الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر
شمائل ترمذي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا بیان
14. آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دلجوئی کرتے تھے
حدیث نمبر: 342
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عباس بن محمد الدوري قال: حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ قال: حدثنا ليث بن سعد قال: حدثني ابو عثمان الوليد بن ابي الوليد، عن سليمان بن خارجة، عن خارجة بن زيد بن ثابت قال: دخل نفر على زيد بن ثابت، فقالوا له: حدثنا احاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ماذا احدثكم؟ كنت جاره «فكان إذا نزل عليه الوحي بعث إلي فكتبته له، فكنا إذا ذكرنا الدنيا ذكرها معنا، وإذا ذكرنا الآخرة ذكرها معنا، وإذا ذكرنا الطعام ذكره معنا، فكل هذا احدثكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم» حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئِ قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَارِجَةَ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: دَخَلَ نَفَرٌ عَلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَقَالُوا لَهُ: حَدِّثْنَا أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاذَا أُحَدِّثُكُمْ؟ كُنْتُ جَارَهُ «فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ بَعَثَ إِلَيَّ فَكَتَبْتُهُ لَهُ، فَكُنَّا إِذَا ذَكَرْنَا الدُّنْيَا ذَكَرَهَا مَعَنَا، وَإِذَا ذَكَرْنَا الْآخِرَةَ ذَكَرَهَا مَعَنَا، وَإِذَا ذَكَرْنَا الطَّعَامَ ذَكَرَهُ مَعَنَا، فَكُلُّ هَذَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
خارجہ بن زید بن ثابت سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چند افراد سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے انہوں نے استدعا کی کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کچھ احادیث بیان کریں۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کے سامنے کون کون سی باتیں بیان کروں، میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسایہ تھا، جس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بلا بھیجتے تو میں اس وحی کو لکھ لیتا، جب ہم دنیوی معاملات کی باتیں کرتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ ویسی ہی گفتگو فرماتے اور جب ہم اخروی امور کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ ویسی ہی گفتگو فرماتے اور جب ہم کھانے کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ اس کے متعلق گفتگو فرماتے، یہ وہ تمام باتیں ہیں جو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمہیں بیان کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«شرح السنة للبغوي (245/13 ح 3679)»
اس روایت کی سند میں سلیمان بن خارجہ مجہول الحال راوی ہے۔ دیکھئے [اضواء المصابيح 5823]
15. برے آدمی سے بھی اچھے انداز سے پیش آنا
حدیث نمبر: 343
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا إسحاق بن موسى قال: حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، عن زياد بن ابي زياد، عن محمد بن كعب القرظي، عن عمرو بن العاص قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل بوجهه وحديثه على اشر القوم يتالفهم بذلك فكان يقبل بوجهه وحديثه علي، حتى ظننت اني خير القوم، فقلت: يا رسول الله، انا خير او ابو بكر؟ قال: «ابو بكر» فقلت: يا رسول الله، انا خير او عمر؟ فقال: «عمر» ، فقلت: يا رسول الله، انا خير او عثمان؟ قال: «عثمان» ، فلما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فصدقني فلوددت اني لم اكن سالتهحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَى أَشَرِّ الْقَوْمِ يَتَأَلَّفُهُمْ بِذَلِكَ فَكَانَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَيَّ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي خَيْرُ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ: «أَبُو بَكْرٍ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُمَرُ؟ فَقَالَ: «عُمَرُ» ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُثْمَانُ؟ قَالَ: «عُثْمَانُ» ، فَلَمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَدَقَنِي فَلَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ سَأَلْتُهُ
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے بدترین شخص کی طرف بھی اپنے پورے روئے انور کے ساتھ اور نرم گفتگو کے ساتھ متوجہ ہوتے تاکہ وہ اس کی وجہ سے الفت و رغبت حاصل کرے، اسی طرح پوری توجہ اور محبت بھری گفتگو میرے ساتھ بھی فرماتے یہاں تک کہ مجھے یہ یقین ہو گیا کہ میں قوم کا بہترین فرد ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں بہتر ہوں یا ابوبکر؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر، پھر میں نے عرض کہا کہ میں بہتر ہوں یا عمر؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر، پھر میں نے عرض کیا کہ آیا میں بہتر ہوں یا عثمان؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہایت ہی سچا جواب مرحمت فرمایا: البتہ مجھے پسند تھا کہ اے کاش میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ پوچھی ہوتی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
اس کے راوی محمد بن اسحاق بن یسار جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے، لیکن مدلس بھی تھے اور یہ سند عن سے ہے، لہٰذا ضعیف ہے۔
حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد (15/9) میں اسے بحوالہ طبرانی نقل کر کے حسن قرار دیا، لیکن مجھے طبرانی کی سند معلوم نہیں ہو سکی۔ واللہ اعلم
16. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال خدمت کرنے والے کو کبھی اف بھی نہ کیا
حدیث نمبر: 344
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد قال: حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ثابت، عن انس بن مالك قال: «خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم عشر سنين فما قال لي اف قط، وما قال لشيء صنعته لم صنعته ولا لشيء تركته لم تركته، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم من احسن الناس خلقا، ولا مسست خزا ولا حريرا ولا شيئا كان الين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا شممت مسكا قط ولا عطرا كان اطيب من عرق النبي صلى الله عليه وسلم» حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَهُ وَلَا لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ لِمَ تَرَكْتَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، وَلَا مَسَسْتُ خَزًّا وَلَا حَرِيرًا وَلَا شَيْئًا كَانَ أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا شَمَمْتُ مِسْكًا قَطُّ وَلَا عِطْرًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرَقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہنے کا شرف دس سال تک حاصل رہا۔ آپ نے مجھے کبھی بھی اف تک نہیں کہا اور نہ کسی کام کے کرنے میں یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں ایسا کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی اعتبار سے تمام انسانوں سے بہتر تھے اور میں نے کبھی کوئی ریشم اور ریشمی کپڑا اور کوئی نرم چیز ایسی نہیں چھوئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم ہو۔ اور میں نے کبھی بھی کسی قسم کا کستوری اور عطر ایسا نہیں سونگھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے زیادہ خوشبودار ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 2015، وقال: حسن صحيح)، صحيح مسلم (2330)، ورواه البخاري (3561) من حديث ثابت به مختصرا.»
17. ناگوار بات کا سامنا کیسے کیا جائے
حدیث نمبر: 345
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد، واحمد بن عبدة هو الضبي والمعنى واحد، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن سلم العلوي، عن انس بن مالك، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه كان عنده رجل به اثر صفرة قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكاد يواجه احدا بشيء يكرهه، فلما قام قال للقوم: «لو قلتم له يدع هذه الصفرة» حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَحَمْدُ بْنُ عَبْدَةَ هُوَ الضَّبِّيُّ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَلْمٍ الْعَلَوِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ عِنْدَهُ رَجُلٌ بِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يكَادُ يُواجِهُ أَحَدًا بِشَيْءٍ يَكْرَهُهُ، فَلَمَّا قَامَ قَالَ لِلْقَوْمِ: «لَوْ قُلْتُمْ لَهُ يَدَعُ هَذِهِ الصُّفْرَةَ»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آ بیٹھا جس کے کپڑوں پر زرد نشان تھا۔ راوی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ ایسی تھی کہ کسی ناگوار بات کو منہ در منہ منع نہ فرماتے تھے اس لیے جب وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: کاش تم لوگ اسے کہتے کہ زردی لگانا ترک کر دے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
«سنن ابي داود (4182، 4789)»
اس کا راوی مسلم بن قیس العلوی البصری ضعیف ہے۔ دیکھئے [التقريب التهذيب: 2473]
18. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تکلفاً بھی فحش گوئی نہیں کی
حدیث نمبر: 346
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا محمد بن جعفر قال: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، عن ابي عبد الله الجدلي واسمه عبد بن عبد، عن عائشة، انها قالت: «لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحشا ولا متفحشا ولا صخابا في الاسواق، ولا يجزىء بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح» حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ وَاسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: «لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِىءُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ»
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو طبعاً بدگو تھے اور نہ ہی تکلفاً بدگو تھے، نہ بازاروں میں شور کرتے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے لیکن درگزر فرما دیتے اور اعراض فرما دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 216، وقال: حسن صحيح)، مسند احمد (174/6)»
19. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو نہیں مارا سوائے؟
حدیث نمبر: 347
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني قال: حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: «ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده شيئا قط إلا ان يجاهد في سبيل الله، ولا ضرب خادما او امراة» حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ إِلَا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا ضَرَبَ خَادِمًا أَوِ امْرَأَةً»
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا سوائے اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے، اور نہ کبھی خادم کو مارا اور نہ بیوی کو مارا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح مسلم (2328)»
20. حق بات پہ کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری
حدیث نمبر: 348
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن عبدة الضبي قال: حدثنا فضيل بن عياض، عن منصور، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: «ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم منتصرا من مظلمة ظلمها قط ما لم ينتهك من محارم الله تعالى شيء، فإذا انتهك من محارم الله شيء كان من اشدهم في ذلك غضبا، وما خير بين امرين إلا اختار ايسرهما ما لم يكن ماثما» حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْتَصِرًا مِنْ مَظْلَمَةٍ ظُلِمَهَا قَطُّ مَا لَمْ يُنْتَهَكْ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْءٌ، فَإِذَا انْتُهِكَ مِنْ مَحَارِمِ اللَّهِ شَيْءٌ كَانَ مِنْ أَشَدِّهِمْ فِي ذَلِكَ غَضَبًا، وَمَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ مَأْثَمًا»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ جب کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ظلم و زیادتی ہوئی ہو تو اس کا انتقام اور بدلہ لیتے ہوئے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا مگر جب اللہ تعالیٰ کے محارم کی ہتک اور بے حرمتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ غضب ناک ہو جاتے، اور جب بھی دو باتوں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان بات پسند کر لی بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح مسلم (2327) مختصرا.»
21. برے لوگوں کے ساتھ مدارات سے پیش آنا
حدیث نمبر: 349
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابن ابي عمر قال: حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، عن عروة، عن عائشة، قالت: استاذن رجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا عنده، فقال: «بئس ابن العشيرة» او «اخو العشيرة» ، ثم اذن له، فالان له القول، فلما خرج قلت: يا رسول الله، قلت ما قلت ثم النت له القول؟ فقال: «يا عائشة، إن من شر الناس من تركه الناس او ودعه الناس اتقاء فحشه» حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتِ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: «بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ» أَوْ «أَخُو الْعَشِيرَةِ» ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُ، فَأَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ مَا قُلْتَ ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ؟ فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ»
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے اذن باریابی طلب کیا میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی تھی تو آپ نے فرمایا: (یہ) اپنے قبیلے اور خاندان کا برا بیٹا یا بھائی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اذن باریابی مرحمت فرمایا تو اس سے نرم انداز میں گفتگو کی، جب وہ چلا گیا، تو میں نے عرض کیا: آپ نے اس کے متعلق اس قسم کی بات کی پھر بھی اس سے نرم گفتگو کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! سب سے برا آدمی وہ ہے جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس کو ترک کر دیں یا اسے چھوڑ دیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«(سنن ترمذي: 1996، وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (6054)، صحيح مسلم (2591)»
22. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کریمانہ عادات
حدیث نمبر: 350
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا سفيان بن وكيع قال: حدثنا جميع بن عمر بن عبد الرحمن العجلي قال: انبانا رجل من بني تميم من ولد ابي هالة زوج خديجة ويكنى ابا عبد الله، عن ابن لابي هالة، عن الحسن بن علي قال: قال الحسين: سالت ابي، عن سيرة النبي صلى الله عليه وسلم في جلسائه، فقال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم دائم البشر، سهل الخلق، لين الجانب، ليس بفظ ولا غليظ، ولا صخاب ولا فحاش، ولا عياب ولا مشاح، يتغافل عما لا يشتهي، ولا يؤيس منه راجيه ولا يخيب فيه، قد ترك نفسه من ثلاث: المراء والإكثار وما لا يعنيه، وترك الناس من ثلاث: كان لا يذم احدا ولا يعيبه، ولا يطلب عورته، ولا يتكلم إلا فيما رجا ثوابه، وإذا تكلم اطرق جلساؤه كانما على رءوسهم الطير، فإذا سكت تكلموا لا يتنازعون عنده الحديث، ومن تكلم عنده انصتوا له حتى يفرغ، حديثهم عنده حديث اولهم، يضحك مما يضحكون منه، ويتعجب مما يتعجبون منه، ويصبر للغريب على الجفوة في منطقه ومسالته حتى إن كان اصحابه ليستجلبونهم ويقول: إذا رايتم طالب حاجة يطلبها فارفدوه، ولا يقبل الثناء إلا من مكافئ ولا يقطع على احد حديثه حتى يجوز فيقطعه بنهي او قيام"حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعِجْلِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وَلَدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنٍ لِأَبِي هَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ الْحُسَيْنُ: سَأَلْتُ أَبِي، عَنْ سِيرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُلَسَائِهِ، فَقَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَائِمَ الْبِشْرِ، سَهْلَ الْخُلُقِ، لَيِّنَ الْجَانِبِ، لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا صَخَّابٍ وَلَا فَحَّاشٍ، وَلَا عَيَّابٍ وَلَا مُشَاحٍ، يَتَغَافَلُ عَمَّا لَا يَشْتَهِي، وَلَا يُؤْيِسُ مِنْهُ رَاجِيهِ وَلَا يُخَيَّبُ فِيهِ، قَدْ تَرَكَ نَفْسَهُ مِنْ ثَلَاثٍ: الْمِرَاءِ وَالْإِكْثَارِ وَمَا لَا يَعْنِيهِ، وَتَرَكَ النَّاسَ مِنْ ثَلَاثٍ: كَانَ لَا يَذُمُّ أَحَدًا وَلَا يَعِيبُهُ، وَلَا يَطْلُبُ عَوْرتَهُ، وَلَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا فِيمَا رَجَا ثَوَابَهُ، وَإِذَا تَكَلَّمَ أَطْرَقَ جُلَسَاؤُهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمُ الطَّيْرُ، فَإِذَا سَكَتَ تَكَلَّمُوا لَا يَتَنَازَعُونَ عِنْدَهُ الْحَدِيثَ، وَمَنْ تَكَلَّمَ عِنْدَهُ أَنْصَتُوا لَهُ حَتَّى يَفْرُغَ، حَدِيثُهُمْ عِنْدَهُ حَدِيثُ أَوَّلِهِمْ، يَضْحَكُ مِمَّا يَضْحَكُونَ مِنْهُ، وَيَتَعَجَّبُ مِمَّا يَتَعَجَّبُونَ مِنْهُ، وَيَصْبِرُ لِلْغَرِيبِ عَلَى الْجَفْوَةِ فِي مَنْطِقِهِ وَمَسْأَلَتِهِ حَتَّى إِنْ كَانَ أَصْحَابُهُ لَيَسْتَجْلِبُونَهُمْ وَيَقُولُ: إِذَا رَأَيْتُمْ طَالِبَ حَاجَةٍ يِطْلُبُهَا فَأَرْفِدُوهُ، وَلَا يَقْبَلُ الثَّنَاءَ إِلَّا مِنْ مُكَافِئٍ وَلَا يَقْطَعُ عَلَى أَحَدٍ حَدِيثَهُ حَتَّى يَجُوزَ فَيَقْطَعُهُ بِنَهْيٍ أَوْ قِيَامٍ"
سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے اپنے والد گرامی (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم جلیس ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ اور سلوک کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہنس مکھ ہوتے، نرم اخلاق والے تھے، نرم طبیعت تھے، ترش رو اور سخت دل نہ تھے، نہ شور برپا کرتے، نہ بے ہودہ باتیں کرتے، نہ ہی کسی کو عیب لگاتے، نہ سخت کلام کرنے والے اور نہ ہی تند خو تھے، نہ تو چلانے والے اور نہ ہی فحش گو اور نہ ہی بخل یا حرص رکھنے والے تھے، جس چیز کی چاہت اور طلب نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے، اور آپ سے جو شخص کوئی امید رکھتا اسے مایوس نہ کرتے، اور نہ اسے ناکام لوٹاتے، اپنی ذات مبارکہ کو تین چیزوں سے پاک رکھا، جھگڑے سے، تکبر سے اور لا یعنی باتوں سے، اور تین باتوں سے لوگوں کو بچا رکھا تھا: نہ کسی کی مذمت کرتے اور نہ ہی کسی کا عیب بیان کرتے تھے اور نہ ہی کسی ایسی چیز کی جستجو کرتے تھے کہ جس کے واقع ہونے سے عار آتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی گفتگو کرتے جس سے ثواب کی امید ہوتی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اہل مجلس اپنی گردنیں یوں جھکا لیتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں، اور جب آپ گفتگو کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرتے تو تب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کلام کرتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی بات میں جھگڑا نہ کرتے، اور جب کوئی گفتگو کرتا تو اہل مجلس خاموشی سے اس کی گفتگو سنتے، حتی کہ وہ اپنی بات سے فارغ ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گفتگو ایسے ہوتی جیسا کہ ابھی پہلے شخص کی گفتگو ہے۔ آپ بھی اس بات سے مسکراتے جس سے صحابہ رضی اللہ عنہم مسکراتے اور جس بات سے سب تعجب کرتے آپ بھی اس سے تعجب فرماتے، اجنبی اور مسافر کی بدکلامی اور سوال میں بدتمیزی اور ترش روئی پر صبر کرتے، حتیٰ کہ صحابہ کرام (اس حسن سلوک کو دیکھ کر) خود ایسے سوال کرنے والوں کو آپ کی مجلس میں لے آتے، اور آپ خود فرماتے کہ جب تم کسی حاجت مند کو دیکھو تو اس کی مدد کیا کرو، آپ میانہ روی اختیار کرنے والے سے مدح قبول فرماتے، اور کسی کی گفتگو کو درمیان میں نہ کاٹتے حتیٰ کہ وہ حد سے تجاوز نہ کر جاتا، پس اسے منع فرما کر بات ختم فرما دیتے یا اٹھ کر چلے جاتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
نیز دیکھئے حدیث سابق: 8، 224، 335
23. آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں تھا
حدیث نمبر: 351
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي قال: حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول:" ما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا قط فقال: لا"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ:" مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ: لَا"
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی چیز مانگی گئی تو آپ نے کبھی بھی «لا» یعنی نہیں کا لفظ نہیں بولا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحيح» ‏‏‏‏ :
«صحيح مسلم (2311) من حديث عبدالرحمٰن بن مهدي، صحيح بخاري (6034) من حديث سفيان الثوري به وتابعه سفيان بن عيينه.»

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.