الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
دیت کے مسائل
1. باب الدِّيَةِ في قَتْلِ الْعَمْدِ:
1. قتل عمد کی دیت کا بیان
حدیث نمبر: 2388
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن الحارث بن فضيل، عن سفيان بن ابي العوجاء السلمي، عن ابي شريح الخزاعي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "من اصيب بدم او خبل والخبل: الجرح فهو بالخيار بين إحدى ثلاث: فإن اراد الرابعة، فخذوا على يديه: بين ان يقتص او يعفو، او ياخذ العقل فإن اخذ من ذلك شيئا ثم عدا بعد ذلك، فله النار خالدا فيها مخلدا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ أُصِيبَ بِدَمٍ أَوْ خَبْلٍ وَالْخَبْلُ: الْجُرْحُ فَهُوَ بِالْخِيَارِ بَيْنَ إِحْدَى ثَلَاثٍ: فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ، فَخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ: بَيْنَ أَنْ يَقْتَصَّ أَوْ يَعْفُوَ، أَوْ يَأْخُذَ الْعَقْلَ فَإِنْ أَخَذَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ عَدَا بَعْدَ ذَلِكَ، فَلَهُ النَّارُ خَالِدًا فِيهَا مُخَلَّدًا".
سیدنا ابوشرح خزاعی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: جس شخص کا خون کیا جائے یا وہ زخمی کیا جائے تو اس کو (یا اس کے وارث کو) تین باتوں میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کو روکو، وہ تین باتیں یہ ہیں، یا تو قصاص (قتل کے بدلے قتل) طلب کرے، یا معاف کر دے، یا دیت لے لے، ان تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرے پھر چوتھی بات زیادہ کرے تو اس (وارث یا والی) کے لئے جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو حديث منكر، [مكتبه الشامله نمبر: 2396]»
اس روایت کی سند ضعیف اور حدیث منکر ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4496]، [ابن ماجه 2623]، [ابن أبي شيبه 8045]، [دارقطني 96/3]، [البيهقي فى معرفة السنن و الآثار 15885، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو حديث منكر
حدیث نمبر: 2389
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود، حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن، وكان في كتابه: "ان من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فإنه قود يديه إلا ان يرضى اولياء المقتول". قال ابو محمد: اعتبط: قتل من غير علة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: "أَنَّ مَنْ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَيِّنَةٍ فَإِنَّهُ قَوَدُ يَديِهِ إِلَّا أَنْ يَرْضَى أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: اعْتَبَطَ: قَتَلَ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ.
ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے لئے (پروانہ) لکھا اور اس مکتوب میں یہ تھا: جو شخص کسی مسلمان کو بے وجہ مار ڈالے اور گواہوں سے اس پر خون ثابت ہو تو اس پر قصاص لازم ہے (یعنی اس سے بدلہ لیا جائے گا) الا یہ کہ مقتول کے وارثین راضی ہوں۔ (یعنی معاف کر دیں)۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اعتبط» کا معنی ہے بلاکسی عذر کے قتل کرنا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2397]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [نسائي 4868، 4869]، [مسند أبي يعلی 5954]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2387 سے 2389)
دیت اس مال کو کہتے ہیں جو مقتول کی جان کے عوض دیا جاتا ہے، یا جو مال اعضائے بدن کے زخموں یا ٹوٹنے کے عوض دیا جاتا ہے۔
اسلام نے قتل و غارت گری کو حرام قرار دیا ہے اور قتل کو کبائر الذنوب میں شمار کیا ہے، اسی طرح کسی کو مارنا، ایذا پہنچانا بھی حرام قرار دیا ہے، اور ایک آدمی کے قتل کو پوری نوع انسانی کے قتل کے مرادف بتایا ہے۔
اب اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کے وارثین کو اختیار ہے کہ وہ قصاص طلب کریں یا معاف کردیں، جیسا کہ سورۂ بقرہ 178 میں ہے، یا پھر دیت لے لیں جس کا بیان آگے آ رہا ہے (2402) میں، مذکورہ بالا دونوں حدیث ضعیف ہیں لیکن مفہوم صحیح ہے۔
قتل کئی طرح کا ہوتا ہے، علماء کرام نے اس کو تین انواع میں تقسیم کیا ہے: قتلِ عمد، قتلِ خطا، اور شبہ العمد، اور ہر قسم کی الگ سزا ہے جس کا بیان آگے احادیث میں آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
2. باب في الْقَسَامَةِ:
2. قسامہ کا بیان
حدیث نمبر: 2390
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا محمد بن إسحاق، حدثنا بشير بن يسار، عن سهل بن ابي حثمة، قال: خرج عبد الله بن سهل بن ابي حثمة احد بني حارثة إلى خيبر مع نفر من قومه يريدون الميرة بخيبر، قال: فعدي على عبد الله، فقتل: فتلت عنقه حتى نخع ثم طرح في منهل من مناهل خيبر، فاستصرخ عليه اصحابه، فاستخرجوه فغيبوه، ثم قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فتقدم اخوه عبد الرحمن بن سهل وكان ذا قدم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابنا عمه معه: حويصة بن مسعود ومحيصة، فتكلم عبد الرحمن وكان احدثهم سنا، وهو صاحب الدم وذا قدم في القوم فلما تكلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"الكبر الكبر". قال: فاستاخر فتكلم حويصة ومحيصة، ثم هو، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تسمون قاتلكم، ثم تحلفون عليه خمسين يمينا، ثم نسلمه إليكم". قالوا: يا رسول الله، ما كنا لنحلف على ما لا نعلم، ما ندري من قتله، إلا ان اليهود عدونا، وبين اظهرهم قتل. قال:"فيحلفون لكم بالله إنهم لبراء من دم صاحبكم، ثم يبرءون منه". قالوا: ما كنا لنقبل ايمان يهود، ما فيهم اكثر من ان يحلفوا على إثم. قال: فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده بمائة ناقة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ أَبي حَثْمَةَ أَحَدُ بَنِي حَارِثَةَ إِلَى خَيْبَرَ مَعَ نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ يُرِيدُونَ الْمِيرَةَ بِخَيْبَرَ، قَالَ: فَعُدِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقُتِلَ: فَتُلَّتْ عُنُقُهُ حَتَّى نُخَعَ ثُمَّ طُرِحَ فِي مَنْهَلٍ مِنْ مَنَاهِلِ خَيْبَرَ، فَاسْتُصْرِخَ عَلَيْهِ أَصْحَابُهُ، فَاسْتَخْرَجُوهُ فَغَيَّبُوهُ، ثُمَّ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَتَقَدَّمَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ ذَا قِدَمٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنَا عَمِّهِ مَعَهُ: حُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَمُحَيِّصَةُ، فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَحْدَثَهُمْ سِنًّا، وَهُوَ صَاحِبُ الدَّمِ وَذَا قَدَمٍ فِي الْقَوْمِ فَلَمَّا تَكَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"الْكُبْرَ الْكُبْرَ". قَالَ: فَاسْتَأْخَرَ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ، ثُمَّ هُوَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تُسَمُّونَ قَاتِلَكُمْ، ثُمَّ تَحْلِفُونَ عَلَيْهِ خَمْسِينَ يَمِينًا، ثُمَّ نُسَلِّمُهُ إِلَيْكُمْ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ عَلَى مَا لَا نَعْلَمُ، مَا نَدْرِي مَنْ قَتَلَهُ، إِلَّا أَنَّ اليَهُودَ عَدُوُّنَا، وَبَيْنَ أَظْهُرِهِمْ قُتِلَ. قَالَ:"فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَبُرَاءُ مِنْ دَمِ صَاحِبِكُمْ، ثُمَّ يَبْرَءُونَ مِنْهُ". قَالُوا: مَا كُنَّا لِنَقْبَلَ أَيْمَانَ يَهُودَ، مَا فِيهِمْ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يَحْلِفُوا عَلَى إِثْمٍ. قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ بِمِائَةِ نَاقَةٍ.
سہل بن ابی حثمہ نے کہا: بنوحارثہ کے ایک فرد عبدالله بن سہل بن ابی حثمہ اپنی قوم کے کچھ افراد کے ساتھ روزی روٹی کی تلاش میں خیبر کی طرف گئے تو عبداللہ پر زیادتی ہوئی، وہ مارے گئے، ان کی گردن مروڑ دی گئی اور مہرے (منکے) ٹوٹ گئے (یعنی بری طرح ان کی گردن کچل دی گئی) اور ان کی لاش کو خیبر کے چشموں میں سے ایک چشمے کے اندر ڈال دیا گیا، ان کے ساتھیوں نے چیخ و پکار کی اور ان کی لاش کو نکال کر چھپا دیا، پھر وہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے، اور مقتول کے بھائی سیدنا عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آگے آئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے ساتھی اور ان کے چچیرے بھائی حویصہ اور محیصہ ابنا مسعود ان کے ساتھ تھے، سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بات کرنی چاہی، جو ان سے چھوٹے تھے اور مقتول کے وارث بھی تھے اور قوم کے پرانے مسلمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے بڑوں کو بات کرنے دو، چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئے اور حويصہ و محیصہ نے پھر بات کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم قاتل کا نام بتاؤ، پھر پچاس بار قسم کھاؤ (کہ وہی قاتل ہے) ہم اس قاتل کو تمہارے حوالے کر دیں گے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جس کا ہمیں علم ہی نہیں اس پر قسم کیسے کھائیں؟ ہمیں نہیں معلوم انہیں کس نے قتل کیا؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہودی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں کے درمیان ان کا قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: پھر ان (یہود) کو قسم کھانی ہوگی کہ وہ تمہارے مقتول کے قتل سے بری ہیں (یعنی انہوں نے قتل نہیں کیا) پھر وہ اس سے بری کر دیئے جائیں گے، انہوں نے کہا: ہم یہود کی قسموں کا اعتبار نہیں کریں گے کیونکہ وہ تو جھوٹی قسم اکثر کھا جاتے ہیں، راوی نے کہا: چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کے وارثین کو اپنی طرف سے سو اونٹنیاں دیت کی ادا کر دیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2398]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2702]، [مسلم 1669]، [أبوداؤد 4521]، [ترمذي 1422]، [نسائي 4724]، [ابن ماجه 2677]، [ابن حبان 6009]، [الحميدي 407]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2389)
قسامہ قسم اٹھانے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ کوئی مقتول آدمی کسی بستی یا شہر میں پایا جائے اور اس کے قاتل کا علم نہ ہو سکے، اور اس کے قتل پر کوئی گواہ بھی نہ ہو، لیکن مقتول کا ولی اس کے قتل کا الزام کسی آدمی یا جماعت پر لگائے، اور اس دعوے پر کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، لیکن قرائن سے قاتل قریب کا ہو، جیسے ان کے محلے میں پایا گیا ہو، یا قاتل و مقتول کے مابین دشمنی ہو تو مدعی کو سچ مان لیا جائیگا، اور مقتول کے اولیاء کو پچاس قسمیں کھانے کا حکم دیا جائے گا، اگر انہوں نے قسمیں کھا لیں تو قاتل کے وارثین دیت کے مستحق قرار دیئے جائیں گے، اور اگر مقتول کے اولیاء قسم کھانے سے انکاری ہوں، تو پھر جس پر انہوں نے دعویٔ قتل کیا ہے ان کو پچاس قسم اٹھانے کا حکم دیا جائے گا کہ وہ اس بات کی قسم کھائیں کہ انہوں نے قتل نہیں کیا، اور ان کو علم نہیں ہے کہ اس کا قاتل کون ہے؟ پس اگر وہ قسم کھا لیں تو وہ بری قرار پائیں گے، ان پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی، اور اگر انہوں نے قسم کھانے سے گریز کیا تو ان پر دیت ادا کرنا واجب ہو جائے گا۔
مذکورہ بالا حدیث میں بالکل ٹھیک یہی صورت بیان کی گئی ہے، نیز کیونکہ مدعی علیہ کی قسم کا اعتبار کرنے سے مقتول کے اولیاء نے انکار کر دیا تھا، اور اہلِ خیبر صلح کئے ہوئے تھے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کی دیت سو اونٹنی اپنی طرف سے ادا کیں۔
اس حدیث میں بڑوں کا ادب اور انہیں آگے آ کر بات کرنے کی ترغیب بھی ہے۔
نیز ایک آدمی کی دیت سو اونٹ ہے، اور روزی کی تلاش میں باہر جانے کا بھی ثبوت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
3. باب الْقَوَدِ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ:
3. آدمی و عورت کے درمیان قصاص کا بیان
حدیث نمبر: 2391
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود، حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن وكان في كتابه: "ان الرجل يقتل بالمراة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: "أَنَّ الرَّجُلَ يُقْتَلُ بِالْمَرْأَةِ".
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کو جو مکتوب بھیجا اس میں تھا کہ: عورت کے بدلے مرد کو قتل کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2399]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن صحیحین میں اس کا شاہد صحیح موجود ہے۔ [ديكهئے: نسائي 4868]، [ابن حبان 5990، 6559]، [موارد الظمآن 792]، [وشاهده فى البخاري، نبي كريم صلى الله عليه وسلم نے ايك بچي كے بدلے يهودي كو قصاص ميں قتل كيا 2413]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2390)
قود قصاص کو کہتے ہیں، یعنی مقتول کے بدلے قاتل کو قتل کیا جائے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی عورت کو قتل کر دے تو اس قتلِ عمد پر مرد کو قصاص میں قتل کیا جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
4. باب كَيْفَ الْعَمَلُ في الْقَوَدِ:
4. قاتل بدلے میں کس طرح قتل کیا جائے گا
حدیث نمبر: 2392
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن انس: ان جارية رض راسها بين حجرين، فقيل لها: من فعل بك هذا افلان، افلان؟ حتى سمي اليهودي، فاومات براسها، فبعث إليه فجيء به، فاعترف، "فامر به النبي صلى الله عليه وسلم فرض راسه بين حجرين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ جَارِيَةً رُضَّ رَأْسُهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا أَفُلَانٌ، أَفُلَانٌ؟ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، فَبُعِثَ إِلَيْهِ فَجِيءَ بِهِ، فَاعْتَرَفَ، "فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک لڑکی کا دو پتھروں کے درمیان سر کچل دیا گیا، اس سے کہا گیا: کیا فلاں یا فلاں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ یہاں تک کہ یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے تائید کی، چنانچہ اس کو بلا بھیجا گیا اور اس نے اعتراف کر لیا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2400]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2413]، [مسلم 1672]، [أبوداؤد 4527]، [ترمذي 1394]، [نسائي 4756]، [ابن ماجه 2665]، [أبويعلی 2818]، [ابن حبان 5991]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2391)
یہ مقتولہ لڑکی انصاریہ تھی اور سونے کے کڑے پہنے ہوئی تھی، اور اس یہودی نے لالچ میں آ کر اس معصوم کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اتار کر لے گیا، چنانچہ اس حال میں وہ لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی کہ ابھی اس میں کچھ رمق باقی تھی اور اس نے یہودی کی نشاندہی کر دی، لہٰذا اس کے اعتراف کے بعد اس قاتل و ظالم کا بھی سر اسی طرح دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اولاً یہ کہ عورت کے بدلے مرد کو قتل کر دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ جس طرح اس نے قتل کیا ہے اسی طرح اس کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔
امام مالک، شافعی، و احمد رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: قتل میں مماثلت کی ضرورت نہیں بلکہ تلوار یا گولی سے مار دینا ہوگا، اس حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ محض سیاسی اور تعزیری حد تھی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
5. باب لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ:
5. کافر کے بدلے مسلمان قاتل قتل نہیں کیا جائے گا
حدیث نمبر: 2393
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسحاق، اخبرنا جرير، عن مطرف، عن الشعبي، عن ابي جحيفة، قال: قلت لعلي: يا امير المؤمنين، هل علمت شيئا من الوحي إلا ما في كتاب الله تعالى؟. قال:"لا والذي فلق الحبة وبرا النسمة، ما اعلمه إلا فهما يعطيه الله الرجل في القرآن، وما في الصحيفة". قلت: وما في الصحيفة؟. قال:"العقل، وفكاك الاسير، ولا يقتل مسلم بمشرك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَلْ عَلِمْتَ شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى؟. قَالَ:"لَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ الرَّجُلَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ". قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟. قَالَ:"الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِمُشْرِكٍ".
ابوجحیفہ نے کہا: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! کتاب اللہ کے سوا وحی (الٰہی) میں سے اور کچھ آپ کے پاس ہے؟ (یعنی جو قرآن پاک میں موجود نہیں)، انہوں نے فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانہ چیر کر ا گایا، اور جان کو پیدا کیا، مجھے قرآن کے علاوہ کچھ نہیں معلوم سوائے اس فہم (و بصیرت) کے جو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی جس کو چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے، اور جو ورق میں لکھا ہوا ہے، میں نے عرض کیا: اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ فرمایا: دیت اور قیدی چھوڑنے کے احکام اور یہ مسئلہ کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2401]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 111]، [ترمذي 1412]، [نسائي 4758]، [ابن ماجه 2658]، [أبويعلی 338]، [الحميدي 40]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2392)
ابوجحیفہ کے سوال اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے جواب سے شیعہ پر رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن پورا نہیں ہے، اس میں سے چند سورتیں غائب ہیں، اور پورا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس، پھر ایک امام کے پاس آتا رہا، یہاں تک کہ امام مہدی کے پاس آیا وہ غائب ہیں، جب ظاہر ہوں گے تو دنیا میں پورا قرآن پھیلے گا، معاذ اللہ یہ سب اکاذیب اور خرافات ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس نے دانے کو چیرا اور جان کو پیدا کیا، اور ہمارے پاس وہی علم ہے جو اوروں کے پاس ہے (نہ کوئی وصیت ہمارے پاس ہے)......۔
اس حدیث کے پیشِ نظر علمائے کرام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مسلمان کافر حربی کے بدلے نہ مارا جائے اور کافر ذمی کے بدلے بھی نہ مارا جائے۔
جمہور علماء اور اہلِ حدیث کا یہی مسلک ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسلمان ذمی کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا۔
یہ حدیث ان کے خلاف ہے، اور ان کے دلیل میں قوت نہیں ہے، امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اگر مسلمان ذمی کافر کو مار ڈالے تو وہ اس کے بدلے قتل کیا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: مسلمان کسی حال میں قتل نہ کیا جائے یہی صحیح ہے، سیدنا علی و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی احادیث اس قول کی مؤید ہیں۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
6. باب في الْقَوَدِ بَيْنَ الْوَالِدِ وَالْوَلَدِ:
6. باپ اور بیٹے کے درمیان قصاص کا بیان
حدیث نمبر: 2394
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، عن إسماعيل بن مسلم، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "لا تقام الحدود في المساجد، ولا يقاد بالولد الوالد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَونٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُقَامُ الْحُدُودُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَلَا يُقَادُ بِالْوَلَدِ الْوَالِدُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد کے اندر حدیں (سزائیں) نہ قائم کی جائیں اور نہ کوئی باپ بیٹے کے بدلے میں مارا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل إسماعيل بن مسلم المكي، [مكتبه الشامله نمبر: 2402]»
اس روایت کی سند اسماعیل بن مسلم مکی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1401]، [ابن ماجه 2599]، [ابن أبى شيبه 8700]، [حلية الأولياء 18/4]، [مجمع الزوائد 2075]۔ یہ حدیث شواہد کے پیشِ نظر ضعیف ہونے کے باوجود قابلِ عمل ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علماء کا اس پر عمل ہے کہ جب کوئی باپ اپنے بیٹے کو مار ڈالے تو وہ اس کے عوض قتل نہیں کیا جائے، اور جو اپنے بیٹے کو زنا کی تہمت لگائے تو باپ کو حدِ قذف بھی نہ ماری جائے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2393)
اس حدیث میں دو مسئلے بیان کئے گئے: پہلا تو یہ کہ باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ مساجد کے اندر حد کی سزائیں نافذ نہ کی جائیں، کیونکہ اس سے مسجد میں چیخ و پکار ہوگی، اور خون وغیرہ سے مسجد کے نجس ہونے کا بھی اندیشہ ہے، اور مسجد صرف نماز، تلاوت، عبادت، علم اور فیصلے کیلئے ہے۔
مار پیٹ و سزا دینا، مسجد میں مناسب نہیں، اسی لئے امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب اور امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما مسجد سے باہر حدود نافذ کرتے تھے۔
آج تک بلاد الحرمین میں یہی ہوتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل إسماعيل بن مسلم المكي
7. باب في الْقَوَدِ بَيْنَ الْعَبْدِ وَسَيِّدِهِ:
7. مالک اور غلام کے درمیان قصاص کا بیان
حدیث نمبر: 2395
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من قتل عبده قتلناه، ومن جدعه، جدعناه". قال: ثم نسي الحسن هذا الحديث، وكان يقول: لا يقتل حر بعبد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَهُ، جَدَعْنَاهُ". قَالَ: ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ هَذَا الْحَدِيثَ، وَكَانَ يَقُولُ: لَا يُقْتَلُ حُرٌّ بِعَبْدٍ.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم قصاصاً اس کو قتل کریں گے، اور جو کوئی اس کی ناک کاٹے ہم اس کی ناک کاٹیں گے۔ راوی نے کہا: پھر حسن رحمہ اللہ اس حدیث کو بھول گئے اور وہ کہتے تھے: آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف سماع الحسن من سمرة غير ثابت، [مكتبه الشامله نمبر: 2403]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا سماع سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4516]، [ترمذي 1414]، [نسائي 4750]، [ابن ماجه 2663]، [أحمد 10/5، 12، 19]، [بغوي فى شرح السنة 2533]، [طبراني 6810]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2394)
کوئی غلام اگر آزاد مسلمان کو قتل کر دے تو بالاتفاق بدلے میں وہ غلام قتل کیا جائے گا، لیکن آزاد مسلمان کسی کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے۔
بعض علماء نے کہا: غلام کے بدلے میں آزاد بھی قتل کیا جائے گا، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ آزاد آدمی اگر کسی کے غلام کو قتل کر دے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ سے راوی نے نقل کیا ہے، اور اگر کوئی مالک اپنے ہی غلام کو قتل کر دے تو بالاتفاق مالک اپنے غلام یا لونڈی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، امام نخعی رحمہ اللہ کا اس بارے میں اختلاف ہے جو صحیح نہیں، انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے: «مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ.» لیکن جمہور علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا منسوخ، صحیح پہلا ہی قول ہے۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف سماع الحسن من سمرة غير ثابت
8. باب لِمَنْ يَعْفُو عَنْ قَاتِلِهِ:
8. جو شخص اپنے قاتل کو معاف کر دے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2396
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله الهمداني، حدثنا ابو اسامة، عن عوف، عن حمزة ابي عمر، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن ابيه وائل بن حجر، قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم حين اتي بالرجل القاتل يقاد في نسعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لولي المقتول:"اتعفو؟". قال: لا. قال:"فتاخذ الدية؟". قال: لا. قال:"فتقتله؟". قال: نعم. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنك إن عفوت عنه، فإنه يبوء بإثمك وإثم صاحبك". قال: فتركه، قال: فانا رايته يجر نسعته، قد عفا عنه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ حَمْزَةَ أَبِي عُمَرَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُتِيَ بِالرَّجُلِ الْقَاتِلِ يُقَادُ فِي نِسْعَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ:"أَتَعْفُو؟". قَالَ: لَا. قَالَ:"فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟". قَالَ: لَا. قَالَ:"فَتَقْتُلُهُ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ، فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ". قَالَ: فَتَرَكَهُ، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ، قَدْ عَفَا عَنْهُ.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، ایک قاتل تسمہ سے بندھا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: کیا تم اس قاتل کو معاف کروگے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر دیت لوگے؟ عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اس کو قتل کرو گے؟ کہا: جی ہاں قتل کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اس قاتل کو معاف کر دو گے تو یہ تمہارا اور تمہارے مقتول (بھائی) کا گناہ سمیٹ لے جائے گا، وائل نے کہا: چنانچہ اس صحابی نے قاتل کو چھوڑ دیا اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ قاتل اپنا تسمہ کھینچ کر جا رہا تھا، اس نے قاتل کو معاف کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2404]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1680]، [أبوداؤد 4499، 4500]، [نسائي 4728]، [بيهقي فى السنن 55/8] و [معرفة السنن و الآثار 15901، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2395)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتلِ عمد میں مقتول کے وارثین کو اختیار ہے کہ قصاص میں قاتل کے قتل کرنے کا مطالبہ کریں، یا معاف کر دیں، یا پھر دیت لے لیں جیسا کہ (2388) میں ذکر کیا گیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرموں کو باندھنا اور انہیں حاکم کے سامنے پیش کرنا، مدعی کا مدعا علیہ سے پہلے جواب لینا، اگر وہ اقرار کر لے تو گواہوں کی ضرورت نہ ہوگی، حاکم کا مقتول کے وارث سے معافی کے لئے ترغیب دینا اور درخواست کرنا، نیز معافی کا صحیح ہونا، مقدمہ رجوع ہونے کے بعد بھی دیت کا جائز ہونا، قاتل کو قصاص کے لئے وارثین کے حوالے کرنا، یہ سب مسائل مذکورہ بالا حدیث سے نکلے ہیں۔
(وحیدی، شرح مسلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
9. باب التَّشْدِيدِ في قَتْلِ النَّفْسِ الْمُسْلِمَةِ:
9. مسلمانوں کو قتل کرنے کا گناہ
حدیث نمبر: 2397
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن فراس، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس شعبة الشاك او اليمين الغموس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ أَوْ الْيَمِينُ الْغَمُوسُ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق کسی کی جان لینا - شعبہ نے شک کیا - یا جھوٹی قسم کھانا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2405]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6675، 6870]، [ترمذي 3021]، [نسائي 4022]، [شرح السنة 44]۔ نیز دیکھئے: [المحلی 36/8]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2396)
یہ سارے گناہِ کبیرہ ہیں جن سے توبہ کئے بغیر مر جانا دوزخ میں داخل ہونا ہے۔
یہاں قتل النفس کی مناسبت سے یہ حدیث ذکر کی گئی، معلوم ہوا کہ مسلمان کا ناحق خون کرنا بہت بڑا گناہ ہے جسے کفر سے تعبیر فرمایا گیا ہے: «لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِيْ كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بِعْضٍ.» صد افسوس آج کا مسلمان نہ شرک سے شرماتا ہے، نا والدین کی نافرمانی سے گریز کرتا ہے، اور نہ جھوٹی قسم سے، اور نہ اپنے مسلمان بھائی کا خون بہانے سے چوکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.