الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الوالدين
16. بَابُ بُكَاءِ الْوَالِدَيْنِ
16. والدین کا رونا
حدیث نمبر: 31
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى، قال‏:‏ حدثنا حماد بن سلمة، عن زياد بن مخراق، عن طيسلة، انه سمع ابن عمر يقول‏:‏ بكاء الوالدين من العقوق والكبائر‏.‏حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ، عَنْ طَيْسَلَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ‏:‏ بُكَاءُ الْوَالِدَيْنِ مِنَ الْعُقُوقِ وَالْكَبَائِرِ‏.‏
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: والدین کو رلانا عقوق اور کبائر میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: تقدم تخريجه: 8»

قال الشيخ الألباني: صحیح
17. بَابُ دَعْوَةِ الْوَالِدَيْنِ
17. والدین کی (بد) دعا
حدیث نمبر: 32
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا معاذ بن فضالة، قال‏:‏ حدثنا هشام، عن يحيى هو ابن ابي كثير، عن ابي جعفر، انه سمع ابا هريرة يقول‏:‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”ثلاث دعوات مستجابات لهن، لا شك فيهن‏:‏ دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالدين على ولدهما‏.‏“حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَهُنَّ، لاَ شَكَّ فِيهِنَّ‏:‏ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دعائیں یقیناً مقبول ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ماجاء فى دعوة الوالدين: 1905 و أبوداؤد: 1586 و ابن ماجه: 3862، من حديث هشام الدستوائي به و ابن حبان: 2406»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 33
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عياش بن الوليد، قال‏:‏ حدثنا عبد الاعلى، قال‏:‏ حدثنا محمد بن إسحاق، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن محمد بن شرحبيل، اخي بني عبد الدار، عن ابي هريرة قال‏:‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول‏:‏ ”ما تكلم مولود من الناس في مهد إلا عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم، وصاحب جريج“، قيل‏:‏ يا نبي الله، وما صاحب جريج‏؟‏ قال‏:‏ ”فإن جريجا كان رجلا راهبا في صومعة له، وكان راعي بقر ياوي إلى اسفل صومعته، وكانت امراة من اهل القرية تختلف إلى الراعي، فاتت امه يوما فقالت‏:‏ يا جريج، وهو يصلي، فقال في نفسه وهو يصلي‏:‏ امي وصلاتي‏؟‏ فراى ان يؤثر صلاته، ثم صرخت به الثانية، فقال في نفسه‏:‏ امي وصلاتي‏؟‏ فراى ان يؤثر صلاته، ثم صرخت به الثالثة، فقال‏:‏ امي وصلاتي‏؟‏ فراى ان يؤثر صلاته، فلما لم يجبها قالت‏:‏ لا اماتك الله يا جريج حتى تنظر في وجه المومسات، ثم انصرفت‏.‏ فاتي الملك بتلك المراة ولدت، فقال‏:‏ ممن‏؟‏ قالت‏:‏ من جريج، قال‏:‏ اصاحب الصومعة‏؟‏ قالت‏:‏ نعم، قال‏:‏ اهدموا صومعته، واتوني به، فضربوا صومعته بالفئوس حتى وقعت‏.‏ فجعلوا يده إلى عنقه بحبل، ثم انطلق به، فمر به على المومسات، فرآهن فتبسم، وهن ينظرن إليه في الناس، فقال الملك‏:‏ ما تزعم هذه‏؟‏ قال‏:‏ ما تزعم‏؟‏ قال‏:‏ تزعم ان ولدها منك، قال‏:‏ انت تزعمين‏؟‏ قالت‏:‏ نعم، قال‏:‏ اين هذا الصغير‏؟‏ قالوا‏:‏ هذا هو في حجرها، فاقبل عليه فقال‏:‏ من ابوك‏؟‏ قال‏:‏ راعي البقر‏.‏ قال الملك‏:‏ انجعل صومعتك من ذهب‏؟‏ قال‏:‏ لا، قال‏:‏ من فضة‏؟‏ قال‏:‏ لا، قال‏:‏ فما نجعلها‏؟‏ قال‏:‏ ردوها كما كانت، قال‏:‏ فما الذي تبسمت‏؟‏ قال‏:‏ امرا عرفته، ادركتني دعوة امي، ثم اخبرهم‏.‏“حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، أَخِي بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”مَا تَكَلَّمَ مَوْلُودٌ مِنَ النَّاسِ فِي مَهْدٍ إِلاَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ“، قِيلَ‏:‏ يَا نَبِيَّ اللهِ، وَمَا صَاحِبُ جُرَيْجٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”فَإِنَّ جُرَيْجًا كَانَ رَجُلاً رَاهِبًا فِي صَوْمَعَةٍ لَهُ، وَكَانَ رَاعِيَ بَقَرٍ يَأْوِي إِلَى أَسْفَلِ صَوْمَعَتِهِ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْقَرْيَةِ تَخْتَلِفُ إِلَى الرَّاعِي، فَأَتَتْ أُمُّهُ يَوْمًا فَقَالَتْ‏:‏ يَا جُرَيْجُ، وَهُوَ يُصَلِّي، فَقَالَ فِي نَفْسِهِ وَهُوَ يُصَلِّي‏:‏ أُمِّي وَصَلاَتِي‏؟‏ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، ثُمَّ صَرَخَتْ بِهِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ فِي نَفْسِهِ‏:‏ أُمِّي وَصَلاَتِي‏؟‏ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، ثُمَّ صَرَخَتْ بِهِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ‏:‏ أُمِّي وَصَلاَتِي‏؟‏ فَرَأَى أَنْ يُؤْثِرَ صَلاَتَهُ، فَلَمَّا لَمْ يُجِبْهَا قَالَتْ‏:‏ لاَ أَمَاتَكَ اللَّهُ يَا جُرَيْجُ حَتَّى تَنْظُرَ فِي وَجْهِ الْمُومِسَاتِ، ثُمَّ انْصَرَفَتْ‏.‏ فَأُتِيَ الْمَلِكُ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ وَلَدَتْ، فَقَالَ‏:‏ مِمَّنْ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ مِنْ جُرَيْجٍ، قَالَ‏:‏ أَصَاحِبُ الصَّوْمَعَةِ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، قَالَ‏:‏ اهْدِمُوا صَوْمَعَتَهُ، وَأْتُونِي بِهِ، فَضَرَبُوا صَوْمَعَتَهُ بِالْفُئُوسِ حَتَّى وَقَعَتْ‏.‏ فَجَعَلُوا يَدَهُ إِلَى عُنُقِهِ بِحَبْلٍ، ثُمَّ انْطُلِقَ بِهِ، فَمَرَّ بِهِ عَلَى الْمُومِسَاتِ، فَرَآهُنَّ فَتَبَسَّمَ، وَهُنَّ يَنْظُرْنَ إِلَيْهِ فِي النَّاسِ، فَقَالَ الْمَلِكُ‏:‏ مَا تَزْعُمُ هَذِهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ مَا تَزْعُمُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ تَزْعُمُ أَنَّ وَلَدَهَا مِنْكَ، قَالَ‏:‏ أَنْتِ تَزْعُمِينَ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، قَالَ‏:‏ أَيْنَ هَذَا الصَّغِيرُ‏؟‏ قَالُوا‏:‏ هَذا هُوَ فِي حِجْرِهَا، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ‏:‏ مَنْ أَبُوكَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ رَاعِي الْبَقَرِ‏.‏ قَالَ الْمَلِكُ‏:‏ أَنَجْعَلُ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ مِنْ فِضَّةٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ فَمَا نَجْعَلُهَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ رُدُّوهَا كَمَا كَانَتْ، قَالَ‏:‏ فَمَا الَّذِي تَبَسَّمْتَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ أَمْرًا عَرَفْتُهُ، أَدْرَكَتْنِي دَعْوَةُ أُمِّي، ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور جریج والے (بچے) کے علاوہ کسی نے گہوارے میں گفتگو نہیں کی۔ کہا گیا: اللہ کے نبی! جریج والے بچے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جریج ایک راہب آدمی تھا، جو اپنی کٹیا میں عبادت کیا کرتا تھا، اور اس کی عبادت گاہ کی نچلی جانب ایک گایوں کا چرواہا آ کر ٹھہرا کرتا تھا، اور قریب ہی کے ایک گاؤں کی عورت کا اس کے پاس آنا جانا تھا۔ ایک روز اس (جریج) کی والدہ آئی اور اس نے آواز دی: اے جریج! وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے نماز پڑھتے ہوئے دل میں سوچا: (ایک طرف) میری ماں ہے اور (دوسری طرف) میری نماز ہے، بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس نے دوسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری نماز اور میری ماں؟ بالآخر اس نے نماز کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس کی ماں نے تیسری مرتبہ آواز دی تو اس نے دل میں کہا: میری ماں اور میری نماز! اسے یہی مناسب لگا کہ نماز کو ترجیح دے۔ اور جب اس نے کوئی جواب نہ دیا تو اس کی ماں نے کہا: اے جریج! اللہ تجھ کو موت نہ دے یہاں تک کہ تو فاحشہ عورتوں کا منہ دیکھ لے۔ پھر وہ چلی گئی (چرواہے کے پاس آنے جانے والی) اس عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے پوچھا: یہ بچہ کس کا ہے؟ اس نے کہا: جریج کا۔ بادشاہ نے کہا: کٹیا والا جریج؟ اس نے کہا: ہاں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی عبادت گاہ گرا دو، اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ لوگوں نے کلہاڑوں سے اس کی کٹیا گرا دی اور اس کی مشکیں کس کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ اسے فاحشہ عورتوں کے پاس سے گزارا گیا تو وہ انہیں دیکھ کر مسکرایا، اور وہ فاحشہ عورتیں بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھیں جب کہ وہاں بہت سے لوگ تھے۔ بادشاہ نے اس سے کہا: یہ عورت کیا کہتی ہے؟ جریج نے کہا: کیا کہتی ہے؟ بادشاہ نے کہا: اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بچہ آپ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے کہا: واقعی تیرا یہ دعویٰ ہے؟ اس عورت نے کہا: ہاں۔ جریج نے کہا: وہ نومولود کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: وہ دیکھو اس کی گود میں ہے۔ وہ اس بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے مخاطب کر کے کہا: تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: گایوں کا چرواہا۔ (یہ سن کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور) اس نے کہا: تیرا عبادت خانہ ہم سونے کا بنا دیتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: چاندی کا بنا دیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے کہا: کس طرح کا بنائیں؟ اس نے کہا: جس طرح پہلے تھا ایسا ہی بنا دو۔ بادشاہ نے کہا: تو (راستے میں) مسکرایا کیوں تھا؟ اس نے کہا: ایک بات تھی جسے میں جان گیا تھا (اور وہ یہ تھی کہ) مجھے میری ماں کی بددعا لگ گئی تھی اور پھر انہیں پورا واقعہ بتایا۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، أحاديث الأنبياء، باب واذكر فى الكتاب مريم: 3436 و مسلم: 2550»

قال الشيخ الألباني: صحیح
18. بَابُ عَرْضِ الإِسْلاَمِ عَلَى الأُمِّ النَّصْرَانِيَّةِ
18. عیسائی (غیر مسلم) والدہ کو اسلام کی دعوت دینا
حدیث نمبر: 34
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو الوليد هشام بن عبد الملك، قال‏:‏ حدثنا عكرمة بن عمار قال‏:‏ حدثني ابو كثير السحيمي قال‏:‏ سمعت ابا هريرة يقول‏:‏ ما سمع بي احد، يهودي ولا نصراني، إلا احبني، إن امي كنت اريدها على الإسلام فتابى، فقلت لها، فابت، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت‏:‏ ادع الله لها، فدعا، فاتيتها، وقد اجافت عليها الباب، فقالت‏:‏ يا ابا هريرة، إني اسلمت، فاخبرت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت‏:‏ ادع الله لي ولامي، فقال‏:‏ ”اللهم، عبدك ابو هريرة وامه، احبهما إلى الناس‏.‏“حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ السُّحَيْمِيُّ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ مَا سَمِعَ بِي أَحَدٌ، يَهُودِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ، إِلاَّ أَحَبَّنِي، إِنَّ أُمِّي كُنْتُ أُرِيدُهَا عَلَى الإِسْلاَمِ فَتَأْبَى، فَقُلْتُ لَهَا، فَأَبَتْ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ‏:‏ ادْعُ اللَّهَ لَهَا، فَدَعَا، فَأَتَيْتُهَا، وَقَدْ أَجَافَتْ عَلَيْهَا الْبَابَ، فَقَالَتْ‏:‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَسْلَمْتُ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ‏:‏ ادْعُ اللَّهَ لِي وَلِأُمِّي، فَقَالَ‏:‏ ”اللَّهُمَّ، عَبْدُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَأُمُّهُ، أَحِبَّهُمَا إِلَى النَّاسِ‏.‏“
ابوکثیر سحیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: جس کسی یہودی یا عیسائی کو میرا علم ہوا اس نے مجھ سے محبت کی۔ میری والدہ (عیسائی تھیں)، میں چاہتا تھا کہ وہ اسلام قبول کرے مگر وہ انکاری تھی۔ (ایک روز) میں نے اسے (اسلام کی) دعوت دی تو اس نے (حسب عادت) انکار کر دیا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدہ کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ پھر میں اس (والدہ محترمہ) کے پاس آیا تو اس نے دروازہ بند کر رکھا تھا۔ اور (اندر ہی سے) کہنے لگیں: ابوہریرہ میں مسلمان ہو گئی ہوں! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور عرض کیا: میرے لیے اور میری والدہ کے لیے دعا فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: باری تعالیٰ! تیرا بندہ ابوہریرہ اور اس کی والدہ، دونوں کو لوگوں میں محبوب بنا دے۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه، صحيح مسلم، فضائل صحابه، باب من فضائل أبى هريرة: 2491، المشكاة: 5895، مسند أحمد: 200/4»

قال الشيخ الألباني: حسن
19. بَابُ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا
19. والدین کے ساتھ ان کی موت کے بعد حسن سلوک کرنا
حدیث نمبر: 35
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو نعيم، قال‏:‏ حدثنا عبد الرحمن بن الغسيل قال‏:‏ اخبرني اسيد بن علي بن عبيد، عن ابيه، انه سمع ابا اسيد يحدث القوم قال‏:‏ كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال رجل‏:‏ يا رسول الله، هل بقي من بر ابوي شيء بعد موتهما ابرهما‏؟‏ قال‏:‏ ”نعم، خصال اربع‏:‏ الدعاء لهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما، وإكرام صديقهما، وصلة الرحم التي لا رحم لك إلا من قبلهما‏.‏“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْغَسِيلِ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي أُسَيْدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أُسَيْدٍ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ قَالَ‏:‏ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ بَعْدَ مَوْتِهِمَا أَبَرُّهُمَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”نَعَمْ، خِصَالٌ أَرْبَعٌ‏:‏ الدُّعَاءُ لَهُمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لاَ رَحِمَ لَكَ إِلاَّ مِنْ قِبَلِهِمَا‏.‏“
ابو اسید (سیدنا مالک بن ربیعہ) رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہم (ایک روز) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز باقی ہے جس کے ذریعے سے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! چار چیزیں ہیں: ان کے لیے دعا کرنا، ان کے لیے مغفرت طلب کرنا، ان کی وصیت کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا اور وہ صلہ رحمی کرنا جس کا تعلق صرف ماں باپ سے ہو۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: الضعيفة: 597 و أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى بر الوالدين: 5142 و ابن ماجه: 3664»

قال الشيخ الألباني: ضعیف
حدیث نمبر: 36
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن يونس، قال‏:‏ حدثنا ابو بكر، عن عاصم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة قال‏:‏ ترفع للميت بعد موته درجته‏.‏ فيقول‏:‏ اي رب، اي شيء هذه‏؟‏ فيقال‏:‏”ولدك استغفر لك‏.“‏حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ تُرْفَعُ لِلْمَيِّتِ بَعْدَ مَوْتِهِ دَرَجَتُهُ‏.‏ فَيَقُولُ‏:‏ أَيْ رَبِّ، أَيُّ شَيْءٍ هَذِهِ‏؟‏ فَيُقَالُ‏:‏”وَلَدُكَ اسْتَغْفَرَ لَكَ‏.“‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: میت کے درجات اس کے مرنے کے بعد بلند کیے جاتے ہیں تو وہ عرض کرتا ہے: اے میرے رب! میرا درجہ کس بنا پر بلند ہوا؟ اسے کہا جاتا ہے: تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن ماجه، أبواب الأدب: 3660 و أحمد: 363/2، عن عبد الوارث به و ابن حبان، ح: 66 و البوصيري وله شاهد عند الحاكم: 178/2»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 37
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا موسى، قال‏:‏ حدثنا سلام بن ابي مطيع، عن غالب قال‏:‏ قال محمد بن سيرين‏:‏ كنا عند ابي هريرة ليلة، فقال‏:‏ اللهم اغفر لابي هريرة، ولامي، ولمن استغفر لهما قال لي محمد‏:‏ فنحن نستغفر لهما حتى ندخل في دعوة ابي هريرة‏.‏حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سَلاَّمُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ غَالِبٍ قَالَ‏:‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ‏:‏ كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَيْلَةً، فَقَالَ‏:‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِي هُرَيْرَةَ، وَلِأُمِّي، وَلِمَنِ اسْتَغْفَرَ لَهُمَا قَالَ لِي مُحَمَّدٌ‏:‏ فَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُ لَهُمَا حَتَّى نَدْخُلَ فِي دَعْوَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ‏.‏
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک رات سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے (یہ دعا) فرمائی: اے اللہ! ابوہریرہ اور اس کی والدہ کو معاف فرما دے، اور ان دونوں کے لیے استغفار کرنے والے سے بھی درگزر فرما۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں تاکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا کے مستحق قرار پائیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح:» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحیح
حدیث نمبر: 38
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو الربيع، قال‏:‏ حدثنا إسماعيل بن جعفر، قال‏:‏ اخبرنا العلاء، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ”إذا مات العبد انقطع عنه عمله إلا من ثلاث‏:‏ صدقة جارية، او علم ينتفع به، او ولد صالح يدعو له‏.‏“حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا الْعَلاَءُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”إِذَا مَاتَ الْعَبْدُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثٍ‏:‏ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ‏.‏“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے، (ان کا نفع پہنچتا رہتا ہے) صدقہ جاریہ، علم جس سے استفادہ کیا جاتا ہو، یا نیک (مومن) اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته: 1631 و أبوداؤد: 2880 و النسائي: 3651 و الترمذي: 1376 و مسند أحمد: 372/2»

قال الشيخ الألباني: صحیح
حدیث نمبر: 39
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يسرة بن صفوان، قال‏:‏ حدثنا محمد بن مسلم، عن عمرو، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رجلا قال‏:‏ يا رسول الله، إن امي توفيت ولم توص، افينفعها ان اتصدق عنها‏؟‏ قال‏:‏ ”نعم‏.‏“حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلاً قَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَلَمْ تُوصِ، أَفَيَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”نَعَمْ‏.‏“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! بے شک میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الوصايا: 2756 و الترمذي: 669 و أبوداؤد: 2882 و النسائي: 3654»

قال الشيخ الألباني: صحیح
20. بَابُ بِرِّ مِنْ كَانَ يَصِلُهُ أَبُوهُ
20. والد کے تعلق داروں سے اچھا برتاؤ کرنا
حدیث نمبر: 40
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن صالح قال‏:‏ حدثني الليث، عن خالد بن يزيد، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر‏:‏ مر اعرابي في سفر، فكان ابو الاعرابي صديقا لعمر رضي الله عنه، فقال للاعرابي‏:‏ الست ابن فلان‏؟‏ قال‏:‏ بلى، فامر له ابن عمر بحمار كان يستعقب، ونزع عمامته عن راسه فاعطاه‏.‏ فقال بعض من معه‏:‏ اما يكفيه درهمان‏؟‏ فقال‏:‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏ ”احفظ ود ابيك، لا تقطعه فيطفئ الله نورك‏.‏“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ‏:‏ مَرَّ أَعْرَابِيٌّ فِي سَفَرٍ، فَكَانَ أَبُو الأعْرَابِيِّ صَدِيقًا لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لِلأَعْرَابِيِّ‏:‏ أَلَسْتَ ابْنَ فُلاَنٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ بَلَى، فَأَمَرَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ بِحِمَارٍ كَانَ يَسْتَعْقِبُ، وَنَزَعَ عِمَامَتَهُ عَنْ رَأْسِهِ فَأَعْطَاهُ‏.‏ فَقَالَ بَعْضُ مَنْ مَعَهُ‏:‏ أَمَا يَكْفِيهِ دِرْهَمَانِ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”احْفَظْ وُدَّ أَبِيكَ، لاَ تَقْطَعْهُ فَيُطْفِئَ اللَّهُ نُورَكَ‏.‏“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک اعرابی کسی سفر میں (میرے) قریب سے گزرا۔ اس اعرابی کا باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا، تو اس نے اعرابی کو کہا: کیا تم فلاں کے بیٹے نہیں ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے (اس پہچان کی وجہ سے) ایک گدھا دینے کا حکم دیا۔ اور اپنے سر سے پگڑی اتار کر بھی اسے دے دی۔ آپ کے بعض ہم سفروں نے عرض کیا: اس کو دو درہم دے دینے کافی نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اپنے والد کی دوستی کا خیال رکھو، اس کو مت توڑو ورنہ اللہ تمہارا نور بجھا دے گا۔

تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أحمد فى المسند: 3/5، زيادة من شعب الإيمان للبيهقي: 7898 و الطبراني الكبير: 394/11 و مسلم: 2552، الضعيفة: 2089»

قال الشيخ الألباني: ضعیف

Previous    1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.