الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مال فی کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل
The Book of Distribution of Al-Fay'
0. بَابُ:
0. باب:
حدیث نمبر: 4138
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا هارون بن عبد الله الحمال، قال: حدثنا عثمان بن عمر، عن يونس بن يزيد، عن الزهري، عن يزيد بن هرمز، ان نجدة الحروري حين خرج في فتنة ابن الزبير , ارسل إلى ابن عباس يساله عن سهم ذي القربى: لمن تراه؟، قال:" هو لنا لقربى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قسمه رسول الله صلى الله عليه وسلم لهم"، وقد كان عمر عرض علينا شيئا رايناه دون حقنا فابينا، ان نقبله، وكان الذي عرض عليهم، ان يعين ناكحهم , ويقضي عن غارمهم , ويعطي فقيرهم , وابى ان يزيدهم على ذلك.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ , أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى: لِمَنْ تُرَاهُ؟، قَالَ:" هُوَ لَنَا لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَسَمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ"، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَأَبَيْنَا، أَنْ نَقْبَلَهُ، وَكَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ، أَنْ يُعِينَ نَاكِحَهُمْ , وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ , وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ , وَأَبَى أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ.
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لیے) نکلا ۲؎ تو اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ (مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ (اب) کس کو ملنا چاہیئے ۳؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کر دیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 48 (1812)، سنن ابی داود/الخراج20(2982)، سنن الترمذی/السیر 8 (1556)، (تحفة الأشراف: 6557)، مسند احمد (1/248، 294، 308، 320، 344، 349، 352)، سنن الدارمی/السیر 32 (2514) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ غنیمت میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔ ۲؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔ ۳؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیئے، جب کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4139
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يزيد وهو ابن هارون، قال: انبانا محمد بن إسحاق، عن الزهري، ومحمد بن علي، عن يزيد بن هرمز، قال: كتب نجدة إلى ابن عباس يساله عن سهم ذي القربى: لمن هو؟، قال يزيد بن هرمز: وانا كتبت كتاب ابن عباس إلى نجدة كتبت إليه:" كتبت تسالني عن سهم ذي القربى: لمن هو؟ وهو لنا اهل البيت , وقد كان عمر دعانا إلى ان ينكح منه ايمنا، ويحذي منه عائلنا، ويقضي منه عن غارمنا، فابينا إلا ان يسلمه لنا , وابى ذلك , فتركناه عليه".
(موقوف) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى: لِمَنْ هُوَ؟، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ: وَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ:" كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى: لِمَنْ هُوَ؟ وَهُوَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ , وَقَدْ كَانَ عُمَرُ دَعَانَا إِلَى أَنْ يُنْكِحَ مِنْهُ أَيِّمَنَا، وَيُحْذِيَ مِنْهُ عَائِلَنَا، وَيَقْضِيَ مِنْهُ عَنْ غَارِمِنَا، فَأَبَيْنَا إِلَّا أَنْ يُسَلِّمَهُ لَنَا , وَأَبَى ذَلِكَ , فَتَرَكْنَاهُ عَلَيْهِ".
یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ سوال لکھا کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ (آپ کے بعد) کس کا ہے؟ نجدہ کے پاس ابن عباس رضی اللہ عنہما کا جواب میں نے ہی لکھ کر بھیجا، میں نے لکھا کہ تم نے یہ سوال مجھے لکھ کر بھیجا ہے کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ کس کا ہے؟ وہ ہم اہل بیت کا ہے۔ البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہم سے کہا کہ وہ اس مال سے ہماری بیواؤں کا نکاح کرائیں گے، اس کو ہمارے فقراء و مساکین پر خرچ کریں گے اور ہمارے قرض داروں کا قرض ادا کریں گے، لیکن ہم اصرار کرتے رہے کہ وہ ہم ہی کو دیا جائے، تو انہوں نے اس سے انکار کیا، لہٰذا ہم نے اسے انہیں پر چھوڑ دیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
حدیث نمبر: 4140
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مقطوع) اخبرنا عمرو بن يحيى، قال: حدثنا محبوب يعني ابن موسى، قال: انبانا ابو إسحاق وهو الفزاري، عن الاوزاعي، قال: كتب عمر بن عبد العزيز , إلى عمر بن الوليد كتابا فيه:" وقسم ابيك لك الخمس كله، وإنما سهم ابيك كسهم رجل من المسلمين، وفيه حق الله، وحق الرسول، وذي القربى , واليتامى , والمساكين , وابن السبيل، فما اكثر خصماء ابيك يوم القيامة، فكيف ينجو من كثرت خصماؤه , وإظهارك المعازف والمزمار بدعة في الإسلام، ولقد هممت ان ابعث إليك من يجز جمتك جمة السوء".
(مقطوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق وَهُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , إِلَى عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ كِتَابًا فِيهِ:" وَقَسْمُ أَبِيكَ لَكَ الْخُمُسُ كُلُّهُ، وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيكَ كَسَهْمِ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ، وَحَقُّ الرَّسُولِ، وَذِي الْقُرْبَى , وَالْيَتَامَى , وَالْمَسَاكِينِ , وَابْنِ السَّبِيلِ، فَمَا أَكْثَرَ خُصَمَاءَ أَبِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَكَيْفَ يَنْجُو مَنْ كَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ , وَإِظْهَارُكَ الْمَعَازِفَ وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الْإِسْلَامِ، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْكَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَكَ جُمَّةَ السُّوءِ".
اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لیے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
حدیث نمبر: 4141
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم، قال: حدثنا شعيب بن يحيى، قال: حدثنا نافع بن يزيد، عن يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سعيد بن المسيب، ان جبير بن مطعم حدثه، انه جاء هو , وعثمان بن عفان رسول الله صلى الله عليه وسلم , يكلمانه فيما قسم من خمس حنين بين بني هاشم، وبني المطلب بن عبد مناف؟، فقالا: يا رسول الله، قسمت لإخواننا بني المطلب بن عبد مناف , ولم تعطنا شيئا , وقرابتنا مثل قرابتهم. فقال لهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما ارى هاشما , والمطلب شيئا واحدا"، قال جبير بن مطعم: ولم يقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم لبني عبد شمس، ولا لبني نوفل من ذلك الخمس شيئا كما قسم لبني هاشم، وبني المطلب.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ جَاءَ هُوَ , وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ؟، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ , وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا , وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ. فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا , وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا"، قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: وَلَمْ يَقْسِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غزوہ حنین کے اس خمس ۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخمس 17 (3140)، المناقب 2 (3502)، المغازي 38 (4229)، سنن ابی داود/الخراج 20 (2979، 2980)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 46 (2881)، (تحفة الأشراف: 3185)، مسند احمد (4/81، 83، 85) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے۔ ۲؎: جبیر بن مطعم اور عثمان رضی اللہ عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دے کر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئیے اگلی حدیث)

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4142
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: انبانا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن جبير بن مطعم، قال: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم ذي القربى بين بني هاشم , وبني المطلب , اتيته انا وعثمان بن عفان، فقلنا: يا رسول الله، هؤلاء بنو هاشم لا ننكر فضلهم لمكانك الذي جعلك الله به منهم، ارايت بني المطلب اعطيتهم , ومنعتنا، فإنما نحن وهم منك بمنزلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنهم لم يفارقوني في جاهلية ولا إسلام إنما بنو هاشم , وبنو المطلب شيء واحد"، وشبك بين اصابعه.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ , وَبَنِي الْمُطَّلِبِ , أَتَيْتُهُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو هَاشِمٍ لَا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي جَعَلَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، أَرَأَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ , وَمَنَعْتَنَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ , وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ"، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لیے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے مجھے نہ زمانہ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 4143
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: حدثنا محبوب يعني ابن موسى، قال: انبانا ابو إسحاق وهو الفزاري، عن عبد الرحمن بن عياش، عن سليمان بن موسى، عن مكحول، عن ابي سلام، عن ابي امامة الباهلي، عن عبادة بن الصامت، قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين وبرة من جنب بعير، فقال:" يا ايها الناس , إنه لا يحل لي مما افاء الله عليكم قدر هذه إلا الخمس، والخمس مردود عليكم". قال ابو عبد الرحمن: اسم ابي سلام: ممطور , وهو حبشي، واسم ابي امامة: صدي بن عجلان، والله تعالى اعلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق وَهُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ بَعِيرٍ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِي مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ قَدْرُ هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: اسْمُ أَبِي سَلَّامٍ: مَمْطُورٌ , وَهُوَ حَبَشِيٌّ، وَاسْمُ أَبِي أُمَامَةَ: صُدَيُّ بْنُ عَجْلَانَ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی دم کا بال (ہاتھ میں) لے کر فرمایا: لوگو! جو اللہ تمہیں مال فیٔ کے طور پر دیتا ہے اس میں سے میرے لیے خمس (پانچواں حصہ) کے سوا اس کی مقدار کے برابر بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تم ہی پر لوٹایا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5092)، مسند احمد (5/316، 318، 319) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 4144
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يزيد، قال: حدثنا ابن ابي عدي، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى بعيرا، فاخذ من سنامه وبرة بين إصبعيه، ثم قال:" إنه ليس لي من الفيء شيء، ولا هذه إلا الخمس , والخمس مردود فيكم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَعِيرًا، فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنَ الْفَيْءِ شَيْءٌ، وَلَا هَذِهِ إِلَّا الْخُمُسُ , وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان سے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بال لیا پھر فرمایا: خمس (پانچویں حصے) کے علاوہ مال فیٔ میں سے میرا کچھ بھی حق نہیں اس بال کے برابر بھی نہیں اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8792) (حسن، صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 4145
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو يعني ابن دينار، عن الزهري، عن مالك بن اوس بن الحدثان، عن عمر، قال:" كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب، فكان ينفق على نفسه منها قوت سنة , وما بقي جعله في الكراع، والسلاح عدة في سبيل الله".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ:" كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفَ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْهَا قُوتَ سَنَةٍ , وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ، وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مال غنیمت مال فی میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لیے صرف کرتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 80 (2904)، الخمس 1 (3094)، المغازي 14 (4033)، تفسیرسورة الحشر 3 (4885)، النفقات 3 (5357)، الفرائض 3 (6728)، الاعتصام 5 (7305)، صحیح مسلم/الجہاد 15 (1757)، سنن ابی داود/الخراج 19 (2965)، سنن الترمذی/السیر 44 (1610)، الجہاد 39 (1719)، (تحفة الأشراف: 10631)، مسند احمد (1/25، 48) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4146
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: حدثنا محبوب يعني ابن موسى، قال: انبانا ابو إسحاق هو الفزاري، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن عائشة , ان فاطمة ارسلت إلى ابي بكر , تساله ميراثها من النبي صلى الله عليه وسلم من صدقته , ومما ترك من خمس خيبر؟، قال ابو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا نورث".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق هُوَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ فَاطِمَةَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَدَقَتِهِ , وَمِمَّا تَرَكَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخمس 1(3092)، فضائل الصحابة 12 (3711)، المغازي 14 (4035، 4036)، 38 (4240، 4241)، الفرائض 3 (6725)، صحیح مسلم/الجہاد 16 (1759)، سنن ابی داود/الخراج 19 (2968، 2969، 2970)، (تحفة الأشراف: 6630)، مسند احمد (1/4، 6، 9، 10) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4147
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يحيى، قال: حدثنا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن زائدة، عن عبد الملك بن ابي سليمان، عن عطاء في قوله عز وجل: واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول ولذي القربى سورة الانفال آية 41، قال:" خمس الله وخمس رسوله واحد , كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمل منه , ويعطي منه , ويضعه حيث شاء , ويصنع به ما شاء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلّ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى سورة الأنفال آية 41، قَالَ:" خُمُسُ اللَّهِ وَخُمُسُ رَسُولِهِ وَاحِدٌ , كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ مِنْهُ , وَيُعْطِي مِنْهُ , وَيَضَعُهُ حَيْثُ شَاءَ , وَيَصْنَعُ بِهِ مَا شَاءَ".
عطاء آیت کریمہ: «واعلموا أنما غنمتم من شىء فأن لله خمسه وللرسول ولذي القربى» جان لو کہ تمہیں جو مال غنیمت ملا ہے اس کا خمس اللہ کے لیے اور رسول اور ذی القربی کے لیے ہے۔ (الأنفال: ۴۱) کے سلسلے میں کہتے ہیں: اللہ کا خمس اور رسول کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے لوگوں کو سواریاں دیتے، نقد دیتے، جہاں چاہتے خرچ کرتے اور جو چاہتے اس سے کرتے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 19056) (صحیح الإسناد) (سند صحیح ہے، لیکن متن مرسل ہے اس لئے کہ عطاء نے اسے نبی اکرم سے منسوب کر کے بیان کیا ہے، واسطہ میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مرسل

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.