الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
1. باب مَا جَاءَ فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ
1. باب: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1897
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، اخبرنا يحيى بن سعيد، اخبرنا بهز بن حكيم، حدثني ابي، عن جدي، قال: قلت: يا رسول الله، من ابر؟ قال: " امك "، قال: قلت: ثم من؟ قال: " امك "، قال: قلت: ثم من؟ قال: " امك "، قال: قلت: ثم من؟ قال: " ثم اباك، ثم الاقرب، فالاقرب "، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وعبد الله بن عمر، وعائشة، وابي الدرداء، قال ابو عيسى: وبهز بن حكيم هو ابن معاوية بن حيدة القشيري، وهذا حديث حسن، وقد تكلم شعبة في بهز بن حكيم، وهو ثقة عند اهل الحديث، وروى عنه معمر، والثوري، وحماد بن سلمة، وغير واحد من الائمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: " أُمَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " أُمَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " أُمَّكَ "، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: " ثُمَّ أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ، فَالْأَقْرَبَ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَبَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ هُوَ أَبْنُ مُعَاوِيَةَ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَرَوَى عَنْهُ مَعْمَرٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر رشتہ داروں کے ساتھ پھر سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھر اس کے بعد کا، درجہ بدرجہ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے، شعبہ نے بہز بن حکیم کے بارے میں کلام کیا ہے، محدثین کے نزدیک وہ ثقہ ہیں، ان سے معمر، ثوری، حماد بن سلمہ اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، عائشہ اور ابو الدرداء رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 129 (5139)، (تحفة الأشراف: 11883)، و مسند احمد (5/3، 5) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: ماں کو تین مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے: ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جب نو ماہ تک بچہ کو پیٹ میں رکھ کر مشقت و تکلیف برداشت کرتی ہے، دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب بچہ جننے کا وقت آتا ہے، وضع حمل کے وقت کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ماں ہی کو معلوم ہے، تیسرا مرحلہ دودھ پلانے کا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماں کو قرابت داروں میں نیکی اور صلہ رحمی کے لیے سب سے افضل اور سب سے مستحق قرار دیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (4929)
2. باب مِنْهُ
2. باب: ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1898
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن المسعودي، عن الوليد بن العيزار، عن ابي عمرو الشيباني، عن ابن مسعود، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، اي الاعمال افضل؟ قال: " الصلاة لميقاتها "، قلت: ثم ماذا يا رسول الله؟ قال: " بر الوالدين "، قلت: ثم ماذا يا رسول الله؟ قال: " الجهاد في سبيل الله "، ثم سكت عني رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولو استزدته لزادني، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، رواه الشيباني، وشعبة، وغير واحد، عن الوليد بن العيزار، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن ابي عمرو الشيباني، عن ابن مسعود، وابو عمرو الشيباني اسمه سعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، عَنِ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " الصَّلَاةُ لِمِيقَاتِهَا "، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " بِرُّ الْوَالِدَيْنِ "، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ الشَّيْبَانِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وأَبُو عَمْروٍ الشَّيْبَانِيَّ اسْمُهُ سَعْدُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ زیادہ بتاتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے ابوعمرو شیبانی، شعبہ اور کئی لوگوں نے ولید بن عیزار سے روایت کی ہے،
۳- یہ حدیث ابوعمرو شیبانی کے واسطہ سے ابن مسعود سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 173 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد سب سے افضل و بہتر عمل ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا یہ سب سے اچھا کام ہے، اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ سب سے اچھا کام ہے، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز سب سے افضل عمل ہے، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ افضل اعمال سے پہلے حرف «مِن» محذوف مان لیا جائے، گویا مفہوم یہ ہو گا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں، دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیا گیا۔ اور اپنی جگہ پر یہ سب اچھے کام ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1489)
3. باب مَا جَاءَ مِنَ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ
3. باب: ماں باپ کی رضا مندی کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1899
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عطاء بن السائب الهجيمي، عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن ابي الدرداء، ان رجلا اتاه، فقال: إن لي امراة، وإن امي تامرني بطلاقها، قال ابو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الوالد اوسط ابواب الجنة فإن شئت فاضع ذلك الباب او احفظه "، قال ابن ابي عمر، وربما قال سفيان: إن امي، وربما قال ابي، وهذا حديث صحيح، وابو عبد الرحمن السلمي اسمه عبد الله بن حبيب.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنّ لِيَ امْرَأَةً، وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ "، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: إِنَّ أُمِّي، وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے، (میں کیا کروں؟) ابوالدرداء رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو ۱؎۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطلاق 36 (2989)، والأدب 1 (3663)، (تحفة الأشراف: 10948) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھا جائے، اگر والد کو جنس مان لیا جائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (910)، المشكاة (4928 / التحقيق الثانى)
حدیث نمبر: 1900
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو حفص عمرو بن علي، حدثنا خالد بن الحارث، حدثنا شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد"،(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ"،
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8888) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (516)
حدیث نمبر: 1900M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو نحوه، ولم يرفعه، وهذا اصح، قال ابو عيسى: وهكذا روى اصحاب شعبة، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو موقوفا، ولا نعلم احدا رفعه غير خالد بن الحارث، عن شعبة، وخالد بن الحارث ثقة مامون، قال: سمعت محمد بن المثنى، يقول: ما رايت بالبصرة مثل خالد بن الحارث، ولا بالكوفة مثل عبد الله بن إدريس، قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ثقة مأمون، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَا بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
اس سند سے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے (موقوفاً) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح «عن شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو» کی سند سے موقوفا روایت کی ہے، ہم خالد بن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں، جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعاً روایت کی ہو،
۲- خالد بن حارث ثقہ ہیں، مامون ہیں، کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسا اور کوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا،
۳- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (515)
4. باب مَا جَاءَ فِي عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ
4. باب: ماں باپ کی نافرمانی اور ان سے قطع تعلق بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
حدیث نمبر: 1901
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا احدثكم باكبر الكبائر؟ " قالوا: بلى يا رسول الله، قال: " الإشراك بالله، وعقوق الوالدين "، قال: وجلس وكان متكئا، فقال: " وشهادة الزور، او قول الزور "، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت، قال: وفي الباب عن ابي سعيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو بكرة اسمه نفيع بن الحارث.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ "، قَالَ: وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: " وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ "، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُهُ نُفَيْعُ بْنُ الْحَارِثِ.
ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا، راوی کہتے ہیں: آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: اور جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشھادات 10 (2654)، والأدب 6 (5976)، والاستئذان 35 (6273)، والمرتدین 1 (6919)، صحیح مسلم/الإیمان 38 (87)، والمؤلف في الشھادات (2301)، وتفسیر النساء (3019) (تحفة الأشراف: 11679)، و مسند احمد (5/36، 38) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
حدیث نمبر: 1902
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن الهاد، عن سعد بن إبراهيم، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من الكبائر ان يشتم الرجل والديه "، قالوا: يا رسول الله، وهل يشتم الرجل والديه؟ قال: " نعم، يسب ابا الرجل فيشتم اباه ويشتم امه فيسب امه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتُمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: " نَعَمْ، يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَشْتُمُ أَبَاهُ وَيَشْتُمُ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
۲- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا، اور وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 4 (5973)، صحیح مسلم/الإیمان 38 (90)، سنن ابی داود/ الأدب 129 (5141)، (تحفة الأشراف: 8618) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (3 / 221)
5. باب مَا جَاءَ فِي إِكْرَامِ صَدِيقِ الْوَالِدِ
5. باب: باپ کے دوست کی عزت و تکریم کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1903
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا حيوة بن شريح، اخبرني الوليد بن ابي الوليد، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن ابر البر ان يصل الرجل اهل ود ابيه "، قال: وفي الباب عن ابي اسيد، قال ابو عيسى: هذا إسناد صحيح، وقد روي هذا الحديث عن ابن عمر من غير وجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: سب سے بہتر سلوک اور سب سے اچھا برتاؤ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ سند صحیح ہے، یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما سے کئی سندوں سے آئی ہے،
۲- اس باب میں ابواسید رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 4 (2552)، سنن ابی داود/ الأدب 129 (5143)، (تحفة الأشراف: 7259) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الضعيفة (2089)
6. باب مَا جَاءَ فِي بِرِّ الْخَالَةِ
6. باب: خالہ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔
حدیث نمبر: 1904
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن إسرائيل. ح قال: وحدثنا محمد بن احمد وهو ابن مدويه، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، واللفظ لحديث عبيد الله، عن ابي إسحاق الهمداني، عن البراء بن عازب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الخالة بمنزلة الام"، وفي الحديث قصة طويلة، وهذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْرَائِيلَ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ وَهُوَ ابْنُ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ"، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالہ ماں کے درجہ میں ہے، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 6 (2699)، والمغازي 43 (4241) (في کلا الوضعین في سیاق طویل) (تحفة الأشراف: 1803) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2190)
حدیث نمبر: 1904M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن محمد بن سوقة، عن ابي بكر بن حفص، عن ابن عمر، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، إني اصبت ذنبا عظيما، فهل لي من توبة؟ قال:" هل لك من ام؟ قال: لا، قال: هل لك من خالة؟ قال: نعم، قال: فبرها"، وفي الباب عن علي والبراء بن عازب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٌ؟ قَالَ:" هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِرَّهَا"، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‏‏‏‏
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں علی اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8577) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2190)

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.