الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
Chapters on Hunting
1. بَابُ: قَتْلِ الْكِلاَبِ إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ
1. باب: شکاری یا کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ دوسرے کتوں کو قتل کرنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 3200
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شبابة ، حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، قال: سمعت مطرفا يحدث، عن عبد الله بن مغفل " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، امر بقتل الكلاب، ثم قال: ما لهم وللكلاب، ثم رخص لهم في كلب الصيد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَهُمْ وَلِلْكِلَابِ، ثُمَّ رَخَّصَ لَهُمْ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، پھر آپ نے فرمایا: انہیں کتوں سے کیا مطلب؟ پھر آپ نے انہیں شکاری کتے رکھنے کی اجازت دے دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 27 (280)، سنن ابی داود/الطہارة 37 (74)، سنن النسائی/الطہارة 53 (67)، المیاہ 7 (337، 338)، (تحفة الأشراف: 9665)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/86، 5/56)، سنن الدارمی/الصید 2 (2049) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کتوں سے کیا مطلب یعنی کتا پالنا بے فائدہ ہے بلکہ وہ نجس جانور ہے، اندیشہ ہے کہ برتن یا کپڑے کو گندہ کر دے،لیکن کتوں کا قتل صحیح مسلم کی حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل سے منع کیا، اس کے بعد اور فرمایا: کالے کتے کو مار ڈالو وہ شیطان ہے (انجاح)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3201
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا عثمان بن عمر ، ح وحدثنا محمد بن الوليد ، حدثنا محمد بن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي التياح ، قال: سمعت مطرفا ، عن عبد الله بن مغفل " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر بقتل الكلاب، ثم قال: ما لهم وللكلاب، ثم رخص لهم في كلب الزرع، وكلب العين" قال بندار: العين: حيطان المدينة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَهُمْ وَلِلْكِلَابِ، ثُمَّ رَخَّصَ لَهُمْ فِي كَلْبِ الزَّرْعِ، وَكَلْبِ الْعِينِ" قَالَ بُنْدَارٌ: الْعِينُ: حِيطَانُ الْمَدِينَةِ.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، پھر فرمایا: لوگوں کو کتوں سے کیا مطلب ہے؟ پھر آپ نے کھیت اور باغ کی رکھوالی کرنے والے کتوں کی اجازت دے دی۔ بندار کہتے ہیں: «عین» سے مراد مدینہ کے باغات ہیں۔

تخریج الحدیث: انظر ما قبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے: «ثم رخص في كلب الصيد والغنم» اس لئے ابن ماجہ کا لفظ تصحیف ہے، صواب «الغنم» ہے۔ (ملاحظہ ہو: حیاۃ الحیوان للدمیری)۔ جو کتے کھیت اور باغ کی حفاظت کے لئے پالے جاتے ہیں ان کا پالنا جائز ہے، دوسری روایت میں ریوڑ یعنی جانوروں کی حفاظت کے لئے بھی پالنا آیا ہے، شریعت سے صرف تین ہی کتوں کا جواز ثابت ہے، ایک شکاری کتا، دوسرے باغ یا کھیت کی حفاظت کا، تیسرے ریوڑ کا، اور اس پر قیاس کر کے دوسری ضرورتوں کے لیے کتوں کو بھی پالا جا سکتا ہے، جیسے جنگل میں چور سے حفاظت کے لئے، اور آج کل جاسوسی کے لیے، امید ہے کہ یہ بھی جائز ہو، لیکن بلاضرورت کتا پالنا ہماری شریعت میں جائز نہیں، بلکہ اس سے اجر اور ثواب میں نقصان پڑتا ہے، جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے،اور ایک حدیث میں ہے کہ فرشتے اس مکان میں نہیں جاتے جہاں مورت ہو،یا کتا یعنی رحمت کے فرشتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3202
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، انبانا مالك بن انس ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، بقتل الكلاب".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِقَتْلِ الْكِلَابِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کر دینے کا حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 17 (3323)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (1570)، سنن النسائی/الصید والذبائح 9 (4282)، (تحفة الأشراف: 8349)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید 17 (1487)، موطا امام مالک/لإستئذان 5 (14)، مسند احمد (2/22، 23، 113، 132، 146)، سنن الدارمی/الصید 3 (2050) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3203
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو طاهر ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم رافعا صوته:" يامر بقتل الكلاب، وكانت الكلاب تقتل، إلا كلب صيد او ماشية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو طَاهِرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَافِعًا صَوْتَهُ:" يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، وَكَانَتِ الْكِلَابُ تُقْتَلُ، إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے کتوں کے قتل کا حکم فرماتے ہوئے سنا: اور کتے قتل کئیے جاتے تھے بجز شکاری اور ریوڑ کے کتوں کے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصید 9 (4283)، (تحفة الأشراف: 7002) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ
2. باب: کھیت یا ریوڑ کی رکھوالی کرنے والے اور شکاری کتوں کے علاوہ دوسرے کتے پالنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3204
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اقتنى كلبا فإنه ينقص من عمله كل يوم قيراط، إلا كلب حرث او ماشية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ، إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کتا پالے گا اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا، سوائے کھیت یا ریوڑ کے کتے کے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 10 (1575)، (تحفة الأشراف: 15390)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث 3 (2323)، بدء الخلق 17 (3324)، سنن ابی داود/الصید 1 (2844)، سنن الترمذی/الصید 17 (1490)، سنن النسائی/الصید 14 (4294)، مسند احمد (2/267، 345) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: دوسری روایت میں روزانہ دو قیراط کی کمی کا ذکر ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے شاید کتوں کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے، اور دوسری وہ ہے جس میں دو قیراط کی کمی ہوتی ہے، بعض لوگوں نے اختلاف مقامات کا اعتبار کیا ہے، اور کہا کہ اگر بے ضرورت مکہ یا مدینہ میں کتا پالے تو دو قیراط کی کمی ہو گی اور اس کے علاوہ دیگر شہروں میں ایک قیراط کی کمی ہو گی کیونکہ مکہ اور مدینہ کا افضل اور اعلی مقام ہے، وہاں کتا پالنا زیادہ غیرمناسب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3205
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا احمد بن عبد الله ، عن ابي شهاب ، حدثني يونس بن عبيد ، عن الحسن ، عن عبد الله بن مغفل ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا ان الكلاب امة من الامم، لامرت بقتلها، فاقتلوا منها الاسود البهيم، وما من قوم اتخذوا كلبا إلا كلب ماشية او كلب صيد او كلب حرث، إلا نقص من اجورهم كل يوم قيراطان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ، لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ اتَّخَذُوا كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ، إِلَّا نَقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے، تو میں یقیناً ان کے قتل کا حکم دیتا، پھر بھی خالص کالے کتے کو قتل کر ڈالو، اور جن لوگوں نے جانوروں کی حفاظت یا شکاری یا کھیتی کے علاوہ دوسرے کتے پال رکھے ہیں، ان کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہو جاتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصید ا (2845مختصراً)، سنن الترمذی/الأحکام 3 (1486مختصراً) سنن النسائی/الصید 10 (4385)، (تحفة الأشراف: 9649)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/85، 86، 5/54، 56، 57، سنن الدارمی/الصید 2 (2049) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: امام نووی فرماتے ہیں کہ کاٹنے والے کتوں کو قتل کر دینے پر اجماع ہے، امام الحرمین کہتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کتوں کے مارنے کا حکم دیا، پھر یہ منسوخ ہو گیا، اور کالا سیاہ اسی حکم پر باقی رہا، بعد اس کے یہ ٹھہرا کہ جب تک وہ نقصان نہ پہنچائے کسی قسم کا کتا نہ مارا جائے یہاں تک کالا بھجنگ بھی، اور ثواب کم ہونے کا سبب یہ ہو گا کہ فرشتے اس کے گھر میں نہیں جا سکتے جس کے پاس کتا ہوتا ہے، اور بعضوں نے کہا کہ اس وجہ سے کہ لوگوں کو اس کے بھونکنے اور حملہ کرنے سے ایذا ہوتی ہے اور یہ جو فرمایا: اگر مخلوق نہ ہوتی مخلوقات میں سے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کتا بھی کائنات کی مخلوقات میں سے ایک ایسی مخلوق ہے جس ختم کرنا ممکن نہیں، اس لئے قتل کا حکم دینا بے کار ہے، کتنے ہی قتل کرو لیکن جب تک دنیا باقی ہے، دنیا میں کتے ضرور باقی رہیں گے، آپ دیکھئے کہ سانپ، بچھو، شیر اور بھیڑئیے، لوگ سیکڑوں اور ہزاروں سال سے جہاں پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں، مگر کیا یہ حیوانات دنیا سے مٹ گئے؟ ہرگز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3206
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا خالد بن مخلد ، حدثنا مالك بن انس ، عن يزيد بن خصيفة ، عن السائب بن يزيد ، عن سفيان بن ابي زهير ، قال: سمعت لنبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا، نقص من عمله كل يوم قيراط"، فقيل له: انت سمعت من النبي صلى الله عليه وسلم، قال: إي ورب هذا المسجد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ لنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا، نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ"، فَقِيلَ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِيْ وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص کتا پالے اور وہ اس کے کھیت یا ریوڑ کے کام نہ آتا ہو تو اس کے عمل (ثواب) سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے، لوگوں نے سفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے خود اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اس مسجد کے رب کی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 3 (2323)، بدء الخلق 17 (3325)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (1576)، سنن النسائی/الصید 12 (4290)، (تحفة الأشراف: 4476)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الإستئذان 5 (12)، مسند احمد (5/219، 220)، سنن الدارمی/الصید 2 (2048) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
3. بَابُ: صَيْدِ الْكَلْبِ
3. باب: کتوں کے کیے ہوئے شکار کا حکم۔
حدیث نمبر: 3207
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا الضحاك بن مخلد ، حدثنا حيوة بن شريح ، حدثني ربيعة بن يزيد ، اخبرني ابو إدريس الخولاني ، عن ابي ثعلبة الخشني ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إنا بارض اهل كتاب ناكل في آنيتهم، وبارض صيد اصيد بقوسي، واصيد بكلبي المعلم، واصيد بكلبي، الذي ليس بمعلم، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما ما ذكرت انكم في ارض اهل كتاب، فلا تاكلوا في آنيتهم إلا ان لا تجدوا منها بدا فإن لم تجدوا منها بدا، فاغسلوها وكلوا فيها، واما ما ذكرت من امر الصيد فما اصبت بقوسك، فاذكر اسم الله وكل، وما صدت بكلبك المعلم فاذكر اسم الله وكل، وما صدت بكلبك الذي ليس بمعلم فادركت ذكاته فكل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ نَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، وَبِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي، الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكُمْ فِي أَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلَا تَأْكُلُوا فِي آنِيَتِهِمْ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا، فَاغْسِلُوهَا وَكُلُوا فِيهَا، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ أَمْرِ الصَّيْدِ فَمَا أَصَبْتَ بِقَوْسِكَ، فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ملک میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ اور ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہے، میں اپنی کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، اور ان کتوں سے بھی جو سدھائے ہوئے نہیں ہوتے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہی یہ بات جو تم نے ذکر کی کہ ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں تو تم ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، اِلا یہ کہ کوئی چارہ نہ ہو، اگر اس کے علاوہ تم کوئی چارہ نہ پاؤ تو پھر انہیں دھو ڈالو، اور ان میں کھاؤ، رہا شکار کا معاملہ جو تم نے ذکر کیا تو جو شکار تم اپنے کمان سے کرو اس پر اللہ کا نام لے کر شکار کرو اور کھاؤ، اور جو شکار سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو کتا چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور کھاؤ، اور جو شکار ایسے کتے کے ذریعہ کیا گیا ہو جو سدھایا ہوا نہ ہو تو اگر تم اسے ذبح کر سکو تو کھاؤ (ورنہ نہیں) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 4 (5478)، 10 (5488)، 14 (5496)، صحیح مسلم/الصید 1 (1930)، سنن ابی داود/الصید 2 (2855)، سنن الترمذی/والسیر 11 (1560)، سنن النسائی/الصید 4 (4271)، (تحفة الأشرف: 11875)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/193، 194، 195)، سنن الدارمی/السیر 56 (2541) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اہل حدیث کے نزدیک جو جانور ہتھیار سے شکار کیا جائے (جیسے تیر تلوار، برچھا، بھالا، بندوق وغیرہ سے) یا ان جانوروں کے ذریعہ سے جو زخمی کرتے ہیں (جیسے کتا،چیتا، بازہجری، عقاب وغیرہ) تو حلال ہے، اگرچہ شکار کا جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جائے، بشرطیکہ مسلمان شکار کرے، اور جانور یا ہتھیار کو شکار پر چلاتے وقت بسم اللہ کہے، یہی جمہور علماء اور فقہا کی رائے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3208
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن المنذر ، حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا بيان بن بشر ، عن الشعبي ، عن عدي بن حاتم ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إنا قوم نصيد بهذه الكلاب، قال:" إذا ارسلت كلابك المعلمة وذكرت اسم الله عليها فكل، ما امسكن عليك إن قتلن إلا ان ياكل الكلب، فإن اكل الكلب فلا تاكل فإني اخاف ان يكون، إنما امسك على نفسه، وإن خالطها كلاب اخر فلا تاكل" قال ابن ماجة: سمعته يعني علي بن المنذر، يقول: حججت ثمانية وخمسين حجة اكثرها راجل.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّا قَوْمٌ نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ، قَالَ:" إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا فَكُلْ، مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ إِنْ قَتَلْنَ إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ، فَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ، إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِنْ خَالَطَهَا كِلَابٌ أُخَرُ فَلَا تَأْكُلْ" قَالَ ابْن مَاجَةَ: سَمِعْتُهُ يَعْنِي عَلِيَّ بْنَ الْمُنْذِرِ، يَقُولُ: حَجَجْتُ ثَمَانِيَةً وَخَمْسِينَ حِجَّةً أَكْثَرُهَا رَاجِلٌ.
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کتوں سے شکار کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سدھائے ہوئے کتوں کو «بسم الله» کہہ کر چھوڑو، تو ان کے اس شکار کو کھاؤ جو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں، چاہے انہیں قتل کر دیا ہو، سوائے اس کے کہ کتے نے اس میں سے کھا لیا ہو، اگر کتے نے کھا لیا تو مت کھاؤ، اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کتے نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو، اور اگر اس سدھائے ہوئے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی شریک ہو گئے ہوں تو بھی مت کھاؤ ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن منذر کو کہتے سنا کہ میں نے اٹھاون حج کیے ہیں اور ان میں سے اکثر پیدل چل کر۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضو 33 (175)، البیوع 3 (2054)، الصید 1 (5475)، 2 (5476)، 3 (5477)، 7 (5483)، 9 (5484)، 10 (5485)، صحیح مسلم/الصید 1 (1929)، سنن ابی داود/الصید 2 (2848)، (تحفة الأشراف: 9855)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید 1 (1456)، سنن النسائی/الصید 2 (4269)، مسند احمد (4/256، 257، 258، 377، 379، 380)، سنن الدارمی/الصید 1 (2045) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے: (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے، (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو، (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بغیر بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے، یہی جمہور علماء کا قول ہے، (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت «بسم الله» کہا گیا ہو، (۵) معلّم کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو، اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہو گا، اور یہ شکار حلال نہ ہو گا، (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے، تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
4. بَابُ: صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ وَالْكَلْبِ الأَسْوَدِ الْبَهِيمِ
4. باب: مجوسی کے کتے اور خالص کالے کتے کے شکار کا حکم۔
حدیث نمبر: 3209
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عبد الله ، حدثنا وكيع ، عن شريك ، عن حجاج بن ارطاة ، عن القاسم بن ابي بزة ، عن سليمان اليشكري ، عن جابر بن عبد الله ، قال:" نهينا عن صيد كلبهم، وطائرهم"، يعني المجوس.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" نُهِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِهِمْ، وَطَائِرِهِمْ"، يَعْنِي الْمَجُوسَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے یعنی مجوسیوں کے کتے، یا ان کے پرندوں کے شکار (کھانے) سے منع کر دیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2271، ومصباح الزجاجة: 1103)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید 2 (1466) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ترمذی میں، «وطائر ھم» کا لفظ نہیں ہے نیز ترمذی نے اسے ضعیف کہا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.