الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
1. باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ:
1. باب: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان دونوں سے کون زیادہ حقدار ہے۔
حدیث نمبر: 6500
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف الثقفي ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا جرير ، عن عمارة بن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال: امك، قال: ثم من؟ قال: ثم امك، قال: ثم من؟ قال: ثم امك؟ قال: ثم من؟ قال: ثم ابوك "، وفي حديث قتيبة: من احق بحسن صحابتي، ولم يذكر الناس.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جَمِيلِ بْنِ طَرِيفٍ الثَّقَفِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ؟ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ "، وَفِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ: مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي، وَلَمْ يَذْكُرِ النَّاسَ.
قتیبہ بن سعید بن جمیل بن طریف ثقفی اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں جریر نے عمارہ بن قعقاع سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: لوگوں میں سے حسنِ معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔" اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں۔" اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں۔" اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہارا والد۔" اور قتیبہ کی حدیث میں ہے: میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے؟ اور انہوں نے "لوگوں میں سے" کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنےلگا،میری اچھی رفاقت کا سب سے زیادہ حقدار کون انسان ہے؟آپ نےفرمایا،"تیری ماں۔"اس نے پوچھا،"پھر کون؟فرمایا:"تیری والدہ"پوچھا،پھر کون؟فرمایا:"پھر بھی تیری ماں،"اس نے دریافت کیا،پھر کون؟فرمایا،"پھر تیرا باپ۔"
حدیث نمبر: 6501
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء الهمداني ، حدثنا ابن فضيل ، عن ابيه ، عن عمارة بن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رجل: " يا رسول الله، من احق الناس بحسن الصحبة؟ قال: امك، ثم امك، ثم امك، ثم ابوك، ثم ادناك ادناك ".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ؟ قَالَ: أُمُّكَ، ثُمَّ أُمُّكَ، ثُمَّ أُمُّكَ، ثُمَّ أَبُوكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ ".
فضیل نے عمارہ بن قعقاع سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے (میری طرف سے) حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار) ہو، (پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو۔" (اسی ترتیب سے آگے حق دار بنیں گے۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی نے پوچھا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حسن رفاقت کا حقدارکون ہے؟آپ نے فرمایا:"تیری ماں پھر تیری ماں پھر تیری ماں،پھر تیرا باپ،پھر درجہ بدرجہ تیرے رشتہ دار۔"
حدیث نمبر: 6502
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن عمارة ، وابن شبرمة ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر بمثل حديث جرير وزاد، فقال: نعم، وابيك لتنبان.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُمَارَةَ ، وَابْنِ شُبْرُمَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ جَرِيرٍ وَزَادَ، فَقَالَ: نَعَمْ، وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّ.
شریک نے عمارہ اور ابن شبرمہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس کے بعد (شریک نے) جریر کی روایت کے مانند بیان کیا اور مزید کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، تمہارے باپ کی قسم! تمہیں ضرور بتایا جائے گا۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آگے پہلی حدیث بیان کی اور یہ اضافہ کیا،آپ نے فرمایا:"ہاں،تیرے باپ کی قسم۔"تمہیں ضرور بتایا جائے گا۔"
حدیث نمبر: 6503
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا شبابة ، حدثنا محمد بن طلحة . ح وحدثني احمد بن خراش ، حدثنا حبان ، حدثنا وهيب كلاهما، عن ابن شبرمة ، بهذا الإسناد في حديث وهيب: من ابر، وفي حديث محمد بن طلحة: اي الناس احق مني بحسن الصحبة، ثم ذكر بمثل حديث جرير.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ . ح وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي حَدِيثِ وُهَيْبٍ: مَنْ أَبَرُّ، وَفِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ: أَيُّ النَّاسِ أَحَقُّ مِنِّي بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ جَرِيرٍ.
محمد بن طلحہ اور وہیب دونوں نے ابن شبرمہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔ وہیب کی حدیث میں ہے: میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ اور محمد بن طلحہ کی حدیث میں ہے: لوگوں میں سے میری طرف سے حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ پھر جریر کی حدیث کے مانند بیان کیا۔
صاحب اپنے دو اساتذہ کی سندوں سے،ابن شبرمہ کی مذکورہ بالا سند سے یہ روایت بیان کرتے ہیں،وہیب کی روایت میں ہے،میں کس سے حسن سلوک کروں؟اور محمد بن طلحہ کی روایت میں ہے،سب لوگوں میں سے میری حسن رفاقت کا زیادہ حقدار کون ہے،پھر وہی حدیث بیان کی۔
حدیث نمبر: 6504
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن حبيب . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا يحيي يعني ابن سعيد القطان ، عن سفيان ، وشعبة ، قالا: حدثنا حبيب ، عن ابي العباس ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد، فقال: احي والداك، قال: نعم، قال: ففيهما فجاهد ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَي يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، وَشُعْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَبِيبٌ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: أَحَيٌّ وَالِدَاكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ ".
وکیع نے سفیان سے اور یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان اور شعبہ دونوں سے روایت کی، دونوں نے کہا: ہمیں حبیب نے ابوعباس سے حدیث سنائی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے آیا تو آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟" اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر ان (کی خدمت بجا لانے) میں جہاد کرو۔ (اپنی جان اور مال کو ان کی خدمت میں صرف کرو۔) "
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرآپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو آپ نے پوچھا،"کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں۔"اس نے کہا،جی ہاں،فرمایا:"تو پھر خوب محنت سے ان کی خدمت کر۔"
حدیث نمبر: 6505
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن حبيب ، سمعت ابا العباس ، سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر بمثله، قال مسلم: ابو العباس اسمه: السائب بن فروخ المكي.حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ، قَالَ مُسْلِم: أَبُو الْعَبَّاسِ اسْمُهُ: السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ الْمَكِّيُّ.
معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے حبیب سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے ابوعباس سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، پھر اسی (سابقہ حدیث) کے مانند بیان کیا۔ امام مسلم نے کہا: ابوعباس کا نام سائب بن فروخ مکی ہے۔
ابو العباس رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتےہیں،ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آگے مذکورہ بالاروایت بیان کی ہے۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں،ابوالعباس کانام سائب بن فروخ مکی ہے۔
حدیث نمبر: 6506
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، اخبرنا ابن بشر ، عن مسعر . ح وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا معاوية بن عمرو ، عن ابي إسحاق . ح وحدثني القاسم بن زكرياء ، حدثنا حسين بن علي الجعفي ، عن زائدة كلاهما، عن الاعمش جميعا، عن حبيب ، بهذا الإسناد مثله.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ . ح وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ جَمِيعًا، عَنْ حَبِيبٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ابن بشر نے مسعر سے، ابواسحاق اور زائدہ دونوں نے اعمش سے، سب نے حبیب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے،حبیب کی مذکورہ بالا سند سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6507
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، ان ناعما مولى ام سلمة حدثه، ان عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: " اقبل رجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ابايعك على الهجرة والجهاد ابتغي الاجر من الله، قال: فهل من والديك احد حي؟ قال: نعم، بل كلاهما، قال: فتبتغي الاجر من الله؟ قال: نعم، قال: فارجع إلى والديك فاحسن صحبتهما ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ نَاعِمًا مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: " أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْكَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ كِلَاهُمَا، قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَيْكَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا ".
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟" اس نے کہا: جی ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟" اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "اپنے والدین کے پاس جاؤ اور اچھے برتاؤ سے ان کے ساتھ رہو۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا اور آپ سے عرض کیا،میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں،اس پر اللہ سےاجر کا طالب ہوں،آپ نے پوچھا،"کیا تیرے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے؟"اس نے کہا،جی ہاں،بلکہ دونوں زندہ ہیں،آپ نے پوچھا،"تم اللہ سے اجر کے خواہاں ہو؟"اس نے کہا،جی ہاں،آپ نے فرمایا:"تو پھر اپنے والدین کی طرف لوٹ جاؤ۔"اور ان دونوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔"
2. باب تَقْدِيمِ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
2. باب: نفل نماز پر والدین کی اطاعت مقدم ہے۔
حدیث نمبر: 6508
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، عن ابي رافع ، عن ابي هريرة ، انه قال: " كان جريج يتعبد في صومعة، فجاءت امه، قال حميد: فوصف لنا ابو رافع صفة ابي هريرة، لصفة رسول الله صلى الله عليه وسلم امه حين دعته كيف جعلت كفها فوق حاجبها، ثم رفعت راسها إليه تدعوه، فقالت يا جريج: انا امك كلمني، فصادفته يصلي، فقال: اللهم امي وصلاتي، فاختار صلاته، فرجعت، ثم عادت في الثانية، فقالت يا جريج: انا امك فكلمني، قال: اللهم امي وصلاتي، فاختار صلاته، فقالت: اللهم إن هذا جريج وهو ابني وإني كلمته، فابى ان يكلمني اللهم فلا تمته حتى تريه المومسات، قال: ولو دعت عليه ان يفتن لفتن، قال: وكان راعي ضان ياوي إلى ديره، قال: فخرجت امراة من القرية فوقع عليها الراعي، فحملت فولدت غلاما، فقيل لها: ما هذا؟ قالت: من صاحب هذا الدير، قال: فجاءوا بفؤوسهم ومساحيهم فنادوه فصادفوه يصلي، فلم يكلمهم، قال: فاخذوا يهدمون ديره، فلما راى ذلك نزل إليهم، فقالوا له: سل هذه، قال: فتبسم ثم مسح راس الصبي، فقال: من ابوك؟ قال: ابي راعي الضان، فلما سمعوا ذلك منه، قالوا: نبني ما هدمنا من ديرك بالذهب والفضة، قال: لا، ولكن اعيدوه ترابا كما كان ثم علاه ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ جُرَيْجٌ يَتَعَبَّدُ فِي صَوْمَعَةٍ، فَجَاءَتْ أُمُّهُ، قَالَ حُمَيْدٌ: فَوَصَفَ لَنَا أَبُو رَافِعٍ صِفَةَ أَبِي هُرَيْرَةَ، لِصِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّهُ حِينَ دَعَتْهُ كَيْفَ جَعَلَتْ كَفَّهَا فَوْقَ حَاجِبِهَا، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا إِلَيْهِ تَدْعُوهُ، فَقَالَتْ يَا جُرَيْجُ: أَنَا أُمُّكَ كَلِّمْنِي، فَصَادَفَتْهُ يُصَلِّي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ، فَرَجَعَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فِي الثَّانِيَةِ، فَقَالَتْ يَا جُرَيْجُ: أَنَا أُمُّكَ فَكَلِّمْنِي، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا جُرَيْجٌ وَهُوَ ابْنِي وَإِنِّي كَلَّمْتُهُ، فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي اللَّهُمَّ فَلَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ الْمُومِسَاتِ، قَالَ: وَلَوْ دَعَتْ عَلَيْهِ أَنْ يُفْتَنَ لَفُتِنَ، قَالَ: وَكَانَ رَاعِي ضَأْنٍ يَأْوِي إِلَى دَيْرِهِ، قَالَ: فَخَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْقَرْيَةِ فَوَقَعَ عَلَيْهَا الرَّاعِي، فَحَمَلَتْ فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقِيلَ لَهَا: مَا هَذَا؟ قَالَتْ: مِنْ صَاحِبِ هَذَا الدَّيْرِ، قَالَ: فَجَاءُوا بِفُؤُوسِهِمْ وَمَسَاحِيهِمْ فَنَادَوْهُ فَصَادَفُوهُ يُصَلِّي، فَلَمْ يُكَلِّمْهُمْ، قَالَ: فَأَخَذُوا يَهْدِمُونَ دَيْرَهُ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ نَزَلَ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا لَهُ: سَلْ هَذِهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَ الصَّبِيِّ، فَقَالَ: مَنْ أَبُوكَ؟ قَالَ: أَبِي رَاعِي الضَّأْنِ، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْهُ، قَالُوا: نَبْنِي مَا هَدَمْنَا مِنْ دَيْرِكَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَعِيدُوهُ تُرَابًا كَمَا كَانَ ثُمَّ عَلَاهُ ".
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے ابورافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جریج نوکیلی چھت والی چھوٹی سی عبادت گاہ میں عبادت کر رہا تھا کہ اس کی ماں آئی۔ حمید نے کہا: ابو رافع نے ہمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرح واضح کر کے دکھایا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے واضح کیا تھا کہ جب اس کی ماں نے اسے بلایا تو اس نے کس طرح اپنا ہاتھ اپنے ابروؤں پر رکھا تھا اور پھر اسے بلانے کے لیے اپنا سر اوپر کی طرف کیا تھا تو آواز دی: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کر۔ ماں نے عین اسی وقت ان (جریج) کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا: میرے اللہ! (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے؟ تو اس نے اپنی نماز کو ترجیح دی۔ وہ واپس چلی گئیں، پھر دوسری بار آئیں اور بلایا: جریج! میں تیری ماں ہوں، میرے ساتھ بات کرو۔ اس نے کہا: اے اللہ! میری ماں اور میری نماز ہے، انہوں نے نماز کو ترجیح دی، تو ماں نے دعا کی: اے اللہ! یہ جریج ہے، یہ میرا بیٹا ہے، میں نے اس سے بات کی ہے، اس نے میرے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یا اللہ! تو اسے بدکار عورتوں کا منہ دکھانے سے پہلے موت نہ دینا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ اس کو یہ بددعا دیتیں کہ وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو وہ ہو جاتا۔ فرمایا: بھیڑوں کا ایک چرواہا (بھی) اس کی عبادت گاہ کی پناہ لیا کرتا تھا (اس کے سائے میں آ بیٹھتا تھا۔) فرمایا: بستی سے ایک عورت نکلی، چرواہے نے اس کے ساتھ بدکاری کی، وہ حاملہ ہو گئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس عورت سے پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ اس عبادت گاہ والے شخص سے (ہوا) ہے۔ کہا: تو وہ (بستی والے) لوگ اپنے پھاؤڑے اور کدال لے کر آ گئے، انہوں نے جریج کو بلایا، انہوں نے اسی وقت ان کو بلایا تھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے انہوں نے ان لوگوں سے یہ بات نہ کی۔ لوگوں نے ان کی عبادت گاہ گرانی شروع کر دی، جب انہوں نے یہ دیکھا تو اتر کر ان کی طرف آئے۔ لوگوں نے ان سے کہا: اس عورت سے پوچھو (کیا معاملہ ہے)، فرمایا: تو وہ مسکرائے، بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا، پھر پوچھا: تمہارا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔ جب انہوں نے اس (شیر خوار) سے یہ سنا تو کہنے لگے: ہم نے آپ کی عبادت گاہ کا جو حصہ گرایا ہے اسے سونے اور چاندی سے (دوبارہ) بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا؛ نہیں، لیکن اسی طرح مٹی سے بنا دو جس طرح پہلے تھی، پھر وہ اس کے اوپر (عبادت گاہ میں) چلے گئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،جریج اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتے تھے،چنانچہ اس کی ماں آئی،حمید کہتے ہیں،حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ماں کی جو کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی وہی کیفیت وصورت ابورافع نے ہمیں بتائی،اس کی ماں نے جب اسے بلایاتو کیسے اپنی ہتھیلی،اپنے ابرو پررکھی تھی،پھر اسے بلانے کے لیے،اس کی طرف اپناسر اٹھایا اورآوازدی،اے جریج!میں تیری ماں ہوں،مجھ سے گفتگو کروتو اس نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا،جریج نے دل میں کہا،اےاللہ!میری نماز اورمیری ماں(کس کو ترجیح دوں؟)پھر اس نے نماز کو ترجیح دی تو وہ واپس چلی گئی،پھر دوبارہ آئی اور آوازدی اےجریج!میں تیری ماں ہوں،مجھ سے ہم کلام ہو،اس نے دل میں کہا،اے اللہ!میری ماں اورمیری نماز تو اس نے نماز کاانتخاب کیا تو اس کی ماں نے کہا،اے اللہ!یہ جریج ہے اور یہ میرا بیٹا ہے اور میں نے اس سے ہم کلام ہونا چاہا ہے،سو اس نے مجھ سے گفتگو کرنے سے انکار کیاہے،اے اللہ!اس کو اس وقت تک نہ مارنا،جب تک تو اسے بدکار عورتوں کا نظارہ نہ کرادے،آپ نے فرمایا:"اگر وہ اس کے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کی دعاکرتی تووہ فتنہ میں مبتلاکردیاجاتا۔آپ نےفرمایا،ایک دنبوں کاچرواہاتھا،جو اس کے دیرکے پاس ٹھہرتا تھا،چنانچہ ایک عورت بستی سے نکلی اورچرواہے نے اس سے بدکاری کی،جس سے اسے حمل ٹھہر گیا اور اس نے ایک بچہ جنا،اس سے پوچھاگیا،یہ کس کی حرکت ہے؟اس نے کہا،اس دیر والے کی تو لوگ اپنے کلہاڑے اورکسیاں لے کر آگئے اور اسے آواز دی تو انہوں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا،اس لیے اس نے ان کو جواب نہ دیا تو لوگ اس کا دیر یعنی عبادت خانہ گرانے لگے تو جب اس نے یہ صورت حال دیکھی،ان کے پاس اترآیا،لوگوں نے اسے کہا،اس عورت سے پوچھو!تو وہ مسکرایا،پھر بچے کے سرپر ہاتھ پھیرا اورپوچھا تیرا باپ کون ہے؟اس نے کہا،میرا باپ،دنبوں کا چرواہا ہے تو جب لوگوں نے بچے سے یہ سنا،کہنے لگے،ہم نے تیراجو معبد گرایاہے،ہم اسے سونے اورچاندی سے بنا دیتے ہیں،اس نے کہا،نہیں،لیکن اسے پہلے ہی کی طرح مٹی کا بنادو،پھر وہ اس میں چڑھ گیا۔
حدیث نمبر: 6509
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا جرير بن حازم ، حدثنا محمد بن سيرين ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لم يتكلم في المهد إلا ثلاثة، عيسى ابن مريم، وصاحب جريج، وكان جريج رجلا عابدا فاتخذ صومعة، فكان فيها فاتته امه وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: يا رب امي وصلاتي، فاقبل على صلاته، فانصرفت، فلما كان من الغد اتته وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: يا رب امي وصلاتي، فاقبل على صلاته، فانصرفت، فلما كان من الغد اتته وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: اي رب امي وصلاتي، فاقبل على صلاته، فقالت: اللهم لا تمته حتى ينظر إلى وجوه المومسات، فتذاكر بنو إسرائيل جريجا وعبادته، وكانت امراة بغي يتمثل بحسنها، فقالت: إن شئتم لافتننه لكم، قال: فتعرضت له، فلم يلتفت إليها، فاتت راعيا كان ياوي إلى صومعته، فامكنته من نفسها فوقع عليها فحملت، فلما ولدت، قالت: هو من جريج، فاتوه فاستنزلوه وهدموا صومعته، وجعلوا يضربونه، فقال: ما شانكم؟ قالوا: زنيت بهذه البغي فولدت منك، فقال: اين الصبي فجاءوا به، فقال: دعوني حتى اصلي، فصلى فلما انصرف اتى الصبي فطعن في بطنه، وقال يا غلام: من ابوك، قال: فلان الراعي، قال: فاقبلوا على جريج يقبلونه ويتمسحون به، وقالوا: نبني لك صومعتك من ذهب، قال: لا، اعيدوها من طين كما كانت، ففعلوا، وبينا صبي يرضع من امه، فمر رجل راكب على دابة فارهة وشارة حسنة، فقالت امه: اللهم اجعل ابني مثل هذا، فترك الثدي واقبل إليه فنظر إليه، فقال: اللهم لا تجعلني مثله، ثم اقبل على ثديه فجعل يرتضع، قال: فكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحكي ارتضاعه بإصبعه السبابة في فمه، فجعل يمصها، قال: ومروا بجارية وهم يضربونها ويقولون زنيت سرقت وهي، تقول: حسبي الله ونعم الوكيل، فقالت امه: اللهم لا تجعل ابني مثلها، فترك الرضاع ونظر إليها، فقال: اللهم اجعلني مثلها، فهناك تراجعا الحديث، فقالت حلقى مر رجل حسن الهيئة، فقلت: اللهم اجعل ابني مثله، فقلت: اللهم لا تجعلني مثله، ومروا بهذه الامة وهم يضربونها، ويقولون: زنيت سرقت، فقلت: اللهم لا تجعل ابني مثلها، فقلت: اللهم اجعلني مثلها، قال: إن ذاك الرجل كان جبارا، فقلت: اللهم لا تجعلني مثله، وإن هذه يقولون لها زنيت، ولم تزن، وسرقت، ولم تسرق، فقلت: اللهم اجعلني مثلها ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي، فَقَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ، فَانْصَرَفَتْ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي، فَقَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ، فَانْصَرَفَتْ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي، فَقَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ، قَالَ: فَتَعَرَّضَتْ لَهُ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ، فَلَمَّا وَلَدَتْ، قَالَتْ: هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ قَالُوا: زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ، فَقَالَ: أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ، فَقَالَ: دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ، وَقَالَ يَا غُلَامُ: مَنْ أَبُوكَ، قَالَ: فُلَانٌ الرَّاعِي، قَالَ: فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ، وَقَالُوا: نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: لَا، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ، فَفَعَلُوا، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ، فَقَالَتْ أُمُّهُ: اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا، قَالَ: وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ، تَقُولُ: حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، فَقَالَتْ أُمُّهُ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ، فَقُلْتَ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا، وَيَقُولُونَ: زَنَيْتِ سَرَقْتِ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا، فَقُلْت: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا، قَالَ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ، وَلَمْ تَزْنِ، وَسَرَقْتِ، وَلَمْ تَسْرِقْ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ".
محمد بن سیرین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: "صرف تین بچوں کے سوا پنگھوڑے میں کسی نے بات نہیں کی: حضرت عیسیٰ بن مریم اور جریج (کی گواہی دینے) والے نے۔ جریج ایک عبادت گزار آدمی تھی۔ انہوں نے نوکیلی چھت والی ایک عبادت گاہ بنا لی۔ وہ اس کے اندر تھے کہ ان کی والدہ آئی اور وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے پکار کر کہا: جریج! انہوں نے کہا: میرے رب! (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے، پھر وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ ہو گئے اور وہ چلی گئی۔ جب دوسرا دن ہوا تو وہ آئی، وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے بلایا: او جریج! تو جریج نے کہا: میرے پروردگار! میری ماں ہے اور میری نماز ہے۔ انہوں نے نماز کی طرف توجہ کر لی۔ وہ چلی گئی، پھر جب اگلا دن ہوا تو وہ آئی اور آواز دی: جریج! انہوں نے کہا: میرے پروردگار! میری ماں ہے اور میری نماز ہے، پھر وہ اپنی نماز میں لگ گئے، تو اس نے کہا: اے اللہ! بدکار عورتوں کا منہ دیکھنے سے پہلے اسے موت نہ دینا۔ بنی اسرائیل آپس میں جریج اور ان کی عبادت گزاری کا چرچا کرنے لگے۔ وہاں ایک بدکار عورت تھی جس کے حسن کی مثال دی جاتی تھی، وہ کہنے لگی: اگر تم چاہو تو میں تمہاری خاطر اسے فتنے میں ڈال سکتی ہوں، کہا: تو اس عورت نے اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کیا، لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو (دھوپ اور بارش مین) ان کی عبادت گاہ کی پناہ لیا کرتا تھا۔ اس عورت نے چرواہے کو اپنا آپ پیش کیا تو اس نے عورت کے ساتھ بدکاری کی اور اسے حمل ہو گیا۔ جب اس نے بچے کو جنم دیا تو کہا: یہ جریج سے ہے۔ لوگ ان کے پاس آئے، انہیں (عبادت گاہ سے) نیچے آنے کا کہا، ان کی عبادت گاہ ڈھا دی اور انہیں مارکا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا: تم لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا: تم نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تمہارے بچے کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا: بچہ کہاں ہے؟ وہ اسے لے آئے۔ انہوں نے کہا: مجھے نماز پڑھ لینے دو، پھر انہوں نے نماز پڑھی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو بچے کے پاس آئے، اس کے پیٹ میں انگلی چبھوئی اور کہا: بچے! تمہارا باپ کون ہے۔ اس نے جواب دیا۔ فلاں چرواہا۔ آپ نے فرمایا: پھر وہ لوگ جریج کی طرف لپکے، انہیں چومتے تھے اور برکت حاصل کرنے کے لیے ان کو ہاتھ لگاتے تھے اور انہوں نے کہا: ہم آپ کی عبادت گاہ سونے (چاندی) کی بنا دیتے ہیں، انہوں نے کہا: نہیں، اسے مٹی سے دوبارہ اسی طرح بنا دو جیسی وہ تھی تو انہوں نے (ویسے ہی) کیا۔ اور ایک بچہ اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا۔ وہاں سے ایک آدمی عمدہ سواری پر سوار خوبصورت لباس پہنے ہوئے گزرا تو اس بچے کی ماں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو ایسا بنا دے۔ بچے نے پستان (دودھ) چھوڑا، اس آدمی کی طرف رخ کیا، اسے دیکھا اور کہا؛ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا، پھر اپنے پستان (دودھ) کا رخ کیا اور دودھ پینے میں لگ گیا۔" (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: جیسے میں (اب بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت کی انگلی اپنے منہ میں ڈال کر اس کو چوستے ہوئے اس بچے کا دودھ پینا بیان کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "پھر لوگ ایک لونڈی کو لے کر گزرے۔ وہ اسے مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے: تو نے زنا کیا، تو نے چوری کی اور وہ کہہ رہی تھی: مجھے اللہ کافی ہے، وہی بہترین کارساز ہے۔ اس بچے کی ماں کہنے لگی: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ بنانا۔ بچے نے دودھ چھوڑا، اس باندی کی طرف دیکھا اور کہا: اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنانا۔ یہاں آ کر ان دونوں (ماں بیٹے) نے ایک دوسرے سے سوال جواب کیا۔ وہ کہنے لگی: میرا سر منڈے! بہت اچھی ہئیت کا ایک آدمی گزرا، میں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس جیسا بنانا تو تم نے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر لوگ اس کنیز کو لے کر گزرے، اسے مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے: تو نے زنا کیا ہے، تو نے چوری کی ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ بنانا تو تم نے یہ کہہ دیا: اے اللہ! مجھے اس جیسا بنانا۔ اس (بچے) نے کہا: وہ شخص دوسروں پر ظلم ڈھانے والا جابر تھا، اس لیے میں نے کہا: اے اللہ! مجھے اس کی طرح نہ بنانا۔ اور یہ عورت جسے لوگ کہہ رہے تھے: تو نے زنا کیا، حالانکہ اس نے زنا نہیں کیا تھا اور تو نے چوری کی حالانکہ اس نے چوری نہیں کی تھی، اس لیے میں نے کہا: اے اللہ! مجھے اس کی طرح (پاکباز) بنانا۔" فائدہ: حقیقی اور دائمی عزت والا وہی ہے جو اپنے پروردگار کی نافرمانی سے بچا ہوا ہے، چاہے لوگ اسے حقیر اور گناہ گار سمجھتے ہوں اور حقیقت میں دائمی طور پر رذیل وہی ہے جو اللہ کا نافرمان ہے، چاہے عارضی زندگی میں لوگ اسے معزز سمجھتے ہوں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"پنگھوڑے میں صرف تین افراد نے گفتگو کی ہے، ایک عیسیٰ ؑ دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج! وہ بولا کہ اے اللہ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے (یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے)۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ (تیسرا) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ گویا میں (اس وقت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا (یہ کیا بات ہے)؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.