الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Medicine
1. بَابُ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلاَّ أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً
1. باب: اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو۔
حدیث نمبر: 3436
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , وهشام ابن عمار , قالا، حدثنا سفيان بن عيينة , عن زياد بن علاقة , عن اسامة بن شريك , قال: شهدت الاعراب يسالون النبي صلى الله عليه وسلم اعلينا حرج في كذا؟ اعلينا حرج في كذا؟ فقال لهم:" عباد الله ,وضع الله الحرج إلا من اقترض من عرض اخيه شيئا , فذاك الذي حرج" , فقالوا: يا رسول الله , هل علينا جناح ان لا نتداوى؟ قال:" تداووا عباد الله , فإن الله سبحانه لم يضع داء إلا وضع معه شفاء , إلا الهرم" , قالوا: يا رسول الله , ما خير ما اعطي العبد؟ قال:" خلق حسن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَهِشَامُ ابْنُ عَمَّارٍ , قَالَا، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ , قَالَ: شَهِدْتُ الْأَعْرَابَ يَسْأَلُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا؟ أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا؟ فَقَالَ لَهُمْ:" عِبَادَ اللَّهِ ,وَضَعَ اللَّهُ الْحَرَجَ إِلَّا مَنِ اقْتَرَضَ مِنْ عِرْضِ أَخِيهِ شَيْئًا , فَذَاكَ الَّذِي حَرِجَ" , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَلْ عَلَيْنَا جُنَاحٌ أَنْ لَا نَتَدَاوَى؟ قَالَ:" تَدَاوَوْا عِبَادَ اللَّهِ , فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ مَعَهُ شِفَاءً , إِلَّا الْهَرَمَ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا خَيْرُ مَا أُعْطِيَ الْعَبْدُ؟ قَالَ:" خُلُقٌ حَسَنٌ".
اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اعرابیوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے دیکھا کہ کیا فلاں معاملے میں ہم پر گناہ ہے؟ کیا فلاں معاملے میں ہم پر گناہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! ان میں سے کسی میں بھی اللہ تعالیٰ نے گناہ نہیں رکھا سوائے اس کے کہ کوئی اپنے بھائی کی عزت سے کچھ بھی کھیلے، تو دراصل یہی گناہ ہے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر ہم دوا علاج نہ کریں تو اس میں بھی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! دوا علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا مرض نہیں بنایا جس کی شفاء اس کے ساتھ نہ بنائی ہو سوائے بڑھاپے کے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بندے کو جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں ان میں سے سب بہتر چیز کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسن اخلاق۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 127، ومصباح الزجاجة: 127)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطب 1 (3855)، سنن الترمذی/الطب 2 (2038)، مسند احمد (4/278) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3437
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح , انبانا سفيان بن عيينة , عن الزهري , عن ابن ابي خزامة , عن ابي خزامة , قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ارايت ادوية نتداوى بها , ورقى نسترقي بها , وتقى نتقيها , هل ترد من قدر الله شيئا , قال:" هي من قدر الله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ ابْنِ أَبِي خِزَامَةَ , عَنْ أَبِي خِزَامَةَ , قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ أَدْوِيَةً نَتَدَاوَى بِهَا , وَرُقًى نَسْتَرْقِي بِهَا , وَتُقًى نَتَّقِيهَا , هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا , قَالَ:" هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ".
ابوخزامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: بتائیے ان دواؤں کے بارے میں جن سے ہم علاج کرتے ہیں، ان منتروں کے بارے میں جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، اور ان بچاؤ کی چیزوں کے بارے میں جن سے ہم بچاؤ کرتے ہیں، کیا یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو کچھ بدل سکتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں شامل ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 21 (2065)، (تحفة الأشراف: 11898)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/421) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (تراجع الألبانی: رقم: 345)

وضاحت:
۱؎: سبحان اللہ، کیا عمدہ جواب دیا کہ سوال کرنے والے کو اب کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہی، مطلب آپ ﷺ کے جواب کا یہ ہے کہ سپر یا ڈھال رکھنا یا دوا یا علاج کرنا تقدیر الہی کے خلاف نہیں ہے، جو فعل دنیا میں واقع ہو وہی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں تھا، پس انسان کے لیے ضروری ہے کہ تدبیر اور علاج میں کوتاہی نہ کرے، ہو گا تو وہی جو تقدیر میں ہے، اسی طرح جو کوئی علاج نہ کرے، تو سمجھنا چاہئے کہ اس کی تقدیر میں یہی ہے، غرض اللہ تعالی کی تقدیر بندے کو معلوم نہیں ہو سکتی جب کوئی فعل بندے سے ظاہر ہو جاتا ہے اس وقت تقدیر معلوم ہوتی ہے، حدیث میں «وتقى نتقيها» سے پرہیز مراد ہے جو بعض بیماریوں میں بعض کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور اس حدیث میں یہی معنی زیادہ مناسب ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 3438
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا سفيان , عن عطاء بن السائب , عن ابي عبد الرحمن , عن عبد الله , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" ما انزل الله داء , إلا انزل له دواء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً , إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ دَوَاءً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9333، ومصباح الزجاجة: 1191)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/77، 413، 443، 446، 453) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ بیماری اور علاج دونوں اللہ کی طرف سے اترتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , وإبراهيم بن سعيد الجوهري , قالا: حدثنا ابو احمد , عن عمر بن سعيد بن ابي حسين , حدثنا عطاء , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انزل الله داء , إلا انزل له شفاء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ , عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ , حَدَّثَنَا عَطَاءٌ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً , إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 1 (5678)، (تحفة الأشراف: 14197) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہر بیماری کی دوا ہے پھر جب وہ دوا جسم میں پہنچتی ہے تو بیمار اللہ تعالی کے حکم سے اچھا ہو جاتا ہے، یہ کہنا کہ دوا کی تاثیر سے صحت ہوئی شرک ہے، اور اگر یہ سمجھ کر دوا کھائے کہ اللہ تعالی کے حکم سے یہ موثر ہوتی ہے تو شرک نہیں ہے، اسی طرح ہر چیز کے بارے میں اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اس کا نفع اور نقصان اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اور جو کوئی نفع و نقصان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھ کر کہے کہ فلاں چیز سے نفع ہوا یعنی اللہ کے حکم سے تو وہ شرک نہ ہو گا، اور جب اس چیز کو مستقل نفع بخش سمجھے گا تو وہ شرک ہو جائے گا، مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اپنے مقبول بندوں کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں، اب وہ جس کو چاہیں اپنے اختیار سے نفع پہنچاتے ہیں، اور اللہ تعالی کا حکم ہر معاملہ میں نہیں لیتے یہ اعتقاد شرک ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. بَابُ: الْمَرِيضِ يَشْتَهِي الشَّيْءَ
2. باب: مریض اگر کسی چیز کی خواہش کرے تو کیا کیا جائے؟
حدیث نمبر: 3440
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا صفوان بن هبيرة , حدثنا ابو مكين , عن عكرمة , عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم عاد رجلا , فقال له:" ما تشتهي؟" , فقال: اشتهي خبز بر , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من كان عنده خبز بر , فليبعث إلى اخيه" , ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا اشتهى مريض احدكم شيئا فليطعمه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مَكِينٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَ رَجُلًا , فَقَالَ لَهُ:" مَا تَشْتَهِي؟" , فَقَالَ: أَشْتَهِي خُبْز بُرٍّ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ خُبْزُ بُرٍّ , فَلْيَبْعَثْ إِلَى أَخِيهِ" , ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اشْتَهَى مَرِيضُ أَحَدِكُمْ شَيْئًا فَلْيُطْعِمْهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت فرمائی، اور اس سے پوچھا: تمہارا کیا کھانے کا جی چاہتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ گیہوں کی روٹی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اپنے بھائی کے پاس بھیجے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مریض کسی چیز کی خواہش کرے تو وہ اسے کھلائے۔

تخریج الحدیث: «أنظر حدیث رقم: 1439، (تحفة الأشراف: 6224، ومصباح الزجاجة: 1192) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں صفوان بن ھبیرہ لین الحدیث راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 3441
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع , حدثنا ابو يحيى الحماني , عن الاعمش , عن يزيد الرقاشي , عن انس بن مالك , قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم على مريض يعوده , قال:" اتشتهي شيئا؟" , قال: اشتهي كعكا , قال:" نعم , فطلبوا له".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ , حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ , قَالَ:" أَتَشْتَهِي شَيْئًا؟" , قَالَ: أَشْتَهِي كَعْكًا , قَالَ:" نَعَمْ , فَطَلَبُوا لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اور اس سے پوچھا: کیا تمہارا جی کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے؟ جواب دیا: میرا جی کیک (کھانے کو) چاہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، پھر صحابہ نے اس کے لیے کیک منگوایا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1440 (مصباح الزجاجة: 1193) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
3. بَابُ: الْحِمْيَةِ
3. باب: (کھانے پینے میں) پرہیز اور احتیاط کا بیان۔
حدیث نمبر: 3442
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يونس بن محمد , حدثنا فليح بن سليمان , عن ايوب بن عبد الرحمن بن عبد الله بن ابي صعصعة . ح وحدثنا محمد بن بشار , حدثنا ابو عامر , وابو داود , قالا: حدثنا فليح بن سليمان , عن ايوب بن عبد الرحمن , عن يعقوب بن ابي يعقوب , عن ام المنذر بنت قيس الانصارية , قالت: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , ومعه علي بن ابي طالب , وعلي ناقه من مرض ولنا دوالي معلقة , وكان النبي صلى الله عليه وسلم ياكل منها , فتناول علي لياكل , فقال النبي صلى الله عليه وسلم ," مه يا علي إنك ناقه" , قالت: فصنعت للنبي صلى الله عليه وسلم سلقا وشعيرا , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا علي من هذا فاصب , فإنه انفع لك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ , وَأَبُو دَاوُدَ , قَالَا: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ بِنْتِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيَّةِ , قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمَعَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ , وَعَلِيٌّ نَاقِهٌ مِنْ مَرَضٍ وَلَنَا دَوَالِي مُعَلَّقَةٌ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهَا , فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ لِيَأْكُلَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," مَهْ يَا عَلِيُّ إِنَّكَ نَاقِهٌ" , قَالَتْ: فَصَنَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْقًا وَشَعِيرًا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَلِيُّ مِنْ هَذَا فَأَصِبْ , فَإِنَّهُ أَنْفَعُ لَكَ".
ام المنذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ کے ساتھ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ اس وقت ایک بیماری کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے، ہمارے پاس کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کھا رہے تھے، تو علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھانے کے لیے لیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی ٹھہرو! تم بیماری سے کمزور ہو گئے ہو، ام منذر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چقندر اور جو پکائے، تو آپ نے فرمایا: علی! اس میں سے کھاؤ، یہ تمہارے لیے مفید ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 2 (3856)، سنن الترمذی/الطب 1 (2037)، (تحفة الأشراف: 18362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/363، 364) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں فلیح بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 59)

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پرہیز کرنا چاہئے، ایک دوسرے حدیث میں پرہیز و احتیاط کو ہر علاج کا راز بتایا گیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پرہیزی سے اللہ کے حکم سے دوا کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ بدپرہیزی دواؤں کی تاثیر کو معطل کر کے جسم میں دوسری خرابیاں پیدا کر دیتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 3443
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن عبد الوهاب , قال: حدثنا موسى بن إسماعيل , حدثنا ابن المبارك , عن عبد الحميد بن صيفي من ولد صهيب , عن ابيه , عن جده صهيب , قال: قدمت على النبي صلى الله عليه وسلم وبين يديه خبز وتمر , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ادن فكل" , فاخذت آكل من التمر , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تاكل تمرا وبك رمد؟" , قال: فقلت إني امضغ من ناحية اخرى , فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ صَيْفِيٍّ مِنْ وَلَدِ صُهَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ صُهَيْبٍ , قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ خُبْزٌ وَتَمْرٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُ فَكُلْ" , فَأَخَذْتُ آكُلُ مِنَ التَّمْرِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْكُلُ تَمْرًا وَبِكَ رَمَدٌ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ إِنِّي أَمْضُغُ مِنْ نَاحِيَةٍ أُخْرَى , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں کھجوریں کھانے لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کھجور کھا رہے ہو حالانکہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4964، ومصباح الزجاجة: 1194)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/61) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
4. بَابُ: لاَ تُكْرِهُوا الْمَرِيضَ عَلَى الطَّعَامِ
4. باب: مریض کو کھانے پر مجبور نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3444
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير , حدثنا بكر بن يونس بن بكير , عن موسى بن علي بن رباح , عن ابيه , عن عقبة بن عامر الجهني , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تكرهوا مرضاكم على الطعام والشراب , فإن الله يطعمهم ويسقيهم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ , عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُكْرِهُوا مَرْضَاكُمْ عَلَى الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ , فَإِنَّ اللَّهَ يُطْعِمُهُمْ وَيَسْقِيهِمْ".
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مریضوں کو کھانے اور پینے پر مجبور نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا اور پلاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 4 (2040)، (تحفة الأشراف: 9943، ومصباح الزجاجة: 1195) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں بکر بن یونس ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 727)

وضاحت:
۱؎: کھانے پینے کا مقصد یہی ہے کہ روح کا تعلق جسم سے باقی رہے، اور آدمی کو تسلی اور سکون حاصل ہو، چونکہ اللہ تعالیٰ سب کا محافظ اور سب کا رازق ہے، اس لیے وہ بیماروں کی دوسری طرح خبر گیری کرتا ہے کہ ان کو غذا کی ضرورت نہیں پڑتی، بس جب وہ اپنی خوشی سے کھانا چاہیں ان کو کھلاؤ زبردستی مت کرو، اور جو غذا زبردستی سے کھائی جائے، اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
5. بَابُ: التَّلْبِينَةِ
5. باب: حریرہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3445
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري , حدثنا إسماعيل بن علية , حدثنا محمد بن السائب بن بركة , عن امه , عن عائشة , قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اخذ اهله الوعك امر بالحساء , قالت: وكان يقول:" إنه ليرتو فؤاد الحزين , ويسرو عن فؤاد السقيم , كما تسرو إحداكن الوسخ عن وجهها بالماء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ بَرَكَةَ , عَنْ أُمِّهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ أَهْلَهُ الْوَعْكُ أَمَرَ بِالْحَسَاءِ , قَالَتْ: وَكَانَ يَقُولُ:" إِنَّهُ لَيَرْتُو فُؤَادَ الْحَزِينِ , وَيَسْرُو عَنْ فُؤَادِ السَّقِيمِ , كَمَا تَسْرُو إِحْدَاكُنَّ الْوَسَخَ عَنْ وَجْهِهَا بِالْمَاءِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو جب بخار آتا تو آپ حریرہ کھانے کا حکم دیتے، اور فرماتے: یہ غمگین کے دل کو سنبھالتا ہے، اور بیمار کے دل سے اسی طرح رنج و غم دور کر دیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے چہرے سے میل کو پانی سے دور کر دیتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطب 3 (2039)، (تحفة الأشراف: 17990)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/32) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ام محمد بن سائب ضعیف ہیں)

وضاحت:
۱ ؎: حسا یعنی حریرہ آٹا، پانی، گھی یا تیل وغیرہ سے بنایا جاتا ہے، اس میں کبھی میٹھا بھی ڈالتے ہیں، اور کبھی شہد اور کبھی آٹے کے بدلے میں آٹے کا چھان ڈالتے ہیں، اس کو تلبینہ کہتے ہیں، اردو میں حریرہ مشہور ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.