صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يَفْعَلُ فِيهِ حَقَّهُ، إِلَّا جَاءَ كَنْزُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُهُ فَاتِحًا فَاهُ، فَإِذَا أَتَاهُ، فَرَّ مِنْهُ، فَيُنَادِيهِ: خُذْ كَنْزَكَ الَّذِي خَبَّأْتَهُ. قَالَ: فَأَنَا عَنْهُ غَنِيٌّ، فَإِذَا رَأَى أَنَّهُ لَابُدَّ مِنْهُ، سَلَكَ يَدَهُ فِي فَمِهِ فَيَقْضِمُهَا قَضْمَ الْفَحْلِ". قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے ہیں: جو اونٹ والا اس کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بہت سے ہو کر آئیں گے اور ان کا مالک سپاٹ زمین پر بٹھا دیا جائے گا اور وہ اس کو اپنے پیروں اور کھروں سے روندیں گے، اور جو گائے والا اس کا حق ادا نہ کرے گا وہ قیامت کے دن بہت سی گائیں بن کر آئیں گی اور اس کو ایک مسطح زمین پر بٹھا دیا جائے گا اور وہ گائیں اسے سینگوں سے ماریں گی اور پیروں سے روندیں گی، اور جو بکری والا اس کا حق ادا نہیں کرتا وہ بھی قیامت کے دن بہت سی ہو کر آئیں گی اور ان کے مالک کو ایک پٹ زمین پر بٹھا دیا جائے گا اور وہ بکریاں اسے اپنے سینگوں سے ٹکریں ماریں گی اور اپنے کھروں سے اسے کچل ڈالیں گی، اور اس دن ان میں سے کوئی بے سینگ اور ٹوٹے ہوئے سینگ کی نہ ہو گی، اور جو صاحب خزانہ اس خزانے کا حق ادا نہیں کرتا وہ خزانہ قیامت کے دن گنجا اژدہا بن کر آئے گا منہ کھولے ہوئے (اپنے دنیاوی مالک کا) پیچھا کرے گا، جب وہ اژدہے کی صورت میں (اس مالک) کے پاس پہنچے گا تو وہ بھاگے گا، تو وہ پکارے گا، لے اپنا خزانہ جو تو نے چھپا رکھا تھا، وہ کہے گا: مجھے اس کی حاجت نہیں، پھر جب وہ مالک دیکھے گا کہ یہ اژدہا اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے تو اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا اور وہ اسے ایسا چبائے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔ راوی نے کہا: ابوالزبیر نے کہا: ہم نے عبيد بن عمیر سے سنا، وہ یہی کہتے تھے، پھر ہم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، انہوں نے بھی عبید بن عمیر ہی کی طرح بتایا، اور ابوالزبیر نے کہا: میں نے عبيد بن عمیر سے سنا کہ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اونٹی کا کیا حق ہے؟ فرمایا: اس کو پانی پر دوہنا، اس کا ڈول عاریتاً دینا اور اس کے نر کو نطفے (جفتی) کے لئے مانگنے پر (بلا اجرت کے) دینا اور الله کی راہ میں اس کو سواری میں دینا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1658]»
اس روایت کی سند اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 987]، [نسائي 2453]، [ابن حبان 3255]، [المنتقی 335]، [المحلی 80/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1657
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال: وقال ابو الزبير: سمعت عبيد بن عمير يقول: قال رجل: يا رسول الله، ما حق الإبل؟ قال: "حلبها على الماء، وإعارة دلوها، وإعارة فحلها، ومنحتها، وحمل عليها في سبيل الله" اخبرنا الحسن بن الربيع، حدثنا ابو الاحوص، عن الاعمش، عن المعرور بن سويد عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم،، ببعض هذا الحديث.(حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ: وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْإِبِلِ؟ قَالَ: "حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَإِعَارَةُ فَحْلِهَا، وَمَنْحَتُهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ" أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، بِبَعْضِ هَذَا الْحَدِيثِ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھلی حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1659]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1460]، [مسلم 990]، [ترمذي 1617]، [نسائي 2439]، [ابن حبان 3256]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1655 سے 1657)
ان احادیث میں جانوروں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرنے کا حکم اور ان کا حق ادا نہ کرنے پر سخت سزا کی وعيدِ شدید ہے، مذکورہ بالا احادیث میں زکاة کا ذکر نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو زکاة البقر میں اسی طرح ذکر کیا ہے، اور باب اثم مانع الزكاة (1402) میں یہ لفظ ہے: «إِذَا هُوَ لَمْ يُعْطِ فِيْهَا حَقَّهَا» لیکن اس کا حق کیا ہے اس کی تشریح مذکور نہیں، ہاں (2378) میں اس کا حق مختصراً یہ ذکر ہوا ہے «أَنْ تَحْلِبَ عَلَى الْمَاءِ» اور مسلم شریف کی روایت میں تشریح ہے «لَا تُوَدِّيْ زَكَاتَهَا» جس سے ثابت ہوا کہ ان بہائم کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں تو ان کی زکاة ادا کی جائے، جو شخص ایسا نہیں کرے گا قیامت کے دن اس کے یہ چوپائے اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور سینگوں سے ماریں گے، نیز اس حدیث سے قیامت کا ثبوت بھی ملا جو پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا۔
« ﴿فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾ [المعارج: 4] » بعض روایات میں ہے ایک جماعت ان جانوروں کی آئے گی اور اپنا کام کر کے چلی جائے گی اور پھر دوسری تازہ دم جماعت آئے گی اور یہ کام انجام دے گی۔
«(سلمنا اللّٰه وإياكم منه)» ۔
ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناه مثالی جسم اختیار کر لیں گے اور وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
4. باب في زَكَاةِ الْغَنَمِ:
4. بکری کی زکاۃ کا بیان
حدیث نمبر: 1658
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا عباد بن العوام، وإبراهيم بن صدقة، عن سفيان بن حسين، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم "كتب الصدقة، فكان في الغنم في كل اربعين سائمة شاة إلى عشرين ومئة، فإذا زادت، ففيها شاتان إلى مائتين، فإذا زادت، ففيها ثلاث شياه إلى ثلاث مئة، فإذا زادت شاة، لم يجب فيها إلا ثلاث شياه حتى تبلغ اربع مئة، فإذا بلغت اربع مئة شاة، ففي كل مئة شاة، ولا تؤخذ في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار، ولا ذات عيب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ صَدَقَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "كَتَبَ الصَّدَقَةَ، فَكَانَ فِي الْغَنَمِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ سَائِمَةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِئَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِئَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ شَاةً، لَمْ يَجِبْ فِيهَا إِلَّا ثَلَاثُ شِيَاهٍ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِئَةٍ، فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعَ مِئَةِ شَاةٍ، فَفِي كُلِّ مِئَةٍ شَاةٌ، وَلَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاة کے بارے میں لکھا جو کہ بکری کے بارے میں تھا کہ ہر چالیس بکریوں میں ایک بکری ہے ایک سو بیس بکریوں تک، پھر اس سے زیادہ ہوں تو دو سو بکر یوں تک دو بکریاں ہیں، پھر دو سو سے تین سو تک تین بکریاں ہیں، پھر اگر ایک بکری زیادہ ہو تو اس میں بھی تین بکریاں ہی زکاة ہو گی چار سو تک، پھر ہر ایک سینکڑے پرایک بکری، اور زکاة میں بوڑھی، اندھی یا عیب دار بکری قبول نہ کی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «في اسناده سفيان بن حسين عن الزهري قال ابن حبان: ((أما روايته عن الزهري فإن فيها تخاليط يجب أن يجانب وهو ثقة في غير الزهري)). وهو حديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 1660]»
اس روایت کی سند حسن اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1568]، [ترمذي 621]، [ابن ماجه 1798]، [أبويعلی 5470]، [ابن حبان 3266]، [مسند الحميدي 127]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1657)
«فَإِذَا زَادَتْ شَاةً لَمْ يَجِبْ فِيْهَا إِلَّا ثَلَاثُ شِيَاةٍ» یعنی اگر تین سو پر ایک بکری زیاده ہو تب بھی چار سو تک تین بکریاں ہی واجب ہیں، مثلاً تین سو ساٹھ بکریاں کسی کے پاس ہوں تو ساٹھ کا اعتبار نہ ہوگا جب تک کہ چوتھا سینکڑ ا پورا نہ ہو جائے، جب چار سو پورے ہوں گے تو 499 تک چار بکریاں لازم ہوگی، پھر پانچ سو میں پانچ بکریاں، علی ہذا القیاس۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده سفيان بن حسين عن الزهري قال ابن حبان: ((أما روايته عن الزهري فإن فيها تخاليط يجب أن يجانب وهو ثقة في غير الزهري)). وهو حديث صحيح بشواهده
حدیث نمبر: 1659
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود الخولاني، عن الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن مع عمرو بن حزم: "بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد النبي إلى شرحبيل بن عبد كلال، والحارث بن عبد كلال، ونعيم بن عبد كلال، في اربعين شاة شاة إلى ان تبلغ عشرين ومئة، فإذا زادت على عشرين ومئة واحدة، ففيها شاتان إلى ان تبلغ مائتين، فإذا زادت واحدة ففيها ثلاثة إلى ان تبلغ ثلاث مئة، فما زاد، ففي كل مئة شاة شاة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ: "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ عِشْرِينَ وَمِئَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِئَةٍ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ثَلَاثَةٌ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ ثَلَاثَ مِئَةٍ، فَمَا زَادَ، فَفِي كُلِّ مِئَةِ شَاةٍ شَاةٌ".
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے والد سے انہوں نے ان کے دادا (سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن والوں کے لئے سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرحبيل بن عبدکلال، حارث بن عبدکلال، اور نعیم بن عبدکلال کے لئے ہے کہ چالیس بکریوں میں ایک سو بیس تک ایک بکری (زکاۃ) ہے، پس جب ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہو تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، پھر اگر ایک بکری بھی دو سو کے اوپر ہو تو ان میں تین سو تک تین بکریاں ہیں اس سے زیادہ جتنی بھی ہوں گی ہر سینکڑے پر ایک ایک بکری (زکاۃ کی) ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1661]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ حوالے کے لئے دیکھئے: [نسائي 4868]، [ابن حبان 6559]، [الموارد 793]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 1660
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم كتب لهم كتابا، فذكر نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ لَهُمْ كِتَابًا، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے والد سے، انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے خط لکھا ......... اور مذکور بالا کی طرح حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1662]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1658 سے 1660)
ان احادیث سے بکریوں کی زکاة کا نصاب معلوم ہوا جو کہ چالیس ہے، اس سے کم میں زکاۃ نہیں، اور چار سو بکری سے زیادہ ہوں تو ہر ایک سو پر ایک بکری بڑھاتے جائیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
5. باب في زَكَاةِ الْبَقَرِ:
5. گائے کی زکاۃ کا بیان
حدیث نمبر: 1661
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد، حدثنا الاعمش، عن شقيق، عن مسروق، والاعمش، عن إبراهيم، قالا: قال معاذ:"بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فامرني ان آخذ من كل اربعين بقرة، مسنة، ومن كل ثلاثين تبيعا او تبيعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: قَالَ مُعَاذٌ:"بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً، مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً".
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ میں ہر چالیس گائے (بیلوں) میں سے دو برس کی بچھیا یا بیل زکاة کا لے لوں اور ہر تیس گائے میں ایک سال کا نر یا مادہ لوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح من طريق مسروق وأما طريق إبراهيم فهو مقطوع، [مكتبه الشامله نمبر: 1663]»
اس سند سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1576]، [ترمذي 623]، [نسائي 2452]، [ابن ماجه 1803]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح من طريق مسروق وأما طريق إبراهيم فهو مقطوع
حدیث نمبر: 1662
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عاصم بن يوسف، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم، عن ابي وائل، عن مسروق، عن معاذ، قال:"بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فامرني ان آخذ من البقر من ثلاثين تبيعا حوليا، ومن اربعين بقرة مسنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُف، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ:"بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ الْبَقَرِ مِنْ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا حَوْلِيًّا، وَمِنْ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً مُسِنَّةً".
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو مجھے حکم فرمایا کہ میں گائے بیل میں سے تیس میں ایک تبیعہ سالانہ لوں اور چالیس گائے میں سے ایک دو برس کا بیل یا گائے (زکاۃ) کا لوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1664]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [ابن حبان 4886]، [موارد الظمآن 794]، [أبويعلی 5016]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1660 سے 1662)
«تبيعه تبيع» کا مؤنث ہے اور گائے کے ایک سال کے بچے پر بولا جاتا ہے، «مسنّه»: گائے کا وہ بچہ (نر یا مادہ) ہے جس کے دانت نکل آئے ہوں اور دو سال پورے کر کے تیسرے سال میں لگ چکا ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.