سنن ابي داود
مالك بن أنس الأصبحي (حدثنا / عن) يحيى بن سعيد الأنصاري
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
12
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:" لَقَدِ ارْتَقَيْتُ عَلَى ظَهْرِ الْبَيْتِ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ مُسْتَقْبِلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لِحَاجَتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں (کسی ضرورت سے) گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے دو اینٹوں پر اس طرح بیٹھے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
423
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔
صحيح
سنن ابي داود
569
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ، لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَهُ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ"، قَالَ يَحْيَى: فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ: أَمُنِعَهُ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر وہ چیزیں دیکھتے جو عورتیں کرنے لگی ہیں تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: میں نے عمرہ سے پوچھا: کیا بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
صحيح
سنن ابي داود
961
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَرَاهُمُ الْجُلُوسَ فِي التَّشَهُّدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے (اپنے ساتھیوں کو) تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت دکھائی پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
صحيح
سنن ابي داود
1239
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ الْأَنْصَارِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّ صَلَاةَ الْخَوْفِ: أَنْ يَقُومَ الْإِمَامُ، وَطَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَطَائِفَةٌ مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، فَيَرْكَعُ الْإِمَامُ رَكْعَةً وَيَسْجُدُ بِالَّذِينَ مَعَهُ، ثُمَّ يَقُومُ، فَإِذَا اسْتَوَى قَائِمًا ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمُ الرَّكْعَةَ الْبَاقِيَةَ، ثُمَّ سَلَّمُوا وَانْصَرَفُوا وَالْإِمَامُ قَائِمٌ، فَكَانُوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ يُقْبِلُ الْآخَرُونَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُكَبِّرُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَيَرْكَعُ بِهِمْ وَيَسْجُدُ بِهِمْ، ثُمَّ يُسَلِّمُ فَيَقُومُونَ فَيَرْكَعُونَ لِأَنْفُسِهِمُ الرَّكْعَةَ الْبَاقِيَةَ، ثُمَّ يُسَلِّمُونَ. قَالَ أَبُو دَاوُد وَأَمَّا: رِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، نَحْوَ رِوَايَةِ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، إِلَّا أَنَّهُ خَالَفَهُ فِي السَّلَامِ، وَرِوَايَةُ عُبَيْدِ اللَّهِ، نَحْوَ رِوَايَةِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: وَيَثْبُتُ قَائِمًا.
صالح بن خوات انصاری کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ نماز خوف اس طرح ہو گی کہ امام (نماز کے لیے) کھڑا ہو گا اور اس کے ساتھیوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہو گی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی ہو گی، امام اور جو اس کے ساتھ ہوں گے رکوع اور سجدہ کریں گے پھر امام کھڑا ہو گا، جب پورے طور سے سیدھا کھڑا ہو جائے گا تو یونہی کھڑا رہے گا یہاں تک کہ لوگ اپنی باقی (دوسری) رکعت بھی ادا کر لیں گے، پھر وہ لوگ سلام پھیر کر واپس چلے جائیں گے اور امام کھڑا رہے گا، اب یہ دشمن کے سامنے ہوں گے اور جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، وہ آئیں گے اور امام کے پیچھے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہیں گے پھر وہ ان کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر کے اپنی دوسری رکعت پوری کرے گا پھر سلام پھیر دے گا، اس کے بعد یہ لوگ کھڑے ہو کر اپنی باقی رکعت ادا کریں گے پھر سلام پھیریں گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: رہی قاسم سے مروی یحییٰ بن سعید کی روایت تو وہ یزید بن رومان کی روایت ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ انہوں نے سلام میں اختلاف کیا ہے اور عبیداللہ کی روایت یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح ہے اس میں ہے کہ (امام) کھڑا رہے گا۔
صحيح خ دون ذكر التسليم في الموضعين وهو موقوف
سنن ابي داود
1420
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُدْعَى الْمَخْدَجِيّ سَمِعَ رَجُلًا بِالشَّامِ يُدْعَى أَبَا مُحَمَّدٍ، يَقُولُ: إِنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، قَالَ الْمَخْدَجِيُّ: فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ عُبَادَةُ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ".
ابن محیریز کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا: وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا: میں یہ سن کر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا: ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2227
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذِهِ؟" فَقَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، قَالَ:" مَا شَأْنُكِ؟" قَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ لِزَوْجِهَا، فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، وَذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ"، وَقَالَتْ حَبِيبَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ:" خُذْ مِنْهَا"، فَأَخَذَ مِنْهَا، وَجَلَسَتْ هِيَ فِي أَهْلِهَا.
حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، ایک بار کیا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھنے کے لیے نکلے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے پر پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون ہے؟ بولیں: میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ وہ اپنے شوہر ثابت بن قیس کے متعلق بولیں کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا، پھر جب ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ حبیبہ بنت سہل ہیں انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں جنہیں اللہ نے چاہا ذکر کی ہیں، حبیبہ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے (مہر وغیرہ) دیا تھا وہ سب میرے پاس ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے کہا: اس (مال) میں سے لے لو، تو انہوں نے اس میں سے لے لیا اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھی رہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2295
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَتَّةَ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَقَالَتْ لَهُ:" اتَّقِ اللَّهَ، وَارْدُدِ الْمَرْأَةَ إِلَى بَيْتِهَا"، فَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ:" إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ غَلَبَنِي"، وَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ الْقَاسِمِ:" أَوَ مَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ؟" فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ"، فَقَالَ مَرْوَانُ:" إِنْ كَانَ بِكِ الشَّرُّ، فَحَسْبُكِ مَا كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ".
یحییٰ بن سعید قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان دونوں کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی بیٹی کو تین طلاق دے دی تو عبدالرحمٰن نے انہیں اس گھر سے منتقل کر لیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت مدینہ کے امیر مروان بن حکم کو کہلا بھیجا کہ اللہ کا خوف کھاؤ اور عورت کو اس کے گھر واپس بھیج دو، بروایت سلیمان: مروان نے کہا: عبدالرحمٰن مجھ پر غالب آ گئے یعنی انہوں نے میری بات نہیں مانی، اور بروایت قاسم: کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا قصہ معلوم نہیں؟ تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: فاطمہ والی حدیث نہ بیان کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے، تو مروان نے کہا: اگر آپ نزدیک وہاں برائی کا اندیشہ تھا تو سمجھ لو یہاں ان دونوں (عمرہ اور ان کے شوہر یحییٰ) کے درمیان بھی اسی برائی کا اندیشہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2399
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ:" إِنْ كَانَ لَيَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ حَتَّى يَأْتِيَ شَعْبَانُ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا: مجھ پر ماہ رمضان کی قضاء ہوتی تھی اور میں انہیں رکھ نہیں پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔
صحيح
سنن ابي داود
2717
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَامِ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَالَ: فَاسْتَدَرْتُ لَهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا بَالُ النَّاسِ، قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، قَالَ: فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّانِيَةَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، قَالَ: فَقُمْتُ ثُمَّ قُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ الثَّالِثَةَ: فَقُمْتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟ قَالَ: فَاقْتَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لَاهَا اللَّهِ إِذًا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ، وَعَنْ رَسُولِهِ فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ"، فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَأَعْطَانِيهِ فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلَمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا: جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا ۱؎۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب میں نے یہ سنا) تو میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار فرمایا: جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (جب میں نے یہ سنا) تو اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوقتادہ کیا بات ہے؟ میں نے آپ سے سارا معاملہ بیان کیا، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے، آپ ان کو اس بات پر راضی کر لیجئے (کہ وہ مال مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سچ کہہ رہے ہیں، تم اسے ابوقتادہ کو دے دو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس نے مجھے دے دیا، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک باغ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
3175
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَامَ فِي الْجَنَائِزِ، ثُمَّ قَعَدَ بَعْدُ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جنازوں میں (دیکھ کر) کھڑے ہو جایا کرتے تھے پھر اس کے بعد بیٹھے رہنے لگے۔
صحيح
سنن ابي داود
4388
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، أَنَّ عَبْدًا سَرَقَ وَدِيًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ فَغَرَسَهُ فِي حَائِطِ سَيِّدِهِ فَخَرَجَ صَاحِبُ الْوَدِيِّ يَلْتَمِسُ وَدِيَّهُ فَوَجَدَهُ، فَاسْتَعْدَى عَلَى الْعَبْدِ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ، فَسَجَنَ مَرْوَانُ الْعَبْدَ وَأَرَادَ قَطْعَ يَدِهِ فَانْطَلَقَ سَيِّدُ الْعَبْدِ إِلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّ مَرْوَانَ أَخَذَ غُلَامِي وَهُوَ يُرِيدُ قَطْعَ يَدِهِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَمْشِيَ مَعِي إِلَيْهِ فَتُخْبِرَهُ بِالَّذِي سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَشَى مَعَهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ حَتَّى أَتَى مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ فَقَالَ لَهُ رَافِعٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِالْعَبْدِ فَأُرْسِلَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْكَثَرُ الْجُمَّارُ.
محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک کھجور کے باغ سے ایک شخص کے کھجور کا پودا چرا لیا اور اسے لے جا کر اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا، پھر پودے کا مالک اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا تو اسے (ایک باغ میں لگا) پایا تو اس نے مروان بن حکم سے جو اس وقت مدینہ کے حاکم تھے غلام کے خلاف شکایت کی مروان نے اس غلام کو قید کر لیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو غلام کا مالک رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے اسے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: پھل اور جمار (کھجور کے درخت کے پیڑی کا گابھا) کی چوری میں ہاتھ نہیں کٹے گا تو اس شخص نے کہا: مروان نے میرے غلام کو پکڑ رکھا ہے وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ ان کے پاس چلیں اور اسے وہ بتائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، تو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ چلے، اور مروان کے پاس آئے، اور ان سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: پھل اور گابھا کے (چرانے میں) ہاتھ نہیں کٹے گا مروان نے یہ سنا تو اس غلام کو چھوڑ دینے کا حکم دے دیا، چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «کثر» کے معنیٰ «جمار» کے ہیں۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.