الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نذر اور قسم کے مسائل
1. باب الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ:
1. نذر پوری کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2369
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس: ان امراة نذرت ان تحج فماتت، فجاء اخوها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله عن ذلك، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لو كان عليها دين اكنت قاضيه؟". قال: نعم. قال: "فاقضوا الله، فالله احق بالوفاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ امْرَأَةً نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ، فَجَاءَ أَخُوهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: "فَاقْضُوا اللَّهَ، فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ حج کرے گی لیکن اس کا انتقال ہو گیا، تو ان کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں ضرور ادا کرتا، فرمایا: اس نذر کو پورا کرو، یہ نذر وفا کی زیادہ مستحق ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2377]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6699]، [مسلم 1655]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2368)
بخاری شریف اور سنن دارمی کے مخطوط میں ہے: «فَاقْضِ اللّٰهَ فَاللّٰهُ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ، أَوْ فَهُوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ.» یعنی پھر الله کا بھی حق ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا حق پورا ادا کیا جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2370
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا حفص، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، قال: قلت: يا رسول الله، إني نذرت نذرا في الجاهلية، ثم جاء الإسلام؟ قال: "ف بنذرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ نَذْرًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ جَاءَ الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: "فِ بِنَذْرِكَ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایامِ جاہلیت میں ایک نذر مانی تھی پھر اسلام لے آیا؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اپنی نذر کو پورا کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2378]»
یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6697]، [مسلم 1656]، [أبوداؤد 3325]، [ترمذي 1539]، [نسائي 3829]، [ابن ماجه 1772، 2129]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2369)
نذر: غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینے کو کہتے ہیں، اور ایمان یمین کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں، نذر کی مثال جیسے کوئی کہے یہ لڑکا ڈاکٹر بن گیا تو حج کروں گا، یا میرے کام میں نفع ہوا تو صدقہ کروں گا یا روزے رکھوں گا، اس طرح کی جو بھی نذر ہو اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہ ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ اس باب کی حدیثوں سے واضح ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جنتی لوگوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: «‏‏‏‏ ﴿يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ .....﴾ [الإنسان: 7] » کہ جو لوگ اپنی نذر کو پورا کرتے ہیں، نیز فرمانِ باری تعالیٰ: « ﴿وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ .....﴾ [الحج: 29] » واضح رہے کہ نذر ماننے سے کسی کام کا ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، جو الله تعالیٰ نے مقدر فرمایا ہے وہ تو ہو کر رہتا ہے، اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ نذر سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس آدمی کے ہاتھ سے مال نکال لیتی ہے، کیونکہ بخیل پر جب کوئی آفت آتی ہے تب ہی خرچ کرتا ہے۔
مزید تفصیل حدیث رقم (2377) پر آ رہی ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کسی نے اسلام لانے سے پہلے کوئی نذر مانی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت ہی میں ہے تو اس کو پورا کرنا واجب ہے۔
بعض علماء نے کہا: اسلام سے پہلے اس نذر کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہیں پھر پورا کرنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جو اپنی نذر پوری کرنے کے لئے کہا تو وہ استحباباً تھا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
2. باب في كَفَّارَةِ النَّذْرِ:
2. نذر کے کفارے کا بیان
حدیث نمبر: 2371
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله بن زحر، عن ابي سعيد الرعيني، عن عبد الله بن مالك، عن عقبة بن عامر الجهني، قال: نذرت اختي ان تحج لله ماشية غير مختمرة، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "مر اختك فلتختمر، ولتركب، ولتصم ثلاثة ايام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الرُّعَيْنِيّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قالَ: نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَحُجَّ لِلَّهِ مَاشِيَةً غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مُرْ أُخْتَكَ فَلْتَخْتَمِرْ، وَلْتَرْكَبْ، وَلْتَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ".
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کی بہن نے نذر مانی کہ وہ حج کے لئے پیدل اور ننگے سر جائے گی، میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی بہن سے کہو سر ڈھانپ لے اور سوار ہو جائے اور تین دن کے روزے رکھے۔ (یعنی نذر پوری نہ کرنے کا کفارہ دے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبيد الله بن زحر وأبو سعيد الرعيني هو: جعثل بن هاعان. والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2379]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1866]، [مسلم 1644]، [أبوداؤد 3299]، [ترمذي 1544]، [نسائي 3823]، [ابن ماجه 2134]، [أبويعلی 1753]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبيد الله بن زحر وأبو سعيد الرعيني هو: جعثل بن هاعان. والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2372
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، اخبرني قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس: ان اخت عقبة نذرت ان تمشي إلى البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله لغني عن نذر اختك، لتركب ولتهد هديا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، أَخْبَرَنِي قَتَادَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ أُخْتَ عُقْبَةَ نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ نَذْرِ أُخْتِكَ، لِتَرْكَبْ وَلْتُهْدِ هَدْيًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کی بہن نے نذر مانی کہ بیت اللہ شریف پیدل چل کر جائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ غنی ہے تمہاری بہن کی نذر سے، اس کو چاہیے کہ سوار ہو جائے اور کفارے میں ایک ہدی ذبح کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2380]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3295]، [أحمد 239/1]، [طبراني 308/11، 11828]، [ابن الجارود 936]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2370 سے 2372)
اس حدیث کی رو سے اگر کسی نے بیت اللہ کی طرف پیدل ننگے پاؤں چل کر جانے کی یا عورت نے ننگے سر چلنے کی نذر مانی ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا ضروری اور لازمی نہیں، خواہ چل کر جانے سے عاجز بھی نہ ہو، لیکن اسے کفارہ یمین ادا کرنا ہوگا، پہلی حدیث میں تین روزے رکھنے کا حکم ہے اور دوسری حدیث میں ایک ہدی ذبح کرنے کا حکم ہے، لہٰذا معصیت میں یا عدم قدرت کی نذر میں نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں اور کفارہ ادا کرنا واجب و ضروری ہے جو قسم کا کفارہ ہے، یہی زیادہ صحیح ہے، اور اگر وہ نذر حج سے متعلق ہے تو ہدی ذبح کرے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2373
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن الاعرج، عن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ادرك شيخا يمشي بين ابنيه، فقال:"ما شان هذا الشيخ؟"، فقال ابناه: نذر ان يمشي، فقال: "اركب، فإن الله غني عنك وعن نذرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ شَيْخًا يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ، فَقَالَ:"مَا شَأْنُ هَذَا الشَّيْخِ؟"، فَقَالَ ابْنَاهُ: نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ، فَقَالَ: "ارْكَبْ، فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكَ وَعَنْ نَذْرِكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے صحابی کو اپنے دو بیٹوں کے درمیان پیدل چلتا پایا تو پوچھا کہ ان بزرگ کو کیا ہوا؟ (جوتمہارا سہارا لے کر چلتے ہیں) اس کے بیٹوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے (حج کے لئے) پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بزرگ! سوار ہوجاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے تم سے اور تمہاری نذر سے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں۔ بخاری شریف میں ہے: الله تعالیٰ اس سے بے پرواہ (غنی) ہے کہ یہ شخص اپنی جان کو عذاب میں ڈالے۔)

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2381]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6701]، [مسلم 1643]، [أبوداؤد 3301]، [ابن ماجه 2135]، [أبويعلی 6354]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2372)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ انسان جس چیز کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کی نذر مانے تو اسے پورا کرنا ضروری نہیں، اس حدیث میں کفارے کا ذکر نہیں ہے لیکن اوپر دوسری احادیث میں صحیح سند سے کفارے کا ذکر آیا ہے، اس لئے کفارہ یمین دینا واجب ہے، مسلم اور ترمذی میں ہے کہ نذر کا کفار قسم کا کفارہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
3. باب لاَ نَذْرَ في مَعْصِيَةِ اللَّهِ:
3. اللہ کی معصیت میں کوئی نذر (صحیح) نہیں
حدیث نمبر: 2374
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناه و معصیت کی نذر کو پورا نہ کرنا چاہیے اور نہ اس نذر کو پورا کرے جس کا ابنِ آدم کو اختیار (یعنی قدرت) نہیں ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2382]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1641]، [أبوداؤد 3316]، [نسائي 3860]، [ابن ماجه 2124]، [ابن حبان 4391]، [الحميدي 851]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2373)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گناہ کی بات میں نذر نہیں ہے، جیسے کوئی اپنے بچے کو ذبح کرنے یا عید کے دن روزہ رکھنے کی نذر مانے تو ایسی نذر کو پورا کرنا واجب نہیں، اور اہلِ حدیث و حنفیہ کے نزدیک نذرِ معصیت کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، کیونکہ مسلم شریف کی روایت میں وضاحت ہے کہ جو شخص کسی گناہ کی نذر مانے اس کا کفارہ، قسم کا کفارہ ہے۔
شافعیہ کے نزدیک ایسی نذر میں کفارہ نہیں ہے، اور صحیح پہلا قول ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2375
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن طلحة بن عبد الملك الايلي، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من نذر ان يطيع الله، فليطعه، ومن نذر ان يعصي الله، فلا يعصه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأَيْلِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ نَذَرَ أَنْ يَطِيعَ اللَّهَ، فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ، فَلَا يَعْصِهِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی ہو اسے چاہیے کہ الله کی اطاعت کرے اور جس نے گناہ کرنے کی نذر مانی ہو پس وہ گناہ کا کام نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2383]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6700]، [أبوداؤد 3289]، [ترمذي 1526]، [نسائي 3816]، [ابن ماجه 2126]، [أبويعلی 4863]، [ابن حبان 4387]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2374)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نذر مانے یعنی نماز، روزہ، حج، عمره، جہاد وغیرہ کی تو وہ اس نذر کو پورا کرے، اور جو الله کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے، یعنی یہ کہے کہ نماز نہیں پڑھوں گا، یا فرض روزہ نہیں رکھوں گا وغیرہ، تو ایسی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ضروری ہے، اور اپنی نذر کا کفارہ دے جیسا کہ اوپر تفصیل گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
4. باب مَنْ نَذَرَ أَنْ يُصَلِّيَ في بَيْتِ الْمَقْدِسِ أَيُجْزِئُهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِمَكَّةَ:
4. جو شخص بیت المقدس میں نماز کی نذر مانے کیا بیت اللہ میں اس کا نماز پڑھنا کافی ہو گا؟
حدیث نمبر: 2376
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن حبيب بن ابي بقية المعلم، عن عطاء بن ابي رباح، عن جابر بن عبد الله: ان رجلا قال: يا رسول الله إني نذرت إن فتح الله عليك ان اصلي في بيت المقدس؟ فقال: "صل هاهنا". فاعاد عليه ثلاث مرات، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"شانك إذن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي بَقِيَّةَ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَذَرْتُ إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَقَالَ: "صَلِّ هَاهُنَا". فَأَعَادَ عَلَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"شَأْنُكَ إِذَنْ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر الله تعالیٰ آپ کو مکہ کی فتح نصیب کرے تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں (کعبہ میں) نماز پڑھ لو۔ اس نے تین بار اپنے سوال کو دہرایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تمہاری مرضی ہے (یعنی تم کو اختیار ہے کہ بیت المقدس جا کر وہاں نماز پڑھو اور اپنی نذر کو پورا کرو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2384]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3305]، [أبويعلی 2116]، [ابن الجارود 945]، [الحاكم 304/4]، [البيهقي فى المعرفة 19707]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2375)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھنے کی کوئی منّت یا نذر مانے تو وہ بیت اللہ شریف میں نماز پڑھ لے، اس کی منّت و نذر پوری ہو جائے گی، کیونکہ بیت اللہ الحرام بیت المقدس سے افضل ہے اور بیت اللہ میں نماز کا ثواب بیت المقدس میں نماز سے بہت زیادہ ہے، اس شخص نے جب بار بار اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے لئے خود تکلیف چاہتے ہو تو جا ؤ وہیں جا کر نذر پوری کرو اور بیت المقدس میں نماز پڑھو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «اَلدِّيْنُ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَّادَّ الدِّيْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ.» یعنی: دین آسان ہے اور جو کوئی بھی دین میں (اپنے لئے) سختی کرے گا تو دین ہی غالب آئے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
5. باب النَّهْيِ عَنِ النَّذْرِ:
5. نذر کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2377
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا ابو عوانة، عن منصور، عن عبد الله بن مرة، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله: "إن النذر لا يرد شيئا، وإنما يستخرج به من الشحيح".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: "إِنَّ النَّذْرَ لَا يَرُدُّ شَيْئًا، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الشَّحِيحِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر کسی چیز کو لوٹا نہیں سکتی ہے، بس اس کے ذریعہ بخیل و کنجوس سے پیسہ نکل آتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2385]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6608]، [مسلم 1639]، [أبوداؤد 3287]، [نسائي 2810]، [ابن ماجه 2122]، [أبويعلی 237/11]، [ابن حبان 4375]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2376)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر چیز پر قضاء و قدر حاوی ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: « ﴿إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ﴾ [القمر: 49] » لہٰذا نذر و منّت اس الٰہی فیصلے اور تقدیر کو نہ بدل سکتے ہیں نہ لوٹا سکتے ہیں، بس دل کا بہلاوہ ہوتا ہے، اور اس کی نذر سے بخیل کی جیب ہلکی ہو جاتی ہے، کیونکہ کنجوس آدمی بغیر مصیبت میں پڑے خرچ نہیں کرتا، جب آفت آتی ہے تو نذریں مانتا ہے، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع کیا اور اس کو مکروہ جانا کیونکہ یہ بخلاء کا شعار ہے، سخی اور متقی تو بغیر نذر کے اللہ کی راہ میں ہمیشہ خرچ کرتا ہے۔
بعض علماء نے کہا: نذر سے ممانعت اس حال میں ہے کہ نذر ماننے والا یہ سمجھے کہ اس کی نذر کی وجہ سے تقدیر بدل جائے گی، یا جو آفت تقدیر میں ہے وہ ٹل جائے گی، اور اگر یہ اعتقاد و نیّت نہ ہو تو نذر مانی جا سکتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
6. باب النَّهْيِ أَنْ يُحْلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ:
6. اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کی قسم کھانے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2378
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا مالك بن انس، عن نافع، عن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ادرك عمر بن الخطاب وهو يسير في ركب، وهو يحلف بابيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا، فليحلف بالله، او ليصمت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَسِيرُ فِي رَكْبٍ، وَهُوَ يَحْلِفُ بِأَبِيه، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا، فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، أَوْ لِيَصْمُتْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایک کارواں میں اپنے باپ کی قسم اٹھاتے سنا تو فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، پس اب جو کوئی قسم کھانا چاہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2386]»
اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2679]، [مسلم 1646]، [أبوداؤد 3249]، [ترمذي 1534]، [نسائي 3776]، [ابن ماجه 2094]، [أبويعلی 5430]، [ابن حبان 4359]، [الحميدي 703]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2377)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ کی قسم کھانا یا کسی اور کے نام کی قسم کھانا ممنوع ہے، اور بعض علماء نے تو غیر اللہ کی قسم کھانا حرام قرار دیا ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جس کی قسم کھائی جاتی ہے اس کی عظمت و بڑائی ہوتی ہے اور بڑا سمجھ کر اس کی قسم کھاتے ہیں، اور اللہ سے بڑا کوئی نہیں، وہ اعلیٰ و اعظم ہے، اس لئے صرف اللہ کی قسم کھا سکتے ہیں، کسی بھی نبی، ولی، باپ، یا پیر فقیر کی قسم کھانا یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ وہ بہت بڑے عظیم ہیں، یہ اللہ کے ساتھ شرک ہوگا۔
اور ایک حدیثِ صحیح میں ہے: جس نے غیر الله کی قسم کھائی اس نے شرک کیا، یا کذب کا مرتکب ہوا، اس لئے غیر اللہ کی قسم سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بعض مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بھی یہ الفاظ نکلے ہیں: «أَفْلَحَ وَأَبِيْهِ إِنْ صَدَقَ.» تو یہ قسم نہیں بلکہ محاورةً کہے گئے، یا لغو الیمین میں اس کا شمار ہوگا، یا ہو سکتا ہے یہ الفاظ ممانعت سے پہلے کہے گئے ہوں، اسی طرح قرآن کی قسم کھانا درست نہیں اور ایسی قسم کھا لی ہے تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.