سنن ابي داود
مالك بن أنس الأصبحي (حدثنا / عن)
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
769
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: لَا بَأْسَ بِالدُّعَاءِ فِي الصَّلَاةِ فِي أَوَّلِهِ وَأَوْسَطِهِ وَفِي آخِرِهِ فِي الْفَرِيضَةِ وَغَيْرِهَا.
مالک کہتے ہیں نماز کے شروع، بیچ اور اخیر میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، فرض نماز ہو یا نفل۔
صحيح مقطوع
سنن ابي داود
1571
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: وَقَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، هُوَ أَنْ يَكُونَ لِكُلِّ رَجُلٍ أَرْبَعُونَ شَاةً، فَإِذَا أَظَلَّهُمُ الْمُصَدِّقُ جَمَعُوهَا لِئَلَّا يَكُونَ فِيهَا إِلَّا شَاةٌ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ أَنَّ الْخَلِيطَيْنِ إِذَا كَانَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةُ شَاةٍ وَشَاةٌ فَيَكُونُ عَلَيْهِمَا فِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ، فَإِذَا أَظَلَّهُمَا الْمُصَدِّقُ فَرَّقَا غَنَمَهُمَا فَلَمْ يَكُنْ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَّا شَاةٌ، فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ.
عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ مالک نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول جدا جدا مال کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور نہ اکٹھے مال کو جدا کیا جائے گا کا مطلب یہ ہے: مثلاً ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، جب مصدق ان کے پاس زکاۃ وصول کرنے آئے تو وہ سب اپنی بکریوں کو ایک جگہ کر دیں تاکہ ایک ہی شخص کی تمام بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکاۃ میں لے، اکٹھا مال جدا نہ کئے جانے کا مطلب یہ ہے: دو ساجھے دار ہوں اور ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہوں (دونوں کی ملا کر دو سو دو) تو دونوں کو ملا کر تین بکریاں زکاۃ کی ہوتی ہیں، لیکن جب زکاۃ وصول کرنے والا آتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں، اس طرح ہر ایک پر ایک ہی بکری لازم ہوتی ہے، یہ ہے وہ چیز جو میں نے اس سلسلے میں سنی ہے۔
صحيح مقطوع
سنن ابي داود
1705
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ:" سِقَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ"، وَلَمْ يَقُلْ: خُذْهَا فِي ضَالَّةِ الشَّاءِ، وَقَالَ فِي اللُّقَطَةِ:" عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنُكَ بِهَا"، وَلَمْ يَذْكُرْ: اسْتَنْفِقْ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ وَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ رَبِيعَةَ مِثْلَهُ، لَمْ يَقُولُوا: خُذْهَا.
اس سند سے بھی مالک سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: وہ اپنی سیرابی کے لیے پانی پر آ جاتا ہے اور درخت کھا لیتا ہے، اس روایت میں گمشدہ بکری کے سلسلے میں «خذها» (اسے پکڑ لو) کا لفظ نہیں ہے، البتہ لقطہٰ کے سلسلے میں فرمایا: ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو بہتر ہے ورنہ تم خود اس کو استعمال کر لو، اس میں «استنفق» کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے اسے ربیعہ سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے «خذها» کا لفظ نہیں کہا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2024
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْأَذْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، لَمْ يَذْكُرِ السَّوَارِيَ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ ثَلَاثَةُ أَذْرُعٍ.
اس سند سے بھی مالک سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ستونوں کا ذکر نہیں، البتہ اتنا اضافہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ کے اور قبلے کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
2045
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ:" لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُجَاوِزَ الْمُعَرَّسِ إِذَا قَفَلَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى يُصَلِّيَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُ، لِأَنَّهُ بَلَغَنِي أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَّسَ بِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ الْمَدَنِيَّ، قَالَ: الْمُعَرَّسُ عَلَى سِتَّةِ أَمْيَالٍ مِنْ الْمَدِينَةِ.
مالک کہتے ہیں جب کوئی مدینہ واپس لوٹے اور معرس پہنچے تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھے جب تک کہ نماز نہ پڑھ لے جتنا اس کا جی چاہے اس لیے کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں رات کو قیام کیا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسحاق مدنی کو کہتے سنا: معرس مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔
صحيح مقطوع
سنن ابي داود
3033
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَاحِدِ، قَالَ: قَالَ سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ: جَزِيرَةُ الْعَرَبِ مَا بَيْنَ الْوَادِي إِلَى أَقْصَى الْيَمَنِ إِلَى تُخُومِ الْعِرَاقِ إِلَى الْبَحْرِ. قَالَ أَبُو دَاوُد قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ، وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكَ أَشْهَبُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: عُمَرُ أَجْلَى أَهْلَ نَجْرَانَ وَلَمْ يُجْلَوْا مِنْ تَيْمَاءَ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ مِنْ بِلَادِ الْعَرَبِ، فَأَمَّا الْوَادِي فَإِنِّي أَرَى أَنَّمَا لَمْ يُجْلَ مَنْ فِيهَا مِنَ الْيَهُودِ أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْهَا مِنْ أَرْضِ الْعَرَبِ.
سعید یعنی ابن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ جزیرہ عرب وادی قریٰ سے لے کر انتہائے یمن تک عراق کی سمندری حدود تک ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین کے سامنے یہ پڑھا گیا اور میں وہاں موجود تھا کہ اشہب بن عبدالعزیز نے آپ کو خبر دی ہے کہ مالک کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل نجران ۱؎ کو جلا وطن کیا، اور تیماء سے جلا وطن نہیں کیا، اس لیے کہ تیماء ۲؎ بلاد عرب میں شامل نہیں ہے، رہ گئے وادی قریٰ کے یہودی تو میرے خیال میں وہ اس وجہ سے جلا وطن نہیں کئے گئے کہ ان لوگوں نے وادی قری کو عرب کی سر زمین میں سے نہیں سمجھا۔
صحيح مقطوع
سنن ابي داود
3034
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: وَقَدْ أَجْلَى عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ.
مالک کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے نجران و فدک کے یہودیوں کو جلا وطن کیا (کیونکہ یہ دونوں عرب کی سرحد میں ہیں)۔
موقوف
سنن ابي داود
4715
قَالَ قَالَ أَبُو دَاوُد: قُرِئ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا أَسْمَعُ، أَخْبَرَكَ يُوسُفُ بْنُ عَمْرٍو، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكًا قِيلَ لَهُ: إِنَّ أَهْلَ الْأَهْوَاءِ يَحْتَجُّونَ عَلَيْنَا بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ مَالِكٌ" احْتَجَّ عَلَيْهِمْ بِآخِرِهِ، قَالُوا: أَرَأَيْتَ مَنْ يَمُوتُ وَهُوَ صَغِيرٌ؟ قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ".
ابن وہب کہتے ہیں کہ میں نے مالک کو کہتے سنا، ان سے پوچھا گیا: اہل بدعت (قدریہ) اس حدیث سے ہمارے خلاف استدلال کرتے ہیں؟ مالک نے کہا: تم حدیث کے آخری ٹکڑے سے ان کے خلاف استدلال کرو، اس لیے کہ اس میں ہے: صحابہ نے پوچھا کہ بچپن میں مرنے والے کا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔
صحيح الإسناد مقطوع

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.