الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب جہاد کے بارے میں
1. باب الْجِهَادِ في سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ الأَعْمَالِ:
1. اللہ کے راستے میں جہاد سب سے بہتر عمل ہے
حدیث نمبر: 2427
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن عبد الله بن سلام، قال:"قعدنا نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فتذاكرنا، فقلنا: لو نعلم اي الاعمال احب إلى الله تعالى، لعملناه، فانزل الله تعالى: سبح لله ما في السموات وما في الارض وهو العزيز الحكيم سورة الحشر آية 1 حتى ختمها". قال عبد الله: فقراها علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ختمها، قال ابو سلمة: فقراها علينا ابن سلام. قال يحيى: فقراها علينا ابو سلمة، وقراها علينا يحيى وقراها علينا الاوزاعي، وقراها علينا محمد.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ:"قَعَدْنَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَذَاكَرْنَا، فَقُلْنَا: لَوْ نَعْلَمُ أَيَّ الْأَعْمَالِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى، لَعَمِلْنَاهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة الحشر آية 1 حَتَّى خَتَمَهَا". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى خَتَمَهَا، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا ابْنُ سَلَامٍ. قَالَ يَحْيَى: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا أَبُو سَلَمَةَ، وَقَرَأَهَا عَلَيْنَا يَحْيَى وَقَرَأَهَا عَلَيْنَا الْأَوْزَاعِيُّ، وَقَرَأَهَا عَلَيْنَا مُحَمَّدٌ.
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب بیٹھے تذکرہ کر رہے تھے کہ اگر ہم کو یہ معلوم ہو جائے کہ الله تعالیٰ کو کون سا عمل بہت پیارا ہے تو ہم اس پر عمل کرتے، پس الله تعالیٰ نے یہ آیات اتار دیں: «﴿سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ ......﴾» (الصف 1/61-3) یعنی: جو کوئی آسمان و زمین میں ہے سب الله کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے، اے ایمان والو! جو تم کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو، سیدنا عبدالله بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر یہ سورت شروع سے آخر تک پڑھی، ابوسلمہ نے کہا: سیدنا ابن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کو ہمارے اوپر پڑھا یہاں تک کہ اسکو ختم کیا۔
یحییٰ نے کہا: اس سورت کو ابوسلمہ نے ہمارے پاس پڑھا اور یحییٰ نے ہمارے سامنے پڑھی اور اوزاعی نے بھی ہمارے پاس یہ سورت پڑھی اور محمد (ابن کثیر) نے یہ سورت ہم پر پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو: ابن أبي العطاء ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه الوليد بن مسلم فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 2435]»
محمد بن کثیر ابن ابی العطاء کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن دیگر اسانید سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3306]، [أبويعلی 7497]، [ابن حبان 4594]، [موارد الظمآن 1589]، [الدر المنثور 212/6]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2426)
اس حدیث سے بہت سے فوائد معلوم ہوئے، محل الشاہد ہے یہ کہ الله تعالیٰ ان لوگوں کو بہت محبوب رکھتا ہے جو ایک پختہ دیوار بن کر اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں، یعنی جہاد فی سبیل اللہ کا عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بہت پسند ہے۔
مذکور بالا حدیث سے اچھے سے اچھے عمل کی تلاش اور جستجو کرنے کی رغبت ہے، اور سورة الصّف سے یہ معلوم ہوا کہ کائنات کی ساری مخلوقات جو زمین میں ہیں باری تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتی ہیں، ایک اور آیت میں ہے: « ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ﴾ [النور: 41] » ۔
اس حدیث کے آخر میں حدیث کی ایک قسم مسلسل ہے کہ محمد بن کثیر سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام رواۃ نے سورۂ صف کی تلاوت شروع سے آخر تک کی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو: ابن أبي العطاء ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه الوليد بن مسلم فيصح الإسناد
2. باب فَضْلِ الْجِهَادِ:
2. جہاد کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2428
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تكفل الله لمن خرج من بيته لا يخرجه إلا جهاد في سبيل الله، وتصديق بكلماته، ان يدخله الجنة، او يرده إلى مسكنه الذي خرج منه مع ما نال من اجر او غنيمة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَتَصْدِيقٌ بكَلِمَاتِهِ، أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ يَرُدَّهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے کلام کو سچ جان کر صرف جہاد کی نیت سے اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلے تو اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کو شہید کر کے جنت میں داخل کرے گا، یا پھر ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ اس مجاہد کو اس کے گھر لوٹا لائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2436]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3123]، [مسلم 1876]، [ابن حبان 4610]، [الحميدي 1118، 1119]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2427)
جہاد لغت میں محنت و مشقت اور کوشش کو کہتے ہیں، اور شرعاً اسلام کی حفاظت و حمایت اور اعلائے كلمۃ الله کی غرض سے قتال اور باغیوں سے لڑنے میں اپنی پوری جد و جہد جہاد کہلاتا ہے، اس کے شروط و ضوابط ہیں جن کے بغیر جہاد صحیح نہیں، سب سے اہم شرط یہ ہے: وہ جہاد اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو، ایسا جہاد اللہ تعالیٰ کو پسند اور ایسے مجاہد کے لئے دنیا میں انعام و اکرام، اور آخرت میں بے حد اجر و ثواب کی بشارت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج اللہ کی رضا کے لئے ہو، مجاہد فی سبیل اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو انعام مقرر کئے: اگر اسے شہادت نصیب ہو تو وہ سیدھا جنّت میں جائے گا، حوروں کی گود میں پہنچے گا، اور حساب و کتاب سے مستثنیٰ ہوگا، اور اگر سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور مالِ غنیمت کے ساتھ واپس ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
3. باب أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ:
3. کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟
حدیث نمبر: 2429
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا مالك بن مغول، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: قيل: يا رسول الله، اي الجهاد افضل؟. قال: "من عقر جواده واهريق دمه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟. قَالَ: "مَنْ عُقِرَ جَوَادُهُ وَأُهْرِيقَ دَمُهُ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سب سے افضل جہاد کون سا ہے؟ فرمایا: وہ جہاد سب سے افضل ہے جس میں مجاہد کا گھوڑا مارا جائے اور اس کا خون بہا دیا جائے، (یعنی جس جہاد میں مجاہد اپنا جان و مال سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دے اور شہید ہو جائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2437]»
اس حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرط پر ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2794]، [أبويعلی 2081]، [ابن حبان 2639]، [موارد الظمآن 1608]، [الحميدي 1313]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2428)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو انسان اپنا مال لے کر راہِ خدا میں نکلے، پھر اس کا مال لوٹ لیا جائے، سواری ہلاک کردی جائے، اور وہ خود جامِ شہادت نوش کر لے، اس سے بہتر کوئی جہا نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط مسلم
4. باب أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ:
4. سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟
حدیث نمبر: 2430
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن ابن المسيب، عن ابي هريرة، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الاعمال افضل؟، قال: "إيمان بالله ورسوله". قال: قيل: ثم ماذا؟. قال:"ثم الجهاد في سبيل الله". قيل: ثم ماذا؟. قال:"ثم حج مبرور".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: "إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ". قَالَ: قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟. قَالَ:"ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ". قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟. قَالَ:"ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانا، عرض کیا گیا: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، عرض کیا گیا: پھر کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: حج مبرور۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2438]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 26، 1519]، [مسلم 83]، [ابن حبان 151، 4598]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2429)
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں ریا کاری اور گناہ کا مطلق دخل نہ ہو، وہ خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو، اس کے بعد حاجی کی پہلی حالت بدل کر اب سراپا نیکیوں کا مجسمہ بن جائے، بلاشبہ اسی کا حج مبرور ہے، اور ایسے ہی حج کے لئے کہا گیا: «اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةَ. (أو كما قال صلى اللّٰه عليه وسلم)» یعنی حج مبرور کا بدلہ جنّت کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اعمالِ صالحہ کے ثواب میں تفاوت ہے، کوئی عمل اچھا اور کوئی بہت اچھا ہوتا ہے، یہاں سب سے اچھا عمل اللہ اور رسول پر ایمان لانا ہے، ایمان سے مراد اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار، اس کی وحدانیت و ربانیت کا اعتراف، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی و رسول اور برگزیدہ بندے ہونے کا اعتراف، اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرمابرداری اور نافرمانی سے گریز، یہ صحیح ایمان، اور ایمان کے تقاضے ہیں اور سب سے اچھا عمل یہ ہے۔
اس کے بعد راہِ خدا میں جہاد کرنا سب اعمال سے افضل ہے، اور پھر حج مبرور سب سے اچھا عمل ہے، یہاں جہاد کو حج پر مقدم کیا گیا حالانکہ حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک رکن ہے، اور جہاد ان ارکان میں داخل نہیں ہے، اس لئے کہ جہاد کا نفع اپنی ذات سے ہٹ کر بے شمار لوگوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے، لیکن حج صرف حاجی کی ذات تک محدود ہوتا ہے۔
سب سے اچھے عمل کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف ادوار میں سوالات کئے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جوابات دیئے ہیں، وہ پوچھنے والے کے احوال کے پیشِ نظر دیئے گئے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
5. باب مَنْ قَاتَلَ في سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ:
5. جو شخص تھوڑی دیر کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2431
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، حدثنا بقية، عن بحير، عن خالد بن معدان، عن مالك بن يخامر، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قاتل في سبيل الله فواق ناقة، وجبت له الجنة. وهو قدر ما تدر حلبها لمن حلبها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ. وَهُوَ قَدْرُ مَا تَدُرُّ حَلَبُهَا لِمَنْ حَلَبَهَا".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں اونٹنی کے دو بار دودھ اتارنے تک جہاد کرے اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ اور یہ اتنی سی مدت ہے کہ دودھ نکالنے والا دودھ نکالے اور اونٹنی اپنا دودھ چھوڑ دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2439]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2541]، [ترمذي 1657]، [نسائي 3141]، [ابن حبان 4618]، [موارد الظمآن 5196]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2430)
دوباره دودھ اتارنے کا مطلب یہ ہے کہ جانور کا جب دودھ دوہتے ہیں تو وہ اپنا دودھ اوپر چڑھا لیتا ہے، پھر اس کو ذرا سی دیر کے لئے چھوڑ دیتے ہیں تو وہ پھر اپنے تھن کو دودھ سے بھر دیتا ہے، پھر دوباره دودھ دوہنا شروع کرتے ہیں، «فُوَاقَ نَاقَةٍ» کے یہی معنی ہیں اور اس سے مراد ذرا سی دیر سے، یعنی جو شخص بھی اتنی قلیل مدت کے لئے جہاد کرے گا نیتِ خالص کے ساتھ اس کے لئے جنت واجب ہوجائے گی، اس سے جہاد کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
6. باب أَفَضْلُ النَّاسِ رَجُلٌ مُمْسِكٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ:
6. سب سے افضل وہ آدمی ہے جو اللہ کے راستے میں گھوڑے کی لگام تھامے رہے
حدیث نمبر: 2432
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عاصم بن علي، حدثنا ابن ابي ذئب، عن سعيد بن خالد، عن إسماعيل بن عبد الرحمن بن ابي ذؤيب، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج عليهم وهم جلوس، فقال:"الا اخبركم بخير الناس منزلة؟". قلنا: بلى. قال: "رجل ممسك براس فرسه او قال فرس في سبيل الله، حتى يموت او يقتل". قال: فاخبركم بالذي يليه؟، فقلنا: نعم يا رسول الله. قال:"امرؤ معتزل في شعب يقيم الصلاة ويؤتي الزكاة، ويعتزل شرور الناس". قال:"فاخبركم بشر الناس منزلة؟"، فقلنا: نعم يا رسول الله. قال:"الذي يسال بالله العظيم ولا يعطي به".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذؤِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ وَهُمْ جُلُوسٌ، فَقَالَ:"أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ مَنْزِلَةً؟". قُلْنَا: بَلَى. قَالَ: "رَجُلٌ مُمْسِكٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ أَوْ قَالَ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى يَمُوتَ أَوْ يُقْتَلَ". قَالَ: فَأُخْبِرُكُمْ بِالَّذِي يَلِيهِ؟، فَقُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:"امْرُؤٌ مُعْتَزِلٌ فِي شِعْبٍ يُقِيمُ الصَّلَاةَ وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَيَعْتَزِلُ شُرُورَ النَّاسِ". قَالَ:"فَأُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَةً؟"، فَقُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:"الَّذِي يُسْأَلُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَلَا يُعْطِي بِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے پاس سے گذرے جو بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو نہ بتلاؤں وہ شخص جو الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہے؟ عرض کیا: ضرور بتلایئے، فرمایا: وہ شخص جو اپنے گھوڑے کو لئے ہوئے اللہ کی راہ میں نکلے (یعنی جہاد کرے) یہاں تک کہ وہ مر جائے، یا شہید کر دیا جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد جو شخص عمل میں اس کے قریب ہے وہ تمہیں بتاؤں؟ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرور بتایئے، فرمایا: پھر ایسا شخص ہے جو لوگوں سے جدا ہو کر کسی گھاٹی میں نماز ادا کرتا ہے، زکاة دیتا ہے اور لوگوں کی شرارتوں، برائیوں سے دور رہتا ہے، اور نہیں بتا دوں جو سب سے زیادہ بدتر ہے؟ ہم نے عرض کیا: بتایئے، فرمایا: ایسا شخص جس سے اللہ تعالیٰ کے نام پر مانگا جائے اور وہ کچھ نہ دے (یہ سب سے بدترین آدمی ہے)۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ شخص جو اللہ کے نام سے مانگے اور اسے کچھ نہ دیا جائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2440]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1652]، [نسائي 2568]، [ابن حبان 604، 605]، [موارد الظمآن 1593، 1594]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2431)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل ترین آدمی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلے اور انتقال کر جائے یا شہید کر دیا جائے۔
اس کے قریب وہ شخص سب سے اچھا ہے جو فتنوں کے دور میں برائیوں سے بچنے کے لئے شہر و دیہات سے نکل کر دوسری جگہ چلا جائے، اور وہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات، نماز و زکاة، و دیگر امور کی پابندی کرے۔
اور سب سے بدترین آدمی وہ ہے جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور پھر بھی وہ ہاتھ روکے رکھے اور کچھ خرچ نہ کرے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
7. باب فَضْلِ مَقَامِ الرَّجُلِ في سَبِيلِ اللَّهِ:
7. اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کا مقام و مرتبہ
حدیث نمبر: 2433
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني يحيى بن ايوب، عن هشام، عن الحسن، عن عمران بن حصين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "مقام الرجل في الصف في سبيل الله، افضل من عبادة الرجل ستين سنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مُقَامُ الرَّجُلِ فِي الصَّفِّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الرَّجُلِ سِتِّينَ سَنَةً".
سیدنا عمران بن حصین رضى اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جو شخص صف میں آ کر کھڑا ہو اس کا مقام و مرتبہ اور کھڑا ہونا ایک آدمی کی ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف عبد الله بن صالح والانقطاع فإن الحسن لم يثبت سماعه من عمران، [مكتبه الشامله نمبر: 2441]»
اس روایت میں عبداللہ بن صالح ضعیف ہیں اور حسن رحمہ اللہ کا سماع سیدنا عمران بن حصین رضى اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [بزار 1666]، [طبراني 168/18، 377]، [مجمع البحرين 2713، وله شاهد عند أحمد 524/2]، [ترمذي 1650]، [حاكم فى المستدرك 68/2]۔ لیکن ترندی میں ہے: ”تم میں سے کسی ایک کا اللہ کی راہ میں ایک بار کھڑے ہونا اپنے گھر میں ستر برس تک نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔“

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف عبد الله بن صالح والانقطاع فإن الحسن لم يثبت سماعه من عمران
8. باب فَضْلِ الْغُبَارِ في سَبِيلِ اللَّهِ:
8. اللہ کے راستے میں غبار کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2434
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا القاسم بن كثير، قال: سمعت عبد الرحمن بن شريح يحدث، عن عبد الله بن سليمان: ان مالك بن عبد الله مر على حبيب بن مسلمة او حبيب مر على مالك وهو يقود فرسا وهو يمشي، فقال: الا تركب حملك الله؟، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من اغبرت قدماه في سبيل الله، حرمه الله على النار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ: أَنَّ مَالِكَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ مَرَّ عَلَى حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ أَوْ حَبِيبٌ مَرَّ عَلَى مَالِكٍ وَهُوَ يَقُودُ فَرَسًا وَهُوَ يَمْشِي، فَقَالَ: أَلا تَرْكَبُ حَمَلَكَ اللَّهُ؟، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ".
عبداللہ بن سلیمان سے مروی ہے کہ مالک بن عبداللہ، حبیب بن مسلمہ کے پاس سے گذرے یا حبیب مالک کے پاس سے گزرے جو اپنے گھوڑے کی نکیل پکڑے پیدل جارہے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ سوار کیوں نہیں ہو جاتے۔ اللہ آپ کو سوار کرے، کہا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دونوں قدم اللہ کی راہ میں گرد آلود ہوں، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2442]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1632]، [أبويعلی 2075]، [ابن حبان 4604]، [موارد الظمآن 1588، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2432 سے 2434)
اس حدیث سے اللہ کے راستے میں مشقت اٹھانے اور قدم گرد آلود ہونے کی فضیلت ہے کہ ایسے آدمی کے لئے جہنم کی آگ حرام ہے، یعنی وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
9. باب الْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ في سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:
9. اللہ کے راستے میں صبح یا شام کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2435
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لغدوة في سبيل الله او روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں گذرنے والی ایک صبح یا اللہ کے راستے میں گذرنے والی ایک شام دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔

تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2443]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2794]، [مسلم 1881]، [نسائي 3118]، [أبويعلی 7514]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2434)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صبح یا شام کو اللہ کے راستے میں جہاد کرے تو وہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے، اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت معلوم ہوئی جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں، واضح رہے کہ صبح و شام گشت کے لئے نکلنا اس میں داخل نہیں کیونکہ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے جس میں جان و مال اللہ کی نذر کرنے کی توقع ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
10. باب مَنْ صَامَ يَوْماً في سَبِيلِ اللَّهِ:
10. جو شخص اللہ عزوجل کے راستے میں ایک دن روزہ رکھے اس کی فضیلت
حدیث نمبر: 2436
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن سهيل بن ابي صالح، عن النعمان بن ابي عياش، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "ما من عبد يصوم يوما في سبيل الله ابتغاء وجه الله، إلا باعد الله بين وجهه وبين النار سبعين خريفا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ، إِلَّا بَاعَدَ اللَّهُ بَيْنَ وَجْهِهِ وَبَيْنَ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ بھی الله تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے، الله تعالیٰ اس کو ستر سال کی دوری پر جہنم سے دور کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2444]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2840]، [مسلم 1153]، [ترمذي 1623]، [نسائي 2247]، [ابن ماجه 1717]، [أبويعلی 1257]، [ابن حبان 3417]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2435)
مولانا داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: مجتہد مطلق، امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں لفظ فی سبیل اللہ زیادہ تر جہاد ہی کے لئے بولا گیا ہے، حدیث مذکور میں جہاد کرتے ہوئے روزہ رکھنا مراد ہے، جس سے لفظی روز ہ مراد ہے، اور اسی کی یہ فضیلت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مردِ مجاہد کا روزہ اور مردِ مجاہد کی نماز بہت اونچا مقام رکھتی ہے (بشرطیکہ وہ خالص اللہ کے لئے ہو)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.