سنن ابي داود
عبد الله بن عمرو السهمي (حدثنا / عن)
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
37
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنْ عَيَّاشٍ، أَنَّ شِيَيْمَ بْنَ بَيْتَانَ أَخْبَرَهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَيْضًا، عَنْ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، يَذْكُرُ ذَلِكَ وَهُوَ مَعَهُ مُرَابِطٌ بِحِصْنِ بَابِ أَلْيُونَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: حِصْنُ أَلْيُونَ بِالْفِسْطَاطِ عَلَى جَبَلٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَهُوَ شَيْبَانُ بْنُ أُمَيَّةَ يُكْنَى أَبَا حُذَيْفَةَ.
ابوسالم جیشانی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اس وقت سنا جب وہ ان کے ساتھ (مصر میں) باب الیون کے قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: الیون کا قلعہ فسطاط (مصر) میں ایک پہاڑ پر واقع ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
97
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى قَوْمًا وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، فَقَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کو اس حال میں دیکھا کہ وضو کرنے میں ان کی ایڑیاں (پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے) خشک تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایڑیوں کو بھگونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی ہے وضو پوری طرح سے کرو ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
135
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الطُّهُورُ؟" فَدَعَا بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ فَأَدْخَلَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّاحَتَيْنِ فِي أُذُنَيْهِ وَمَسَحَ بِإِبْهَامَيْهِ عَلَى ظَاهِرِ أُذُنَيْهِ بَاطِنَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا الْوُضُوءُ، فَمَنْ زَادَ عَلَى هَذَا أَوْ نَقَصَ، فَقَدْ أَسَاءَ وَظَلَمَ، أَوْ ظَلَمَ وَأَسَاءَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وضو کس طرح کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں پہونچوں کو تین بار دھویا، پھر چہرہ تین بار دھویا، پھر دونوں ہاتھ تین بار دھلے، پھر سر کا مسح کیا، اور شہادت کی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں داخل کیا، اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے اپنے دونوں کانوں کے اوپری حصہ کا مسح کیا اور شہادت کی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھلے، پھر فرمایا: وضو (کا طریقہ) اسی طرح ہے جس شخص نے اس پر زیادتی یا کمی کی اس نے برا کیا، اور ظلم کیا، یا فرمایا: ظلم کیا اور برا کیا۔
حسن صحيح دون قوله أو نقص فإنه شاذ
سنن ابي داود
396
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ فَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آ جائے، عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو جائے، مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی ختم نہ ہو جائے، عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے۔
صحيح
سنن ابي داود
466
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، قَالَ: لَقِيتُ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ، فَقُلْتُ لَهُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ حَدَّثْتَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ"، قَالَ: أَقَطُّ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ، قَالَ الشَّيْطَانُ: حُفِظَ مِنِّي سَائِرَ الْيَوْمِ.
حیوہ بن شریح کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا تو میں نے ان سے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے: «أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم» (میں اللہ عظیم کی، اس کی ذات کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں) تو عقبہ نے کہا: کیا بس اتنا ہی؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے: اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
593
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عَبْدٍ الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" ثَلَاثَةٌ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُمْ صَلَاةً: مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا وَالدِّبَارُ أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ، وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: تین آدمیوں کی نماز اللہ قبول نہیں فرماتا: ایک تو وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز میں پیچھے آئے، پیچھے آنا یہ ہے کہ جماعت فوت ہو جانے یا وقت گزر جانے کے بعد آئے، اور تیسرا وہ شخص جو اپنے آزاد کئے ہوئے شخص کو دوبارہ غلام بنا لے۔
ضعيف إلا الشطر الأول فصحيح
سنن ابي داود
653
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ ننگے پاؤں نماز پڑھتے اور جوتے پہن کر بھی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
708
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ يَعْنِي فَصَلَّى إِلَى جِدَارٍ، فَاتَّخَذَهُ قِبْلَةً وَنَحْنُ خَلْفَهُ، فَجَاءَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَا زَالَ يُدَارِئُهَا حَتَّى لَصَقَ بَطْنَهُ بِالْجِدَارِ وَمَرَّتْ مِنْ وَرَائِهِ"، أَوْ كَمَا قَالَ مُسَدَّدٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اذاخر ۱؎ کی گھاٹی میں اترے تو نماز کا وقت ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیوار کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور ہم آپ کے پیچھے تھے، اتنے میں بکری کا ایک بچہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرنے لگا، تو آپ اسے دفع کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا پیٹ دیوار میں چپک گیا، وہ سامنے سے نہ جا سکے، آخر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے ہو کر چلا گیا، مسدد نے اسی کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
814
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ قَالَ:" مَا مِنْ الْمُفَصَّلِ سُورَةٌ صَغِيرَةٌ وَلَا كَبِيرَةٌ إِلَّا وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ النَّاسَ بِهَا فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مفصل ۱؎ کی چھوٹی بڑی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز میں لوگوں کی امامت کرتے ہوئے نہ سنا ہو۔
ضعيف
سنن ابي داود
950
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ يَعْنِي ابْنَ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" صَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاةِ" فَأَتَيْتُهُ فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي جَالِسًا، فَوَضَعْتُ يَدَيَّ عَلَى رَأْسِي، فَقَالَ:" مَا لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو؟"، قُلْتُ: حُدِّثْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ قُلْتَ:" صَلَاةُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلَاةِ"، وَأَنْتَ تُصَلِّي قَاعِدًا، قَالَ:" أَجَلْ وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بیٹھ کر پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے (تعجب سے) اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے؟، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو نصف ثواب ملتا ہے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سچ ہے، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1056
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ يَعْنِي الطَّائِفِيَّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْهٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْجُمُعَةُ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ جَمَاعَةٌ، عَنْ سُفْيَانَ مَقْصُورًا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَرْفَعُوهُ وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ قَبِيصَةُ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ ہر اس شخص پر ہے جس نے جمعہ کی اذان سنی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو ایک جماعت نے سفیان سے روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما پر موقوف کیا ہے اور صرف قبیصہ نے اسے مسند (یعنی مرفوع روایت) کیا ہے۔
ضعيف والصحيح وقفه
سنن ابي داود
1079
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ ضَالَّةٌ، وَأَنْ يُنْشَدَ فِيهِ شِعْرٌ، وَنَهَى عَنِ التَّحَلُّقِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے، کوئی گمشدہ چیز تلاش کرنے، شعر پڑھنے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
1151
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت تکبیر (زوائد) کے بعد ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1152
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ حَيَّانَ، عَنْ أَبِي يَعْلَى الطَّائِفِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ الْأُولَى سَبْعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُكَبِّرُ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يَرْكَعُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ وَكِيعٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَا:" سَبْعًا وَخَمْسًا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے پھر قرأت کرتے پھر الله أكبر کہتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے پھر رکوع کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وکیع اور ابن مبارک نے بھی روایت کیا ہے، ان دونوں نے سات اور پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔
حسن صحيح دون قوله أربعا والصواب خمسا كما يأتي من المؤلف معلقا
سنن ابي داود
1194
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْكَعُ، ثُمَّ رَكَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ، ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ، ثُمَّ رَفَعَ، وَفَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ نَفَخَ فِي آخِرِ سُجُودِهِ، فَقَالَ: أُفْ أُفْ، ثُمَّ قَالَ: رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ، أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لَا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ"، فَفَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا، تو آپ نماز کسوف کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع ہی نہیں کریں گے، پھر رکوع کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھائیں گے ہی نہیں، پھر سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر سجدے سے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، پھر اخیر سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھونک ماری اور اف اف کہا: پھر فرمایا: اے میرے رب! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں رہوں گا؟ کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے؟، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور حال یہ تھا کہ سورج بالکل صاف ہو گیا تھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
صحيح لكن بذكر الركوع مرتين كما في الصحيحين
سنن ابي داود
1298
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُفْيَانَ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ يَرَوْنَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْتِنِي غَدًا أَحْبُوكَ وَأُثِيبُكَ وَأُعْطِيكَ" حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ يُعْطِينِي عَطِيَّةً، قَالَ:" إِذَا زَالَ النَّهَارُ، فَقُمْ فَصَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ"، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ:" ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ، يَعْنِي مِنَ السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ، فَاسْتَوِ جَالِسًا وَلَا تَقُمْ حَتَّى تُسَبِّحَ عَشْرًا، وَتَحْمَدَ عَشْرًا، وَتُكَبِّرَ عَشْرًا، وَتُهَلِّلَ عَشْرًا، ثُمَّ تَصْنَعَ ذَلِكَ فِي الْأَرْبَعِ رَكَعَاتِ، قَالَ: فَإِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَعْظَمَ أَهْلِ الْأَرْضِ ذَنْبًا غُفِرَ لَكَ بِذَلِكَ" قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أُصَلِّيَهَا تِلْكَ السَّاعَةَ؟ قَالَ:" صَلِّهَا مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ خَالُ هِلَالٍ الرَّأْيِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا، وَرَوَاهُ رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ،وَجَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ النُّكْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ رَوْحٍ: فَقَالَ: حَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے جسے شرف صحبت حاصل تھا حدیث بیان کی ہے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما تھے، انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل تم میرے پاس آنا، میں تمہیں دوں گا، عنایت کروں گا اور نوازوں گا، میں سمجھا کہ آپ مجھے کوئی عطیہ عنایت فرمائیں گے (جب میں کل پہنچا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج ڈھل جائے تو کھڑے ہو جاؤ اور چار رکعت نماز ادا کرو، پھر ویسے ہی بیان کیا جیسے اوپر والی حدیث میں گزرا ہے، البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ: پھر تم سر اٹھاؤ یعنی دوسرے سجدے سے تو اچھی طرح بیٹھ جاؤ اور کھڑے مت ہو یہاں تک کہ دس دس بار تسبیح و تحمید اور تکبیر و تہلیل کر لو پھر یہ عمل چاروں رکعتوں میں کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اہل زمین میں سب سے بڑے گنہگار ہو گے تو بھی اس عمل سے تمہارے گناہوں کی بخشش ہو جائے گی، میں نے عرض کیا: اگر میں اس وقت یہ نماز ادا نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو رات یا دن میں کسی وقت ادا کر لو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حبان بن ہلال: ہلال الرای کے ماموں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے مستمر بن ریان نے ابوالجوزاء سے انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ نیز اسے روح بن مسیب اور جعفر بن سلیمان نے عمرو بن مالک نکری سے، عمرو نے ابوالجوزاء سے ابوالجوزاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، البتہ راوی نے روح کی روایت میں «فقال حديث عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم » (تو ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی) کے جملے کا اضافہ کیا ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1389
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَاقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ" فَنَاقَصَنِي، وَنَاقَصْتُهُ، فَقَالَ:" صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا". قَالَ عَطَاءٌ: وَاخْتَلَفْنَا عَنْ أَبِي، فَقَالَ بَعْضُنَا: سَبْعَةَ أَيَّامٍ، وَقَالَ بَعْضُنَا: خَمْسًا.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کرو، پھر میرے اور آپ کے درمیان کم و زیادہ کرنے کی بات ہوئی ۱؎ آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن افطار کیا کرو۔ عطا کہتے ہیں: ہم نے اپنے والد سے روایت میں اختلاف کیا ہے، ہم میں سے بعض نے سات دن اور بعض نے پانچ دن کی روایت کی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1390
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ:" فِي شَهْرٍ" قَالَ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، يُرَدِّدُ الْكَلَامَ أَبُو مُوسَى وَتَنَاقَصَهُ حَتَّى قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ" قَالَ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَهُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک ماہ میں، کہا: میں اس سے زیادہ کی قدرت رکھتا ہوں (ابوموسیٰ یعنی محمد بن مثنیٰ اس بات کو باربار دہراتے رہے) آپ اسے کم کرتے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے سات دن میں ختم کیا کرو، کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: وہ قرآن نہیں سمجھتا جو اسے تین دن سے کم میں پڑھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1391
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَطَّانُ خَالُ عِيسَى بْنِ شَاذَانَ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا الْحَرِيشُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ" قَالَ: إِنَّ بِي قُوَّةً، قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي ثَلَاثٍ"، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: سَمِعْت أَبَا دَاوُد، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: عِيسَى بْنُ شَاذَانَ كَيِّسٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: قرآن ایک مہینے میں پڑھا کرو، انہوں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تین دن میں پڑھا کرو۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ احمد بن حنبل کہتے تھے: عیسیٰ بن شاذان سمجھدار آدمی ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1394
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھتا ہے سمجھتا نہیں ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1395
حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ؟ قَالَ:" فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا" ثُمَّ قَالَ:" فِي شَهْرٍ"، ثُمَّ قَالَ:" فِي عِشْرِينَ"، ثُمَّ قَالَ:" فِي خَمْسَ عَشْرَةَ"، ثُمَّ قَالَ:" فِي عَشْرٍ"، ثُمَّ قَالَ:" فِي سَبْعٍ" لَمْ يَنْزِلْ مِنْ سَبْعٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس دن میں، پھر فرمایا: ایک ماہ میں، پھر فرمایا: بیس دن میں، پھر فرمایا: پندرہ دن میں، پھر فرمایا: دس دن میں، پھر فرمایا: سات دن میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات سے نیچے نہیں اترے۔
صحيح إلا قوله لم ينزل من سبع شاذ لمخالفته لقوله اقرأه في ثلاث
سنن ابي داود
1398
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا سَوِيَّةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ حُجَيْرَةَ يُخْبِرُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ، وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ، وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِينَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: ابْنُ حُجَيْرَةَ الْأَصْغَرُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ حُجَيْرَةَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دس آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا، اور جو ایک ہزار آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ بے انتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن حجیرہ الاصغر سے مراد عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن حجیرہ ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
1464
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے ۲؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1535
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ أَسْرَعَ الدُّعَاءِ إِجَابَةً دَعْوَةُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کسی غائب کے لیے کرے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1563
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، الْمَعْنَى أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا:" أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟" قَالَتْ: لَا، قَالَ:" أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟" قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا، فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دئیے اور بولی: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
حسن
سنن ابي داود
1591
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا جَلَبَ، وَلَا جَنَبَ، وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلَّا فِي دُورِهِمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ «جلب» صحیح ہے نہ «جنب» لوگوں سے زکاۃ ان کے ٹھکانوں میں ہی لی جائے گی ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
1600
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ الْمِصْرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَ هِلَالٌ أَحَدُ بَنِي مُتْعَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُشُورِ نَحْلٍ لَهُ، وَكَانَ سَأَلَهُ أَنْ يَحْمِيَ لَهُ وَادِيًا يُقَالُ لَهُ: سَلَبَةُ،" فَحَمَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الْوَادِي"، فَلَمَّا وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَتَبَ سُفْيَانُ بْنُ وَهْبٍ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَكَتَبَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنْ أَدَّى إِلَيْكَ مَا كَانَ يُؤَدِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عُشُورِ نَحْلِهِ فَاحْمِ لَهُ سَلَبَةَ، وَإِلَّا فَإِنَّمَا هُوَ ذُبَابُ غَيْثٍ يَأْكُلُهُ مَنْ يَشَاءُ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی متعان کے ایک فرد متعان اپنے شہد کا عشر (دسواں حصہ) لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے ایک سلبہ نامی جنگل کا ٹھیکا طلب کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگل کو ٹھیکے پردے دیا، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وہب نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، وہ ان سے اس کے متعلق پوچھ رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں (جواب میں) لکھا اگر ہلال تم کو اسی قدر دیتے ہیں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے یعنی اپنے شہد کا دسواں حصہ، تو سلبہ کا ان کا ٹھیکا قائم رکھو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو مکھیاں بھی جنگل کی دوسری مکھیوں کی طرح ہیں، جو چاہے ان کا شہد کھا سکتا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1601
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ، وَنَسَبَهُ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ شَبَابَةَ بَطْنٌ مِنْ فَهْمٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ: مِنْ كُلِّ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَةٌ، وَقَالَ سُفْيَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: وَكَانَ يَحْمِي لَهُمْ وَادِيَيْنِ، زَادَ: فَأَدَّوْا إِلَيْهِ مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَمَى لَهُمْ وَادِيَيْهِمْ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ شبابہ جو قبیلہ فہم کی ایک شاخ ہے، پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا اور کہا: ہر دس مشک میں سے ایک مشک زکاۃ ہے۔ سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں: وہ ان کے لیے دو وادیوں کو ٹھیکہ پر دیئے ہوئے تھے، اور مزید کہتے ہیں: تو وہ لوگ انہیں اسی قدر شہد دیتے تھے جتنا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے اور آپ نے ان کے لیے دو وادیوں کو ٹھیکہ پر دیا تھا۔
حسن
سنن ابي داود
1602
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ بَطْنًا مِنْ فَهْمٍ بِمَعْنَى الْمُغِيرَةِ، قَالَ: مِنْ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَةٌ، وَقَالَ: وَادِيَيْنِ لَهُمْ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ہم معنی روایت ہے اس میں «إن شبابة بطن من فهم» کے بجائے «إن بطنا من فهم» ہے اور «من كل عشر قرب قربة» کے بجائے «من عشر قرب قربة» اور «لهم وادييهم» کے بجائے «واديين لهم» ہے۔
حسن
سنن ابي داود
1634
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الْأَنْبَارِيُّ الْخُتُّلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، كَمَا قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ لِذِي مِرَّةٍ قَوِيٍّ، وَالْأَحَادِيثُ الْأُخَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضُهَا لِذِي مِرَّةٍ قَوِيٍّ وَبَعْضُهَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ، وقَالَ عَطَاءُ بْنُ زُهَيْرٍ: أَنَّهُ لَقِيَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فَقَالَ: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِقَوِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ مالدار کے لیے حلال نہیں اور نہ طاقتور اور مضبوط آدمی کے لیے (حلال ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سفیان نے سعد بن ابراہیم سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے ابراہیم نے کہا ہے نیز اسے شعبہ نے سعد سے روایت کیا ہے، اس میں «لذي مرة سوي» کے بجائے «لذي مرة قوي» کے الفاظ ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض روایات میں «لذي مرة قوي» اور بعض میں «لذي مرة سوي» کے الفاظ ہیں۔ عطا بن زہیر کہتے ہیں: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: «إن الصدقة لا تحل لقوي ولا لذي مرة سوي» ۔
صحيح
سنن ابي داود
1692
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ جَابِرٍ الْخَيْوَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے ضائع کر دے ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
1698
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالشُّحِّ، أَمَرَهُمْ بِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَأَمَرَهُمْ بِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: بخل و حرص سے بچو اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ بخل و حرص کی وجہ سے ہلاک ہوئے، حرص نے لوگوں کو بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہو گئے، بخیل نے انہیں ناتا توڑنے کو کہا تو لوگوں نے ناتا توڑ لیا اور اس نے انہیں فسق و فجور کا حکم دیا تو وہ فسق و فجور میں لگ گئے۔
صحيح
سنن ابي داود
1710
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ"، وَذَكَرَ فِي ضَالَّةِ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ كَمَا ذَكَرَهُ غَيْرُهُ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ:" مَا كَانَ مِنْهَا فِي طَرِيقِ الْمِيتَاءِ أَوِ الْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهِيَ لَكَ، وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ يَعْنِي فَفِيهَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کر لے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہو گی، اور جب میوہ پک کر سوکھنے کے لیے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کر لے جائے جس کی قیمت سپر (ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے: آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لقطہٰ گزر گاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہٰ کسی اجڑے یا غیر آباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز (جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہو گا۔
حسن
سنن ابي داود
1899
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" طُفْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ، فَلَمَّا جِئْنَا دُبُرَ الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: أَلَا تَتَعَوَّذُ؟ قَالَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَأَقَامَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ فَوَضَعَ صَدْرَهُ وَوَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَكَفَّيْهِ هَكَذَا وَبَسَطَهُمَا بَسْطًا، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ طواف کیا، جب ہم لوگ کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے کہا: کیا آپ پناہ نہیں مانگیں گے؟ اس پر انہوں نے کہا: ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی آگ سے، پھر وہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، اور حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان کھڑے رہے اور اپنا سینہ، اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور انہوں نے انہیں پوری طرح پھیلایا، پھر بولے: اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2014
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى يَسْأَلُونَهُ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ"، وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ:" ارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ أَوْ أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:" اصْنَعْ وَلَا حَرَجَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں منیٰ میں ٹھہرے، لوگ آپ سے سوالات کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم نہ تھا میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذبح کر لو کوئی حرج نہیں، پھر ایک اور شخص آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم نہ تھا میں نے رمی کرنے سے پہلے نحر کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمی کر لو، کوئی حرج نہیں، اس طرح جتنی چیزوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا جو آگے پیچھے ہو گئیں تھیں آپ نے فرمایا: کر ڈالو، کوئی حرج نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2051
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ مَرْثَدَ بْنَ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ كَانَ يَحْمِلُ الْأَسَارَى بِمَكَّةَ، وَكَانَ بِمَكَّةَ بَغِيٌّ يُقَالُ لَهَا: عَنَاقُ، وَكَانَتْ صَدِيقَتَهُ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْكِحُ عَنَاقَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي، فَنَزَلَتْ: وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ سورة النور آية 3، فَدَعَانِي، فَقَرَأَهَا عَلَيَّ، وَقَالَ:" لَا تَنْكِحْهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ قیدیوں کو مکہ سے اٹھا لایا کرتے تھے، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، مرثد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں عناق سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو آیت کریمہ «والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور اسے پڑھ کر سنایا اور فرمایا: تم اس سے شادی نہ کرنا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2129
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ عَلَى صَدَاقٍ أَوْ حِبَاءٍ أَوْ عِدَّةٍ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لَهَا، وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ وَأَحَقُّ مَا أُكْرِمَ عَلَيْهِ الرَّجُلُ ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے مہر یا عطیہ یا وعدے پر نکاح کیا تو نکاح سے قبل ملنے والی چیز عورت کی ہو گی اور جو کچھ نکاح کے بعد ملے گا وہ اسی کا ہے جس کو دیا گیا (انعام وغیرہ)، مرد جس چیز کے سبب اپنے اکرام کا مستحق ہے وہ اس کی بیٹی یا بہن ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2192
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ: زَادَ:" وَلَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ".
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی روایت آئی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہی نذر ماننا درست ہے جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔
حسن
سنن ابي داود
2274
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا دَعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں، زمانہ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2276
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کا گھر رہا، میری چھاتی اس کے پینے کا برتن بنی، میری گود اس کا ٹھکانہ بنی، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے، اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تو (دوسرا) نکاح نہیں کر لیتی اس کی تو ہی زیادہ حقدار ہے۔
حسن
سنن ابي داود
2427
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَقُولُ لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ؟ قَالَ: أَحْسَبُهُ، قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ قُلْتُ ذَاكَ. قَالَ: قُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ وَصُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَذَاكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ: فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ. قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ: فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ وَهُوَ صِيَامُ دَاوُدَ. قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو وہ کہتے ہیں: اس پر میں نے کہا: میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ایک دن روزہ رکھو، اور ایک دن افطار کرو، یہ عمدہ روزہ ہے، اور داود علیہ السلام کا روزہ ہے میں نے کہا: مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے افضل کوئی روزہ نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2481
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو وَعِنْدَهُ الْقَوْمُ حَتَّى جَلَسَ عِنْدَهُ، فَقَالَ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔
صحيح
سنن ابي داود
2482
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ فَخِيَارُ أَهْلِ الأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِيمَ وَيَبْقَى فِي الأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: عنقریب ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی تو زمین والوں میں بہتر وہ لوگ ہوں گے جو ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ (شام) کو لازم پکڑیں گے، اور زمین میں ان کے بدترین لوگ رہ جائیں گے، ان کی سر زمین انہیں باہر پھینک دے گی ۱؎ اور اللہ کی ذات ان سے گھن کرے گی اور آگ انہیں بندروں اور سوروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی ۲؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2487
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنِ ابْنِ شُفَيٍّ، عَنْ شُفَيِّ بْنِ مَاتِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قَفْلَةٌ كَغَزْوَةٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد سے لوٹنا (ثواب میں) جہاد ہی کی طرح ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2489
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ بِشْرٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَرْكَبُ الْبَحْرَ إِلَّا حَاجٌّ أَوْ مُعْتَمِرٌ أَوْ غَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا".
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سمندر کا سفر نہ کرے مگر حج کرنے والا، یا عمرہ کرنے والا، یا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور اس آگ کے نیچے سمندر ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2519
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ حَنَانِ بْنِ خَارِجَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنِ الْجِهَادِ وَالْغَزْوِ، فَقَالَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو إِنْ قَاتَلْتَ صَابِرًا مُحْتَسِبًا بَعَثَكَ اللَّهُ صَابِرًا مُحْتَسِبًا، وَإِنْ قَاتَلْتَ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا بَعَثَكَ اللَّهُ مُرَائِيًا مُكَاثِرًا، يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو عَلَى أَيِّ حَالٍ قَاتَلْتَ أَوْ قُتِلْتَ بَعَثَكَ اللَّهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جہاد اور غزوہ کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبداللہ بن عمرو! اگر تم صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں صابر اور محتسب (ثواب کی نیت رکھنے والا) بنا کر اٹھائے گا، اور اگر تم ریاکاری اور فخر کے اظہار کے لیے جہاد کرو گے تو اللہ تمہیں ریا کار اور فخر کرنے والا بنا کر اٹھائے گا، اے عبداللہ بن عمرو! تم جس حال میں بھی لڑو یا شہید ہو اللہ تمہیں اسی حال پر اٹھائے گا۔
ضعيف
سنن ابي داود
2528
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ:" ارْجِعْ عَلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جاؤ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2529
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُجَاهِدُ؟ قَالَ:" أَلَكَ أَبَوَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو الْعَبَّاسِ: هَذَا الشَّاعِرُ اسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں جہاد کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دونوں میں جہاد کرو ۱؎ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابو العباس شاعر ہیں جن کا نام سائب بن فروخ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2607
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سوار شیطان ہے اور دو سوار دو شیطان ہیں، اور تین سوار قافلہ ہیں ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2694
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَاءَهُمْ وَأَبْنَاءَهُمْ فَمَنْ مَسَكَ بِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَإِنَّ لَهُ بِهِ عَلَيْنَا سِتَّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ شَيْءٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَلَيْنَا، ثُمَّ دَنَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعِيرٍ فَأَخَذَ وَبَرَةً مِنْ سَنَامِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ هَذَا الْفَيْءِ شَيْءٌ وَلَا هَذَا، وَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ إِلَّا الْخُمُسَ وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ فَأَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمِخْيَطَ. فَقَامَ رَجُلٌ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ: أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْذَعَةً لِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مَا كَانَ لِي وَ لِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكَ، فَقَالَ: أَمَّا إِذْ بَلَغَتْ مَا أَرَى فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا وَنَبَذَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اسی قصہ کی روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی عورتوں اور بچوں کو واپس لوٹا دو، اور جو کوئی اس مال غنیمت سے اپنا حصہ باقی رکھنا چاہے تو ہم اس کو اس پہلے مال غنیمت سے جو اللہ ہمیں دے گا چھ اونٹ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے قریب آئے اور اس کی کوہان سے ایک بال لیا پھر فرمایا: لوگو! میرے لیے اس مال غنیمت سے کچھ بھی حلال نہیں ہے، اور اپنی دونوں انگلیاں اٹھا کر کہا: یہاں تک کہ یہ (بال) بھی حلال نہیں سوائے خمس (پانچواں حصہ) کے، اور خمس بھی تمہارے ہی اوپر لوٹا دیا جاتا ہے، لہٰذا تم سوئی اور دھاگا بھی ادا کر دو (یعنی بیت المال میں جمع کر دو)، ایک شخص کھڑا ہو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا تھا، اس نے کہا: میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا میرا اور بنی عبدالمطلب کا حصہ تو وہ تمہارے لیے ہے، تو اس نے کہا: جب معاملہ اتنا اہم ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس نے اسے (غنیمت کے مال میں) پھینک دیا ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2712
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَصَابَ غَنِيمَةً أَمَرَ بِلَالًا فَنَادَى فِي النَّاسِ فَيَجِيئُونَ بِغَنَائِمِهِمْ فَيَخْمُسُهُ وَيُقَسِّمُهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِكَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا فِيمَا كُنَّا أَصَبْنَاهُ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَقَالَ: أَسَمِعْتَ بِلَالًا يُنَادِي ثَلَاثًا؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَجِيءَ بِهِ، فَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ: كُنْ أَنْتَ تَجِيءُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَلَنْ أَقْبَلَهُ عَنْكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مال غنیمت حاصل ہوتا تو آپ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ لوگ اپنا مال غنیمت لے کر آئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے خمس (پانچواں حصہ) نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیتے، ایک شخص اس تقسیم کے بعد بال کی ایک لگام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بھی اسی مال غنیمت میں سے ہے جو ہمیں ملا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے بلال رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ آواز لگاتے سنا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اسے لانے سے تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ تو اس نے آپ سے کچھ عذر بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ لے جاؤ، قیامت کے دن لے کر آنا، میں تم سے اسے ہرگز قبول نہیں کروں گا۔
حسن
سنن ابي داود
2715
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ حَرَّقُوا مَتَاعَ الْغَالِّ وَضَرَبُوهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَزَادَ فِيهِ عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، عَنْ الْوَلِيدِ وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ وَمَنَعُوهُ سَهْمَهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وحَدَّثَنَا بِهِ الْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ قَوْلَهُ: وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ مَنْعَ سَهْمِهِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے خیانت کرنے والے کے سامان کو جلا دیا اور اسے مارا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: علی بن بحر نے اس حدیث میں ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے کہ اسے اس کا حصہ نہیں دیا، لیکن میں نے یہ زیادتی علی بن بحر سے نہیں سنی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہم سے ولید بن عتبہ اور عبدالوہاب بن نجدہ نے بھی بیان کیا ہے ان دونوں نے کہا اسے ہم سے ولید (ولید بن مسلم) نے بیان کیا ہے انہوں نے زہیر بن محمد سے زہیر نے عمرو بن شعیب سے موقوفاً روایت کیا ہے اور عبدالوہاب بن نجدہ حوطی نے حصہ سے محروم کر دینے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2747
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلَاثِ مِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ"، فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَانْقَلَبُوا حِينَ انْقَلَبُوا، وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَيْنِ وَاكْتَسَوْا وَشَبِعُوا.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دن تین سو پندرہ افراد کے ہم راہ نکلے تو آپ نے یہ دعا فرمائی: «اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فأشبعهم» اے اللہ! یہ لوگ پیدل ہیں تو ان کو سوار کر دے، اے اللہ! یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑا دیدے، اے اللہ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کو آسودہ کر دے، پھر اللہ نے بدر کے دن انہیں فتح دی، جب وہ لوٹے تو کوئی بھی آدمی ان میں سے ایسا نہ تھا جو ایک یا دو اونٹ لے کر نہ آیا ہو، اور ان کے پاس کپڑے بھی ہو گئے اور وہ آسودہ بھی ہو گئے۔
حسن
سنن ابي داود
2789
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى، أَفَأُضَحِّي بِهَا قَالَ: لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
2857
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا يُقَالُ لَهُ أَبُو ثَعْلَبَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِي صَيْدِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ لَكَ كِلَابٌ مُكَلَّبَةٌ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، قَالَ: وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنِي فِي قَوْسِي، قَالَ: كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنِّي، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنْكَ مَا لَمْ يَصِلَّ أَوْ تَجِدَ فِيهِ أَثَرًا غَيْرَ سَهْمِكَ، قَالَ: أَفْتِنِي فِي آنِيَةِ الْمَجُوسِ إِنِ اضْطُرِرْنَا إِلَيْهَا، قَالَ: اغْسِلْهَا وَكُلْ فِيهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ نامی ایک دیہاتی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس شکار کے لیے تیار سدھائے ہوئے کتے ہیں، ان کے شکار کے سلسلہ میں مجھے بتائیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں انہیں کھاؤ۔ ابو ثعلبہ نے کہا: خواہ میں ان کو ذبح کر سکوں یا نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ابو ثعلبہ نے کہا: اگرچہ وہ کتے اس جانور میں سے کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ وہ اس جانور میں سے کھا لیں۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے تیر کمان سے شکار کے متعلق بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا تیر کمان جو تمہیں لوٹا دے اسے کھاؤ، خواہ تم اسے ذبح کر پاؤ یا نہ کر پاؤ۔ انہوں نے کہا: اگرچہ وہ شکار تیر کھا کر میری نظروں سے اوجھل ہو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگرچہ وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائے جب تک کہ گلے سڑے نہیں، اور تمہارے تیر کے سوا اس کی ہلاکت کا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو سکے۔ پھر انہوں نے کہا: مجوسیوں (پارسیوں) کے برتن کے متعلق بتائیے جب کہ ہمیں اس کے سوا دوسرا برتن نہ ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دھو ڈالو اور اس میں کھاؤ۔
حسن لكن قوله وإن أكل منه منكر
سنن ابي داود
2872
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَيْءٌ وَلِي يَتِيمٌ، قَالَ: فَقَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَادِرٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا، نہ جلد بازی دکھانا (اس کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے) نہ اس کے مال سے کما کر اپنا مال بڑھانا ۱؎۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2883
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ أَوْصَى أَنْ يُعْتِقَ عَنْهُ مِائَةُ رَقَبَةٍ، فَأَعْتَقَ ابْنُهُ هِشَامٌ خَمْسِينَ رَقَبَةً، فَأَرَادَ ابْنُهُ عَمْرٌو أَنْ يُعْتِقَ عَنْهُ الْخَمْسِينَ الْبَاقِيَةَ، فَقَالَ: حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَوْصَى بِعَتْقِ مِائَةِ رَقَبَةٍ، وَإِنَّ هِشَامًا أَعْتَقَ عَنْهُ خَمْسِينَ وَبَقِيَتْ عَلَيْهِ خَمْسُونَ رَقَبَة، أَفَأُعْتِقُ عَنْهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ، أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ، أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ"، بَلَغَهُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے، اس کے بعد اس کے (دوسرے) بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی پچاس وہ اس کی طرف سے آزاد کر دیں، پھر انہوں نے کہا: (ہم رکے رہے) یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی تو ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کر دیئے ہیں، اور پچاس غلام ابھی آزاد کرنے باقی ہیں تو کیا میں انہیں اس کی طرف سے آزاد کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ (باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا ۱؎۔
حسن
سنن ابي داود
2885
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْروِ بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اصل) علم تین ہیں اور ان کے علاوہ علوم کی حیثیت فضل (زائد) کی ہے: آیت محکمہ ۲؎، یا سنت قائمہ ۳؎، یا فریضہ عادلہ ۴؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
2908
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، أَخْبَرَنِي عِيسَى أَبُو مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل مروی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2911
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتَّى".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو دین والے (یعنی مسلمان اور کافر) کبھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3107
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حُيَيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنِ ابْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ يَعُودُ مَرِيضًا، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ، يَنْكَأُ لَكَ عَدُوًّا، أَوْ يَمْشِي لَكَ إِلَى جَنَازَةٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَالَ ابْنُ السَّرْحِ: إِلَى صَلَاةٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بیمار کے پاس عیادت کے لیے جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ کہے: «اللهم اشف عبدك ينكأ لك عدوا أو يمشي لك إلى جنازة» اے اللہ! اپنے بندے کو شفاء دے تاکہ تیری راہ میں دشمن سے قتال و خوں ریزی کرے یا تیری خوشی کی خاطر جنازے کے ساتھ جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سرح نے اپنی روایت میں «إلى جنازة» کے بجائے «إلى صلاة» کہا ہے یعنی نماز جنازہ پڑھنے جائے۔
صحيح
سنن ابي داود
3123
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَبَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي مَيِّتًا، فَلَمَّا فَرَغْنَا، انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْصَرَفْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا حَاذَى بَابَهُ وَقَفَ، فَإِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ مُقْبِلَةٍ، قَالَ: أَظُنُّهُ عَرَفَهَا، فَلَمَّا ذَهَبَتْ، إِذَا هِيَ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَخْرَجَكِ يَا فَاطِمَةُ مِنْ بَيْتِكِ؟ فَقَالَتْ: أَتَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ، فَرَحَّمْتُ إِلَيْهِمْ مَيِّتَهُمْ، أَوْ عَزَّيْتُهُمْ بِهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَعَلَّكِ بَلَغْتِ مَعَهُمُ الْكُدَى، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، وَقَدْ سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ فِيهَا مَا تَذْكُرُ، قَالَ: لَوْ بَلَغْتِ مَعَهُمُ الْكُدَى" فَذَكَرَ تَشْدِيدًا فِي ذَلِكَ، فَسَأَلْتُ رَبِيعَةَ عَنِ الْكُدَى، فَقَالَ: الْقُبُورُ فِيمَا أَحْسَبُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک میت کو دفنایا، جب ہم تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے، ہم بھی آپ کے ساتھ لوٹے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دروازے کے سامنے آئے تو رک گئے، اچانک ہم نے دیکھا کہ ایک عورت چلی آ رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پہچان لیا، جب وہ چلی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: فاطمہ! تم اپنے گھر سے کیوں نکلی؟، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس گھر والوں کے پاس آئی تھی تاکہ میں ان کی میت کے لیے اللہ سے رحم کی دعا کروں یا ان کی تعزیت کروں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: شاید تم ان کے ساتھ کُدی (مکہ میں ایک جگہ ہے) گئی تھی، انہوں نے کہا: معاذاللہ! میں تو اس بارے میں آپ کا بیان سن چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ان کے ساتھ کدی گئی ہوتی تو میں ایسا ایسا کرتا، (اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت رویے کا اظہار فرمایا)۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ربیعہ سے کدی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں اس سے قبریں مراد ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3273
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، وَلَا يَمِينَ فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف ان چیزوں میں نذر جائز ہے جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہو اور قسم (قطع رحمی) ناتا توڑنے کے لیے جائز نہیں۔
حسن
سنن ابي داود
3274
حَدَّثَنَا الْمُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نَذْرَ وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ، وَلَا فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِي قَطِيعَةِ رَحِمٍ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَلْيَدَعْهَا وَلْيَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، فَإِنَّ تَرْكَهَا كَفَّارَتُهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ إِلَّا فِيمَا لَا يُعْبَأُ بِهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُلْتُ لِأَحْمَدَ: رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: تَرَكَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، وَكَانَ أَهْلًا لِذَلِكَ، قَالَ أَحْمَدُ: أَحَادِيثُهُ مَنَاكِيرُ، وَأَبُوهُ لَا يُعْرَفُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو ابن آدم کے اختیار میں نہ ہو، اور نہ اللہ کی نافرمانی میں، اور نہ ناتا توڑنے میں، جو قسم کھائے اور پھر اسے بھلائی اس کے خلاف میں نظر آئے تو اس قسم کو چھوڑ دے (پوری نہ کرے) اور اس کو اختیار کرے جس میں بھلائی ہو کیونکہ اس قسم کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ تمام حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۱؎ اور چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دیں مگر جو قسمیں بے سوچے کھائی جاتی ہیں اور ان کا خیال نہیں کیا جاتا تو ان کا کفارہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: کیا یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عبیداللہ سے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پہلے کی تھی، پھر ترک کر دیا، اور وہ اسی کے لائق تھے کہ ان سے روایت چھوڑ دی جائے، احمد کہتے ہیں: ان کی حدیثیں منکر ہیں اور ان کے والد غیر معروف ہیں ۲؎۔
حسن إلا قوله ومن حلف فهو منكر
سنن ابي داود
3312
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ:" أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى رَأْسِكَ بِالدُّفِّ، قَالَ: أَوْفِي بِنَذْرِكِ، قَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا مَكَانٌ كَانَ يَذْبَحُ فِيهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: لِصَنَمٍ؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: لِوَثَنٍ؟، قَالَتْ: لَا، قَالَ: أَوْفِي بِنَذْرِكِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجاؤں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بجا کر) اپنی نذر پوری کر لو اس نے کہا: میں نے ایسی ایسی جگہ قربانی کرنے کی نذر (بھی) مانی ہے جہاں جاہلیت کے زمانہ کے لوگ ذبح کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کسی صنم (بت) کے لیے؟ اس نے کہا: نہیں، پوچھا: کسی وثن (بت) کے لیے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3357
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ،عَنْ عَمْرِو بْنِ حَرِيشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنّ رسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَهُ أَنْ يُجَهِّزَ جَيْشًا، فَنَفِدَتِ الْإِبِلُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ فِي قِلَاصِ الصَّدَقَةِ فَكَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيرَ بِالْبَعِيرَيْنِ إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا، تو اونٹ کم پڑ گئے تو آپ نے صدقہ کے جوان اونٹ کے بدلے اونٹ (ادھار) لینے کا حکم دیا تو وہ صدقہ کے اونٹ آنے تک کی شرط پر دو اونٹ کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3456
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُتَبَايِعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خرید و فروخت کرنے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر جب بیع خیار ہو، (تو جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) بائع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے۔
حسن
سنن ابي داود
3502
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْعُرْبَانِ"، قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ فِيمَا نَرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْعَبْدَ أَوْ يَتَكَارَى الدَّابَّةَ، ثُمَّ يَقُولُ: أُعْطِيكَ دِينَارًا عَلَى أَنِّي إِنْ تَرَكْتُ السِّلْعَةَ أَوِ الْكِرَاءَ فَمَا أَعْطَيْتُكَ لَكَ.
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا (اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا)۔
ضعيف
سنن ابي داود
3504
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ حَتَّى ذَكَرَ، عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ تَضْمَنْ، وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎ اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎ اور نہ اس چیز کا نفع لینا درست ہے، جس کا وہ ابھی ضامن نہ ہوا ہو، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہیں ۳؎ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3530
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي، قَالَ: أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال ہے اور والد بھی ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے ۱؎ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے (یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3540
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَثَلُ الَّذِي يَسْتَرِدُّ مَا وَهَبَ كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَقِيءُ فَيَأْكُلُ قَيْئَهُ، فَإِذَا اسْتَرَدَّ الْوَاهِبُ فَلْيُوَقَّفْ، فَلْيُعَرَّفْ بِمَا اسْتَرَدَّ، ثُمَّ لِيُدْفَعْ إِلَيْهِ مَا وَهَبَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے، تو جب ہدیہ دینے والا واپس مانگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پوچھنا چاہیئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے، (اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دیدے یا اور کوئی وجہ ہو تو) پھر اس کا دیا ہوا اسے لوٹا دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3547
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جائز نہیں ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3580
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے، اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت کی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3600
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ شَهَادَةَ الْخَائِنِ، وَالْخَائِنَةِ، وَذِي الْغِمْرِ عَلَى أَخِيهِ، وَرَدَّ شَهَادَةَ الْقَانِعِ لِأَهْلِ الْبَيْتِ، وَأَجَازَهَا لِغَيْرِهِمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْغِمْرُ الْحِنَةُ، وَالشَّحْنَاءُ، وَالْقَانِعُ الْأَجِيرُ التَّابِعُ مِثْلُ الْأَجِيرِ الْخَاصِّ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کرنے والے مرد، خیانت کرنے والی عورت اور اپنے بھائی سے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کی شہادت رد فرما دی ہے، اور خادم کی گواہی کو جو اس کے گھر والوں (مالکوں) کے حق میں ہو رد کر دیا ہے اور دوسروں کے لیے جائز رکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «غمر» کے معنیٰ: کینہ اور بغض کے ہیں، اور «قانع» سے مراد پرانا ملازم مثلاً خادم خاص ہے۔
حسن
سنن ابي داود
3639
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَضَى فِي السَّيْلِ الْمَهْزُورِ أَنْ يُمْسَكَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسِلُ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَلِ".
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ ٹخنے کے برابر نہ پہنچ جائے، پھر اوپر والا نیچے والے کے لیے چھوڑ دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3663
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُحَدِّثُنَا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ حَتَّى يُصْبِحَ مَا يَقُومُ إِلَّا إِلَى عُظْمِ صَلَاةٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بنی اسرائیل کی باتیں اس قدر بیان کرتے کہ صبح ہو جاتی اور صرف فرض نماز ہی کے لیے اٹھتے۔
صحيح الإسناد
سنن ابي داود
3685
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" نَهَى عَنِ الْخَمْرِ، وَالْمَيْسِرِ، وَالْكُوبَةِ، وَالْغُبَيْرَاءِ، وَقَالَ: كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ: الْغُبَيْرَاءُ: السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنَ الذُّرَةِ، شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، جوا، کوبہ (چوسر یا ڈھولک) اور غبیراء سے منع کیا، اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سلام ابو عبید نے کہا ہے: غبیراء ایسی شراب ہے جو مکئی سے بنائی جاتی ہے حبشہ کے لوگ اسے بناتے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
3700
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ زِيَادِ بْنِ فَيَّاضٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَوْعِيَةَ الدُّبَّاءَ، وَالْحَنْتَمَ، وَالْمُزَفَّتَ، وَالنَّقِيرَ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: إِنَّهُ لَا ظُرُوفَ لَنَا، فَقَالَ: اشْرَبُوا مَا حَلَّ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء، حنتم، مزفت، اور نقیر کے برتنوں کا ذکر کیا ۱؎ تو ایک دیہاتی نے عرض کیا: ہمارے پاس تو اور کوئی برتن ہی نہیں رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جو حلال ہوا سے پیو۔
صحيح
سنن ابي داود
3770
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" مَا رُئِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مُتَّكِئًا قَطُّ، وَلَا يَطَأُ عَقِبَهُ رَجُلَانِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے، اور نہ ہی آپ کے پیچھے دو آدمیوں کو چلتے دیکھا گیا (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیچ میں یا سب سے پیچھے چلا کرتے تھے)۔
صحيح
سنن ابي داود
3792
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي خَالِدَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ، يَقُولُ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو كَانَ بالصِّفَاحِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: مَكَانٌ بِمَكَّةَ،" وَإِنَّ رَجُلًا جَاءَ بِأَرْنَبٍ قَدْ صَادَهَا، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، مَا تَقُولُ؟ قَالَ: قَدْ جِيءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جَالِسٌ، فَلَمْ يَأْكُلْهَا وَلَمْ يَنْهَ عَنْ أَكْلِهَا، وَزَعَمَ أَنَّهَا تَحِيضُ".
محمد بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد خالد بن حویرث کو کہتے سنا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما صفاح میں تھے (محمد (محمد بن خالد) کہتے ہیں: وہ مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے) ایک شخص ان کے پاس خرگوش شکار کر کے لایا، اور کہنے لگا: عبداللہ بن عمرو! آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی اس کے کھانے سے منع فرمایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خیال تھا کہ اسے حیض آتا ہے۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
3811
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ،" عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْجَلَّالَةِ عَنْ رُكُوبِهَا وَأَكْلِ لَحْمِهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے اور نجاست خور جانور کی سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
3869
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ يَزِيدَ الْمُعَافِرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ إِنْ أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ قَوْمٌ يَعْنِي التِّرْيَاقَ.
عبدالرحمٰن بن رافع تنوخی کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے: مجھے پرواہ نہیں جو بھی میرا حال ہو اگر میں تریاق پیوں یا تعویذ گنڈا لٹکاؤں یا اپنی طرف سے شعر کہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا، کچھ لوگوں نے تریاق پینے کی رخصت دی ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3893
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُعَلِّمُهُمْ مِنَ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ" وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرٍو يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں (خواب میں) ڈرنے پر یہ کلمات کہنے کو سکھلاتے تھے: «أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلموں کی اس کے غصہ سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے ان بیٹوں کو جو سمجھنے لگتے یہ دعا سکھاتے اور جو نہ سمجھتے تو ان کے گلے میں اسے لکھ کر لٹکا دیتے۔
حسن دون قوله وكان عبدالله
سنن ابي داود
3926
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عُتْبَةَ إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ مُكَاتَبَتِهِ دِرْهَمٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکاتب ۱؎ اس وقت تک غلام ہے جب تک اس کے بدل کتابت (آزادی کی قیمت) میں سے ایک درہم بھی اس کے ذمہ باقی ہے۔
حسن
سنن ابي داود
3927
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَةَ أَوَاقٍ فَهُوَ عَبْدٌ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ دِينَارٍ، فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَةَ دَنَانِيرَ فَهُوَ عَبْدٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَيْسَ هُوَ عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، قَالُوا: هُوَ وَهْمٌ وَلَكِنَّهُ هُوَ شَيْخٌ آخَرُ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس غلام نے سو اوقیہ پر مکاتبت کی ہو پھر اس نے اسے ادا کر دیا ہو سوائے دس اوقیہ کے تو وہ غلام ہی ہے (ایسا نہیں ہو گا کہ جتنا اس نے ادا کر دیا اتنا وہ آزاد ہو جائے) اور جس غلام نے سو دینار پر مکاتبت کی ہو پھر وہ اسے ادا کر دے سوائے دس دینار کے تو وہ غلام ہی رہے گا (جب تک اسے پورا نہ ادا کر دے)۔
حسن
سنن ابي داود
4011
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّهَا سَتُفْتَحُ لَكُمْ أَرْضُ الْعَجَمِ وَسَتَجِدُونَ فِيهَا بُيُوتًا يُقَالُ لَهَا الْحَمَّامَاتُ فَلَا يَدْخُلَنَّهَا الرِّجَالُ إِلَّا بِالْأُزُرِ وَامْنَعُوهَا النِّسَاءَ إِلَّا مَرِيضَةً أَوْ نُفَسَاءَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب عجم کی سر زمین تمہارے لیے فتح کر دی جائے گی اور اس میں تمہیں ایسے گھر ملیں گے جنہیں حمام کہا جائے گا تو اس میں مرد بغیر تہ بند کے داخل نہ ہوں اور عورتوں کو ان میں جانے سے روکو سوائے بیمار یا زچہ کے۔
ضعيف
سنن ابي داود
4066
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةٍ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَعَلَيَّ رَيْطَةٌ مُضَرَّجَةٌ بِالْعُصْفُرِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الرَّيْطَةُ عَلَيْكَ؟ فَعَرَفْتُ مَا كَرِهَ فَأَتَيْتُ أَهْلِي وَهُمْ يَسْجُرُونَ تَنُّورًا لَهُمْ، فَقَذَفْتُهَا فِيهِ ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا فَعَلَتِ الرَّيْطَةُ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: أَلَا كَسَوْتَهَا بَعْضَ أَهْلِكَ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ لِلنِّسَاءِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھاٹی سے اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے، اس وقت میں کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تم نے کیسی اوڑھ رکھی ہے؟ میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کو ناپسند لگی ہے، تو میں اپنے اہل خانہ کے پاس آیا وہ اپنا ایک تنور سلگا رہے تھے تو میں نے اسے اس میں ڈال دیا پھر میں دوسرے دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عبداللہ! وہ چادر کیا ہوئی؟ تو میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے اسے تنور میں ڈال دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے اپنے گھر کی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا کیونکہ عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
حسن
سنن ابي داود
4068
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ شُفْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ اللُّؤْلُئِيُّ: أُرَاهُ وَعَلَيَّ ثَوْبٌ مَصْبُوغٌ بِعُصْفُرٍ مُوَرَّدٍ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟، فَانْطَلَقْتُ، فَأَحْرَقْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا صَنَعْتَ بِثَوْبِكَ؟ فَقُلْتُ: أَحْرَقْتُهُ، قَالَ: أَفَلَا كَسَوْتَهُ بَعْضَ أَهْلِكَ؟"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ثَوْرٌ، عَنْ خَالِدٍ، فَقَالَ: مُوَرَّدٌ، وَطَاوُسٌ، قَالَ: مُعَصْفَرٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا، اس وقت میں گلابی کسم سے رنگا ہوا کپڑا پہنے تھا آپ نے (ناگواری کے انداز میں) فرمایا: یہ کیا ہے؟ تو میں نے جا کر اسے جلا دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: تم نے اپنے کپڑے کے ساتھ کیا کیا؟ تو میں نے عرض کیا: میں نے اسے جلا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی کسی گھر والی کو کیوں نہیں پہنا دیا؟۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثور نے خالد سے مورد (گلابی رنگ میں رنگا ہوا کپڑا) اور طاؤس نے «معصفر» (کسم میں رنگا ہوا کپڑا) روایت کیا ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
4069
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُزَابَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق يَعْنِي ابْنَ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:" مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَحْمَرَانِ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک شخص گزرا جس کے جسم پر دو سرخ کپڑے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اسے جواب نہیں دیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
4113
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَيْمُونِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، فَلَا يَنْظُرْ إِلَى عَوْرَتِهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کی اپنی لونڈی سے شادی کر دے تو پھر اس کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے۔
حسن
سنن ابي داود
4114
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ سَوَّارٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا زَوَّجَ أَحَدُكُمْ خَادِمَهُ عَبْدَهُ أَوْ أَجِيرَهُ، فَلَا يَنْظُرْ إِلَى مَا دُونَ السُّرَّةِ وَفَوْقَ الرُّكْبَةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَصَوَابُهُ سَوَّارُ بْنُ دَاوُدَ الْمُزَنِيُّ الصَّيْرَفِيُّ وَهِمَ فِيهِ وَكِيعٌ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس کے اس حصہ کو نہ دیکھے جو ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح سوار بن داود مزنی صیرفی ہے وکیع کو ان کے نام میں وہم ہوا ہے۔
حسن
سنن ابي داود
4248
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، قُلْتُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَفْعَلَ وَنَفْعَلَ، قَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی امام سے بیعت کی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، اور اس سے عہد و اقرار کیا تو اسے چاہیئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اس کی اطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا امام بن کر اس سے جھگڑنے آئے تو اس دوسرے کی گردن مار دے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں اسے میرے دونوں کانوں نے سنا ہے، اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، میں نے کہا: یہ آپ کے چچا کے لڑکے معاویہ رضی اللہ عنہ ہم سے تاکیداً کہتے ہیں کہ ہم یہ یہ کریں تو انہوں نے کہا: ان کی اطاعت ان چیزوں میں کرو جس میں اللہ کی اطاعت ہو، اور جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اس میں ان کا کہنا نہ مانو۔
صحيح
سنن ابي داود
4265
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ رَجُل يُقَالُ لَهُ: زِيَادٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ قَتْلَاهَا فِي النَّارِ اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ الْأَعْجَمِ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایک ایسا فتنہ ہو گا جو پورے عرب کو گھیر لے گا جو اس میں مارے جائیں گے جہنم میں جائیں گے، اس میں زبان کا چلانا تلوار چلانے سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔
ضعيف
سنن ابي داود
4309
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حَنِيفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اتْرُكُوا الْحَبَشَةَ مَا تَرَكُوكُمْ فَإِنَّهُ لَا يَسْتَخْرِجُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ إِلَّا ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل حبشہ کو چھوڑے رہو جب تک وہ تمہیں چھوڑے ہوئے ہیں ۱؎، کیونکہ کعبہ کے خزانے کو سوائے ایک باریک پنڈلیوں والے حبشی کے کوئی اور نہیں نکالے گا ۲؎۔
حسن
سنن ابي داود
4310
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، قَالَ: جَاءَ نَفَرٌ إِلَى مَرْوَانَ بِالْمَدِينَةِ فَسَمِعُوهُ يُحَدِّثُ، فِي الْآيَاتِ أَنَّ أَوَّلَهَا الدَّجَّالُ قَالَ فَانْصَرَفْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَمْ يَقُلْ شَيْئًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا أَوِ الدَّابَّةُ عَلَى النَّاسِ ضُحًى فَأَيَّتُهُمَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى عَلَى أَثَرِهَا"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَكَانَ يَقْرَأُ الْكُتُبَ وَأَظُنُّ أَوَّلَهُمَا خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا.
ابوزرعہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ مروان کے پاس مدینہ آئے تو وہاں اسے (قیامت کی) نشانیوں کے متعلق بیان کرتے سنا کہ سب سے پہلی نشانی ظہور دجال کی ہو گی، تو میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، اور ان سے اسے بیان کیا، تو عبداللہ نے صرف اتنا کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ پہلی نشانی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا ہے، یا بوقت چاشت لوگوں کے درمیان دابہ (چوپایہ) کا ظہور ہے، ان دونوں میں سے جو نشانی بھی پہلے واقع ہو دوسری بالکل اس سے متصل ہو گی، اور عبداللہ بن عمرو جن کے زیر مطالعہ آسمانی کتابیں رہا کرتی تھیں کہتے ہیں: میرا خیال ہے ان دونوں میں پہلے سورج کا پچھم سے نکلنا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4342
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ أَبِي حَازِمٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ أَوْ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ زَمَانٌ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً تَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ وَاخْتَلَفُوا، فَكَانُوا هَكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَقَالُوا: وَكَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ وَتُقْبِلُونَ عَلَى أَمْرِ خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہو گا؟ یا آپ نے یوں فرمایا: عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ چھن اٹھیں گے، اچھے لوگ سب مر جائیں گے، اور کوڑا کرکٹ یعنی برے لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے عہد و پیمان اور ان کی امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہو گا (یعنی لوگ بدعہدی اور امانتوں میں خیانت کریں گے) آپس میں اختلاف کریں گے اور اس طرح ہو جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت ہم کیا کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بات تمہیں بھلی لگے اسے اختیار کرو، اور جو بری لگے اسے چھوڑ دو، اور خاص کر اپنی فکر کرو، عام لوگوں کی فکر چھوڑ دو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اس سند کے علاوہ سے بھی مروی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4343
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ أَبِي الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ،حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ ذَكَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ:" إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَكَانُوا هَكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ؟ قَالَ: الْزَمْ بَيْتَكَ وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْكِرُ وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فتنہ کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کے عہد فاسد ہو گئے ہوں، اور ان سے امانتداریاں کم ہو گئیں ہوں اور آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا کہ ان کا حال اس طرح ہو گیا ہو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہ سن کر میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ مجھے آپ پر قربان فرمائے! ایسے وقت میں میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر کو لازم پکڑنا، اور اپنی زبان پر قابو رکھنا، اور جو چیز بھلی لگے اسے اختیار کرنا، اور جو بری ہو اسے چھوڑ دینا، اور صرف اپنی فکر کرنا عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4376
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَعَافُّوا الْحُدُودَ فِيمَا بَيْنَكُمْ فَمَا بَلَغَنِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حدود کو آپس میں نظر انداز کرو، جب حد میں سے کوئی چیز میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہو گئی (اسے معاف نہیں کیا جا سکتا)۔
صحيح
سنن ابي داود
4390
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ، فَقَالَ:" مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْيَهُ الْجَرِينُ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ وَمَنْ سَرَقَ دُونَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْجَرِينُ الْجُوخَانُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: جس ضرورت مند نے اسے کھا لیا، اور جمع کر کے نہیں رکھا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو اس میں سے کچھ لے جائے تو اس پر اس کا دوگنا تاوان اور سزا ہو گی اور جو اسے کھلیان میں جمع کئے جانے کے بعد چرائے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو پھر اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
حسن
سنن ابي داود
4506
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوهُ وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4519
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ تَسْنِيمٍ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا سَوَّارٌ أَبُو حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ مُسْتَصْرِخٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَارِيَةٌ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا لَكَ؟ قَالَ: شَرًّا أَبْصَرَ لِسَيِّدِهِ جَارِيَةً لَهُ فَغَارَ فَجَبَّ مَذَاكِيرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيَّ بِالرَّجُلِ، فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى مَنْ نُصْرَتِي؟ قَالَ: عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، أَوْ قَالَ: كُلِّ مُسْلِمٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي عُتَقَ كَانَ اسْمُهُ رَوْحُ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي جَبَّهُ زِنْبَاعٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا زِنْبَاعٌ أَبُو رَوْحٍ كَانَ مَوْلَى الْعَبْدِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص چیختا چلاتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس کی ایک لونڈی تھی، آپ نے فرمایا: ستیاناس ہو تمہارا، بتاؤ کیا ہوا؟ اس نے کہا: برا ہوا، میرے آقا کی ایک لونڈی تھی اسے میں نے دیکھ لیا، تو اسے غیرت آئی، اس نے میرا ذکر کٹوا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس لاؤ تو اسے بلایا گیا، مگر کوئی اسے نہ لا سکا تب آپ نے (اس غلام سے) فرمایا: جاؤ تم آزاد ہو اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری مدد کون کرے گا؟ آپ نے فرمایا: ہر مومن پر یا کہا: ہر مسلمان پر تیری مدد لازم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو آزاد ہوا اس کا نام روح بن دینار تھا، اور جس نے ذکر کاٹا تھا وہ زنباع تھا، یہ زنباع ابوروح ہیں جو غلام کے آقا تھے۔
حسن
سنن ابي داود
4531
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَلِيٍّ، زَادَ فِيهِ: وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَيَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: … پھر راوی نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح ذکر کیا البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ان کا ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور مال غنیمت میں عمدہ جانور اور کمزور جانور والے دونوں برابر ہیں، جو لشکر سے باہر نکلے اور لڑے اور وہ جو لشکر میں بیٹھا رے دونوں برابر ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4542
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" كَانَتْ قِيمَةُ الدِّيَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ ثَمَانِيَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَدِيَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ يَوْمَئِذٍ النِّصْفُ مِنْ دِيَةِ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ الْإِبِلَ قَدْ غَلَتْ، قَالَ: فَفَرَضَهَا عُمَرُ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفَ دِينَارٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا، وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَيْ حُلَّةٍ، قَالَ: وَتَرَكَ دِيَةَ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَرْفَعْهَا فِيمَا رَفَعَ مِنَ الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار، یا آٹھ ہزار درہم تھی، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا: سنو، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار (درہم) دیت ٹھہرائی، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی، ان کی دیت میں (مسلمانوں کی دیت کی طرح) اضافہ نہیں کیا۔
حسن
سنن ابي داود
4562
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي خُطْبَتِهِ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ فِي الْأَصَابِعِ: عَشْرٌ عَشْرٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جبکہ آپ اپنی پیٹھ کعبہ سے ٹیکے ہوئے تھے فرمایا: انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4563
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فِي الْأَسْنَانِ: خَمْسٌ خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دانتوں میں پانچ پانچ (اونٹ) ہیں۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4564
قَالَ أَبُو دَاوُد: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ شَيْبَانَ، وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ، فَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَاجَتْ رُخْصًا نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ، وَعَدْلُهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَمَنْ كَانَ دِيَةُ عَقْلِهِ فِي الشَّاءِ فَأَلْفَيْ شَاةٍ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ، قَالَ: وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ الدِّيَةَ كَامِلَةً، وَإِنْ جُدِعَتْ ثَنْدُوَتُهُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ خَمْسُونَ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ عَدْلُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوْ مِائَةُ بَقَرَةٍ أَوْ أَلْفُ شَاةٍ، وَفِي الْيَدِ إِذَا قُطِعَتْ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَفِي الرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ مِنَ الْإِبِلِ وَثُلُثٌ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الشَّاءِ وَالْجَائِفَةُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَفِي الْأَصَابِعِ فِي كُلِّ أُصْبُعٍ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْأَسْنَانِ فِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا مَنْ كَانُوا لَا يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهُمْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ لِلْقَاتِلِ شَيْءٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَارِثٌ فَوَارِثُهُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَيْهِ وَلَا يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا"، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا كُلُّهُ حَدَّثَنِي بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ هَرَبَ إِلَى الْبَصْرَةِ مِنَ الْقَتْلِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گاؤں والوں پر قتل خطا کی دیت کی قیمت چار سو دینار، یا اس کے برابر چاندی سے لگایا کرتے تھے، اور اس کی قیمت اونٹوں کی قیمتوں پر لگاتے، جب وہ مہنگے ہو جاتے تو آپ اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیتے، اور جب وہ سستے ہوتے تو آپ اس کی قیمت بھی گھٹا دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک پہنچی، اور اسی کے برابر چاندی سے (دیت کی قیمت) آٹھ ہزار درہم پہنچی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے بیل والوں پر (دیت میں) دو سو گایوں کا فیصلہ کیا، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریوں کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہو گا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاٹ دی جائے تو پوری دیت لازم ہو گی۔ اور اگر اس کا بانسہ (دونوں نتھنوں کے بیچ کی ہڈی) کاٹا گیا ہو تو آدھی دیت لازم ہو گی، یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی، یا سو گائیں، یا ایک ہزار بکریاں۔ اور ہاتھ جب کاٹا گیا ہو تو اس میں آدھی لازم ہو گی، پیر میں بھی آدھی دیت ہو گی۔ اور مامومہ ۱؎ میں ایک تہائی دیت ہو گی، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، گائے یا بکری اور جائفہ ۲؎ میں بھی یہی دیت ہے۔ اور انگلیوں میں ہر انگلی میں دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ کی دیت ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: عورت کی جنایت کی دیت اس کے عصبات میں تقسیم ہو گی (یعنی عورت اگر کوئی جنایت کرے تو اس کے عصبات کو دینا پڑے گا) یعنی ان لوگوں کو جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لے لیتے ہیں (جیسے بیٹا، چچا، باپ، بھائی وغیرہ) اور اگر وہ قتل کر دی گئی ہو تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی (نہ کہ عصبات میں) اور وہی اپنے قاتل کو قتل کریں گے (اگر قصاص لینا ہو)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا۔
حسن
سنن ابي داود
4565
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ الْعَامِلِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى،عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ"، قَالَ: وَزَادَنَا خَلِيلٌ: عَنِ ابْنِ رَاشِدٍ: وَذَلِكَ أَنْ يَنْزُوَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ فَتَكُونُ دِمَاءٌ فِي عِمِّيَّا فِي غَيْرِ ضَغِينَةٍ وَلَا حَمْلِ سِلَاحٍ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شبہ عمد کی دیت عمد کی دیت کی طرح سخت ہے، البتہ اس کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ خلیل کی محمد بن راشد سے روایت میں یہ اضافہ ہے یہ (قتل شبہ عمد) لوگوں کے درمیان ایک شیطانی فساد ہے کہ بلا کسی کینے اور بغیر ہتھیار اٹھائے خون ہو جاتا ہے اور قاتل کا پتا نہیں چلتا۔
حسن
سنن ابي داود
4566
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِي الْمَوَاضِحِ: خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مواضح» ۱؎ میں دیت پانچ اونٹ ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4567
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَيْنِ الْقَائِمَةِ السَّادَّةِ لِمَكَانِهَا بِثُلُثِ الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی آنکھ میں جو اپنی جگہ باقی رہے لیکن بینائی جاتی رہے، تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔
حسن إحتمالا
سنن ابي داود
4688
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ خَالِصٌ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْهُنَّ كَانَ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے۔
صحيح
سنن ابي داود
4742
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أخبرنا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: أخبرنا أَسْلَمُ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الصُّورُ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صور» ایک سنکھ ہے، جس میں پھونک ماری جائے گی۔
صحيح
سنن ابي داود
4771
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ، فَهُوَ شَهِيدٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا مال لینے کا ناحق ارادہ کیا جائے اور وہ (اپنے مال کے بچانے کے لیے) لڑے اور مارا جائے تو وہ شہید ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
4845
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گھس کر دونوں میں جدائی ڈال دے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
4857
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ حَدَّثَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ:" كَلِمَاتٌ لَا يَتَكَلَّمُ بِهِنَّ أَحَدٌ فِي مَجْلِسِهِ عِنْدَ قِيَامِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَّا كُفِّرَ بِهِنَّ عَنْهُ، وَلَا يَقُولُهُنَّ فِي مَجْلِسِ خَيْرٍ وَمَجْلِسِ ذِكْرٍ إِلَّا خُتِمَ لَهُ بِهِنَّ عَلَيْهِ كَمَا يُخْتَمُ بِالْخَاتَمِ عَلَى الصَّحِيفَةِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تین کلمے ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ پڑھے تو یہ اس کے لیے (ان گناہوں کا جو اس مجلس میں اس سے ہوئے) کفارہ بن جاتے ہیں، اور اگر انہیں نیکی یا ذکر الٰہی کی مجلس میں کہے گا تو وہ مانند مہر کے ہوں گے جیسے کسی تحریر یا دستاویز پر اخیر میں مہر ہوتی ہے اور وہ کلمات یہ ہیں «سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك» اے اللہ! تو پاک ہے، اور تو اپنی ساری تعریفوں کے ساتھ ہے، نہیں ہے معبود برحق مگر تو ہی اور میں تجھی سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔
صحيح دون قوله ثلاث مرات
سنن ابي داود
5005
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْبَاهِلِيُّ , وَكَانَ يَنْزِلُ الْعَوَقَةَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال أبو داود: هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے تڑتڑ بولنے والے ایسے لوگوں سے جو اپنی زبان کو ایسے پھراتے ہیں جیسے گائے (گھاس کھانے میں) چپڑ چپڑ کرتی ہے، یعنی بے سوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جاتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
5065
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَصْلَتَانِ أَوْ خَلَّتَانِ لَا يُحَافِظُ عَلَيْهِمَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ: يُسَبِّحُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُكَبِّرُ عَشْرًا فَذَلِكَ خَمْسُونَ وَمِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ فِي الْمِيزَانِ، وَيُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ، وَيَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَيُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ فَذَلِكَ مِائَةٌ بِاللِّسَانِ وَأَلْفٌ فِي الْمِيزَانِ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْقِدُهَا بِيَدِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ؟ , قَالَ: يَأْتِي أَحَدَكُمْ يَعْنِي الشَّيْطَانَ فِي مَنَامِهِ فَيُنَوِّمُهُ قَبْلَ أَنْ يَقُولَهُ، وَيَأْتِيهِ فِي صَلَاتِهِ فَيُذَكِّرُهُ حَاجَةً قَبْلَ أَنْ يَقُولَهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو خصلتیں یا دو عادتیں ایسی ہیں جو کوئی مسلم بندہ پابندی سے انہیں (برابر) کرتا رہے گا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا، یہ دونوں آسان ہیں اور ان پر عمل کرنے والے لوگ تھوڑے ہیں (۱) ہر نماز کے بعد دس بار «سبحان الله» اور دس بار «الحمد الله» اور دس بار «الله اكبر» کہنا، اس طرح یہ زبان سے دن اور رات میں ایک سو پچاس بار ہوئے، اور قیامت میں میزان میں ایک ہزار پانچ سو بار ہوں گے، (کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے) اور سونے کے وقت چونتیس بار «الله اكبر»، تینتیس بار «الحمد الله»، تینتیس بار «سبحان الله» کہنا، اس طرح یہ زبان سے کہنے میں سو بار ہوئے اور میزان میں یہ ہزار بار ہوں گے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ (کی انگلیوں) میں اسے شمار کرتے ہوئے دیکھا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ دونوں کام تو آسان ہیں، پھر ان پر عمل کرنے والے تھوڑے کیسے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: (اس طرح کہ) تم میں ہر ایک کے پاس شیطان اس کی نیند میں آئے گا، اور ان کلمات کے کہنے سے پہلے ہی اسے سلا دے گا، ایسے ہی شیطان تمہارے نماز پڑھنے والے کے پاس نماز کی حالت میں آئے گا، اور ان کلمات کے ادا کرنے سے پہلے اسے اس کا کوئی (ضروری) کام یاد دلا دے گا، (اور وہ ان تسبیحات کو ادا کئے بغیر اٹھ کر چل دے گا)۔
صحيح
سنن ابي داود
5152
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيل، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو" أَنَّهُ ذَبَحَ شَاةً، فَقَالَ: أَهْدَيْتُمْ لِجَارِي الْيَهُودِيِّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو (گھر والوں) سے کہا: کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو ہدیہ بھیجا (نہ بھیجا ہو تو بھیج دو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: جبرائیل مجھے برابر پڑوسی، کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔
صحيح
سنن ابي داود
5194
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،" أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اسلام کا کون سا طریقہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: کھانا کھلانا اور ہر ایک کو سلام کرنا، تم چاہے اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔
صحيح
سنن ابي داود
5235
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ , حَدَّثَنَا حَفْصٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي السَّفَرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ:" مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُطَيِّنُ حَائِطًا لِي أَنَا وَأُمِّي , فَقَالَ: مَا هَذَا يَا عَبْدَ اللَّهِ؟ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , شَيْءٌ أُصْلِحُهُ , فَقَالَ: الْأَمْرُ أَسْرَعُ مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں اور میری ماں اپنی ایک دیوار پر مٹی پوت رہے تھے، آپ نے فرمایا: عبداللہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ مرمت (سرمت) کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: معاملہ تو اس سے بھی زیادہ تیزی پر ہے (یعنی موت اس سے بھی قریب آتی جا رہی ہے، اعمال میں جو کمیاں ہیں ان کی اصلاح و درستگی کی بھی فکر کرو)۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.