الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الزكاة
--. زکوۃ میں درمیانے درجے کا مال لیا جائے
حدیث نمبر: 1772
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن فقال: «إنك تاتي قوما من اهل الكتاب. فادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله. فإن هم اطاعوا لذلك. فاعلمهم ان الله قد فرض عليهم خمس صلوات في اليوم والليلة. فإن هم اطاعوا لذلك فاعلمهم ان الله قد فرض عليهم صدقة تؤخذ من اغنيائهم فترد في فقرائهم. فإن هم اطاعوا لذلك. فإياك وكرائم اموالهم واتق دعوة المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حجاب» عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ: «إِنَّك تَأتي قوما من أهل الْكتاب. فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ. فَإِنْ هُمْ أطاعوا لذَلِك. فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ. فَإِنْ هم أطاعوا لذَلِك فأعلمهم أَن الله قد فرض عَلَيْهِم صَدَقَة تُؤْخَذ من أغنيائهم فَترد فِي فُقَرَائِهِمْ. فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ. فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَين الله حجاب»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: تم اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو، انہیں اس گواہی دینے کی طرف دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اگر وہ اس میں تمہاری اطاعت کر لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے دن رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ اس میں بھی تمہاری اطاعت کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے، جو ان کے مال داروں سے لے کر ان کے ناداروں کو دیا جائے گا، اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو پھر ان کے اچھے اچھے مال لینے سے اجتناب کرنا، اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1496) و مسلم (19/29)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا کا بیان
حدیث نمبر: 1773
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فاحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت اعيدت له في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى ال ار» قيل: يا رسول الله فالإبل؟ قال: «ولا صاحب إبل لا يؤدي منها حقها ومن حقها حلبها يوم وردها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر اوفر ما كانت لا يفقد منها فصيلا واحدا تطؤه باخفافها وتعضه بافواهها كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار» قيل: يا رسول الله فالبقر والغنم؟ قال: «ولا صاحب بقر ولا غنم لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة بطح لها بقاع قرقر لا يفقد منها شيئا ليس فيها عقصاء ولا جلحاء ولا عضباء تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها كلما مر عليه اولاها رد عليه اخراها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار» . قيل: يا رسول الله فالخيل؟ قال: الخيل ثلاثة: هي لرجل وزر وهي لرجل ستر وهي لرجل اجر. فاما التي هي له وزر فرجل ربطها رياء وفخرا ونواء على اهل الإسلام فهي له وزر. واما التي له ستر فرجل ربطها في سبيل الله ثم لم ينس حق الله في ظهورها ولا رقابها فهي له ستر. واما التي هي له اجر فرجل ربطها في سبيل الله لاهل الإسلام في مرج او روضة فما اكلت من ذلك المرج او الروضة من شيء إلا كتب له عدد ما اكلت حسنات وكتب له عدد ارواثها وابوالها حسنات ولا تقطع طولها فاستنت شرفا او شرفين إلا كتب الله له عدد آثارها واوراثها حسنات ولا مر بها صاحبها على نهر فشربت منه ولا يريد ان يسقيها إلا كتب الله له عدد ما شربت حسنات قيل: يا رسول الله فالحمر؟ قال: ما انزل علي في الحمر شيء إلا هذه الآية الفاذة الجامعة (فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره) الزلزلة. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وجبينه وظهره كلما بردت أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيُرَى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى ال َّارِ» قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ؟ قَالَ: «وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا وَمِنْ حَقِّهَا حَلْبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَت لَا يفقد مِنْهَا فصيلا وَاحِدًا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أولاها رد عَلَيْهِ أخراها فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيُرَى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّار» قيل: يَا رَسُول الله فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟ قَالَ: «وَلَا صَاحِبُ بَقْرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ تَنْطِحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيُرَى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ» . قِيلَ: يَا رَسُول الله فالخيل؟ قَالَ: الْخَيل ثَلَاثَةٌ: هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ. فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ. وَأَمَّا الَّتِي لَهُ سِتْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ. وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ الله لأهل الْإِسْلَام فِي مرج أَو رَوْضَة فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وأوراثها حَسَنَاتٍ وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ؟ قَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةُ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ (فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ) الزلزلة. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو سونے چاندی کا مالک اس کا حق ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہو گا تو اس کے لیے آگ کی تختیاں بنائی جائیں گی اور انہیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، اور پھر ان کے ساتھ اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائے گا، جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو انہیں گرم کرنے کے لیے دوبارہ جہنم میں لوٹایا جائے گا۔ اور یہ عمل اس روز مسلسل جاری رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پس وہ اپنا راستہ، جنت یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! تو اونٹ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اونٹوں کا جو مالک ان کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، اور ان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ پانی پلانے کی باری والے دن ان کا دودھ (پانی کے گھاٹ پر موجود ضرورت مندوں کے لیے) دوہا جائے، (اور وہ یہ بھی نہ کرے) تو جب قیامت کا دن ہو گا تو اس شخص کو ایک چٹیل میدان میں ان اونٹوں کے سامنے چہرے یا پشت کے بل گرا دیا جائے گا، اور یہ اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے ہوں گے، وہ ان میں سے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا، وہ اپنے کھروں سے اسے روندیں گے اور اپنے مونہوں سے اسے کاٹیں گے، جب ان کا پہلا اونٹ گزر جائے گا تو اس پر ان کا آخری اونٹ پھر لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ اس دن، جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، جاری رہے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پس وہ اپنی راہ دیکھ لے گا، جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! تو گائے اور بکری؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گائے اور بکریوں کا جو مالک ان کا حق (یعنی زکوۃ) ادا نہیں کرتا، تو جب قیامت کا دن ہو گا تو اسے ایک چٹیل میدان میں چہرے کے بل گرا دیا جائے گا، وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی گم نہیں پائے گا، اور ان میں سے کوئی مڑے ہوئے سینگوں والی ہو گی نہ سینگ کے بغیر اور نہ ہی کسی کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں گے، یہ اپنے سینگوں سے اسے ماریں گی اور اپنے کھروں سے اسے روندیں گی۔ جب ان میں سے پہلی اس پر گزر جائے گی تو ان کی آخری پھر اس پر لوٹا دی جائے گی، اور یہ سلسلہ اس دن، جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، چلتا رہے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، وہ اپنا راستہ، جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا۔ آپ سے عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! تو گھوڑے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو آدمی کے لیے بوجھ ہیں، ایک وہ جو آدمی کے لیے پردہ ہیں اور ایک وہ جو آدمی کے لیے باعث اجر ہیں، رہا وہ جو اس کے لیے گناہ ہے، وہ آدمی جس نے ریا، فخر اور اہل اسلام کی دشمنی کی خاطر اسے باندھا تو اس قسم کا گھوڑا اس شخص کے لیے گناہ ہے، رہا وہ جو اس کے لیے پردہ ہے، یہ وہ جسے کوئی آدمی اللہ کی راہ میں (نیک نیتی کے ساتھ) باندھے، پھر وہ ان کی پشتوں اور ان کی گردنوں کے بارے میں اللہ کا حق نہ بھولےتو یہ اس کے لیے پردہ (سفید پوشی کا باعث) ہیں، اور رہا وہ گھوڑا، جو اس شخص کے لیے باعث اجر ہے، تو یہ وہ ہے جسے آدمی نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے اہل اسلام کی خاطر کسی چراہ گاہ یا کسی باغ میں باندھا، یہ گھوڑا اس چراہ گاہ یا اس باغ سے جو کچھ کھائے گا تو اس کی کھائی گئی چیز کی مقدار کے برابر اس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اگر وہ رسی تڑوا کر ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھتا اور کودتا ہے اور وہ اس دوران جتنے قدم چلتا ہے اور جس قدر لید کرتا ہے تو ان کی تعداد کے مطابق اس شخص کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اگر اس کا مالک اسے کسی نہر سے لے کر گزرے اور وہ اس سے پانی پی لے، حالانکہ وہ اسے پانی پلانا نہیں چاہتا تھا، تو وہ جس قدر پانی پیئے گا تو اللہ اسی قدر اس کے لیے نیکیاں لکھ لے گا۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! تو گدھے َ؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گدھوں کے بارے میں اس نادر اور جامع آیت کے علاوہ مجھ پر اور کچھ نازل نہیں کیا گیا: جو کوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لے گا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (987/24)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. زکوۃ ادا نہ کرنے والے کا مال گنجا سانپ بن جائےگا
حدیث نمبر: 1774
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله شجاعا اقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ياخذ بلهزمتيه-يعني بشدقيه-يقول: انا مالك انا كنزك. ثم تلا هذه الآية: (ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله) إلى آخر الآية. رواه البخاري عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَأْخُذ بِلِهْزِمَتَيْهِ-يَعْنِي بشدقيه-يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ. ثُمَّ تَلَا هَذِه الْآيَة: (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ من فَضله) إِلَى آخر الْآيَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ جس شخص کو مال عطا فرمائے اور پھر وہ شخص اس کی زکوۃ ادا نہ کرے تو روز قیامت اس کے مال کو گنجے اژدھا کی صورت میں بنا دیا جائے گا، اس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے، اس کو اس کے گلے کا ہار بنا دیا جائے گا، پھر وہ اسے جبڑوں سے پکڑ کر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: جو لوگ بخل کرتے ہیں وہ یہ خیال نہ کریں،،،،، رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (1403)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. قیامت کے دن زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا
حدیث نمبر: 1775
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي ذر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما من رجل يكون له إبل او بقر او غنم لا يؤدي حقها إلا اتى بها يوم القيامة اعظم ما يكون واسمنه تطؤه باخفافها وتنطحه بقرونها كلما جازت اخراها ردت عليه اولاها حتى يقضى بين الناس» عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ لَهُ إِبِلٌ أَوْ بَقَرٌ أَوْ غَنَمٌ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلَّا أَتَى بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أعظم مَا يكون وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطِحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا جَازَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاس»
ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور وہ ان کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو انہیں روز قیامت لایا جائے گا تو وہ جس قدر (دنیا میں) تھیں اس سے کہیں بڑھی اور زیادہ موٹی ہوں گی، وہ اپنے کھروں سے اسے روندیں گی اور اپنے سینگوں کے ساتھ اسے ماریں گی، جب ان میں سے آخری گزر جائے گی تو پھر پہلی کو دوبارہ لایا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1460) و مسلم (990/30)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. زکوۃ عمدہ طریقے سےادا کی جائے
حدیث نمبر: 1776
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن جرير بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا اتاكم المصدق فليصدر عنكم وهو عنكم راض» . رواه مسلم وَعَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِذا أَتَاكُمُ الْمُصَدِّقُ فَلْيَصْدُرْ عَنْكُمْ وَهُوَ عَنْكُمْ رَاضٍ» . رَوَاهُ مُسلم
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی صدقہ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو جب وہ تم سے واپس جائے تو اسے تم سے راضی ہونا چاہیے۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (989/29)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. زکوۃ اداکرنے والےکے لیے دعائے نبوی
حدیث نمبر: 1777
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عبد الله بن ابي اوفى رضي الله عنهما قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه قوم بصدقتهم قال: «اللهم صلى على آل فلان» . فاتاه ابي بصدقته فقال: «اللهم صلى الله على آل ابي اوفى» وفي رواية: إذا اتى الرجل النبي بصدقته قال: «اللهم صلي عليه» وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ قَالَ: «اللَّهُمَّ صلى على آل فلَان» . فَأَتَاهُ أبي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ صلى الله على آل أبي أوفى» وَفِي رِوَايَة: إِذا أَتَى الرجل النَّبِي بِصَدَقَتِهِ قَالَ: «اللَّهُمَّ صلي عَلَيْهِ»
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب کوئی قوم نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس صدقہ لے کر آتی تو آپ دعا فرماتے: اے اللہ! فلاں کی آل پر رحمت فرما۔ جب میرے والد صدقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت فرما۔ بخاری، مسلم۔ ایک روایت میں ہے: جب کوئی آدمی اپنا صدقہ لے کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اے اللہ! اس پر رحمت فرما۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1497) و مسلم (1078/176)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. زکوٰۃ جمع کرنے والے کے لئے نصیحت
حدیث نمبر: 1778
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي هريرة. قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عمر على الصدقة. فقيل: منع ابن جميل وخالد بن الوليد والعباس. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما ينقم ابن جميل إلا انه كان فقيرا فاغناه الله ورسوله. واما خالد فإنكم تظلمون خالدا. قد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله. واما العباس فهي علي. ومثلها معها» . ثم قال: «يا عمر اما شعرت ان عم الرجل صنوا ابيه؟» عَن أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ عَلَى الصَّدَقَةِ. فَقِيلَ: مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَالْعَبَّاسُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ. وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا. قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. وَأَمَّا الْعَبَّاسُ فَهِيَ عَلَيَّ. وَمِثْلُهَا مَعَهَا» . ثُمَّ قَالَ: «يَا عُمَرُ أَمَا شَعَرْتَ أَن عَم الرجل صنوا أَبِيه؟»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمر کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو آپ کو بتایا گیا کہ ابن جمیل رضی اللہ عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ نے زکوۃ روک لی ہے، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن جمیل تو اس وجہ سے انکار کرتا ہے کہ وہ تنگ دست تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے اسے مال دار کر دیا، رہا خالد، تو تم خالد پر ظلم کرتے ہو، اس نے تو اپنی زرہیں اور آلات جنگ اللہ کی راہ میں وقف کر رکھے ہیں، اور رہے عباس تو ان کی زکوۃ اور اس کے برابر وہ میرے ذمہ ہے۔ پھر فرمایا: عمر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (1468) و مسلم (983/11)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. سرکاری اہل کاروں کو دروان ڈیوٹی ملنے والے تحائف کی ملکیت
حدیث نمبر: 1779
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي حميد الساعدي: استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الازد يقال له ابن اللتبية الاتبية على الصدقة فلما قدم قال: هذا لكم وهذا اهدي لي فخطب النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله واثنى عليه وقال: اما بعد فإني استعمل رجالا منكم على امور مما ولاني الله فياتي احدكم فيقول: هذا لكم وهذا هدية اهديت لي فهلا جلس في بيت ابيه او بيت امه فينظر ايهدى له ام لا؟ والذي نفسي بيده لا ياخذ احد منه شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته إن كان بعيرا له رغاء او بقرا له خوار او شاة تيعر ثم رفع يديه حتى راينا عفرتي إبطيه ثم قال: «اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت» .. قال الخطابي: وفي قوله: «هلا جلس في بيت امه او ابيه فينظر ايهدى إليه ام لا؟» دليل على ان كل امر يتذرع به إلى محظور فهو محظور وكل دخل في العقود ينظر هل يكون حكمه عند الانفراد كحكمه عند الاقتران ام لا؟ هكذا في شرح السنة عَن أبي حميد السَّاعِدِيّ: اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الأزد يُقَال لَهُ ابْن اللتبية الأتبية عَلَى الصَّدَقَةِ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأثْنى عَلَيْهِ وَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ رِجَالًا مِنْكُمْ عَلَى أُمُور مِمَّا ولاني الله فَيَأْتِي أحدكُم فَيَقُول: هَذَا لكم وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقْرًا لَهُ خُوَارٌ أَوْ شَاة تَيْعر ثمَّ رفع يَدَيْهِ حَتَّى رَأينَا عفرتي إِبِطَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَل بلغت» .. قَالَ الْخَطَّابِيُّ: وَفِي قَوْلِهِ: «هَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أُمِّهِ أَوْ أَبِيهِ فَيَنْظُرُ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟» دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ كُلَّ أَمْرٍ يُتَذَرَّعُ بِهِ إِلَى مَحْظُورٍ فَهُوَ مَحْظُورٌ وَكُلُّ دخل فِي الْعُقُودِ يُنْظَرُ هَلْ يَكُونُ حُكْمُهُ عِنْدَ الِانْفِرَادِ كَحُكْمِهِ عِنْدَ الِاقْتِرَانِ أَمْ لَا؟ هَكَذَا فِي شرح السّنة
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ازد قبیلے کے ابن لتبیہ نامی شخص کو صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا، جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا: یہ (مال) تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ (تحفہ دیا گیا ہے) (یہ سن کر) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کچھ آدمیوں کو ان امور پر، جو اللہ نے میرے سپرد کیے ہیں، مامور کرتا ہوں تو ان میں سے کوئی آ کر کہتا ہے: یہ (مال) تمہارے لیے ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے، وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا اور وہ دیکھتا کہ آیا اسے ہدیہ (تحفہ) ملتا ہے یا نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے جو شخص اس (مال صدقات) میں سے جو کچھ لے گا وہ روز قیامت اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا، اگر وہ اونٹ ہوا تو وہ آواز کر رہا ہو گا، اگر گائے ہوئی تو وہ آواز کر رہی ہو گی، اور اگر وہ بکری ہوئی تو وہ ممیا رہی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتی کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟ اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا؟ متفق علیہ۔ امام خطابی نے فرمایا: اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روایت کے الفاظ: وہ اپنی ماں یا اپنے باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا، پس وہ یہ دیکھتا کہ آیا اسے ہدیہ (تحفہ) ملتا ہے یا نہیں؟ میں دلیل ہے کہ ہر وہ کام جو کسی ممنوع کام کا وسیلہ بنے تو وہ بھی ممنوع ہے، اور عقود میں داخل ہونے والی ہر چیز دیکھی جائے گی کہ آیا جب وہ چیز اکیلی ہو تو اس کا حکم اسی طرح ہو گا جس طرح ملانے سے ہو گا یا نہیں، شرح السنہ میں اسی طرح ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (2597) و مسلم (1832/26) و البغوي في شرح السنة (498/5 تحت ح 1568)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. زکوٰۃ جمع کرنے والا ایماندار ہونا چاہئے
حدیث نمبر: 1780
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عدي بن عميرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من استعملناه منكم على عمر فكتمنا مخيطا فما فوقه كان غلولا ياتي به يوم القيامة» . رواه مسلم وَعَنْ عَدِيِّ بْنِ عُمَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُم على عمر فَكَتَمَنَا مِخْيَطًا فَمَا فَوْقَهُ كَانَ غُلُولًا يَأْتِي بِهِ يَوْم الْقِيَامَة» . رَوَاهُ مُسلم
عدی بن عمیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم تم میں سے جس شخص کو کسی کام پر مامور کریں اور اگر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز چھپا لے تو یہ خیانت ہو گی، جسے وہ روز قیامت لے کر حاضر ہو گا۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (1833/30)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. زکوٰۃ دینے سے مال پاک ہو جاتا ہے
حدیث نمبر: 1781
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: لما نزلت (والذين يكنزون الذهب والفضة) كبر ذلك على المسلمين. فقال عمر انا افرج عنكم فانطلق. فقال: يا نبي الله قد كبر على اصحابك هذه الآية. فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله لم يفرض الزكاة إلا ليطيب بها ما بقي من اموالكم وإنما فرض المواريث وذكر كلمة لتكون لمن بعدكم» قال فكبر عمر. ثم قال له: «الا اخبرك بخير ما يكنز المرء المراة الصالحة إذا نظر إليها سرته وإذا امرها اطاعته وإذا غاب عنها حفظته» . رواه ابو داود عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ) كَبُرَ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ. فَقَالَ عُمَرُ أَنَا أُفَرِّجُ عَنْكُمْ فَانْطَلَقَ. فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ قد كبر على أَصْحَابك هَذِه الْآيَة. فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لم يفْرض الزَّكَاة إِلَّا ليطيب بهَا مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِيثَ وَذكر كلمة لتَكون لمن بعدكم» قَالَ فَكَبَّرَ عُمَرُ. ثُمَّ قَالَ لَهُ: «أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ مَا يَكْنِزُ الْمَرْءُ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حفظته» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت: جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں،،،،،، نازل ہوئی تو یہ مسلمانوں پر بہت گراں گزری، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہاری اس مشکل کو حل کرتا ہوں، وہ گئے اور عرض کیا، اللہ کے نبی! یہ آیت آپ کے صحابہ پر بہت گراں گزری ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے زکوۃ اس لیے فرض کی ہے تاکہ وہ تمہارے باقی اموال کو پاک کر دے، اور اس نے وراثت کو اس لیے فرض کیا۔ راوی کہتے ہیں: آپ نے ایک کلمہ ذکر کیا: تاکہ وہ تمہارے بعد والوں کے لیے ہو جائے۔ راوی بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے (خوشی کے ساتھ) نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں فرمایا: کیا میں تمہیں آدمی کے بہترین خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ وہ صالحہ بیوی ہے، جب وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، جب وہ اسے حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جب وہ اس کے پاس نہ ہو تو وہ اس (کے تمام حقوق) کی حفاظت کرے۔ ضعیف۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1664)
٭ غيلان بن جامع: رواه عن عثمان بن عمير أبي اليقظان عن جعفر بن إياس عن مجاھد عن ابن عباس به (البيھقي 83/4) وأبو اليقظان ضعيف مدلس فالعلة مدمرة.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.