سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر حضرت آدمؑ کی پشت (یعنی ان کی اولاد)سے مضبوط عہد لیا، اس کا طریق کار یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیٹھ سے وہ ساری اولاد نکالی، جو اس نے پیدا کرنی تھی اور ان کو آپؑ کے سامنے چیونٹیوں کی طرح بکھیر دیا اور پھر ان سے آمنے سامنے کلام کرتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے پہل یہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات رجال الشيخين غير كلثوم بن جبر، فمن رجال مسلم، ورجح الحافظ ابن كثير في التفسير وقفه علي ابن عباس۔ أخرجه النسائي في الكبري: 11191، والحاكم: 2/ 544، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 2455 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 2455»
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّاتِهِمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ» کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان کو روحوں کی شکل میں جمع کیا، پھر ان کی تصویریں بنا کر ان کو بلوایا، پس یہ بولے، پھر ان سے ایک مضبوط عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اور کہا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، میں سات آسمانوں اور سات زمینوں کو تم پر گواہ بناتا ہوں اور میں تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو بھی تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیامت والے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں تو اس چیز کا علم ہی نہیں تھا۔ جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی رب، پس تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، عنقریب میں تمہاری طرف اپنے پیغمبروں کو بھیجوں گا، وہ تمہیں میرے وعدے اور میثاق کو یاد کرائیں گے اور میں تم پر کتابیں بھی نازل کروں گا۔ ان سب نے جواباً کہا: ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی رب نہیں ہے، پس انہوں نے اس چیز کا اقرار کیا۔
تخریج الحدیث: «اثر ضعيف، محمد بن يعقوب الربالي مستور۔أخرجه الحاكم: 2/ 323، والبھيقي في الاسماء والصفات: ص 368، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21232 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 21552»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن جہنمی آدمی سے کہا جائے گا: اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ زمین پر جو چیزیں بھی ہیں، کیا تو (اس عذاب سے بچنے کے لیے) وہ فدیے میں دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تو تجھ سے اس سے آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تجھ سے یہ عہد لیا تھا، جبکہ تو آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں تھا، کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، لیکن تو نے انکار کر دیا تھا اور (اسی چیز پر ڈٹ گیا کہ) تو نے میرے ساتھ شرک ہی کرنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 3334، ومسلم: 2805، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 12289 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 12314»
وضاحت: فوائد: … درج بالا اور اس موضوع کی دیگر احادیث میں «عَهْدِ اَلَسْت» کا ذکر ہے، یہ ترکیب آیت کے ان الفاظ «اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ» سے بنی ہوئی ہے، یہ عہد حضرت آدم ؑکی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا، پوری آیات یوں ہیں: «وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ آدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰي اَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰي شَهِدْنَآ أَنْ تَقُولُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غَافِلِيْنَ. أَوْ تَقُوْلُوْآ اِنَّمَا أَشْرَكَ آبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ» … اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے پہل یہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔ (سورۂ اعراف: ۱۷۲، ۱۷۳) یہ عہد ہم اس لیے تسلیم کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اس کی اطلاع دے دی ہے، بہرحال اس کا اثر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت رکھ دی گئی ہے اور اگر یہ فطرت مختلف آلائشوں کی وجہ سے اپنی حیثیت کھو نہ بیٹھی ہو تو ایسا انسان فوراً حق کی آواز کو قبول کرتا ہے، لیکن اگر شرک و بدعت یا گندے معاشرے کی وجہ سے وہ فطرت متأثر ہو چکی ہو تو اس کو حق تسلیم کرنے میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور اس کے لیے یہ مرحلہ مشکل ہو جاتا ہے، جلد اور بدیر اسلام قبول کرنے والے صحابۂ کرام کی وجہ یہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، اس کا ناک، کان کٹا نہیں ہوتا۔
عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کو بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز اپنے یعفور نامی گدھے پر سوار ہوئے، اس کی رسی کھجور کے پتوں کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! تم بھی سوار ہو جاؤ۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ چلیں (میں پیدل ہی ٹھیک ہوں)، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”تم سوار ہو جاؤ۔“ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار ہو گیا، ہوا یوں کہ گدھا گر پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر مسکرانے لگے اور میں دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا، پھر دوسری اور تیسری بار بھی ایسے ہی ہوا، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک پیچھے کیا اور کوڑے یا چھڑی کے ساتھ میری کمر پر مارا اور فرمایا: ”معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس بیشک اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔“ پھر جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کو چلے، اور پھر اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور میری کمر پر مارا اور فرمایا: ”اے معاذ! اے معاذ کی ماں کے بیٹے! کیا تم یہ جانتے ہو کہ اگر بندے ایسے ہی کریں تو اللہ تعالیٰ پر ان کا کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس بیشک جب بندے ایسے ہی کریں تو ان کا اللہ تعالیٰ پر حق یہ ہے کہ وہ ان کو جنت میں داخل کر دے۔“
تخریج الحدیث: «حديث صحيح دون القصة في اوله، وھذا اسناد ضعيف لضعف شھر بن حوشب۔ وأخرج آخره البخاري: 2856، ومسلم: 30 وھو الحديث الآتي، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 22073 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22423»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب سی حدیث بیان کرو، انہوں نے کہا: جی ہاں، وہ بات یہ ہے کہ میں گدھے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث ذکر کی، البتہ اس میں جنت میں داخل کرنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کو عذاب نہیں دے گا اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: آخر میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کر کے خوشخبری نہ سنا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري ومسلم، وانظر الحديث المتقدم، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21993 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22343، 22378»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب سی حدیث بیان کرو، انہوں نے کہا: جی ہاں، وہ بات یہ ہے کہ میں گدھے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث ذکر کی، البتہ اس میں جنت میں داخل کرنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کو عذاب نہیں دے گا اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: آخر میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کر کے خوشخبری نہ سنا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري ومسلم، وانظر الحديث المتقدم، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 21993 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 22343، 22378»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کا اللہ تعالیٰ پر اور اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر کیا حق ہے؟“ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ پر ان کا حق یہ ہو گا کہ وہ ان کو عذاب نہ دے۔“
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح۔ أخرجه الحاكم: 1/ 517، والبزار: 3089، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 8085 ترقیم بيت الأفكار الدولية:0»
وضاحت: فوائد: … اِن احادیث ِ مبارکہ سے توحید کو اختیار کرنے اور شرک سے بچنے کی فضیلت اور شرک کو اختیار کرنے اور توحید سے اعراض کرنے کی مذمت کا اندازہ ہو جانا چاہیے، اس موضوع سے متعلقہ تمام آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک جیسے گناہ کی بخشش ناممکن ہے، مشرک کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، رہا مسئلہ توحید پرست کا تو اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں کو معاف نہ کیا تو ان کے مطابق اس کو سزا دی جائے گی اور پھراس کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ بہرحال جن احادیث میں توحید کی فضیلت بیان کی گئی ہے، مؤحِّد کو اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان کا مصداق سمجھنا چاہیے، لیکن اس حسن ظن کا یہ مفہوم نہیں کہ بندہ نیکیاں کرنا چھوڑ دے یا برائیوں سے باز رہنے کو ترک کر دے، دیکھیں حدیث نمبر (۵،۶)کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرے سے فضیلت والی ایسی احادیث بیان کرنے سے منع کر دیا، جن کی وجہ سے عام لوگوں میں عمل ترک کرنے کا رجحان پیدا ہو سکتا ہے۔
سیدنا طفیل بن سخبرہ رضی اللہ عنہ، جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اخیافی بھائی ہے، سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے یہ خواب دیکھا کہ میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا اور ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: اگر تم عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ کہتے تو تم بہترین قوم تھے، انہوں نے کہا: تم مسلمان بھی بہترین قوم ہوتے، اگر صرف یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے جو) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہتا ہے۔ پھر میں عیسائیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عیسائی ہیں، میں نے کہا: اگر تم حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ کہتے تو تم بہترین لوگ ہوتے، لیکن انہوں نے آگے سے کہا: اگر تم بھی یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے جو) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہتا ہے تو تم بھی بہترین قوم ہوتے۔ جب صبح ہوئی تو بعض لوگوں کو یہ خواب بیان کرنے کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو ساری بات بتلا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تم نے کسی کو یہ خواب بتلایا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، پھر جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتلا بھی دیا ہے، بات یہ ہے کہ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، (میں اسے ناپسند تو کرتا تھا) لیکن تم کو منع کرنے سے شرم و حیا مانع تھی، (اب بات کھل گئی ہے لہٰذا) تم یہ نہ کہا کرو کہ (وہی کچھ ہوتا ہے جو) اللہ چاہتا ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه الحاكم: 3/ 463، والبيھقي في دلائل النبوة: 7/ 22، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة:20694 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 20970»
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں بعض اہل کتاب کو ملا ہوں اور انہوں نے مجھے کہا: تم (مسلمان) بڑے اچھے لوگ ہو، کاش تم یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے جو) اللہ چاہتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہتا ہے، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی تمہاری اس بات کو ناپسند کرتا تھا، آئندہ اس طرح کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور پھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه ابن ماجه: 2118، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 23339 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 23728»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو کچھ اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کر دیا ہے، صرف (وہ ہوتا ہے) جو یکتا و یگانہ اللہ چاہتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره۔ أخرجه ابن ماجه: 2117، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 1839 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 1839»
وضاحت: فوائد: … بعد میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی احادیث میں اس بات کی مزید وضاحت کر دی تھی کہ کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہے، تمام مخلوقات کی مشیت اور اختیار اسی ایک کی مشیت کے تابع ہے اور اس سے منع کر دیا تھا کہ کوئی کسی کی مشیت کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے برابر سمجھے، قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ کائنات وسیع و عریض انتظام و انصرام پر مشتمل ہے، اس کی وسعت انسانی عقلوں سے ما ورا ہے۔ اس کائنات کے پورے نظم و نسق میں اللہ تعالیٰ کی منشا و مرضی کارفرما ہے۔ خوشحالی کا معاملہ ہو یا بدحالی کا، عنایت ِ رزق کا معاملہ ہو یا تنگی ٔ رزق کا، فتح کا معاملہ ہو یا شکست کا، کامیابی کا معاملہ ہو یا ناکامی کا، حیات کا معاملہ ہو یا موت کا، بچپنے میں فوت ہو جانے کا معاملہ ہو یا ادھیڑ عمر تک زندہ رہنے کا، خوبصورتی کا معاملہ ہو یا بدصورتی کا، طلوعِ آفتاب کا معاملہ ہو یا کسوفِ شمس کا، جنت کا معاملہ ہو یا جہنم کا، غرضیکہ کائنات کے تمام معاملات کو سر انجام دینے میں اسی ایک اللہ کا حکم چلتا ہے، اسی کی سنی جاتی ہے۔ اگر سید الاولین والا ٓخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشا اللہ تعالیٰ کی چاہت کے تابع ہے تو اور کون ہے کسی مائی کا لال، جو اُس کی چاہت کے سامنے اپنی مرضی کا لوہا منوا سکے۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ جب اپنے محسنوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ اور اُن کا لفظ اور کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، مثلا: ہم پر اللہ تعالیٰ اور آپ کا بڑا احسان ہے، اگر اللہ تعالیٰ اور آپ نہ ہوتے تو معلوم نہیں کہ ہم کون سے حالات سے گزر رہے ہوتے، جیسے اللہ تعالیٰ اور آپ کی مرضی ہو گی۔ ہمیں اپنے جملوں کی تصحیح کرنی چاہیے اور کسی کے احسانات کا تذکرہ کرتے وقت محسِنِ عظیم اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔