الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
1. بَابُ: وُجُوبِ الزَّكَاةِ
1. باب: زکاۃ کی فرضیت کا بیان۔
Chapter: The Obligation of Zakah
حدیث نمبر: 2437
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن عمار الموصلي، عن المعافى، عن زكريا بن إسحاق المكي، قال: حدثنا يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمعاذ حين بعثه إلى اليمن:" إنك تاتي قوما اهل كتاب، فإذا جئتهم فادعهم إلى ان يشهدوا ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، فإن هم اطاعوك بذلك، فاخبرهم ان الله عز وجل فرض عليهم خمس صلوات في يوم وليلة، فإن هم يعني اطاعوك بذلك، فاخبرهم ان الله عز وجل فرض عليهم صدقة تؤخذ من اغنيائهم، فترد على فقرائهم، فإن هم اطاعوك بذلك، فاتق دعوة المظلوم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ الْمَوْصِلِيُّ، عَنِ الْمُعَافَى، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ الْمَكِّيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ:" إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ يَعْنِي أَطَاعُوكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ، فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ بِذَلِكَ، فَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا: تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو، تو جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر (زکاۃ) فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں بانٹ دیا جائے گا، اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو پھر مظلوم کی بد دعا سے بچو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 1 (1395)، 41 (1458)، 63 (1496)، المظالم 10 (2448)، المغازی 60 (4347)، والتوحید 1 (7372)، صحیح مسلم/الإیمان 7 (19)، سنن ابی داود/الزکاة 4 (1584)، سنن الترمذی/الزکاة 6 (625)، البر 68 (2014)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 1 (1783)، (تحفة الأشراف: 6511)، مسند احمد 1/233، سنن الدارمی/الزکاة 1 (1655)، 9 (671)، ویأتی عند المؤلف فی باب 46 برقم2523 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس طرح کہ زکاۃ کی وصولی میں ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ ہی اس کی تقسیم میں، مثلاً کسی سے اس کا بہت اچھا مال لے لو یا کسی کو ضرورت سے زیادہ دے دو اور کسی کو کچھ نہ دو کہ وہ تم سے دکھی ہو کر تمہارے حق میں بد دعا کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2438
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا معتمر، قال: سمعت بهز بن حكيم يحدث، عن ابيه، عن جده، قال: قلت: يا نبي الله! ما اتيتك حتى حلفت اكثر من عددهن لاصابع يديه ان لا آتيك ولا آتي دينك، وإني كنت امرا لا اعقل شيئا، إلا ما علمني الله عز وجل ورسوله، وإني اسالك بوحي الله بما بعثك ربك إلينا؟ قال:" بالإسلام"، قلت: وما آيات الإسلام؟ قال:" ان تقول: اسلمت وجهي إلى الله وتخليت، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ بَهْزَ بْنَ حَكِيمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِهِنَّ لِأَصَابِعِ يَدَيْهِ أَنْ لَا آتِيَكَ وَلَا آتِيَ دِينَكَ، وَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً لَا أَعْقِلُ شَيْئًا، إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولُهُ، وَإِنِّي أَسْأَلُكَ بِوَحْيِ اللَّهِ بِمَا بَعَثَكَ رَبُّكَ إِلَيْنَا؟ قَالَ:" بِالْإِسْلَامِ"، قُلْتُ: وَمَا آيَاتُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ:" أَنْ تَقُولَ: أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَى اللَّهِ وَتَخَلَّيْتُ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں آپ کے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ بار یہ قسم کھائی کہ نہ میں آپ کے قریب اور نہ آپ کے دین کے قریب آؤں گا۔ اور اب میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ کوئی چیز سمجھتا ہی نہیں ہوں سوائے اس چیز کے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دی ہے، اور میں اللہ کی وحی کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز دے کر آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام کے ساتھ، میں نے پوچھا: اسلام کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ ہیں کہ تم کہو کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا، اور شرک اور اس کی تمام آلائشوں سے کٹ کر صرف اللہ کی عبادت کے لیے یکسو ہو گیا، اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11388)، مسند احمد 5/4، 5، ویأتي عند المؤلف، بأرقام: 2567، 2569، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحدود 2 (2536) (حسن الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
حدیث نمبر: 2439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن مساور، قال: حدثنا محمد بن شعيب بن شابور، عن معاوية بن سلام، عن اخيه زيد بن سلام انه اخبره، عن جده ابي سلام، عن عبد الرحمن بن غنم، ان ابا مالك الاشعري حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إسباغ الوضوء شطر الإيمان، والحمد لله تملا الميزان، والتسبيح والتكبير يملا السموات والارض، والصلاة نور، والزكاة برهان، والصبر ضياء، والقرآن حجة لك او عليك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُسَاوِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ أَخِيهِ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ، أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ يَمْلَأُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالزَّكَاةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ".
ابو مالک اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کامل وضو کرنا آدھا ایمان ہے، الحمدللہ ترازو کو بھر دیتا ہے۔ اور سبحان اللہ اور اللہ اکبر آسمانوں اور زمین کو (ثواب) سے بھر دیتے ہیں۔ اور نماز نور ہے، اور زکاۃ دلیل ہے، اور صبر روشنی ہے، اور قرآن حجت (دلیل) ہے تیرے حق میں بھی، اور تیرے خلاف بھی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة5 (280)، (تحفة الأشراف: 2163)، مسند احمد 5/342، 343، سنن الدارمی/الطہارة2 (679)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطھارة1 (223)، سنن الترمذی/الدعوات86 (3517) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2440
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم، عن شعيب، عن الليث، قال: انبانا خالد، عن ابن ابي هلال، عن نعيم المجمر ابي عبد الله، قال: اخبرني صهيب، انه سمع من ابي هريرة، ومن ابي سعيد، يقولان: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما , فقال:" والذي نفسي بيده" ثلاث مرات، ثم اكب فاكب كل رجل منا يبكي، لا ندري على ماذا حلف، ثم رفع راسه في وجهه البشرى، فكانت احب إلينا من حمر النعم، ثم قال:" ما من عبد يصلي الصلوات الخمس، ويصوم رمضان، ويخرج الزكاة، ويجتنب الكبائر السبع، إلا فتحت له ابواب الجنة , فقيل له: ادخل بسلام".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ نُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صُهَيْبٌ، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَمِنْ أَبِي سَعِيدٍ، يَقُولَانِ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا , فَقَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَكَبَّ فَأَكَبَّ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَبْكِي، لَا نَدْرِي عَلَى مَاذَا حَلَفَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فِي وَجْهِهِ الْبُشْرَى، فَكَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ، وَيُخْرِجُ الزَّكَاةَ، وَيَجْتَنِبُ الْكَبَائِرَ السَّبْعَ، إِلَّا فُتِّحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ , فَقِيلَ لَهُ: ادْخُلْ بِسَلَامٍ".
ابوہریرہ اور ابوسعید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن خطبہ دیا۔ آپ نے تین بار فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، پھر آپ نے سر جھکا لیا تو ہم سے ہر شخص سر جھکا کر رونے لگا، ہم نہیں جان سکے آپ نے کس بات پر قسم کھائی ہے، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، آپ کے چہرے پر بشارت تھی جو ہمیں سرخ اونٹ پانے کی خوشی سے زیادہ محبوب تھی، پھر آپ نے فرمایا: جو بندہ بھی پانچوں وقت کی نماز پڑھے، روزے رمضان رکھے، اور زکاۃ ادا کرے، اور ساتوں کبائر ۱؎ سے بچے تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا: سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4079، 13509)، مسند احمد 3/79 (ضعیف) (اس کے راوی صہیب عتواری لین الحدیث ہیں)»

وضاحت:
۱؎: ساتوں کبائر یہ ہیں: (۱) شراب پینا (۲) جادو کرنا (۳) ناحق خون بہانا (۴) سود کھانا (۵) یتیم کا مال کھانا (۶) جہاد سے بھاگنا (۷) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2441
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير، قال: حدثنا ابي، عن شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني حميد بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من انفق زوجين من شيء من الاشياء في سبيل الله، دعي من ابواب الجنة , يا عبد الله هذا خير لك، وللجنة ابواب، فمن كان من اهل الصلاة، دعي من باب الصلاة، ومن كان من اهل الجهاد، دعي من باب الجهاد، ومن كان من اهل الصدقة، دعي من باب الصدقة، ومن كان من اهل الصيام، دعي من باب الريان" , قال ابو بكر: هل على من يدعى من تلك الابواب من ضرورة، فهل يدعى منها كلها احد يا رسول الله؟ قال:" نعم، وإني ارجو ان تكون منهم" , يعني: ابا بكر.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ , يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ لَكَ، وَلِلْجَنَّةِ أَبْوَابٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ" , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ عَلَى مَنْ يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ" , يَعْنِي: أَبَا بَكْرٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں چیزوں میں سے کسی چیز کے جوڑے دے تو وہ جنت کے دروازے سے یہ کہتے ہوئے بلایا جائے گا کہ اللہ کے بندے! آ جا یہ دروازہ تیرے لیے بہتر ہے، تو جو شخص اہل صلاۃ میں سے ہو گا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص مجاہدین میں سے ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو اہل صدقہ (و زکاۃ) میں سے ہوں گے تو وہ صدقہ (زکاۃ) کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو روزے رکھنے والوں میں سے ہو گا وہ باب الریان (ریان کے دروازہ) سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جو کوئی ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بلا لیا جائے اسے مزید کسی اور دروازے سے بلائے جانے کی ضرورت نہیں، لیکن اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہو گے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2240 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. بَابُ: التَّغْلِيظِ فِي حَبْسِ الزَّكَاةِ
2. باب: زکاۃ نہ دینے والوں پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: Stern Warning Against Withholding Zakah
حدیث نمبر: 2442
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري في حديثه، عن ابي معاوية، عن الاعمش، عن المعرور بن سويد، عن ابي ذر، قال: جئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة، فلما رآني مقبلا , قال:" هم الاخسرون ورب الكعبة" , فقلت: ما لي لعلي انزل في شيء؟ قلت: من هم فداك ابي وامي، قال:" الاكثرون اموالا، إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا حتى بين يديه وعن يمينه وعن شماله، ثم قال: والذي نفسي بيده لا يموت رجل فيدع إبلا او بقرا لم يؤد زكاتها، إلا جاءت يوم القيامة اعظم ما كانت، واسمنه تطؤه باخفافها، وتنطحه بقرونها كلما نفدت اخراها، اعيدت اولاها حتى يقضى بين الناس".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي مُقْبِلًا , قَالَ:" هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ" , فَقُلْتُ: مَا لِي لَعَلِّي أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ؟ قُلْتُ: مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ:" الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا حَتَّى بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ، وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا، أُعِيدَتْ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں آتے دیکھا تو فرمایا: وہ بہت خسارے والے لوگ ہیں، رب کعبہ کی قسم! میں نے (اپنے جی میں) کہا: کیا بات ہے؟ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: کون لوگ ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ آپ نے فرمایا: بہت مال والے، مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے، اپنے دائیں، اور اپنے بائیں دونوں ہاتھ سے اشارہ کیا، پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص کوئی اونٹ یا بیل چھوڑ کر مرے گا جس کی اس نے زکاۃ نہ دی ہو گی تو وہ (اونٹ یا بیل) (دنیا میں) جیسا کچھ وہ تھا قیامت کے دن اس سے بڑا اور موٹا تازہ ہو کر اس کے سامنے آئے گا، اور اسے اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں سے مارے گا، جب آخری جانور روند اور مار چکے گا تو پھر ان کا پہلا لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة43 (1460)، الأیمان والنذور3 (6638)، صحیح مسلم/الزکاة9 (990)، سنن الترمذی/الزکاة1 (617)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 2 (1785)، (تحفة الأشراف: 11981)، مسند احمد 5/152، 158، 169، سنن الدارمی/الزکاة 3 (1659)، ویأتي عند المؤلف فی باب11برقم: 2458 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2443
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، قال: حدثنا ابن عيينة، عن جامع بن ابي راشد، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من رجل له مال لا يؤدي حق ماله، إلا جعل له طوقا في عنقه شجاع اقرع وهو يفر منه وهو يتبعه"، ثم قرا مصداقه من كتاب الله عز وجل: ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله هو خيرا لهم بل هو شر لهم سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة سورة آل عمران آية 180".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ رَجُلٍ لَهُ مَالٌ لَا يُؤَدِّي حَقَّ مَالِهِ، إِلَّا جُعِلَ لَهُ طَوْقًا فِي عُنُقِهِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ وَهُوَ يَتْبَعُهُ"، ثُمَّ قَرَأَ مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 180".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اپنے مال کا حق ادا نہ کرے (یعنی زکاۃ نہ دے) تو وہ مال ایک گنجے زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی گردن کا ہار بنا دیا جائے گا، وہ اس سے بھاگے گا، اور وہ (سانپ) اس کے ساتھ ہو گا، پھر اس کی تصدیق کے لیے آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی «ولا تحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله هو خيرا لهم بل هو شر لهم سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة» تم یہ مت سمجھو کہ جو لوگ اس مال میں جو اللہ نے انہیں دیا ہے بخیلی کرتے ہیں ان کے حق میں بہتر ہے، یہ بہت برا ہے ان کے لیے۔ عنقریب جس مال کے ساتھ انہوں نے بخل کیا ہو گا وہ قیامت کے دن ان کے گلے کا ہار بنا دیا جائے گا (آل عمران: ۱۸)۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر آل عمران (3012)، سنن ابن ماجہ/الزکاة2 (1784)، مسند احمد 1/377 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2444
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا سعيد بن ابي عروبة، قال: حدثنا قتادة، عن ابي عمرو الغداني، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ايما رجل كانت له إبل، لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها، قالوا: يا رسول الله! ما نجدتها ورسلها؟ قال:" في عسرها ويسرها، فإنها تاتي يوم القيامة كاغذ ما كانت واسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه باخفافها، إذا جاءت اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس فيرى سبيله، وايما رجل كانت له بقر لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها، فإنها تاتي يوم القيامة اغذ ما كانت واسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتنطحه كل ذات قرن بقرنها، وتطؤه كل ذات ظلف بظلفها، إذا جاوزته اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس فيرى سبيله، وايما رجل كانت له غنم لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها، فإنها تاتي يوم القيامة كاغذ ما كانت واكثره واسمنه وآشره ثم يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه كل ذات ظلف بظلفها وتنطحه كل ذات قرن بقرنها ليس فيها عقصاء ولا عضباء، إذا جاوزته اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس فيرى سبيله".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْغُدَانِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ، لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا نَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا؟ قَالَ:" فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، إِذَا جَاءَتْ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ بَقَرٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَغَذَّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ وَآشَرَهُ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا، وَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَكْثَرِهِ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ ثُمَّ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا وَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے (لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! «نجدتها ورسلها» سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: تنگی اور آسانی ۱؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ روند چکے گا تو پھر پہلا اونٹ روندنے کے لیے لوٹایا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی، اور یہ سلسلہ برابر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے گا، اور وہ اپنا راستہ دیکھ نہ لے گا، جن کے پاس گائے بیل ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے یعنی ان کی زکاۃ نہ دے، ان کی تنگی اور ان کی کشادگی کے زمانہ میں، تو وہ گائے بیل قیامت کے دن پہلے سے زیادہ مستی و نشاط میں موٹے تازے اور تیز رفتار ہو کر آئیں گے، اور اسے ایک کشادہ میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا اور ہر سینگ والا اسے سینگوں سے مارے گا، اور ہر کھر والا اپنی کھروں سے اسے روندے گا، جب آخری جانور روند چکے گا، تو پھر پہلا پھر لوٹا دیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے، اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور وہ ان کی تنگی اور آسانی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بکریاں اس سے زیادہ چست فربہ اور موٹی تازی ہو کر آئیں گی جتنی وہ (دنیا میں) تھیں، پھر وہ ایک کشادہ ہموار میدان میں منہ کے بل لٹا دیا جائے، تو ہر کھر والی اسے اپنے کھر سے روندیں گی، اور ہر سینگ والی اسے اپنی سینگ سے مارے گی، ان میں کوئی مڑی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی سینگ کی نہ ہو گی، جب آخری بکری مار چکے گی تو پھر پہلی بکری لوٹا دی جائے گی، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے، اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة32 (1658)، (تحفة الأشراف: 15453)، مسند احمد 2/383، 489، 490 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ نہ تنگی و پریشانی کے زمانے میں زکاۃ دے کہ دینے سے اونٹ کم ہو جائیں گے، اور محتاجی و تنگی مزید بڑھ جائے گی، اور نہ خوش حالی و فارغ البالی کے دنوں میں زکاۃ دے یہ سوچ کر کہ ایسے موٹے تازے جانور کی زکاۃ کون دے؟

قال الشيخ الألباني: صحيح
3. بَابُ: مَانِعِ الزَّكَاةِ
3. باب: زکاۃ روک لینے والے کا بیان۔
Chapter: The One Who Withholds Zakah
حدیث نمبر: 2445
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابي هريرة، قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، واستخلف ابو بكر بعده، وكفر من كفر من العرب، قال عمر لابي بكر: كيف تقاتل الناس؟ وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس، حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قال: لا إله إلا الله، عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه على الله؟" , فقال ابو بكر رضي الله عنه: لاقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال والله لو منعوني عقالا كانوا يؤدونه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم على منعه، قال عمر رضي الله عنه: فوالله ما هو إلا ان رايت الله شرح صدر ابي بكر للقتال، فعرفت انه الحق.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ، حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ؟" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے، اور عربوں میں سے جنہیں کافر مرتد ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیا، اس نے مجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو سوائے اسلام کے حق ۱؎ کے مجھے سے محفوظ کر لیا۔ اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے ۲؎ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا (یعنی نماز تو پڑھے اور زکاۃ دینے سے منع کرے) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی، اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے مجھ سے روکیں گے، تو میں ان سے ان کے روکنے پر لڑوں گا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! زیادہ دیر نہیں ہوئی مگر مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتال کے سلسلے میں شرح صدر عطا کر دیا ہے، اور میں نے جان لیا کہ یہ (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے) حق ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة1 (1399)، 40 (1457)، المرتدین3 (6924)، الاعتصام2 (7284)، صحیح مسلم/الإیمان8 (20)، سنن ابی داود/الزکاة1 (1556)، سنن الترمذی/الإیمان1 (2607)، (تحفة الأشراف: 10666)، مسند احمد 1/19، 47، 2/423، ویأتی عند المؤلف فی الجھاد 1، (بأرقام: 3975، 3976، 3978، 3980)، وفی المحاربة1 (بأرقام: 3974- 3976، 3978)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الفتن 1 (3927) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سوائے اسلام کے حق کے کا مطلب یہ ہے کہ اگر قبول اسلام کے بعد کسی نے ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر ضرور نافذ ہو گی، مثلاً چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو غیر شادی شدہ کو سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں قتل کی، سزا دی جائے گی۔ ۲؎: اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے کا مطلب ہے اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے، یا قابل جرم کام کا ارتکاب کریں گے لیکن اسلامی عدالت اور افسران مجاز کے علم میں نہیں آ سکا، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
4. بَابُ: عُقُوبَةِ مَانِعِ الزَّكَاةِ
4. باب: زکاۃ روک لینے والے کی سزا کا بیان۔
Chapter: The Punishment Or One Who Withholds Zakah
حدیث نمبر: 2446
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا بهز بن حكيم، قال: حدثني ابي، عن جدي، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" في كل إبل سائمة في كل اربعين ابنة لبون، لا يفرق إبل عن حسابها، من اعطاها مؤتجرا فله اجرها، ومن ابى فإنا آخذوها وشطر إبله عزمة من عزمات ربنا، لا يحل لآل محمد صلى الله عليه وسلم منها شيء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ أَبَى فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ إِبِلِهِ عَزْمَةٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا، لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا شَيْءٌ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: چرائے جانے والے ہر چالیس اونٹ میں ایک بنت لبون ۱؎ ہے، اونٹوں کو (زکاۃ سے بچنے کے لیے) ان کے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو شخص زکاۃ دینے سے انکار کرے گا تو ہم زکاۃ بھی لیں گے اور بطور سزا اس کے آدھے اونٹ بھی لے لیں گے، یہ ہمارے رب کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے۔ اس میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے کوئی چیز جائز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة4 (1575)، (تحفة الأشراف: 11384)، مسند احمد 5/2، 4، سنن الدارمی/الزکاة36 (1719)، ویأتی عند المؤلف فی باب7 (برقم2451) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: اونٹ کا وہ بچہ جو اپنی عمر کے دو سال پورے کر چکا ہو، اور تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.