الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مقدمہ
Introduction
5. باب فِي أَنَّ الإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَكُونُ إِلَّا عَنْ الثِّقَاتِ وَأَنَّ جَرْحَ الرُّوَاةِ بِمَا هُوَ فِيهِمْ جَائِزٌ بَلْ وَاجِبٌ وَأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ الْغِيبَةِ الْمُحَرَّمَةِ بَلْ مِنْ الذَّبِّ عَنْ الشَّرِيعَةِ الْمُكَرَّمَةِ
5. باب: حدیث کی سند بیان کرنا ضروری ہے، اور وہ دین میں داخل ہے، اور روایت صرف معتبر راویوں سے ہو گی، اور راویوں پر تنقید کرنا جائز ہے بلکہ واجب ہے،یہ غیبت محرمہ نہیں ہے، بلکہ وہ شریعت مکرمہ کا دفاع ہے۔
حدیث نمبر: 26
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسن بن الربيع، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب وهشام، عن محمد، وحدثنا فضيل، عن هشام، قال: وحدثنا مخلد بن حسين، عن هشام، عن محمد بن سيرين، قال: إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تاخذون دينكمحَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ وَهِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، وَحَدَّثَنَا فُضَيْلٌ، عَنْ هِشَامٍ، قَال: وَحَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ
حسن بن ربیع، حماد بن زید، ایوب، ہشام، محمد، ح، فضیل، ہشام، مخلد بن حسین، ہشام، انہوں نے محمد بن سیرین سے روایت کی، یہ علم، دین ہے، اس لیے (اچھی طرح) دیکھ لو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین اخذ کرتے ہو۔
محمد بن سیرینؒ کا قول ہے: کہ یہ علم (علمِ حدیث) دین ہے، لہٰذا سوچ لو تم کن سے اپنا دین لیتے ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19292)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 27
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو جعفر محمد بن الصباح، حدثنا إسماعيل بن زكرياء، عن عاصم الاحول، عن ابن سيرين، قال: لم يكونوا يسالون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالكم، فينظر إلى اهل السنة، فيؤخذ حديثهم، وينظر إلى اهل البدع، فلا يؤخذ حديثهمحَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ زَكَرِيَّاءَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَل، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنِ الإِسْنَادِ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ، قَالُوا: سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ، فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ، فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ، وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ، فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ
عاصم احول نے ابن سیرین سے روایت کی، کہا: (ابتدائی دور میں عالمان حدیث) اسناد کے بارے میں کوئی سوال نہ کرتے تھے، جب فتنہ پڑ گیا تو انہوں نے کہا: ہمارے سامنے اپنے رجال (حدیث) کے نام لو تاکہ اہل سنت کو دیکھ کر ان سے حدیث لی جائے اور اہل بدعت کو دیکھ کر ان کی حدیت قبول نہ کی جائے
ابنِ سیرینؒ کا قول ہے: تابعین سند کے بارے میں سوال نہیں کرتے تھے، تو جب فتنہ پیدا ہو گیا، تو انھوں نے کہا: اپنے رجال (راویوں) کے نام بتاؤ! تو اہلِ السنۃ راویوں کی روایت ان کو جان کر قبول کر لی جاتی ہے، اہلِ بد عت کی پہچان کر ان کی روایت قبول نہ کی جاتی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19294)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 28
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، اخبرنا عيسى وهو ابن يونس، حدثنا الاوزاعي، عن سليمان بن موسى، قال: لقيت طاوسا، فقلت: حدثني فلان، كيت وكيت، قال:" إن كان صاحبك مليا، فخذ عنهحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: لَقِيتُ طَاوُسًا، فَقُلْتُ: حَدَّثَنِي فُلَانٌ، كَيْتَ وَكَيْتَ، قَالَ:" إِنْ كَانَ صَاحِبُكَ مَلِيًّا، فَخُذْ عَنْهُ
۔ اوزاعی نے سلیمان بن موسٰی سے روایت کی، انھوں نے کہا .میں ظاوس رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا .مجھےشخص نے اس اس کرح حدیث سنائی۔انھوں کہا ’اگر تمہارے صاحب (استاد) پوری طرح قابل اعتماد ہیں توان سے اخذ کر لو۔
سلیمان بن موسیٰؒ طاؤسؒ کو ملے اور ان سے کہا: کہ فلاں نے فلاں فلاں حدیث سنائی ہے۔ طاؤسؒ نے کہا: اگر تیرا استاد ثقہ قابلِ اعتماد ہے تو اس سے لے لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18826)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 29
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، اخبرنا مروان يعنى ابن محمد الدمشقي، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن سليمان بن موسى، قال: قلت لطاوس: إن فلانا حدثني بكذا وكذا، قال: إن كان صاحبك مليا، فخذ عنهوحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ يَعْنِى ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِطَاوُسٍ: إِنَّ فُلَانًا حَدَّثَنِي بِكَذَا وَكَذَا، قَالَ: إِنْ كَانَ صَاحِبُكَ مَلِيًّا، فَخُذْ عَنْهُ
سعید بن عبد العزیز نے سلیمان بن موسیٰ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے طاوس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: فلاں نے ان ان الفاظ سے مجھے حدیث سنائی۔ انہوں نے کہا: اگر تمہارے صاحب ثقاہت میں بھر پو ہیں تو ان سے اخذ کر لو۔
سلیمان بن موسیٰؒ نے طاؤسؒ سے کہا: کہ فلاں نے فلاں فلاں حدیث سنائی ہے، تو طاؤسؒ نے کہا: کہ اگر تیرا استاد علم و معرفت اور دین سے لبریز ہے تو ان کی روایت لے لو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18826)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 30
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا الاصمعي، عن ابن ابي الزناد، عن ابيه، قال:" ادركت بالمدينة مائة، كلهم مامون، ما يؤخذ عنهم الحديث، يقال: ليس من اهلهحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الأَصْمَعِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَدْرَكْتُ بِالْمَدِينَةِ مِائَةً، كُلُّهُمْ مَأْمُونٌ، مَا يُؤْخَذُ عَنْهُمُ الْحَدِيثُ، يُقَالُ: لَيْسَ مِنْ أَهْلِهِ
(عبد الرحمن) بن ابی زناد نے اپنے والد سے روایت کی، کہا: میں مدینہ میں سو (اہل علم) سے ملا جو (دین میں تو) محفوظ ومامون تھے (لیکن) ان سے حدیث اخذ نہیں کی جاتی تھیں، کہا جاتا تھا یہ اس (علم) کے اہل نہیں
امام ابو زناد ؒ بیان کرتے ہیں: میری مدینہ میں ایک سو راویوں سے ملاقات ہوئی، سب کے سب دین دار تھے، لیکن ان سے حدیث نہیں لی جاتی تھی، کہا جاتا تھا: وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18899)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 31
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن ابي عمر المكي، حدثنا سفيان.ح وحدثني ابو بكر بن خلاد الباهلي واللفظ له، قال: سمعت سفيان بن عيينة، عن مسعر، قال: سمعت سعد بن إبراهيم، يقول: لا يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا الثقاتحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ.ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، يَقُولُ: لَا يُحَدِّثُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا الثِّقَاتُ
۔ مسعر سے روایت ہے، کہا: میں نے سعد بن ابراہیم (بن عبد الرحمن بن عوف) سے سنا، کہہ رہے تھے: ثقہ راویوں کے علاوہ اور نہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان نہ کرے۔
سعد بن ابراہیم ؒ کا قول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ثقہ راویوں کو روایت بیان کرنا چاہیے۔ یعنی صرف ثقہ راویوں کی روایت ہی قبول کی جا سکتی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18673)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 32
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن عبد الله بن قهزاذ من اهل مرو، قال: سمعت عبدان بن عثمان، يقول: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: الإسناد من الدين، ولولا الإسناد، لقال: من شاء ما شاء وقال محمد بن عبد الله: حدثني العباس بن ابي رزمة، قال: سمعت عبد الله، يقول: بيننا وبين القوم القوائم يعني الإسناد وقال محمد: سمعت ابا إسحاق إبراهيم بن عيسى الطالقاني، قال: قلت لعبد الله بن المبارك: يا ابا عبد الرحمن، الحديث الذي جاء، إن من البر، بعد البر، ان تصلي لابويك مع صلاتك، وتصوم لهما مع صومك، قال: فقال عبد الله: يا ابا إسحاق، عمن هذا؟ قال: قلت له: هذا من حديث شهاب بن خراش، فقال: ثقة، عمن؟ قال: قلت: عن الحجاج بن دينار، قال: ثقة، عمن؟ قال: قلت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابا إسحاق، إن بين الحجاج بن دينار، وبين النبي صلى الله عليه وسلم مفاوز، تنقطع فيها اعناق المطي، ولكن ليس في الصدقة اختلاف وقال محمد سمعت علي بن شقيق، يقول: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: على رءوس الناس دعوا حديث عمرو بن ثابت، فإنه كان يسب السلفوحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذ َ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ بْنَ عُثْمَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الإِسْنَادُ، لَقَالَ: مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ يَعْنِي الإِسْنَاد وقَال مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالَقَانِيَّ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَك: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ، إِنَّ مِنَ الْبِرِّ، بَعْدَ الْبِرِّ، أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: يَا أَبَا إِسْحَاق، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ، فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ؟ قَالَ: قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاق، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ، تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ وَقَالَ مُحَمَّدٌ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ شَقِيقٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ
محمد بن عبد اللہ بن قہزاد نے (جو مرو کے باشندوں میں سے ہیں) کہا: میں نے عبدان بن عثمان سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اسناد (سلسلہ سند سے حدیث روایت کرنا) دین میں سے ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتا تو جو کوئی جو کچھ چاہتا، کہہ دیتا۔ (امام مسلم رضی اللہ عنہ نے) کہا: اور محمد بن عبد اللہ نے کہا: مجھے عباس بن ابی رزمہ نے حدیث سنائی، کہا: میں نے عبد اللہ (بن مبارک) کو یہ کہتے ہوئے سنا: ہمارے اور لوگوں کے درمیان (فیصلہ کن چیز، بیان کی جانے والی خبروں کے) پاؤں، یعنی سندیں ہیں (جن پر روایات اس طرح کھڑی ہوتی ہیں جس طرح جاندار اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔) ابواسحاق نے (جن کا نام ابراہیم بن عیسیٰ طاتقانی ہے) کہا: میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ حدیث کیسی ہے جو روایت کی گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے بعد دوسری نیکی یہ ہے کہ تو نماز پڑھے اپنے ماں باپ کیلئے اپنی نماز کے بعد اور روزہ رکھے ان کے لیے اپنے روزے کے ساتھ۔ انہوں نے کہا: اے ابواسحاق! یہ حدیث کون روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: شہاب بن خراش۔ انہوں نے کہا: وہ تو ثقہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا: وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: حجاج بن دینار سے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ثقہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا: وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔ عبداللہ نے کہا: اے ابواسحاق! ابھی تو حجاج سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اتنے بڑے بڑے جنگل باقی ہیں کہ ان کے طے کرنے کے لئے اونٹوں کی گردنیں تھک جائیں البتہ صدقہ دینے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ عبداللہ بن مبارک لوگوں کے سامنے کہتے تھے چھوڑ دو روایت کرنا عمرو بن ثابت سے کیوں کہ وہ برا کہتا تھا اگلے بزرگوں کو
حضرت امام عبداللہ بن مبارک ؒ کہتے تھے: اسناد دین کا حصہ ہے، اگر اسناد نہ ہوتی تو جو انسان جو کچھ چاہتا کہہ دیتا۔ اور فرماتے تھے: کہ ہمارے اور لوگوں (راویوں) کے درمیان قوائم (پاؤں یا ستون) ہیں۔ ابو اسحاق ابراہیم بن عیسیٰ طالقانی ؒبیان کرتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا: اے ابو عبدالرحمٰن! یہ حدیث کیسی ہے؟ یہ نیکی در نیکی ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو، اور اپنے روزوں کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزے رکھو۔ تو امام عبداللہ ؒ نے پوچھا: اے ابو اسحاق! یہ حدیث کون بیان کرتا ہے؟ میں نے انھیں کہا: یہ شہاب بن خراشؒ کی حدیث ہے۔ اس نے کہا: وہ ثقہ (قابلِ اعتماد) راوی ہے، وہ کسی سے بیان کرتا ہے؟ میں نے کہا: حجاج بن دینارؒ سے۔ انھوں نے کہا: وہ بھی قابلِ اعتماد ہے، اس نے یہ حدیث کس سے بیان کی ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ بن مبارک ؒ نے کہا: اے ابو اسحاق! حجاج بن دینارؒ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اتنے بڑے بیاباں (صحرا) ہیں، جن میں سواریوں کی گردنیں ٹوٹ جاتی ہیں، مگر صدقہ کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سب لوگوں کے سامنے علی الاعلان فرماتے تھے: عمرو بن ثابت کی حدیث قبول نہ کرو، کیونکہ وہ سلف صالحین کو گالیاں دیتا اور برا بھلا کہتا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18487 و 18923 و 18923 و 18924 و 18925)» ‏‏‏‏
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ ‏‏
6ق. باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 33
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو بكر بن النضر بن ابي النضر، قال: حدثني ابو النضر هاشم بن القاسم، حدثنا ابو عقيل صاحب بهية، قال: كنت جالسا عند القاسم بن عبيد الله ويحيي بن سعيد، فقال يحيى للقاسم: يا ابا محمد، إنه قبيح على مثلك عظيم، ان تسال عن شيء من امر هذا الدين، فلا يوجد عندك منه علم، ولا فرج او علم، ولا مخرج، فقال له القاسم: وعم ذاك؟ قال: لانك ابن إمامي هدى ابن ابي بكر وعمر قال: يقول له القاسم: اقبح من ذاك عند من عقل، عن الله، ان اقول بغير علم او آخذ، عن غير ثقة، قال: فسكت فما اجابهوحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ صَاحِبُ بُهَيَّةَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، فَقَالَ يَحْيَى لِلْقَاسِمِ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَى مِثْلِكَ عَظِيمٌ، أَنْ تُسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ، فَلَا يُوجَدَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، وَلَا فَرَجٌ أَوْ عِلْمٌ، وَلَا مَخْرَجٌ، فَقَالَ لَهُ الْقَاسِمُ: وَعَمَّ ذَاكَ؟ قَالَ: لِأَنَّكَ ابْنُ إِمَامَيْ هُدًى ابْنُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَر قَالَ: يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ: أَقْبَحُ مِنْ ذَاكَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ، عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ آخُذَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: فَسَكَتَ فَمَا أَجَابَهُ
۔ ابو نضر ہاشم بن قاسم نے حدیث بیان کی، کہا: ہم نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل (یحییٰ بن متوکل) نے حدیث بیان کی، کہا: میں قاسم بن عبید اللہ (بن عبد اللہ بن بن عمر جن کی والدہ ام عبد اللہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھیں) اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ یحییٰ نے قاسم بن عبید اللہ سے کہا: جناب ابو محمد! آپ جیسی شخصیت کے لیے یہ عیب ہے، بہت بڑی بات ہے کہ آپ سے اس دین کے کسی معاملے کے بارے میں (کچھ) پوچھا جائے اور آپ کے پاس اس کے حوالے سے نہ علم ہو نہ کوئی حل یا (یہ الفاظ کہے) نہ علم ہو نہ نکلنے کی کوئی راہ۔ تو قاسم نے ان سے کہا: کس وجہ سے؟ (یحییٰ نے) کہا: کیونکہ آپ ہدایت کے دو اماموں ابو بکر اور عمرؓ کے فرزند ہیں۔ کہا: قاسم اس سے کہنے لگے: جس شخص کو اللہ کی طرف سے عقل ملی ہو، اس کے نزدیک اس سے بھی بد تر بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہہ دوں یا اس سے روایت کروں جو ثقہ نہ ہو۔ (یہ سن کر یحییٰ) خاموش ہو گئے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
ابو عقیلؒ جو بہیہ نامی عورت کے شاگرد ہیں بیان کرتے ہیں: کہ میں قاسم بن عبید اللہؒ اور یحییٰ بن سعیدؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو یحییٰؒ نے قاسمؒ سے کہا: اے ابو محمد! آپ جیسے بلند شان انسان کے لیے انتہائی بری بات ہے کہ تم سے اس دین کے کسی مسئلہ (معاملہ) کے بارے میں دریافت کیا جائے اور آپ کے پاس اس کے بارے میں معلومات موجود نہ ہوں، اور آپ اس کو حل نہ کر سکیں، یا اس کے بارے میں علم اور نکلنے کی راہ نہ ہو۔ قاسم ؒ نے یحییٰؒ سے پوچھا یہ کیوں؟ اس نے کہا؟ کیونکہ آپ ہدایت و رہنمائی کے دو ائمہ ابو بکرؓ اور عمرؓ کے بیٹے ہیں۔ قاسم ؒ جواب دیتے ہیں: جو اللہ کے دین کی عقل و دانش رکھتا ہے، اس کے نزدیک اس سے زیادہ قبیح اور بری بات یہ ہے، کہ میں بلا سند و حجّت (بلا علم) بات کہوں (جواب دوں) یا غیرثقہ ناقابلِ اعتبار آدمی سےروایت لوں۔ تو یحییٰ خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دے سکے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18487 و 18924 و 18925)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 34
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني بشر بن الحكم العبدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: اخبروني، عن ابي عقيل صاحب بهية، ان ابناء لعبد الله بن عمر، سالوه عن شيء، لم يكن عنده فيه علم، فقال له يحيي بن سعيد: والله إني لاعظم ان يكون مثلك وانت ابن إمامي الهدى يعني عمر وابن عمر، تسال عن امر ليس عندك فيه علم، فقال: اعظم من ذلك، والله عند الله، وعند من عقل عن الله، ان اقول بغير علم، او اخبر، عن غير ثقة، قال: وشهدهما ابو عقيل يحيى بن المتوكل، حين قالا ذلكوحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ الْعَبْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: أَخْبَرُونِي، عَنْ أَبِي عَقِيلٍ صَاحِبِ بُهَيَّةَ، أَنَّ أَبْنَاءً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، سَأَلُوهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ لَهُ يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْظِمُ أَنْ يَكُونَ مِثْلُكَ وَأَنْتَ ابْنُ إِمَامَيِ الْهُدَى يَعْنِي عُمَرَ وَابْنَ عُمَرَ، تُسْأَلُ عَنْ أَمْرٍ لَيْسَ عِنْدَكَ فِيهِ عِلْمٌ، فَقَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ، وَاللَّهِ عِنْدَ اللَّهِ، وَعِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، أَوْ أُخْبِرَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: وَشَهِدَهُمَا أَبُو عَقِيلٍ يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حِينَ قَالَا ذَلِك
بشر بن حکم عبدی نے مجھ سے بیان کیا، کہا: میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھے سے بہت سے لوگوں نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل سے (سن کر) روایت کی کہ (کچھ) لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے کوئی بات پوچھی جس کے بارے میں ان کے علم میں کچھ نہ تھا تو یحییٰ بن سعید نے ان سے کہا: میں اس کو بہت بڑی بات سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے انسان سے (جبکہ آپ ہدایت کے وو اماموں یعنی عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں، کوئی بات پوچھی جائے (اور) اس کےب ارے میں آپ کو کچھ علم نہ ہو۔ انہوں نے کہا: بخدا! اللہ کے نزدیک اور اس شخص کے نزدیک جسے اللہ نے عقل دی اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہوں یا کسی ایسے شخص سے روایت کروں جو ثقہ نہیں۔ (سفیان نے) کہا: ابو عقیل یحییٰ بن متوکل (بھی) ان کے پاس موجود تھے جب انہوں نے یہ بات کی۔
بہیہ نامی عورت کے شاگرد اور غلام ابوعقیلؒ بیان کرتے ہیں: کہ لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے (پوتے) سے ایک ایسا مسئلہ دریافت کیا، جس کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتے تھے، تو انھیں یحییٰ بن سعیدؒ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کو انتہائی ناگوار سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے مرتبہ کا مالک، جو ہدایت کے دو راہنماؤں کا، یعنی: عمرؓ اور ابنِ عمر ؓ کا بیٹا ہے، اس سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ اس کے بارے میں علم نہ رکھتے ہوں۔ تو انھوں نے جواب دیا: اس سے زیادہ ناگوار اور گراں اللہ کے ہاں اور ان لوگوں کے ہاں جو اللہ کے بارے میں عقل و شعور رکھتے ہیں، اللہ کی قسم! یہ بات ہے، کہ میں علم (دلیل وسند) کے بغیر بات کہہ دوں (رائے پیش کردوں) یا نا قابلِ اعتبار روایت سے پیش کردوں۔ سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں: ان دونوں (یحییٰؒ اور قاسمؒ) کی گفتگو کے وقت ابوعقیل یحییٰ بن متوکّلؒ موجود تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (19201 و 19533)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 35
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عمرو بن علي ابو حفص، قال: سمعت يحيى بن سعيد، قال: سالت سفيان الثوري، وشعبة، ومالكا، وابن عيينة، عن الرجل، لا يكون ثبتا في الحديث، فياتيني الرجل فيسالني عنه، قالوا: اخبر عنه، انه ليس بثبتوحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، وَشُعْبَةَ، وَمَالِكًا، وَابْنَ عُيَيْنَةَ، عَنِ الرَّجُلِ، لَا يَكُونُ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ، فَيَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي عَنْهُ، قَالُوا: أَخْبِرْ عَنْهُ، أَنَّهُ لَيْسَ بِثَبْتٍ
یحییٰ بن سعید نے کہا: میں نے سفیان ثوری، شعبہ، مالک اور ابن عیینہ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو حدیث میں پور ی طرح قابل اعتماد (ثقہ) نہ ہو، پھر کوئی آدمی آئے اور مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے؟ تو ان سب نے کہا: اس کے بارے میں بتا دو کہ وہ پوری طرح قابل اعتماد نہیں ہے
یحییٰ بن سعیدؒ بیان کرتے ہیں میں نے سفیان ثوریؒ، شعبہؒ، مالکؒ اور ابنِ عیینہؒ (ائمہ دین اور ائمہ جرح و تعدیل) سے پوچھا: ایک آدمی حدیث میں معتبر اور ثقہ نہیں ہے، کوئی دوسرا آدمی میرے پاس آتا ہے اور اس کے بارے میں دریافت کرتا ہے (کہ یہ ثقہ اور معتبر ہے یا نہیں) سب نے کہا: اس کے بارے میں بتا دوکہ یہ ثقہ اور معتبر نہیں ہے۔ (کیونکہ اگر اس کی اصلیت اور حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جائے گا، تو لوگ اس پر اعتماد کر کے اس کی غلط اور ضعیف روایات کو مان لیں گے اور وہ دین بن جائیں گی)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18762 و 18775 و 18803 و 19248)» ‏‏‏‏

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.